عبیدالکبیر
بلا شبہ نبی اکرم ؐ کی پاک زندگی اس جہان کاف و نوں کا ایک سدا بہار موضوع ہے ۔ ابتدائے آفرینش سے لے کر اب تک زبان وقلم نے ہزار پیرایوں میں اس پاکیزہ اور حیات بخش موضوع پر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے ۔تاریخ کے وسیع وعریض دورانیے میں کوئی ساعت شاید ایسی نہ گزری ہو جو اس ذات گرامی کی توصیف سے محروم رہی ہے۔حق یہ ہے کہ نبی اکرم ؐکی توصیف و ثنا کا نغمہ کسی فصل گل ولالہ کا پابند نہیں ہے ۔آپ کا مقدس وجود ہر زمانے کے لئے انسانی دنیا پر چھانے والی تیرہ وتار گھٹاؤں میں ایک شمع فروزاں ہے ۔ انسانی زندگی کی بے پناہ وسعتوں میں پائی جانے والی بے اعتدالیوں سے اگر کوئی نظام انسان کو محفوظ طریقے سے ساحل تک لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے تو وہ صرف اور صرف آپ کا اسوہ حسنہ ہے ۔جن حالات میں نبی اکرم ؐ کی بعثت ہوئی تھی وہ دور ہماری اصطلاح میں جاہلیت کا دور کہلاتا ہے ۔آج کے حالات میں اس دور کا تجزیہ کرتے ہوئے اسےتمدنی افلاس کا دور کہا جا سکتا ہے ۔یہ تمدنی افلاس کن اسباب وعوامل کے زیر اثر رونما ہوا تھا ؟اس کی توجیہ الگ الگ خیال کے لوگ اپنی اپنی سوچ کے لحاظ سے کرتے ہیں۔ جدید دور میں جب کوئی ماضی کی پسماندگی کا جائزہ لیتا ہے تو منجملہ ان اسباب کے جن کو وہ ماضی میں تمدنی افلاس کا باعث خیال کرتا ہے ایک سبب اس کی قدامت کوبھی شمار کر لیتا ہے ۔ مگر یہ انداز فکر کسی صحت مند تجزیے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک غیر منطقی اور بے ہنگم سا خیال ہے جو تمدن جدید کے بعض گمراہ کن اور سقم زدہ فلسفوں کی دین ہے۔موجودہ دور میں جن خطوط پر انسانی فکر کا ارتقا ہو اہے اس میں فرسودگی سے پرہیز کا رجحان بہت عام ہے ۔آج کا ذہن کہیں نہ کہیں اپنے اندر ایک برتری کا احساس رکھتا ہے اور اگلے وقتوں کے انداز بودوباش کو کسی درجہ میں کمتر خیال کرتا ہے ۔ موجودہ دور میں کسی بھی چیز کے بارے میں اس کا فرسودہOld Fashioned ہونا ایک گونہ معیوب خیال کیا جاتا ہے۔ جبکہ اگر ہم خالی ذہن کے ساتھ بے لاگ طریقے پر کوئی معتدل اور اقرب الی الصواب راستہ دریافت کرنا چاہیں تو اس کا پرانا پن عقل صحیح کے راستے میں کبھی رکاوٹ نہیں بنے گا۔اور حقیقت یہ ہے کہ اگر آج کے حالات میں ہم سیرت کی روشنی میں اپنے مسائل کو سلجھانا چاہیں تو کسی مقام پربھی ہمارے پاس یہ کہنے کی گنجائش نہ ہو گی کہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کی یہ تعلیمات آج کے مسائل کا مداوا کرنے میں کسی بھی پہلو سے ناکافی ہیں۔ تمدن کا ارتقاء یقیناً انسانی سماج کا ہمیشہ سے ہدف رہا ہے ۔انسانی عقل کی جولانیوں کا مقصود ہر دور میں خوب سے خوب تر کی جستجو رہا ہے۔بدلاؤ اور اصلاح کا یہ جذبہ ایک فطری اور معقول جذبہ ہے ۔مگر سوال یہ ہے کہ بدلاؤ کے لئے آخر کن اصولوں کی رہنمائی میں تمدن کے سفر اور سمت سفر کی تعیین کی جائے۔آج نوع انسانی کے ذہن پر موجودہ حالات کے پیچھے بعض متعینہ بلکہ خود ساختہ اسباب کی ایک فہرست چھائی ہوئی ہے ۔اور اس سلسلے میں انسانی ذہن سخت قسم کے اضطرابات کا شکار ہے۔مگر حالات جس رخ پر سامنے آرہے ہیں اس سے یہ صاف ظاہر ہے کہ موجودہ دور میں بھی بہت سی ایسی بے اعتدالیاں عام ہیں جو ایسے حالات کے لئے عموماً ذمہ دار ہوا کرتی ہیں ۔