بنگال میں لیفٹ پارٹیوں کے سیکولر نظریات نے مسلمانوں کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا

کمیونسٹ پارٹیوں کی 34 سالہ مستحکم حکمرانی کے نتیجے میں مغربی بنگال میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے مابین غیر برابری میں کمی چاہئے ہونی تھی، تاہم ایسا نہیں ہوا.

تحریر : شرجیل امام – ثاقب سلیم،

(جواہر لال نہرو یونیورسٹی)
عام خیال کے مطابق بھارت کی لیفٹ پارٹیاں بہترین سیکولر اور بدترین مسلم پرست سمجھی جاتی ہیں، یہ خیال اس مظہر کا حصہ ہے جس نے لیفٹ پارٹیوں کو اقتدار تک لانے کا کام کیا اور تین ریاستوں میں سے دو مغربی بنگال اور کیرلا میں تقسیم ہند کے بعد مسلم رائے دہندگان کی اعلی شرح کے ساتھ کانگریس پارٹی کی ہار کا نتیجہ بنا، بنگال اور کیرلا میں مسلم رائے دہندگان کا ایک چوتھائی ووٹ ہے۔
خاص طور سے مغربی بنگال جہاں وہ اقتدار میں1977 میں آئے، اور انہیں مسلمانوں کی بھرپور اور مسلسل حمایت ملتی رہی،جس کی وجہ سے وہ 34 سالوں تک بلا انقطاع اقتدار کی کرسی پر براجمان رہے،اور ان کی تمام سیکولر بیان بازیوں کے ساتھ یہ امید تھی کہ لیفٹ حکومتیں سماجی اور معاشی میدانوں میں طاقت کے اشتراک اور یکساں مواقع کے حصول میں مسلمانوں کی مدد کرینگی، لیکن جب ہم اس مسئلہ پر غور کرتے ہیں تو ہمیں کچھ اور ہی دکھتا ہے۔
مثال کے طور پر اس بلاک کی سب سے بڑی پارٹی سی پی ایم کی بات کریں تو 2008 تک اقتدار تک اسے پہونچنے میں مسلم سپورٹ بڑا اہم رہا ہے، لیکن پارٹی کی سب سے اعلیٰ ایکزیکٹیو باڈی پولٹبیرو میں ایک بھی مسلم ممبر نہیں تھا،ایک بڑی مسلم آبادی والی ریاست پر حکومت کرنے والی ایک سیکولر پارٹی کا یہ عمل بھت ہی حیرت انگیز ہے، 2015 میں بھی 17 پولٹبیرو ممبران میں صرف دو ہی مسلم تھے، اور ایسا لگتا ہے کہ بنگال میں ہار کی وجہ سے یہ کرنا ان کے لئے بھت ضروری ہوگیا تھا۔
اس کے برعکس سب سے زیادہ مسلم مخالف مانے جانے والی پارٹی بی جے پی کے آغاز 1980 سے ہی اس کی سب سب اعلی ایکزیکٹیو سرکل میں کم از کم ایک مسلم ضرور تھا، سکندر بخت اس کے جنرل سیکرٹری تھے اور پھر بعد میں چل کر اس کے نائب صدر بھی بنے،جبکہ آج بھی مختار عباس نقوی اس کے نائب صدر ہیں۔
وزارت کی تقسیم کے اعتبار سے بھی اس کی کارکردگی یکساں طور پر خراب رہی ہے،2001- 2006 کے وقت جب یہ اپنے انتخابی عروج پر تھی اس وقت مغربی بنگال کے 33 کیبینیٹ ممبران میں صرف تین ہی مسلم منسٹر لیفٹ پارٹی میں تھے، دلچسپ بات یہ ہے کہ خود مائنورٹی ڈیولپمنٹ کا قلمدان وزیر اعلیٰ بدھا دیپ بھٹاچاریہ کے پاس تھا۔
اتنے اعتماد کا اظہار تو بی جے پی بھی نہیں کرتی ہے، لوک سبھا میں جب اس کے پاس کوئی مسلم نہیں تھا تو اقلیتی امور کی ذمہ داری کے لیے راجیہ سبھا کے ذریعہ نجمہ ہپت اللہ کو لایا گیا اور اترپردیش میں مسلم ایم ایل اے نہ ہونے کی وجہ سے لیجسلیٹو کاؤنسل کے ذریعے محسن رضا کو منسٹر برائے اقلیتی ترقیات بنایا گیا۔
یہ تو صاف ہوگیا ہے کہ لیفٹ پارٹیوں کی حکومتوں میں مسلمانوں کو اہم فیصلہ ساز عہدوں اور منصبوں سے دور رکھا گیا۔
اگر ہم بنگال کے سماجی اور معاشی انڈیکیٹر کو دیکھیں تو بھت ہی بدترین تصویر ابھر کر سامنے آتی ہے، چونکہ کیرالا میں کانگریس کی قیادت والے یو ڈی ایف اتحاد کی بھی حکومت رہی ہے اور ساتھ ہی ایک اہم علاقائی پارٹی مسلم لیگ بھی رہی ہے جس نے علاقائی مسلمانوں کے مطالبات کو پورا کیا لیکن بنگال میں بلا انقطاع لیفٹ حکومت رہی ہے اور 34 سالوں کی ایک مستحکم حکومت کو ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کی غیر برابری اور عدم مساوات کو ختم کرنا چاہئے تھا، لیکن افسوس کہ ایسا نہیں ہوا۔
سچ تو یہ ہے کہ غیر برابری مختلف میدانوں میں بدترین انداز میں موجود ہے، اس ضمن میں 2006 کی سچر کمیٹی رپورٹ ایک واضح دستاویز ہے، مغربی بنگال، اترپردیش، بہار، آسام اور کیرلا بڑی مسلم آبادی والی ریاستیں ہیں، صرف خوشحال ریاست کیرلا کو چھوڑ دیا جائے تو ہندو اور مسلمانوں کے انڈیکیٹرس کے درمیان بھت زیادہ غیر برابری ہے، لیکن مغربی بنگال ایک ایسی ریاست ہے جہاں بیشتر اہم میدانوں مثلاً روزگار، تعلیم اور غربت میں غیر برابری اور عدم مساوات سب سے زیادہ ہے۔
اگر ریاست کے روزگار کی بات کریں تو لیفٹ حکومت کے تقریباً ساڑھے تین دھائیوں کے بعد2006 میں مغربی بنگال کی مجموعی ملازمت میں مسلمانوں کا حصہ تقریبا 3.4 فیصد ہی تھا، اس کے برعکس 2016 میں ترنمول کانگریس کی پانچ سال حکومت کے بعد یہ5.7 فیصد ہو گیا ہے جسے ایک ایک اہم اضافہ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ لیفٹ حکومت کو مسلم مخالف ثابت کرنے کے لئے تنہا یہ اعداد و شمار کافی ہیں۔
ترنمول کانگریس نے جزوی طور پر یہ کامیابی پسماندہ برادریوں کی ایک بڑی تعداد کو او بی سی کے زمرہ میں شامل کرکے حاصل کیا ہے جنہیں کہیں نا کہیں لیفٹ فرنٹ حکومتوں کے ذریعہ پسماندہ مسلم ماننے سے انکار کر دیا گیا تھا۔
تعلیمی اعتبار سے مغربی بنگال کا ایم وائی ایس یعنی پچیس اور اس کے اوپر کی مرد آبادی کی شرح تعلیم کا فیصد 3.58 ہے، جبکہ مسلمانوں کا فیصد بھت ہی نیچے 2.58 ہے، ایس سی اور ایس ٹی کا فیصد اوسطاً 3.12 بھت ہی بہتر ہے،خواندگی میں ہندوؤں کا فیصد 72.4 تھا جبکہ مسلمانوں کا 57.5 تھا، اس کے برعکس بہار میں ہندؤوں کی شرح خواندگی 47.9 تھی اور مسلمانوں کی شرح خواندگی 42 تھی، حالانکہ بہار میں ناخواندگی کی شرح زیادہ ہے، لیکن مغربی بنگال کے مقابلے ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان کا فاصلہ یقینی طور پر کم ہے۔
دسویں پاس طلبہ کا فیصد تو اور بھی حیرت انگیز ہے، پورے ہندوستان میں دسویں پاس مسلم طلبہ تقریباً 24 فیصد ہیں، لیکن مغربی بنگال میں صرف 12 فیصد ہی دسویں پاس مسلم طلبہ تھے، جبکہ ایس سی/ایس ٹی اور کاسٹ ہندو بالترتیب 13 اور 38 فیصد تھے، حتى کہ غریب ریاست بہار میں دسویں پاس مسلم طلبہ 16 فیصد تھے، گریجویشن کے اعتبار سے تو یہ یکساں طور پر قابل افسوس ہے، ہندوستان میں مسلم گریجویٹ 5 فیصد ہیں، جبکہ کاسٹ ہندو گریجویٹ تقریباً 13 فیصد ہیں، مغربی بنگال میں کاسٹ ہندو گریجویٹ تقریباً14 فیصد تھے، جبکہ مسلمان تقریباً 3 فیصد تھے، اس معاملے میں بھی بہار اس کے برعکس ہے کہ وہاں کاسٹ ہندو تقریباً 10 فیصد تھے جبکہ مسلم گریجویٹ 5 فیصد تھے۔
