غیر مسلموں سے نکاح اور اس کا حل!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
رشتۂ ازدواج میں دوام اور استحکام کے لئے فکری ہم آہنگی ضروری ہے ؛ اسی لئے اسلام نے نکاح کے رشتہ میں مذہبی تعلق کو خصوصی اہمیت دی ہے ، چنانچہ اس بات کی اجازت نہیں دی گئی کہ کوئی مسلمان عورت کسی غیر مسلم مرد کے نکاح میں جائے ، خواہ وہ مشرک ہو ، یہودی ہو یا عیسائی : وَلاَ تُنْکِحُوْا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا ( البقرۃ : ۲۲۱ ) غیر مسلم عورت سے کوئی مسلمان نکاح کرسکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلے میں غیر مسلموں کے دو درجات کئے گئے ہیں ، یہودی اور عیسائی عورتوں سے نکاح کی گنجائش ہے ؛ بشرطیکہ وہ واقعی یہودی یا عیسائی ہوں ، یعنی اﷲ تعالیٰ کے وجود پر ، آخرت کی جزاء و سزا پر اور وحی کے نظام پر ان کا ایمان ہو ؛ اگرچہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی قائل نہ ہوں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتی ہوں ، جیساکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے یہود ونصاریٰ تھے ، ان کو ’’ کتابی ‘‘ کہا جاتا ہے ، مسلم ملک میں تو کتابی عورتوں سے نکاح کرنا معمولی کراہت کے ساتھ درست ہے ؛ لیکن غیر مسلم ممالک میں کتابیہ عورت سے نکاح کرنے میں زیادہ کراہت ہے ، فقہاء نے اس کی صراحت کی ہے — یہودی و عیسائی مرد و عورت میں فرق اس لئے کیا گیا ہے کہ مرد اپنی بیوی اور اولاد پر زیادہ اثر انداز ہوسکتا ہے ، اور مسلم اور غیر مسلم ملک میں یہ فرق ہے کہ مسلم سماج کا مذہبی ماحول مرد کو دین پر ثابت قدم رکھے گا اور عورت کے اسلام کی طرف آنے میں معاون ہوگا ، غیر مسلم سماج میں صورتِ حال اس کے بالکل برعکس ہوگی ۔
دوسرا درجہ یہودیوں اور عیسائیوں کے علاوہ دوسرے مشرکین اور غیر مسلموں کا ہے ، جس میں ہندو ، سکھ ، بودھ اور جین وغیرہ شامل ہیں ، ان کی عورتوں سے بھی نکاح کرنا حرام ہے : وَلاَ تُنْکِحُوا لْمُشْرِکَاتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ ( البقرۃ : ۲۲۱) غرض کہ مسلمان لڑکی کا نکاح تو کسی بھی غیر مسلم سے نہیں ہوسکتا ہے ؛ البتہ مسلمان لڑکے کا نکاح یہودی یا عیسائی لڑکی سے ہوسکتا ہے ؛ بشرطیکہ وہ واقعی یہودی یا عیسائی ہو اور بچوں کے ان سے مذہبی اعتبار سے متاثر ہونے کا اندیشہ نہیں ہو ۔
نکاح میں مذہبی افکار سے وابستگی کو اہمیت دینا تعصب اور تنگ نظری نہیں ہے ؛ بلکہ حقیقت پسندی اور مقاصد نکاح کی حفاظت اور ان کے استحکام کی کوشش ہے ؛ کیوںکہ ایک ہی گھر میں زوجین میں سے ایک سمجھتا ہوکہ خدا ایک ہے ، اس کی پیشانی خدا کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھک سکتی ، دنیا کی تمام مخلوقات اس کی خادم ہیں ، نہ کہ اس کی معبود ، دوسری طرف اسی گھر میں مورتی کی پوجا بھی ہورہی ہو ، ایک فریق اپنی اولاد کو مسجد بھیجنے کی ترغیب دے رہا ہو اور دوسرے فریق کی طرف سے اس کو مندر میں جانے کی دعوت دی جارہی ہو ، تو کس طرح آپس میں ہم آہنگی اور محبت کی فضا قائم ہوسکتی ہے اور کیوں کر باہمی تصادم ، ٹکراؤ اور بے اعتمادی کو روکا جاسکتا ہے؟ اور ماں باپ کی اس کشاکش کے درمیان بچے جس ذہنی تناؤ میں رہیں گے اور ان کی تعلیم و تربیت پر اس کا جو اثر پڑے گا ، وہ بھی ظاہر ہے ، چنانچہ یہ بات دیکھی گئی ہے کہ بعض دفعہ وقتی جذبات کے تحت دو مختلف مذاہب کے ماننے والے لڑکے اور لڑکی نکاح کرلیتے ہیں ؛ لیکن یا تو ایک فریق دوسرے فریق کے مذہب کو قبول کرلیتا ہے اور رشتہ قائم رہتا ہے ، یا پھر آپسی تناؤ اتنا بڑھ جاتاہے کہ تشدد اور طلاق پر رشتہ ختم ہوتا ہے اور اس وقت بچے باپ کی نگہداشت یا ماں کی محبت میں سے کسی ایک چیز سے محروم ہوجاتے ہیں ۔
ہندوستان کے ماحول میں اس کے ساتھ ایک اور صورتِ حال یہ پیدا ہوتی ہے کہ یہاں کا سماج بین مذہبی شادی کو قبول نہیں کرتا ہے ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریق اپنے خاندان سے کٹ جاتے ہیں اور آئندہ پیدا ہونے والے بچے بھی اپنے دادیہال اور نانیہال سے محروم رہتے ہیں ؛ حالاں کہ انسان کے لئے خاندان کی بڑی اہمیت ہے ، وہ خاندان کے سہارے کے بغیر ایک پُرسکون زندگی گذارنہیں سکتا اور اس کے بغیر اس کی زندگی میں ایک ایسا خلاء اور تنہائی کا احساس پیدا ہوجاتا ہے ، جو اس کے لئے سوہانِ روح بنا رہتا ہے اور بچے ہمیشہ احساسِ محرومی کا شکار رہتے ہیں ، یہاں تک کہ بعض اوقات اگر پورا خاندان موجود ہو ؛ لیکن صرف بھائی بہن نہ ہوں ، تب بھی انسان اپنے آپ میں کمی محسوس کرتا ہے ؛ چہ جائیکہ پورا خاندان موجود ہو اور آدمی اس کی محبت اور توجہ سے محروم رہے ، پھر ایک مسئلہ آئندہ ان بچوں کے شادی بیاہ کا بھی ہوجاتا ہے ؛ کیوں کہ عام طورپر جب کسی خاندان میں بین مذہبی شادی کا واقعہ پیش آتا ہے ، تو ان کے بچوں کی شادی دشوار ہوجاتی ہے ؛ بلکہ ان کے بھائی بہن سے بھی لوگ شادی کے روادار نہیں ہوتے اور مستقبل میں ان کو بڑی مشکلات سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔
کچھ عرصہ پہلے مسلمانوں کے غیر مسلموں سے نکاح کے واقعات شاذ و نادر ہی پیش آتے تھے ، پھر اس میں اضافہ ہونے لگا ؛ لیکن زیادہ تر واقعات مسلمان لڑکوں کے غیر مسلم لڑکیوں سے نکاح کے پیش آتے تھے ، اکثر اس طرح کی شادی دامِ محبت میں پھنس کر یا پھنساکر ہوا کرتی تھی اور عام طور پر لڑکیاں یا تو نکاح سے پہلے ہی مسلمان ہوجاتی تھیں یا بعد میں اسلام لے آتی تھیں ، پھر تجدید نکاح کردیا جاتا تھا اور بتدریج وہ مسلم سماج کا حصہ بن جاتی تھیں ، بعض ایسی نو مسلم لڑکیاں بھی ہیں ، جو اپنے سسرالی خاندان میں دوسروں کے مقابلہ زیادہ بہتر ثابت ہوئیں ؛ کیوں کہ اپنے والدین سے کٹ جانے اور اپنے خاندان سے ٹوٹ جانے کے بعد انھوں نے اپنے سسرال ہی کو اپنا خاندان تصور کیا اور ساس سسر کو ماں باپ کی حیثیت دی ؛ لیکن اب نئی صورتِ حال یہ پیدا ہورہی ہے کہ مسلمان لڑکیاں غیر مسلموں سے نکاح کی طرف مائل ہورہی ہیں ، جو ایک زمانہ میں ناقابل تصور بات تھی ، اس سلسلہ میں بہت سے واقعات اخبارات کی زینت بھی بن چکے ہیں ، مسلمانوں کے لئے یہ صورتِ حال نہایت قابل توجہ ، افسوسناک ؛ بلکہ شرمناک ہے اور ضروری ہے کہ ہم اس کے اسباب اور اس کے تدارک کی تدابیر پر غور کریں ۔
جہاں تک میں نے غور کیا ، اس سلسلے میں تین باتیں خصوصی اہمیت کی حامل ہیں : اول بچوں کی تربیت کی طرف سے غفلت ، دوسرے مخلوط تعلیم ، تیسرے شادیوں میں بڑھتے ہوئے اخراجات — آج کل والدین کسب ِمعاش میں اس قدر مشغول ہوگئے ہیں کہ ان کے پاس اپنے بچوں کے لئے کوئی وقت نہیں ہے ، نہ وہ خود اپنے بچوں کی دینی و اخلاقی تربیت کرتے ہیں اور نہ کسی اور کے ذریعے اس کا اہتمام کراتے ہیں ، لڑکے اور لڑکیاں گھر سے باہر نکلنے کے بعد کہاں وقت گذارتے ہیں ، کالجوں ، اسکولوں میں یا پارکوں ، ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں میں ؟ اس پر ان کی نظر نہیں ہوتی ، اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بعض لڑکے اور لڑکیاں اپنے گھر والوں کو بے خبر رکھ کر اپنے وقت کا بے جا اور ناروا استعمال کرتے ہیں ، اسی طرح موبائل فون اور انٹر نیٹ کا غلط استعمال بھی بہت بڑا فتنہ ہے ، والدین کو چاہئے کہ لڑکوں اور خاص کر لڑکیوں کو موبائل دینے سے گریز کریں اور اگر بہ تقاضۂ ضرورت موبائل دیں ، تب بھی آنے والے فون نمبرات اور پیغامات کو چیک کرتے رہیں ، اسی طرح تنہائی میں انٹرنیٹ دیکھنے سے منع کریں اور وقتاً فوقتاً چیک بھی کرتے رہیں کہ بچے کن پروگراموں سے استفادہ کررہے ہیں اور نیٹ کے ذریعے کن لوگوں سے اور کیا مراسلت کرتے ہیں ؟ ان چیزوں سے بے توجہی اور اس کے ساتھ ساتھ گھریلو تربیت کا فقدان بچوں کو غلط راستہ پر ڈال دیتا ہے ۔
مخلوط تعلیم کا مسئلہ بھی بڑا اہم ہے ، یہ ناروا تعلقات کے لئے بڑا اہم رول ادا کرتا ہے ، اس لئے کوشش کرنی چاہئے کہ بچوں کو ایسے اسکول میں داخل کیا جائے ، جہاں لڑکے اور لڑکیوں کے لئے تعلیم کا جدا گانہ نظم ہے اور اسکول کی انتظامیہ سے اس کا مطالبہ بھی کرنا چاہئے ، اگر پورا مسلم سماج طے کرلے کہ ہم اپنے بچوں کو مخلوط تعلیم سے بچائیں گے ، تو اسکولوں اور کالجوں کی انتظامیہ بھی مجبور ہوگی کہ وہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لئے علاحدہ بلڈنگوں اور علاحدہ کلاس روم کا انتظام کرے ، افسوس کہ مسلم انتظامیہ بھی اس کا انتظام نہیں کرتی ؛ بلکہ ’ مخلوط تعلیم ‘کا اشتہار میں خاص طور پر ذکر کیا جاتا ہے ، گویا یہ بھی کوئی قابل فخر چیز ہو اورقابل ترجیح اُمور میں داخل ہو ، کم سے کم مسلمان انتظامیہ کو تو اس کو ملحوظ رکھنا چاہئے ، اعلیٰ تعلیمی اداروں میں جب تک یہ ممکن نہ ہو ، تب تک ایسا تو کیا جاسکتا ہے کہ لڑکوں اور لڑکیوں کی نشستیں الگ الگ ہوں اور درمیان میں پانچ چھ فٹ اونچی لکڑی کی دیوار رکھی جائے ؛ تاکہ جس حد تک احتیاط ممکن ہو ، اس کو برتا جائے ، مخلوط نظامِ تعلیم نہ صرف اخلاق کے لئے نقصاندہ ہے ؛ بلکہ تعلیمی نقطۂ نظر سے بھی مفید نہیں ، اس سے لڑکوں کی توجہ بٹتی ہے اور لڑکیاں سبق کے دوران مسلسل پریشر میں رہتی ہیں اور عدم تحفظ کے احساس سے دوچار رہتی ہیں ؛ اس لئے مسلمانوں کو اپنے زیر انتظام اداروں میں غیر مخلوط تعلیم کا نظم کرنا چاہئے اور غیر مسلم بھائیوں سے بھی اس کی خواہش کرنی چاہئے ، چنانچہ بعض ادارے ایسے موجود ہیں ، جو غیر مسلموں کے زیر انتظام ہیں ؛ لیکن انھوں نے طلبہ و طالبات کے لئے الگ الگ بلڈنگیں رکھی ہیں ، اگر اس سلسلے میں کوششیں کی جائیں تو انشاء اللہ اس کا مثبت اثر پڑے گا ؛ کیوں کہ لڑکیوں میں تعلیمی رجحان کے اضافہ کی وجہ سے اب طالبات کی بھی اتنی زیادہ تعداد ہوتی ہے کہ ان کے لئے جداگانہ نظم مالی اعتبار سے بھی اسکولوں کے لئے نقصاندہ نہیں ۔
سب سے بڑا مسئلہ شادی میں بڑھتے ہوئے اسراف اور فضول خرچی کا ہے ، افسوس کہ اس حمام میں سب بے لباس ہیں ، سوائے ان کے ، جن کو اللہ تعالیٰ کی توفیقِ خاص حاصل ہو ، یہاں تک کہ مذہبی قائدین کے یہاں ہونے والی شادیاں بھی پرانے نوابوں اور رئیسوں کی یاد دلاتی ہیں ، نتیجہ یہ ہے کہ لوگوں کی سوچ کا انداز ہی بدل گیا ہے ، فضول خرچ اور ظاہری تزک و احتشام کا اہتمام کرنے والوں کو سماج میں حقیر اور کم تر نہیں سمجھا جاتا ؛ بلکہ ان کو عزت دی جاتی ہے اور تو اور ، علماء اور مشائخ کا بھی حال یہ ہے کہ اگر ان کا کوئی غریب نیاز مند ان کو مدعو کرے یا ان کا غریب پڑوسی بلائے ، تب تو وہ بمشکل ہی تقریب میں شریک ہوں گے ؛ لیکن اگر شہر کے کسی بھی کونے کا کوئی صاحب ِثروت شخص یا زور زبردستی سے پیسے حاصل کرنے والا پہلوان اور لینڈگرابر اپنے یہاں مدعو کرے ، تو سر کے بل چل کر جائیں گے ، اس طرز عمل نے لوگوں کی سوچ ہی کو بدل ڈالا ہے اور لوگ اب اس غیر اسلامی رویہ کو شان و آن اور عزت و افتخار کی بات سمجھنے لگے ہیں ، ولا حول ولا قوۃ إلا باﷲ ، اس فضول خرچی کا نتیجہ یہ ہے کہ لڑکیوں کی عمر تیس پینتیس سال کی ہوجاتی ہے اور شادی کی نوبت نہیں آتی ، والدین کی کروٹیں بے سکون اور ان کی آنکھیں نیند سے محروم ہوجاتی ہیں ، یہاں تک کہ ان حالات میں لڑکیاں غلط قدم اُٹھانے پر تُل جاتی ہیں ، ایسی صورت ِ حال کی وجہ سے جو لڑکیاں غلط راستہ پر پڑجائیں ، پورا سماج ان کے گناہ میں شریک ہے اور سبھوں کی عند اللہ جواب دہی ہے ۔
اس لئے پوری سنجیدگی کے ساتھ مسلمان تعلیمی اداروں ، سماجی اور مذہبی تنظیموں ، علماء و مشائخ ، مذہبی و سیاسی قائدین ، اُردو اخبارات و رسائل اور دینی تحریکوں اور جماعتوں کو اس مسئلہ پر غور کرنے ، مہم چلانے اور فکر و شعور پیدا کرنے کی ضرورت ہے ، ورنہ یہ بیماری بڑھتی ہی جائے گی اور جب بیماریاں ایک حد سے تجاوز کرجاتی ہیں تو ان کا علاج ممکن نہیں رہتا ۔

SHARE
جناب ظفر صدیقی ملت ٹائمز اردو کے ایڈیٹر اور ملت ٹائمز گروپ کے بانی رکن ہیں