احمد شھزاد قاسمی
انصاف اور برابری کی شرط کے ساتھ اسلام نے چار شادیوں کی اجازت دی ہے اسی طرح انسانی ضرورت کے تحت میاں بیوی کی علیحدگی اور نکاح کو ختم کر نے کے لئے طلاق کا نظامِ طلاق فرا ہم کیا ہے مذہبی تعصب کی گرد صاف کر کے اگر اسلام کے تعددِ ازدواج ( ایک سے زائد شادی ) اور نظامِ طلاق کا جائزہ کیا جائے تو یہ انسانی فطرت کے عین مطابق ہے لیکن سنگھی ذہنیت کے ساتھ ساتھ بھگوا میڈیا بھی اسلام کے اس نظامِ اعتدال کو خواتین کے استحصال اور عدمِ مساوات پر مبنی قرار دیکر اسکے خلاف رائے عامہ ہموار کر نے کے لئے ایسا پروپیگنڈہ کر رہا ہے جیسے ہر مسلمان چار شادی کر تا ہے اور تین طلاق دیکر خواتین کی زندگی تباہ کر دیتا ہے اور مسلم مردوں کو عورتوں کے حقوق کی کوئی پرواہ نہیں جب کہ چار شادیوں کی اجازت بلا کسی قید و بند کے بر قرار رہنے اور طلاق دینے کی اجازت سے ہر مسلم مرد کو بڑی دلچسپی ہے ، حالانکہ کوئی ذمہ دار عالم اور سمجھدار مومن یہ کہنے والا نہیں ملے گا کہ طلاق کی اجازت کا اگر غلط استعمال ہو رہا ہے تو اس کے انسداد کی تدبیر نہ کی جائے اور تعددِ ازدواج کی اجازت سے فائدہ اٹھانے والوں کو ان کی ذمہ داریوں کے معاملہ میں بالکل آزاد چھوڑ دیا جائے، ایک سے زائد شادیوں کی اجازت کن لوگوں کے لئے کن حالات میں اور کن شرائط کے ساتھ دی گئی ہے یہ جانے بغیر اس کے خلاف رائے زنی کرنا سراسر نا انصافی ہے۔ میڈیا کے ساتھ ساتھ پارلیمنٹ کے اراکین وزراء اور حکومت کے سربراہ بھی اس پرو پیگنڈہ میں شامل ہیں .. اترپردیش کے بندیل کھنڈ علاقہ کے ضلع مہوبہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے تین طلاق کو مسلم خواتین کے حق میں ظلم و زیادتی اور خود کو اس ظلم کے خلاف اٹھ کھڑا ہو نے والا بتایا، مسٹر نریندر مودی نے اپنی تقریر کے دوران کہا کہ اگر کوئی ہندو ماں کے پیٹ بیٹی کو مار دے گا تو اسے جیل کی سلاخوں کے پیچھے جانا پڑیگا، نریندر مودی نے رحمِ مادر میں دختر کشی کا موازنہ طلاقِ ثلاثہ سے کر تے ہوئے کہا کہ ایسے ہی میری مسلمان بہن اگر اسے کوئی ٹیلیفو ن پہ تین طلاق بول دے گا تو اسے تباہ نہیں ہونے دئے جائے گا، مسلمان ماں اور بہنوں کے حقوق کی رکشا(حفاظت) کی جائے گی، ماتا اور بہنوں کے ساتھ ناانصافی اور جنسی تفریق کی بنیاد پر بھید بھاؤ نہیں ہونا چاہیئے، مسٹر وزیر اعظم نے کہا کہ آئین کے تحت مسلم عورتوں کو ان کا حق دلانا سرکار اور سماج کی ذمہ داری ہے۔ اسی طرح اطلاعات و نشریات کے مر کزی وزیر ایم وینکیا نائیڈو بھی طلاقِ ثلاثہ کو قانون کے خلاف جمہوری اصولوں کے خلاف اور تہذیب کے مغائر بتاچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا صرف مسلم عورتوں کو پرسنل لاء سے چھٹکارا دلوانا ہی سرکار کی آئینی ذمہ داری ہے؟ سالہا سال سے انصاف کے لئے تڑپ رہی ذکیہ جعفری اور اس جیسی سینکڑوں ہزاروں مسلم بہنوں کو آئین کے تحت ان کا حق دلانا سرکار کی ذمہ داری نہیں ہے؟ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے اس دورِ وزارتِ عظمیٰ میں بھی اور اس سے پہلے اپنے دورِ وزارتِ علیا میں بھی ان ہی مسلم عورتوں کے دلدوز مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہوں گے لیکن کبھی ان مسلم بہنوں کی حق تلفی ان کی تباہی اور بے بسی پر ان کو انصاف اور آئینی ذمہ داریاں یاد نہیں آئی، آخر اس وقت ایسا کیا ہوا کہ یکا یک انہیں مسلم ماتاؤں اور بہنوں کی حق تلفی پر اپنی آئینی ذمہ داریاں یاد آ گئیں، کیا مودی جی کے حضور میں مسلم عورتوں کی اکثریت انصاف کے آس لے کر پہونچی تھیں؟ ان سے اپنے حقوق کی لڑائی لڑنے کے لئے کہا تھا ؟ ان سے شکایت کی تھی؟ یا پھر اس بیان اور ہمدر دی کے پیچھے کوئی انتخابی اور سیاسی مصلحت ہے؟ کیا مودی جی بتا سکتے ہیں؟ کہ کتنی مسلمان عورتیں ہیں جو اپنے پرسنل لاء کے خلاف فریاد لے کر وزیر اعظم کی خد مت میں باریاب ہوئی؟ کسی دوسرے وزیر سے فریاد کی ہو؟ کسی ممبر پارلیمنٹ کا دامن پکڑا ہو کہ خدا را اس مصیبت سے نجات دلایئے؟
نریندر مودی اپنے موقف کی تائید میں چند بد دین عورتوں اور کچھ ملحد و زندیق مردوں کو مسلم ناموں کے ساتھ پیش کر نے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے جب کہ دوسری طرف کروڑوں مرد و زن اسلامی شریعت کے تمام احکام خاص طور سے نکاح، طلاق، وراثت، وصیت اور حلالہ وغیرہ کے احکا م سے نہ صرف پوری طرح مطمئن ہیں بلکہ قانونِ شریعت کے تحفظ کو لے کر فکر مند اور اس کے لئے ہر طرح کی قر بانی دینے کے لئے تیار ہیں۔ طلاق لے علاوہ غربت، تعلیم، روزگار، تنگ نظری شر انگیزی افسران کی تعصب انگیزی سرکاری اداروں کا جانبدارانہ طرزِ عمل سمیت د یگر بہت سے ایسے معاملات ہیں جن میں مسلمان عورتوں کے انبوہ کے انبوہ سراپا فریاد بنے مدتوں سے انصاف کی راہ تک رہے ہیں اور ان معاملات میں فریاد رسی حکو مت کا اولین فریضیہ بھی ہے، وہاں تو حکو مت سچ مچ کا کوئی ایک قدم آج تک بھی نہ ہلا سکی مگر مسلم پرسنل لاء کا معاملہ جس میں شکایتوں کا کوئی قابلِ ذکر ریکارڈ تک نہیں ہے، اس میں فرض شناسی دکھانے کے لئے حکو مت کے سربراہ کو اپنی آئینی ذمہ داری یاد آرہی ہے ایسے میں مودی کے اس اقدام کو سوائے انتخابی اور سیاسی داؤ پیچ کے اور کیا نام دیا جا سکتا ہے؟ اور مسلم عورتوں کے ساتھ اس ہمدردی کو یوپی انتخابات میں ووٹ حاصل کر نے کا ایک ذریعہ ہی کہا جا سکتا ہے اور بس !!!(ملت ٹائمز)