فرق صرف یہ ہے کہ کل جو بے اعتدالیاں تاریکی میں کی جاتی تھیں آج وہ روشنی میں انجام پا رہی ہیں۔ کل کی دنیا میں اگر نقطہ عدل تاریکی کی وجہ سے نظروں سے اوجھل تھا تو آج طلعت وتابش کی فراوانی نے انسانی نگاہ پر پردے ڈال دیے ہیں ۔انسانی دنیا کو عدل اجتماعی سے محروم رکھنے کے لئے کل جن ہتھکنڈوں کا سہارا لیا جاتا تھا آج بھی تعبیر کے معمولی اختلاف کے ساتھ انہی ہتھکنڈوں کا استعمال کیا جا رہا ہے۔البتہ اب اتنی ترقی ضرور ہوئی ہے کہ ان سب اسباب کے لئے ایک جامع اصطلاح کے طور پر ”ملا کا اسلام ”اس سلسلہ میں آئے دن زیر بحث رہتا ہے ۔لطف کی بات یہ ہے کہ جو حضرات ان مسائل پر بڑی دردمندانہ بحثیں کرتے ہیں ان میں سے اکثر حضرات کاعلمی جغرافیہ ملا کے اسلام کا احاطہ کرنے سے قاصر ہے۔ہمیں ہر کہہ و مہ کے بھونڈے اعتراضات کو سنجید گی سے لینے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے مگر ان حالات سے بالکلیہ صرف نظر کرنا بھی ہمارے دعوی ایمان کے منافی ہے۔جہاں تک رسول اللہ ؐ کی ذات سے محبت کا تعلق ہے تو اس میں شک نہیں کہ یہ ایک مسلمان کے مسلمان باقی رہنے کی لازمی شرط ہے ۔ عالم اسلام میں یہ مسئلہ کبھی بھی مختلف فیہ نہیں رہا ہے ۔ مسلم امت کے جن مختلف مکاتب فکر میں اس موضوع کو زیادہ حساس بنایا گیا وہ بہر حال ایک فروعی مسئلہ اور اظہار محبت کے پیرایوں کا اختلاف ہے ۔ اور کہا جا سکتا ہے کہ ‘توجیہ القول بمالایرضی بہ قائلہ’ کی قبیل سے تعلق رکھتا ہے۔جبکہ آپ ؐ کی ذات اپنی تعلیمات کے جلو میں ایسی ہے جیسے کوئی شمع اپنی شمع دان میں ہوا کرتی ہے جس کی شفاف کرنیں اپنے ماحول کو پیہم منور کئے جا رہی ہیں ۔ ایک سچا مسلمان ان کرنوں میں اور دوسری جلتی بجھتی روشنیوں میں آسانی سے امتیاز کرکے یہ سمجھ سکتا ہے کہ کون سے اجالےاس شمع دان کی کرنوں کی رہین ہیں اور کون سے نہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمارے لئے بارگاہ نبوت سے انتساب کا لازمی تقاضا اور منصبی فریضہ ہے کہ ہم آپ ؐ کی تعلیمات پر خود دیانت داری سے عمل پیرا ہوں اور دنیا کو ان کی طرف بلائیں ۔ موجودہ حالات میں سیرت کی تعلیم کا صحیح انطباق ایک تشنہ موضوع ہے۔بلا شبہ انسانیت کو اس جام جہا ں نما سے آشنا کرانا ہر اس شخص کی ذمہ داری ہے جو نبی اکرم ؐ کے امتی ہونے کا شرف رکھتا ہے۔موجودہ حالات کے تناظر میں کچھ خاص ایام میں بعض سرگرمیوں کی پابندی ایک ناکافی عمل ہے ۔تاریخ کا سبق یہ ہے کہ ایسی سرگرمیوں کا غلغلہ عموماً وقتی اور سطحی ہوا کرتا ہے ۔ ایسی کوششوں میں ٹھہراؤ اور دوام کا وہ تناسب نہیں پایا جاتا جو کسی مفید نتیجے تک پہنچنے کے لئے درکار ہوتاہے۔اس پہلو کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ سیرت محض ہنگامی حالات سے گلو خلاصی کا پروانہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک جامع اور مستقل نظام سے عبارت ہے جوزندگی کے ہر موڑ پر مسلسل ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔سیرت کا موضوع فکر وخیال اور علم وتحقیق کے میدان میں کسی قسم کے حذف واضافہ کا محتاج ہر گز نہیں۔ ہمارے لئے کرنے کا کام در اصل یہ ہے کہ ہم اپنے اندر سیرت کے آئینے میں اپنی واقعی صورت دیکھنے کی تاب پیدا کریں اور اصلاح احوال کی جانب مخلصانہ پیش قدمی پر آمادہ ہو جائیں ۔
اس ضمن میں آیئے نبی اکرم کے آخری خطبے کے چند دل سوز اور روح پر ور الفاظ میں غور کریں ۔
“لوگو! تمہارا رب ایک ہے اور تمہارا باپ ایک ہے،تم سب آدم ؑ کی اولاد ہو اور آدم ؑ مٹی سے بنے تھے ۔تم میں اللہ کے نزدیک زیادہ معزز وہ ہے جو زیادہ متقی ہے ۔۔۔کسی عربی کو کسی عجمی پر ۔۔۔ کسی سرخ کو کسی کالے پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوی کی وجہ سے۔اللہ کے بندو! میں تمہیں اللہ سے ڈرنے کی وصیت کرتا ہوں اور اس کی اطاعت کا حکم دیتا ہوں ۔جان لو! جاہلیت کی ہر چیز آج میرے قدموں تلے( پامال کی جاتی) ہے ۔سن لو!جاہلیت کا ہر خون ،مال اور آثار جاہلیت میرے قدموں تلے قیامت تک کے لئے کالعدم ٹھہرائے جاتے ہیں ۔ہر قسم کا سودی لین دین آج سے ممنوع قرار دیا جاتا ہے ۔بے شک تمہارا خون (ایک دوسرے پر) حرام ہے۔اورتمہارا مال ،تمہاری عزت وآبرو۔میری بات سنو!زندگی پا جاوٴگے(مگر اس شرط کے ساتھ کہ)خبردار!(ایک دوسرے پر)ظلم نہ کرنا۔دیکھو! ظلم(وزیادتی) نہ کرنا۔خوب سمجھ لو! ایک دوسرے پر باہم ظلم وستم نہ کرنا۔ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو،۔۔۔خبردار!تمہارے لیے عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت ہے،۔۔۔سنو! تمہاری عورتوں پر جس طرح کچھ حقوق تمہارے واجب ہیں ،اسی طرح تمہاری عورتوں کا بھی تم پر کچھ حق ہے۔۔۔”انبیاء علیہم السلام (قیامت کے دن) کثرت تعداد پر فخر کریں گے، پس تم مجھے (اپنی بداعمالیوں کے سبب) رسوا نہ کردینا،میں حوض کوثر پر (تمہارے انتظار میں) رہوں گا۔”
ذرا سوچیے کہ وہ ذات جسے اپنی امت کے نجات کی فکر شب وروز گھلائے دیتی تھی ، وہ ذات جو سراپا مغفور ہونے کے باوجود امت کی مغفرت کے لئے دعائے نیم شبی کا اہتمام کرتی تھی ،وہ ذات جس نے حیات مستعار کے ہر لمحے میں ہم سے زیادہ ہمارا خیال رکھا، وہ ذات جس نےاللہ کی بارگاہ میں قبولیت دعا کا خصوصی اعزاز گنہگار امت کی شفاعت کے لئے محفوظ کرلیا ،وہ ذات جو بلا شبہ ہم پر سب سے زیادہ حتی کہ ہماری جان سےبھی زیادہ حق رکھتی ہے۔ کیا اس کا حق محض ایک خاص رسم کی ادائیگی سے ادا ہو جائےگا ؟ یہ کیسا ذوق محبت ہے جوشوق اطاعت سے آزاد ہوا چاہتا ہے ، یہ کیسا عشق وجنون ہے جو محبوب کی مرضی سے قطع نظرمحض دعوؤں کی گرم بازاری پر آمادہ ہےاور اس کی راہ میں کوئی قربانی دینے سے پہلے عقل وخرد سے مشورے کرتا ہے ؟آج ہم جس طرز زندگی کے عادی ہوتے جا رہے ہیں اس میں یہ سوالات مزید سنگین ہو جاتے ہیں ۔کیا یہ سچ نہیں کہ زندگی کے انفرادی اور اجتماعی معاملات کو ہم نے جس سانچے میں ڈھال دیا ہے اس نے ہمیں سیرت سے بہت دور کردیا ہے اور تمدن کی جس گاڑی پر ہم سوار ہیں وہ ہمیں لےکر ایک مخالف سمت میں رواں ہے ۔ایسے میں محض ایک جشن بپا کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ ہم صرف اپنی نشست کا رخ بدل کر بزعم خویش یہ سمجھتے ہیں یا دنیا کو سمجھانا چاہتے ہیں کہ ہم سیرت کا اتباع کررہے ہیں جبکہ ہماری گاڑی بدستور اسی رخ پر رواں ہے جو لمحہ لمحہ ہمیں سیرت کے گلیاروں سے دورکیے جا رہا ہے ۔خاکم بدہن ایسی ہی روش کا نام تو خود فریبی ہے۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولہبی است