مولانا حبیب الرحمن قاسمی کا انتقال ناقابلِ تلافی علمی و ملی نقصان: مولانا ارشد مدنی 

نئی دہلی: دارالعلوم دیوبند کے استاذ حدیث مولانا حبیب الرحمن قاسمی کے ارتحال پرملال پر اپنے گہرے رنج و صدمہ کا اظہارکرتے ہوئے صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا سید ارشد مدنی صدر المدرسین دارالعلوم دیوبندنے کہا کہ مولانا قاسمی کے انتقال سے علمی، ملی اور جماعتی دنیا میں جو خلا پیدا ہوا ہے اس کی تلافی مشکل ہے، مولانا حدیث، علم رجال اور تاریخ پر مہارت رکھتے تھے، اور ان کا مطالعہ بہت وسیع تھا، صاف گوئی، معاملہ فہمی اور دلائل کی پختگی ان کے خاص اوصاف تھے۔ دارالعلوم دیوبند کی نشاۃ ثانیہ میں ان کی تعلیمی خدمات سنہرے حروف میں لکھی جائے گی، انہوں نے تقریباً چالیس سال سے زائد سے دارالعلوم دیوبند میں استاذکی حیثیت سے اپنے فرائض منصبی بحسن و خوبی انجام دیئے، وہ دارالعلوم دیوبند کے ترجمان ماہنامہ دارالعلوم کے ایک طویل عرصہ تک ایڈیٹربھی رہے، اس درمیان انہوں نے کئی تاریخی، علمی، تحقیقی کتابیں تصینف کیں جو علمی حلقہ میں مقبول ہوئیں، مولانا نے بیت العلوم سرائے میر، دارالعلوم مؤسے موقوف علیہ تک کی کتابیں پڑھ کر 1963میں دارالعلوم دیوبندمیں دورہ حدیث میں داخلہ لیا، اور 1964 میں فارغ التحصیل ہوئے، فراغت کے بعد مدرسہ اسلامیہ منگرواں، شیراز ہند جونپور کی بڑی مسجد قرآنیہ، بنارس کے جامعہ اسلامیہ میں تعلیم دی اور پھر دارالعلوم دیوبند آگئے اور تشنگان علوم کی علمی پیاس بجھانے کا بیڑہ اٹھالیا، افسوس وہ آج ہم سے رخصت ہوگئے، اللہ ان کو اپنے جوار رحمت میں جگہ عنایت فرمائے اور بال بال مغفرت فرمائے۔ مولانا مدنی نے کہا کہ مولانا قاسمی ؒ ایک مدت سے جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ کے رکن رکین چلے آرہے تھے، میٹنگ کی کارروائیوں میں پوری دلچسپی لیتے اور مضبوط وٹھوس دلائل کے ساتھ اپنی بات رکھتے، مصلحت پسندی سے ان کی باتیں بہت دور ہوتی تھیں وہ ”زمانہ یا تو نہ ساز و تو با زمانہ ستیز “کے قائل نہیں تھے،میٹنگ کی اکثر وبیشترتجاویز انہی کے قلم کی مرہون منت ہیں۔ مولانا مدنی نے جماعتی احباب، ارباب مدارس اور دارالعلوم دیوبند کے منسلکین سے مولانا مرحوم کے لئے دعاء مغفرت اور زیادہ سے زیادہ ایصال ثواب اور پسماندگان، اعزا و اقارب کے لئے صبر جمیل کی دعاء کی درخواست کی ہے۔