تعلیم کی تینوں سطحوں، خواندگی، دسویں اور گریجویشن میں بنگال کے مسلمان مسلمانوں کے قومی اوسط سے پیچھے ہیں، مزید یہ کہ ہندو اور مسلمانوں کے درمیان کی غیر برابری بہار جیسی کمزور ریاست سے بھی زیادہ ہے، اور جہاں تک دسویں اور گریجویشن کا سوال ہے تو اس میں بھی بنگال کے مسلمانوں کے مقابلے بہار کے مسلمانوں کی شرح زیادہ ہے جبکہ بہار ایک بھت ہی ناخواندہ ریاست ہے۔
ایک دوسرا اہم معاشی انڈیکیٹر پاورٹی انڈیکس ہے،شہری بنگال میں 10 فیصد ہندو غریبی کی لائن سے نیچے تھے، جبکہ مسلمان27 فیصد نیچے تھے، دیہی بنگال میں 21 فیصد ہندو غریب تھے جبکہ 33 فیصد مسلمان غریب تھے، بنگال کے بیشتر مسلمان دیہی علاقوں میں بستے ہیں، بہار میں 34 فیصد دیہی ہندو اور 38 فیصد دیہی مسلمان غریب تھے، یہاں بھی بہار ایک غریب ریاست ہونے کے باوجود یقینی طور پر مغربی بنگال سے عدم مساوات اور غیر برابری میں کم ہے۔
ایک دوسرا اہم پہلو وقف املاک کا ہے، وقف املاک مسلم کمیونٹی کا اثاثہ ہے جس کا استعمال کمیونٹی کی بہبود کے لئے کیا جاتا ہے، سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق مغربی بنگال کی وقف پراپرٹی سب سے زیادہ توجہ کی طالب ہے، وقف پراپرٹی کو جو نقصان لیفٹ حکومت کے ذریعہ پہونچایا گیا اسے سچر کمیٹی نے نوٹ کیا ہے،یہاں رپورٹ کا ایک اقتباس نقل کیا جاتا ہے:
“مغربی بنگال کی حکومت نے 1981 میں ایک ٹھیکا، کرایہ داری اور لینڈ ایکٹ نافذ کیا تھا، جو زیادہ تر ٹھیکا ایکٹ کے نام سے جانا جاتا ہے اور جس میں2001 میں ترمیم کیا گیا تھا، اس ایکٹ کی رو سے پوری ریاست کی پراپرٹی کے ایک بڑے حصہ کے کرایہ دار اس کے مالک بن گئے، جبکہ قانون ٹھیکا ایکٹ کو حکومتی اور میونسپل پراپرٹی پر نافذ کرنے سے منع کرتا ہے،لیکن وقف املاک کو اس میں شامل کرنے کا فائدہ نہیں دیا گیا، جس کے نتیجہ میں وقف بورڈ کو اس سے ہونے والی آمدنی اور اس کے ایک بڑے حصہ سے ہاتھ دھونا پڑا، ٹھیکا ایکٹ سے وقف کی زمینوں کو این جی اوز اور وقف بورڈ کی طرف سے الگ کرنے کی کوششیں بھی ہوئی ہیں، مغربی بنگال حکومت کو مطلوبہ چھوٹ دینے کا مشورہ دیا جانا چاہیے۔
مغربی بنگال شاید تنہا کثیر مسلم آبادی والا اسٹیٹ تھا جہاں مسلمانوں کی حالت آزادی کے وقت اچھی تھی لیکن آج معاشی اور سماجی ترقیات کے تقریبا تمام بڑے انڈیکیٹر میں وہ ایس سی/ ایس ٹی سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں، مغربی بنگال کے مسلمانوں کی اس غربت و پسماندگی کا ذمہ دار برسوں راج کرنے والی لیفٹ فرنٹ حکومتیں ہی ہیں۔
اخیر میں اگر کوئی اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی آزادی کے لیے مین اسٹریم کی لیفٹ پارٹیوں کے جد و جہد کے بارے میں بات کرے، تو آپ ان سے سچر کمیٹی کی رپورٹ پر ایک سرسری نظر ڈالنے کی درخواست کیجئے،جلد ہی یہ واضح ہوجائے گا کہ لیفٹ کا لال جھنڈا مسلمانوں کے خون سے رنگا ہوا ہے۔

(مترجم : احمد الحریری، فرسٹ پوسٹ، 18 اپریل، 2017)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں