احکامِ رمضان المبارک

خالد سیف اللہ نعیمی
اسلام کے ارکان اور بنیادی ستون پانچ چیزوں پر ہے جن میں سے ایک رکن روزہ ہے،
روزے کا حکم پہلی تمام شریعتوں میں رہا ہے،
اور اللہ تعالی نے اس آخری امت کو بھی روزہ جیسی مقدس عبادت سے نوازا ہے،
چنانچہ ارشاد ربانی ہے :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
اے ایمان والوں : تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر بھی فرض کئے گئے تھے، تاکہ تمہارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو-
(1) روزے کی نیت :
نیت کہتے ہیں دل کے قصد و ارادہ کو، زبان سےکچھ کہے یا نہ کہے،
روزے کیلئے نیت شرط ہے، اگر کوئی شخص روزے کا ارادہ نہ کیا اور پورے دن کچھ کھایا پیا نہیں تو اس کا روزہ نہیں ہو گا،
کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےارشاد فرمایا :
( إنَّمَا الْأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، )
اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،
اگر نیت ہی درست نہ ہو تو پھر بھوکا رہنے سے کیا فائدہ،
اسلئے سب سے پہلے نیت کریں؛
مسئلہ : رمضان کے روزے کی نیت رات سے کر لینا بہتر ہے اور اگر کسی وجہ سے نہیں کر سکا تو زوال سے ڈیڑھ گھنٹہ پہلے تک کر سکتا ہے، بشرطیکہ کچھ کھایا پیا نہ ہو؛
(2) جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے :
کان اور ناک میں دوا ڈالنا،
کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلے جانا،
عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہو جانا،
قصداً منہ بھر قے کرنا،
حقہ، بیڑی، سگریٹ، پینے سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے قضا لازم ہے کفارہ نہیں (امداد المفتیین )
(3) وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا تو نہیں مگر مکروہ ہو جاتا ہے:
بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا،
منجن، ٹوتھ پیسٹ وغیرہ کا استعمال کرنا،
بلا ضرورت دانت نکلوانا،
عورت کے لبوں پر سرخی (لِپ اسٹک) لگانا اگر منہ کے اندر جانے کا احتمال ہو تو مکروہ ہے (احسن الفتاوی)
روزے کی حالت میں لڑنا، جھگڑنا، اور گالی دینا خواہ انسان کو ہو یا کسی بے جان چیز کو یا جاندار کو، ان سب سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے؛
(4) وہ چیزیں جن سے نہ روزہ ٹوٹتا ہے اور نہ مکروہ ہوتا ہے:
آنکھ میں دوا ڈالنا، مسواک کرنا، سرمہ لگانا، بھول کر کچھ کھا پی لینا، پچھنے لگوانا، قے ہو جانا، احتلام ہو جانا، خوشبو سونگھنا، کسی قسم کا انجکشن یا ٹیکہ لگوانا، دانتوں سے خون نکلے مگر حلق میں نہ جائے تو روزہ میں کوئی خلل نہیں آئے گا؛
(5) وہ عذر جن سے رمضان المبارک کے روزے نہ رکھنے کی اجازت ہے:
بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو یا مرض بڑھنے کا خطرہ ہو تو روزہ نہ رکھنا جائز ہے، لیکن رمضان کے بعد قضاء لازم ہے، جو عورت حمل سے ہو اور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو خطرہ لاحق ہو نے کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضاء کرے؛
اور وہ مسافر شرعی جو 78 کیلو میٹر سفر کی نیت سے گھر سے نکلا ہو اس کیلئے اجازت ہے کہ وہ روزہ نہ رکھے اور اگر رکھ لے تو افضل ہے؛
عورت کو حیض آگیا یا بچہ پیدا ہوا اور نفاس ہو گیا تو حیض اور نفاس رہنے تک روزہ رکھنا درست نہیں ہے؛ بعد میں وہ قضا کرلے؛
(6) روزے کی قضا:
جو روزے کسی وجہ سے رہ گئے ہوں رمضان کے بعد جہاں تک ہو سکے جلدی قضا کر لینا چاہئے بلاوجہ تاخیر کرنا گناہ ہے؛
(7) سحری:
سحری کھانا سنت ہے اگر بھوک ہو اور کھانا نہ کھائے تو کم از کم تین چار چھوہارے ہی کھالیں اگر کچھ نہ صحیح تو پانی ہی پی لیں،
کیونکہ حدیث شریف میں آتا ہے:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
سحری کھایا کرو کیونکہ سحری میں برکت ہے؛ (مسلم)
(8) افطاری :
غروب آفتاب کے بعد افطاری میں جلدی کرنا چاہئے،
حدیث شریف میں : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا :
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ اپنے بندوں میں مجھے وہ بندہ زیادہ محبوب ہے جو روزے کے افطار میں جلدی کرے (جامع ترمذی)
اور دوسری حدیث : جو حضرت سَہْل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جب تک میری امت کے لوگ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے وہ اچھے حال میں رہیں گے (مسلم)
(9) تراویح :
رمضان المبارک کا مہینہ برکت کا مہینہ ہے اس ماہ کی راتوں میں بھی ایک خاص عبادت مقرر ہوئی ہے،
جسکو ہم تراویح کہتے ہیں؛
رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بعد بیس رکعت تراویح سنتِ مؤکدہ ہے،

