اسلام کا معاشی نظام اور سیرت نبوی

احتشام الحق آفاقی
اجتماعےات انسانی میں ےقینا معاشےات اور اقتصادیات کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میںجگہ جگہ اقتصادےات و معاشےات کی طرف اشارہ فرمایا ہے ، سب سے پہلے ہم یہاں کارو بار کی ان صورتوں کو بیان کرنے جارہے ہیں ، جو مطلقا حرام ہے ۔ سرمایا جب اپنے بل بوتے پر مارکیٹ کو کنٹرول کرتا ہے اور مارکیٹ میں اتار چڑھاؤ پیدا کرتا ہے۔مثلا ایک تاجر جو کہ سرمایہ کی بنیاد پر ایک ساتھ بہت سا مال خرید کر مارکیٹ کی قیمت کو دوگنا کردیتا ہے اور مارکیٹ کو اونچا کردیتا ہے اور اسی طرح کبھی ایک ساتھ بہت زیادہ مال مارکیٹ میں ریلیز کر کے بازار کا بھاؤ گرا دیتا ہے ، یہی سرمایہ کا کھیل اور ننگا ناچ ہے ۔ ٹرید مارکیٹ اور عوامی بازار میں اس طرح کے جتنے بھی ذرائع ہیں ان تمام کو دین اسلام نے حرام مطلق قرار دےا ہے ۔ذخیرہ اندوزی کے سلسلے میں اسلام نے سب سے زیادہ توجہ اشےاء خورد پر دیا ہے ، کیونکہ یہ انسان کی بنیادی ضرورت ہے ، اس کے کمی بیشی سے انسانی معاشرہ کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اللہ کے نبی ؐ ذخیرہ اندوزی کے تعلق سے ارشاد فرماتے ہیں ” جس شخص نے کھانے پینے کی چیز کو چالیس دن تک روکے رکھی ، بازار میں مانگ ہے مگر وہ پھر بھی اس کو فراہم نہیں کر رہا ہے ، وہ چاہتا ہے کہ قیمتیں اور بڑھ جائیں ، تو وہ اللہ سے بری ہوگےا اور اللہ اس سے بری ہوگےا ، اللہ کا کوئی تعلق اس شخص سے نہیں اور اس کا کوئی تعلق اللہ سے نہیں ــ” ۔
    حرام کمائی کی دوسری صورت سٹہ ہے کچھ لوگوں کی معاشی حیثےت متعین ہے اور وہ بیٹھے بٹھائے مارکیٹینگ سٹہ کھیلتے ہیں حالانکہ نہ بالفعل مال خریدتے ہیں اور نہ بیچتے ہیں ،لیکن پھر بھی عملی طور پر مارکیٹ کا اتار چڑھاؤ میں اس کا اہم کردار ہوتا ہے ۔یہ تمام پیشگی فرضی سودے سرمایہ داروں کا کھیل ہوتا ہے ، اس کے سوا کچھ نہیں ۔ شریعت محمدی میں جو مال موجود نہ ہو اس کا سودا نہیں ہوسکتا ہے سوائے ”بیع سلم ” کا ۔مضاربت کو اسلام نے اپنے معاشی نظام میں جائز وقرار دےا ہے ، اس کی وجہ یہ کہ ایک آدمی جو کہ محنت کر سکتا ہے ، دوکان چلا سکتا ہے مگر اس شخص کے پاس سرمایہ نہیں ہے اور کسی دوسری شخص کے پاس سرمایہ موجودہے ، اب یہ دونوں مل کر تجارت کرتے ہیں ،ایک کی محنت ہوتی ہے اور دوسرے کا سرمایہ ، اس صورت میں محنت اور سرمایہ کا امتزاج وجود میں آئیگا اور اسی کا نام مضاربت ہے ۔ مضاربت کے قبیل کی ایک شے مزارعت ہے جو ایک شخص کی زمین ہے اور کوئی دوسرا شخص اس پر محنت کررہا ہے ، اس مسئلہ میں فقہائے امت کے درمیان اختلاف ہے ، امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے نزدیک ہر قسم کی مزارعت حرام ہے ۔ جو مال موجود نہ ہو اس کے خرید و فروخت کو اسلام نے حرام قرار دےا ہے چاہے اس کی کوئی بھی شکل ہو ۔ انسانی کمزورےوں سے فائدہ اٹھا کر مال کمانے کواسلام نے ناجائز قرار دےا ہے ، جس طرح اسلام دولت کمانے کے لئے کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی اجازت نہیں دےتا بالکل اسی طرح انسانی کمزورےوں سے فائدہ اٹھا کر اسلام میں دولت کمانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ شراب پر پابندی ، اسی طرح شراب بھی حیوانی جذبات کو مشتعل کرتی ہے ، چنانچہ اس کے پینے پلانے بیچنے خرید نے کو بھی اسلام نے حرام مطلق قرار دےا ہے ۔
