نورالسلام ندوی
یکم صفر المظفر 1438 مطابق 2 نومبر 2016 بروز بدھ بوقت 2:30 بجے دن اپنے آفس کے کاموں میں مصروف تھا کہ یہ اندوہناک خبر ملی کہ حضرت مولانا جسیم الدین رحمانی قاضی شریعت امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ عالم فانی سے عالم جاودانی کو کوچ کر گئے۔موصوف پچھلے ایک مہینہ سے بیمار اور صاحب فراش تھے ،پٹنہ کے ڈاکٹروں کے زیر نگرانی دوا علاج چل رہا تھا، اس لئے یہ خبر توقع کے بر خلاف تو نہیں تھی لیکن بظاہر یہ امید نہیں تھی کہ وقت موعود اتنا جلد آ پہنچے گا ۔ دوسرے دن 3 نومبر کو 9 بجے صبح امارت شرعیہ کے احاطہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی ، ناظم امارت شرعیہ مولانا انیس الرحمان قاسمی نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور ہزاروں نم ناک آنکھوں سے پھلواری شریف کے حرمین قبرستان میں آسودہ خاک ہوئے ۔ موت بہر حال ایک مسلمہ حقیقت ہے ،اس سے کسی کو رستگاری نہیں،ایک دن سب کو اس فانی دنیا سے چلے جانا ہے،باقی رہنے والی ذات صرف خدائے وحدہ لاشریک کی ہے۔
ذات معبود جاودانی ہے
باقی جو کچھ کہ ہے وہ فانی ہے
حضرت مولانا جسیم الدین رحمانی جید عالم دین ، بلند نگاہ قاضی اور بابصیرت فقیہ تھے۔آبائی وطن محلہ شاہ میر تکیہ ، ڈاکخانہ چاند چورا، تھانہ سول لائن ، ضلع گیا تھا، لیکن آپ کی پیدائش شہر مونگیر کے محلہ کیورا میدان نانا جان کے گھر15 اگست 1949 میں ہوئی۔ابتدائی تعلیم نانیہال ہی میں رہکر حاصل کی پھر جامعہ رحمانی میں داخلہ لیااور عربی اول سے لے کر دورہ حدیث تک کی تعلیم یہیں سے حاصل کی ۔ 1969 میں جامعہ رحمانی سے امتیازی نمبرات کے ساتھ دورہ حدیث مکمل کیا ، تقریباً 9 سال جامعہ رحمانی میں زیر تعلیم رہے اور یہاں کے اکابر علماء اور ممتاز اساتذہ کرام سے بھرپور استفادہ کیا ،آپ جامعہ رحمانی کے ہونہار اور ممتاز فضلا ء اور تربیت یافتوں میں تھے۔آپ دینی علوم کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی واقف تھے 1972 میں بہا ر اسکول اکزامنیشن بورڈ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا اور پھر جامعہ اردو علی گڑھ سے ادیب ماہر کا امتحان پاس کیا ۔ جامعہ رحمانی سے فراغت کے ایک ہی سال بعد 1970 کو امارت شرعیہ میں حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ صاحب نے حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانی ؒ سے مشورہ کرکے ان کو امارت شرعیہ بلالیا ، چونکہ موصوف قاضی صاحب ؒ کے ممتاز شاگردوں میں تھے اور جامعہ رحمانی میں ان سے ابو داؤد شریف اور موطا امام مالک کے اسباق بھی حاصل کئے تھے ،اس لئے قاضی صاحب ان کی صلاحیت ، صالحیت اور ذہانت سے واقف تھے انہوں نے امارت میں شعبہ قضا میں ان کی تقرری کی ۔ مولانا جسیم الدین رحمانی نے ایک موقع پر احقر کو ایک سوال کے جواب میں بتایا تھاکہ قاضی صاحب رحمتہ اللہ علیہ کی سرپرستی میں امور قضا کے علاوہ فتاویٰ نویسی کے کام بھی میں نے انجام دیئے ، چونکہ ان دنوں امارت شرعیہ میں کوئی باقاعدہ مفتی نہیں ہو ا کرتے تھے، پھر مفتی کی بحالی ہونے کے بعد با ضابطہ شعبہ افتا قائم ہوا ، دارالقضا کا قیام عمل میں آیا ۔حضرت قاضی صاحب کے ساتھ امور قضا اور مقدمہ کی کارروائیوں کی سمات و تحقیق کا کام بھی میں ہی انجام دیا کرتا تھا، اس کے علاوہ اسفار میں بھی قاضی صاحب کے ساتھ رہ کر سماعت و فیصلے کے کام انجام دئے ۔ سینکڑوں مقدمات کے فیصلے لکھے جس کی قاضی صاحب نے اصلاح فرمائی اور اس کا نفاذ بھی ہوا ، یہ سلسلہ تقریباً 15 سالوں تک جاری رہا ، اس عرصے میں مولانا جسیم الدین رحمانی کے لکھے ہوئے فیصلے پر حضرت قاضی صاحب ہی دستخط فرمایا کرتے تھے ، قاضی صاحب نے کثرت اسفار ، مشغولیت ، امارت شرعیہ ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، ملی کاؤنسل اور متعدد ملی ودینی تنظیموں و تحریکوں کی میٹنگوں اور جلسوں میں مصروف رہنے کی وجہ کر مولانا جسیم الدین رحمانی کو فیصلوں پر دستخط کرنے کا مجاز بنادیا ۔ ایک دو مقدمہ میں ان کے فیصلے کے خلاف اپیل بھی کی گئی لیکن وہ فیصلے بدستور بحال رہے ۔
مولانا جسیم الدین رحمانی نہایت خاکسار ، متواضع، حلیم، بردبار، شریف،نیک ، متقی اور باعمل عالم دین تھے۔شہرت و ناموری سے دورتکلف وتصنع سے بیزار الگ تھلگ اپنے کام سے مطلب رکھتے ، نہ نکتہ چینوں کی پرواہ کرتے نہ کسی کے اعتراض کا کوئی جواب دیتے بلکہ نہایت خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کاموں میں منہمک رہتے۔یہی وجہ ہے کہ حضرت امیر شریعت رابع مولانا منت اللہ رحمانیؒ اور قاضی شریعت مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ کو ان کے اوپر بڑا اعتماد تھا ، دونوں بزرگ ان کی صلاحیت ، صالحیت اور قضا و فتاویٰ کے فیصلوں اور اس کے طریقے کار سے مطمئن تھے۔موجودہ امیر شریعت مفکر اسلام حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب بھی ان کی فقہی بصیرت،ذہانت ،تجربہ اور علم کے قدرداں ہیں۔
مولانا جسیم الدین رحمانی تعلیم سے فراغت کے بعد پوری زندگی امارت شرعیہ کی خدمت کرنے میں گذار دی، ایک لامبے عرصے تک امارت سے وابستہ رہے، قضا کی ذمہ داریوں کو بڑی مہارت ، ذہانت اور امانت و دیانت داری کے ساتھ انجام دیتے، قضا کے کاموں کا انہیں بڑا وسیع اور گہرا تجربہ تھا، باہمی نزاع ، میاں بیوی کے جھگڑوں ، خاندانی مسائل و معاملات کا باریک بین کے ساتھ جائزہ لیتے اور فقہی بصیرت اور خداداد ذہانت کے بنیاد پر قرآن و حدیث کی روشنی میں ایسے فیصلے کرتے جو فریقین کے لئے قابل قبول ہوتے۔ ان کی زندگی کا سب سے بڑا وصف یہ تھا کہ وہ خاموشی اور یکسوئی کے ساتھ اپنے کاموں کو انجام دیتے تھے، ستائش و تمنا اور نام و نمود سے پڑے تھے ،بہت کم گو اور خاموش طبیعت کے تھے، بلا ضرورت بولنے سے احتراز کرتے اور اس حدیث پر پورا عمل کرتے من سکت نجحجو خاموش رہا نجات پا گیا ۔انہوں نے نہایت ہی سادہ اور پر وقار زندگی گذاری ۔میری ان سے پہلی ملاقات کب ہوئی سن و تاریخ تو یاد نہیں لیکن گذشتہ 15 برسوں سے میری ان سے ملاقات رہی ہے، جب بھی ان سے ملاقات کرتے نہایت خندہ پیشانی سے ملتے ، خیریت دریافت کرتے، دعائیں دیتے۔ چند سال قبل ان کی خدمات کو دیکھتے ہوئے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے انہیں بورڈ کا ممبر منتخب کیا ، امارت شرعیہ کے دفتر میں میں ان سے ملنے گیا، میرے ساتھ مولانا ابوالکلام قاسمی امارت شرعیہ بھی موجود تھے ، میں نے پہلے تو انہیں مسلم پرسنل لا بورڈ کا ممبر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی پھر عرض کیا آپ اپنا مختصر تعارف نامہ دیجئے ،میں آپ کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہتا ہوں، انہوں نے حسب عادت جواب دیا ،میں گمنام اور معمولی آدمی ہوں،میرے بارے میں کیا لکھئے گا؟ میں نے کہا حضر ت پورا ہندوستان اس وقت تک عید نہیں مناتا ہے جب تک کہ چاند کے سلسلے میں آپ کا فیصلہ نہ سن لیں۔آپ مسکرائے اور اپنا ایک صفحہ کا مختصر تعارف نامہ دیتے ہوئے کہا صحافی حضرات بہت تیز ہوتے ہیں انہیں منفی چیز پہلے نظر آتی ہے، آپ مثبت اور تعمیری صحافت کے علم بردار ہیں ، ہمیں امید ہے کہ آپ ہمیشہ مثبت اور تعمیری صحافت کو فروغ دیں گے۔
پرانے جو بادہ کش تھے، وہ اُٹھتے جاتے ہیں
اب کہیں سے آب بقائے دوام لاساقی
(ملت ٹائمز)