: مسئلہ :
تراویح کی امامت کے لئے وہی شرائط ہیں جو عام نمازوں کی امامت کیلئے ہیں،
داڑھی منڈوانے یا کتروانے والے کو تراویح میں امام نہ بنایا جائے، اور اسی طرح معاوضہ لیکر تراویح پڑھانے والے کے پیچھے تراویح جائز نہیں۔
اس کے بجائے الم تركيف کے ساتھ پڑھ لینا بہتر ہے؛
(نوٹ)
داڑھی منڈے حافظ کی اقتدا میں تراویح پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے؛ (آپ کے مسائل اور انکا حل)
(11) اعتکاف :
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف سنتِ مؤکدہ علی الکفایہ ہے اگر بستی میں کوئی اعتکاف کو نہ بیٹھے تو سب کے ذمہ ترکِ سنت کا وبال رہے گا،
بیسویں رمضان کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں اعتکاف کی نیت سے داخل ہو جائے پھر عید کا چاند نکلنے پر مسجد سے باہر نکلے،
بلا ضرورت طبعی یا شرعی ضروریات کے خاطر تھوڑی دیر کیلئے بھی مسجد سے باہر چلا جائے تو اعتکاف فاسد ہو جائے گا خواہ عمداً نکلے یا بھول کر، اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہئے۔
(10) شب قدر :
رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اللہ تعالٰی نے ایک ایسی رات رکھی ہے جو ہزار مہینوں سے افضل ہے جسے ہم اور آپ شبِ قدر کے نام سے جانتے ہیں ہاں اس رات کے بارے میں باری تعالٰی نے خود قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا :
(لیلتہ القدرخیرمن الف شھر)
ترجمہ: یہ رات ہزار مہینوں سے افضل ہے :
اللہ تعالٰی نے ہمیں یہ نہیں بتایا کہ یہ کون سی رات میں ہوگی لیکن ہاں اتنا بتایا کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں آتی ہے یعنی اکیس تئیس پچیس ستائیس اور انتیسویں شب میں سے کسی ایک رات میں یہ شب قدر آتی ہے، جس شخص کو اس رات کو پانا ہے وہ ان پانچ راتوں میں جاگنے کا احتمام کریں، نفل نماز پڑھیں قرآن کی تلاوت کریں تسبیحات پڑھیں توبہ واستغفار کریں اور یہ دعا پڑھیں …
اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی :
اےاللہ! تو بےشک معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے بھی معاف فرمادے، (ترمذی، مشکاة)
اپنے لئے امتِ مسلمہ کیلئے اور اپنے ملک میں امن و امان کیلئےخاص طور سے دعائیں کریں۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ان سب باتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے ( آمین)

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں