نئی دہلی: آل انڈیا یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے قومی صدر و رکن پارلیمنٹ اور جمعیۃ علماء آسام کے صدر مولانا بدر الدین اجمل نے عالم اسلام کی عظیم شخصیت، دامادِ شیخ الاسلام ، امیر الہند، جمعیۃ علماء ہند کے قومی صدر،اوردار العلوم دیوبند کے استاذ حدیث و معاون مہتمم حضرت مولانا سید قاری محمد عثمان منصور پوری نور اللہ مر قدہ کی رحلت کی خبر پر اپنے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس خبر نے پورے عالم اسلام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے،اور ملت اسلامیہ سوگوار اور غم سے نڈھال ہے۔
مولانا اجمل نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ حضرت کی رحلت کی خبر سے دل و دماغ مغموم ہے اور آنکھیں اشکبار ہیں، ان کا یو ں جدا ہو جانا ملت اسلامیہ کے لئے ملی،دینی اورعلمی خسارہ ہے کیونکہ حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ اپنی ذات میں ایک انجمن تھے، وہ بیک وقت مختلف پلیٹ فارم سے قوم اور ملک و ملت کے لئے عظیم خدمات انجام دے رہے تھے۔ حضرت رحمہ اللہ کی ذات جامع و ہمہ گیر تھی،وہ ایک طرف علمی ،دینی و تربیتی کمالات سےمتصف ہوکر عالمی شہرت یافتہ مرکزِ علمی دار العلوم دیوبند کے مسندِ تدریس کو زینت بخش رہے تھے وہیں متنوع صفات سے لیس ہوکر ہندوستانی مسلمانوں کی قدیم و عظیم تنظیم جمعیۃ علماء ہند کے مسند صدارت پر فائز ہوکر اہالیان ہند کے سماجی، ملی، رفاہی اور معاشرتی مسائل کی گتھیاں سلجھا رہے تھے، نیز کل ہند امارت شرعیہ کے ذریعہ امیر الہند منتخب ہوکر ملکی پیمانہ پر متنوع دینی و دعوتی،علمی و فقہی امور میں رہنمائی و نگرانی کی خدمات بھی انجام دے رہے تھے۔ قاری صاحب رحمہ اللہ صلاحیت اور صالحیت نیز علم و عمل کا حسین مجموعہ تھے وہ ایک وجیہ و با وقار عالم دین، کہنہ مشق استاذ، بہترین منتظم،اور قوم و ملت کا درد رکھنے والے عظیم انسان تھے۔ اللہ نے انہیں جہاں علم و عمل سے نوازا تھا وہیں حسنِ اخلاق، نرم گفتاری، اور منکسر المزاجی ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ تھیں۔
مولانا اجمل نے مزید کہا کہ میرے لئے یہ صدمہ جانکاہ خصوصی طور پر باعث قلق و اضطراب ہے کہ جب سے حق جل مجدہ نے ( حضرت فدائے ملت، امیر الہند حضرت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مر قدہ کی تحریک پر) مجھے دار العلوم دیوبند کی مجلس شوری کی رکنیت سے سرفراز کیا اور مجھے دارالعلوم کے بہت سے شعبوں کے کاموں کی نگرانی اور اس کو فعال بنانے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تو جن حضرات کے ساتھ ان شعبوں کی انتظامی امور کی انجام دہی کا شرف حاصل ہوا ان میں سابق کار گزار مہہتم مولانا غلام رسول خاموش صاحب رحمہ اللہ ، موجودہ مہتمم حضرت مفتی ابو القاسم صاحب،سابق نائب مہتمم حضرت مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری رحمہ اللہ، موجودہ نائب مہتمم مولانا عبد الخالق مدراسی صاحب وغیرہ بطور خاص قابل ذکر ہیں۔ دار العلوم دیو بند کے کئی اہم شعبہ جیسےشعبہ دار الافتاء، شعبہ انگریزی، شیخ الہند اکیڈمی،تحفظ ختم نبوت،رد شیعت وغیرہ سے متعلق معاملات میں ان کے ساتھ ملکر بیٹھنے،ان شعبوں سے متعلق امور پر گفتگو کرنے اور فیصلہ لینے کا موقع ملتا رہا اور میں نے ہمیشہ پایا کہ وہ انتہائی زیرک اور معاملہ فہم انسان تھے۔،نیز علم ،خاندانی نسبت ،صلاحیت ،اور عمر میں فائق ہونے کے باوجود ہمیشہ شفقت و محبت اور کسرِ نفسی کا نمونہ ہی پیش کرتے،کبھی کسی بات کا غرور بلکہ اس کا شائبہ نظر نہ آتا، یہ ان کی خصوصیت تھی۔ اور یقینا ان حضرات کی برکت سے ہی دار العلوم دیوبند کے مذکورہ شعبوں سے بہت سے علمی اور تاریخی کام انجام پا سکے ہیں اور جس کا سلسلہ جاری ہے۔حضرت قاری صاحب یوں تو نرم مزاج اور نرم گفتار تھے مگر اسلام پر آنے والی آنچ کے خلاف وہ کسی بھی رعایت کے قائل نہ تھے چناچہ تحفظ ختم نبوت اور فتنہ ارتداد کی روک تھام کے لئے ان کی خدمات اس کی گواہی دیتی ہیں۔ یہ بات یہاں قابل ذکر ہے کہ جب دارالعلوم میں شعبہ انگریزی شروع کرنے کا ارادہ کیا گیا تو چونکہ یہ اپنی نوعیت کا نیا کام تھا اس لئے بہت سے لوگوں کو اس سلسلہ میں شرح صدر نہیں تھا مگر اس وقت جن لوگوں نے اسے سراہا،اس کی افادیت کو تسلیم کیا اور اس کے قیام کے لئے ہر ممکن تعاون و کوشش کی ان میں قاری عثمان صاحب رحمہ اللہ بھی سر فہرست تھے۔
مولانا اجمل نے کہا کہ حضرت فدائے ملت مولانا سید اسعد مدنی نور اللہ مرقدہ کے بعد بہت سے امور میں حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کی رہنمائی نے میرے حوصلوں کو مہمیز کیا۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر کے عہدہ پر رہتے ہوئے ان کی نگرانی میں جمعیۃ علماء نے بہت سے تاریخی ملی کاموں کو انجام دیا ہے جس میں دہشت گردی مخالف تحریک، فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کی تحریک اور مسلم مخالف ماحول کی کدورت کو ختم کرنے کی کوشش قابل ذکر ہیں ۔حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ جمعیۃ علماء آسام کے ذریعہ مسلمانوں کی فلاح و بہبود نیز ان کی شہریت کے تحفظ کے لئے کی جانے والی کوشش کو بہت سراہتے تھے، اور این آ رسی سے متعلق ہونے والے واقعات اور اس کے لئے کی جانے والی کوششوں سے بالخصوص واقفیت حاصل کرتے رہتے تھے، نیز جمعیۃ علماء آسام کے پروگراموں میں شرکت کے لئے وہاں تشریف بھی لاتے تھے۔اسلئے حضرت کی رحلت سے ہم سب نے اپنے ایک مربی و محسن کو کھو دیا ہے،ان کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا ہے اس کا پُر ہونا بظاہر مشکل محسوس ہوتا ہے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
غم و اندوہ کی اس گھڑی میں ہم خصوصی طور پر حضرت قاری صاحب رحمہ اللہ کے با کمال صاحبزادگان حضرت مولانا مفتی سید سلمان منصور پوری، مولانا مفتی سید عفان منصور پوری اور جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی دامت برکاتھم نیز جمیع خانوادہ مدنی و محبین جمعیۃ علماء ہند، اور منتسبین دارالعلوم دیوبند کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش کرتے ہیں۔
اور اللہ سے دعاء کرتے ہیں کہ وہ انہیں غریق رحمت کرے،ان کی لغزشوں کو معاف کرکے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا کرے ،اور پوری امت کو بالعموم اور دار العلوم دیوبند اور جمعیۃ علماء ہند کو با الخصوص ان کا نعم البدل عطا کرے ۔آمین۔