    اللہ کے نبی ؐ کی حدیث میں محنت یعنی مزدوری اور عمل ید یعنی انسان کے خود اپنے ہاتھ سے کام کرنے کی بڑی عظمت و فضیلت وا رد ہوئی ہے ، بخاری شریف میں حضرت ابو ہریرہ ؓ نے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ نے کوئی نبی مبعوث نہیں فرمایا جس نے اجرت پر بھیڑیں نہ چرائی ہو ں، صحابہؓ اس بات پر متحےر ہوئے اور سوال کیا کہ اے اللہ کے نبی ؐکیا آپ نے بھی یہ کام کیا ہے ؟ اللہ کے نبی ؐ نے جواب دیا کہ ” میں تو چند قیراط کے عوض (چند ٹکوں کے عوض ) مکہ کے لوگوں کے جانور چراےا کرتا تھا ” ۔ معلوم ہوا کہ اجرت یا مزدوری پر دوسروں کے لیے کام کرنا باعث ندامت یا موجب شرم نہیں ہے ۔
    اجرت کی ادائیگی پر عجلت کی اللہ کے نبی ؐ نے خوب تاکید کی ہے ، ابن ماجہ کی وہ مشہور حدیث بھی ہمارے سامنے ہے راوی عبد اللہ بن عمر و بن عاص کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی ؐ نے فرمایا کہ ” مزدور کو اس کی اجرت ادا کردو اس سے پہلے کے اس کا پسینہ خشک ہو ” ۔ حضور اکرم ؐ نے معاشی نظام کے ساتھ ساتھ ہی اپنے ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دےا ہے اور فرمایا ہے کہ ” جس شخص کے ماتحت اللہ نے کسی اور شخص کو کر دےا ہو تو اسے چاہیے کہ جو کھانا وہ خود کھاتا ہو وہ اسے بھی کھلائے ، جو خود پہنتا ہو اسے بھی پہنائے اور ان پر اتنا بار نہ ڈالو جس سے وہ دب کر رہ جائےں اور اگر ایسی مشقت ڈالنی لازم ہو جائے تو خود بھی شریک ہو جاؤ اور ان کی مدد کرو ۔اللہ کے نبی ؐ نے سوال کرنے ( بھیک مانگنے ) کے بجائے محنت و مزدوری کی ترغیب دلائی ہے ۔آپؐ نے فرمایا کہ ” تم میں سے کسی شخص کا رسی لے کر پہاڑ پر چلے جانا اور پھر لکڑےوں کا گٹھہ پیٹھ پر لاد کر بیچنا اور اس طرح اپنے چہرے کو بچانا اس سے کہیں بہتر ہے کہ وہ لوگوں سے سوال کرے اور وہ چاہے تو کچھ دے دےں اور چاہے تو خالی ہاتھ لوٹا دیں ، یہ وہ اصول ہے جو اللہ کے حبیب ؐ نے اپنے ماتحتوں کے بارے میں وضع فرمائے ہیں اور یہی ہیں وہ اخلاقی تعلیمات کہ جب تک وہ کسی معاشرے میں بالفعل موجود نہ ہو ں تو محض کوئی خشک قانونی ڈھانچہ خواہ اس کے کتنے ہی پیروی کیوں نہ کرلی جائے ، معاشرے میں وہ برکات پیدا نہیں کرسکتا جو اسلام کی منشا ہیں اور جن کی ہم توقع رکھتے ہیں۔
    یہ اسلام کا معاشی نظام اور سیرت نبوی ؐ کا وہ پہلو ہے ، جس پر اسلامی معاشےات و اقتصادیات کی عمارت بلند ہے ۔، یہ محض سنی سنائی یا پھر اڑی اڑائی بات نہیں بلکہ یہ ایک مکمل نظام ہے ، اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کی ہر طرح سے رہنمائی کی ہے ۔ زمانہ جس قدر ترقی کرتا رہا ہے اسی قدر ہی سیرت نبوی کا وہ تمام کارنامہ جو کہ کسی نہ کسی گوشہئ گمنامی کا شکار ہوگےا تھا ، وہ اب ابھر کر سامنے آرہا ہے اور اس وقت خصوصاََ اسلامی ممالک اور ان تمام جگہوں پر جہاں اسلام کے شیدائی اور مسلمان زندگی بسر کرہے ہیں ، وہاں اسلام کے مکمل نظام کو اپنے روزمرہ کی زندگی میں لانے کی ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے ۔(ملت ٹائمز)
متعلم : مدرسہ سیدنا بلالؓ ارادت نگر ڈالی گنج
موبائل نمبر : 8960408086
Email : eafaqui1995@gmail.com

 

SHARE