اتحاد امت کی کوششیں ، اعتراضات اور ہماری ذمہ داریاں

شمس تبریز قاسمی
امت مسلمہ کو متحد رکھنے کی ہمیشہ کوششیں ہوئی ہیں ، آج بھی ہوئیں اور آئندہ بھی ہوتی رہیں گی ۔ اتحاد کو انتشار میں تبدیل کرنے اور امت مسلمہ کو متحد رہنے سے دورکھنے کی بھی ہردور میں جدوجہد ہوئی ہے اور ہوتی رہیں گی ۔ کچھ لوگ قوم کا اتحاد چاہتے ہیں اور کچھ لوگ انتشار چاہتے ہیں ۔ حالیہ دنوں میں بھی یہی ہورہاہے ۔ ملت کی کچھ شخصیات نے قوم کو متحد کرنے کی کوشش کی ۔ ایک فارمولہ تیار کیا اور طے کیاکہ یہ کچھ نکات ہیں جس پر عمل کرکے ہم مسلمان آپس میں متحد رہ سکتے ہیں ۔ یہ کوشش کچھ لوگوں کو برداشت نہیں ہورہی ہے ۔ سوشل میڈیا پر تنقید کے ماہرین سمجھنے والے سب سے زیادہ پریشان ہیں ۔ ان کا احساس ہے کہ قوم کو متحد رکھنے کی کوشش نہیں ہونی چاہیئے ۔ اتحاد ملت کانفرنس کی کوئی ضرروت نہیں ہے ۔ اتحاد اتفاق کے قیام کیلئے تحریک چلانا اور عملی کوششیں کرنا وقت کا ضیاع ہے ۔ خاص طور پر گذشتہ 8اگست 2021 کو دہلی میں اتحاد ملت کے عنوان سے ہونی والی کانفرنس پر تنقید کی جارہی ہے ۔ کسی کا اعتراض یہ ہے کہ کانفرنس کی اطلاع اخبارات میں پہلے کیوں نہیں دی گئی ۔ کسی کے اعتراض کا خلاصہ یہ ہے کہ اخبارات میں اشتہار دیکر تشہیر کیوں نہیں ہوئی ۔ کسی کا اعتراض ہے کہ میڈیا سے کیوں دور رکھاگیا ۔ کسی کا اعتراض ہے کہ بغیر میڈیا کے خاموشی کے ساتھ ملی قائدین کو میٹنگ کرنے کا حق کس نے فراہم کیا ہے ۔ کسی کا یہ بھی اعتراض ہے کہ سوشل میڈیا پر سب سے زیادہ سرگرم ہم ہیں لہذا ہماری جانکاری میں لائے بغیر کیسے خاموشی کے ساتھ اتنی بڑی کانفرنس منعقد کردی گئی جس میں ملت کی تقریباً سبھی سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اور صرف شرکت نہیں کی بلکہ داعی اجلاس کی ذمہ داری نبھائی اور ایک ساتھ تمام، مسلک، تنظیم اور طبقات کے لوگوں نے میٹنگ کی ۔ اس طرح کا اعتراض وہی لوگ کررہے ہیں جو کبھی اس بات پر اعتراض اور تنقید کرتے ہیں کہ ملت کے قائدین آپس میں ایک ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے ہیں ۔ مختلف مسلک ، تنظیم اور اور طبقات سے تعلق رکھنے والے ایک ساتھ اسٹیج شیئر کیوں نہیں کرتے ہیں ۔ کبھی ان کا اعتراض ہوتاہے کہ اخبارات میں ملی قائدین اشتہار کیوں چھپواتے ہیں ۔ اپنے کاموں کی تشہیر کیوں کرتے ہیں ۔ کوئی بھی میٹنگ خفیہ کیوں نہیں رکھتے ہیں ۔ مثال دیکر تنقید کی جاتی ہے کہ آر ایس ایس کی بڑی بڑی کانفرنس ہوجاتی ہے اور کسی کو کانوں کان پتہ نہیں چلتاہے ۔ میڈیا میں کوئی خبرلیک نہیں ہوتی ہے لیکن مسلمان کام کم اور تشہیر زیادہ کرتے ہیں ۔ ضرورت کی جگہوں پر خرچ کرنے کے بجائے پریس کانفرنس میں روپیہ بربادکرتے ہیں ۔ صحافیوں کو ظہرانہ اور عشائیہ کرانے پر توجہ مبذول رکھتے ہیں ۔کوئی بھی کام یہ خاموشی کے ساتھ کیوں نہیں کرتے ہیں ۔ یہ سارے اعتراضات ایک ہی طرح کی ذہنیت کے لوگ کرتے ہیں ۔
میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ آخر یہ لوگ چاہتے کیا ہیں ۔ کبھی میڈیا کا سہارالینے پر تنقید کرتے ہیں اورجب میڈیا سے دوررہنے کی کوشش ہوتی ہے تو اس پر بھی ہنگامہ برپا کیا جاتاہے کہ میڈیا سے دوری کیوں بنائی گئی ۔اتحاد کی کوششیں نہ ہونے پر ہنگامہ برپا ہوتاہے اور جب کوششیں ہوتی ہے تو اس پر بھی سکون ملنے کے بجائے بے چینی طاری ہوجاتی ہے کہ یہ کیوں ہوا ۔مختلف مسلک اور تنظیم کی شخصیات ایک ساتھ جمع نہیں ہوتی ہیں تو انہیں تنقید کا نشانہ بنایاجاتاہے اور جب جمع ہوگئی ہیں تب بھی پیٹ میں درد ہونے لگاہے ۔ ایسی ذہنیت رکھنے والے لوگ چاہتے ہیں کیا ہیں ۔ ان کی منشاء کیا ہے ۔ ان کی سوچ کیا ہے ۔ یہ سمجھنا مشکل ہورہاہے ۔ اگر آپ کے پاس اس کا کوئی جواب ہے کمنٹ میں ضرور تحریر کیجئے ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تنقید کی آر میں تنقیص کے یہ ماہرین کبھی کوئی سجھاﺅ بھی نہیں دیتے ہیں ، کوئی حکمت عملی بھی نہیں بناتے ہیں اور نہ ہی کبھی خود میدان میں آکر عملی مظاہر ہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔سچائی یہ ہے کہ ایسی ذہنیت کے حامل افراد قوم کیلئے ناسور ثابت ہوتے ہیں ۔ وہ قوموں کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں، ملت کیلئے ان کی سوچ تباہی اور بربادی کا باعث بنتی ہے ۔ تاریخ ایسے فتنہ پرور ذہنیت کے لوگوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے صرف مخالفت کی ، تنقید کی اور خاموشی کے ساتھ اغیار کے ایجنڈے کو تقویت پہونچانے کا کام کیا ۔ ہلاکو خان نے پور ی فوج اور مکمل تیاری کے ساتھ بغداد شہر کا محاصرہ کر رکھا تھا اوران کے ایجنٹ معتصم باللہ سے کہہ رہے تھے کہ شہر سے باہر نکل کر جنگ لڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، ہلاکوخان کی فوج کے پاس نہ ہتھیار ہے اور نہ اتنی طاقت کہ وہ بغداد میں داخل ہوسکے ۔ یقین کیجیے جیسے ہی ہلاکوخان کی فوج شہر میں داخل ہوگی ہمارے سپاہی ان پر قیامت بن کر ٹوٹ پڑیں گے ۔
اگر آپ امت کے مفاد میں کوئی پروگرام ترتیب نہیں دے سکتے ہیں ۔ ملت کے مفاد میں کوئی منصوبہ بنانے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔ تو کم از کم جولوگ کام کررہے ہیں ۔ ملت کے فلاح وبہبود کیلئے سرگرم عمل ہیں ان کا ساتھ دیجئے ، ان کا تعاون کیجئے ، اگر آپ تعاون کرنے سے مجبور ہیں تو کم ازکم خاموش رہیے ۔ اگر آپ کو لگتاہے کہ جو کام کیا جارہاہے وہ ملت کیلئے مضر ہے ، اس سے امت کا نقصان ہورہاہے تو پھر صرف اس کے نقصانات گنوانے کے ساتھ اس کا حل بھی پیش کیجئے ۔ کوئی تجویز سامنے رکھیے اور اسے عملی جامہ پہنائیے ۔ قیادت پیدائشی تحفہ نہیں ہے بلکہ جدوجہد کے بعد ملتی ہے ، اگر آپ میں ہمت ہے ، حوصلہ ہے، قومی کے تئیں فکرمندی ہے تو آگے بڑھیے ، امت کی قیادت کیجئے ، ملت کو بحران سے نکالیے خود بخو د قوم آپ کو اپنا رہنما تسلیم کرلے گی ، آپ کو قائد منتخب کرلے گی لیکن پہلے سے موجود قائدین کی صرف تنقید اور تنقیص ملت کے درد کا مداوا ثابت نہیں ہوسکتی ہے ۔ ملت کے مسائل کا حل اس سے نہیں نکل سکتاہے ۔
2015 کی بات ہے ۔ ان دنوں میں نیوز ایجنسی آئی این ایس میں بطور ڈپٹی ایڈیٹر کام کررہاتھا ۔ ایک صاحب میرے ایک قریبی دوست کے حوالے سے مجھ سے ملنے آئے، وہ امریکی سفارت خانہ کے کسی پروجیکٹ پر مامور تھے ۔ بات چیت کے دوران انہوں نے ملت کے تئیں اپنی ہمدردی دکھائی، کچھ میری بھی تعریف کی اور اس کے بعد جمعیت علماء ہند کی برائی بیان کرنے لگے ، ہندوستانی مسلمانوں کی تباہی ، رسوائی اور پریشانی کا ذمہ دار ایک جملہ میں انہوں نے جمعیت علماء ہند کو قرار دے دیا ۔ میں نے کہاکہ آپ کی ساری باتیں اپنی جگہ لیکن آپ یہ بتائیں کہ آپ کا مقصد کیا ہے ، آپ چاہتے کیا ہیں ، وہ کہنے لگے جمعیت جیسی تنظی کے اثر و رسوخ کا خاتمہ ضروری ہے تبھی ملت کے مسائل حل ہوں گے ۔ میں نے کہاکہ جمعیت کا اثر کم ہونے سے ہمارے مسائل کیسے کم ہوں گے آپ یہ سمجھائیں مجھے ۔ یہ سننے کے بعد وہ دائیں بائیں دیکھنے لگے ۔ میں نے برجستہ ان سے کہاکہ اگر واقعی آپ کو لگتاہے کہ جمیعت مسلمانوں کی قیادت کرنے میں ناکام ثابت ہوچکی ہے ۔ مسلمانوں کا اعتبار کھوچکی ہے تو آپ خود میدان میں آئیں ، کام کریں ، قوم کی قیادت کریں ، مسلمانوں کے ایشوز پر توجہ دیں یہ قوم آپ کو قائد تسلیم کرے گی ، لیڈر شپ آپ کے ہاتھوں میں ہوگی اور آپ کے کام کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے ، کوئی روک نہیں ہے ۔ قوم وملت کے افراد کو لگے گا ان کیلئے آپ کام کررہے ہیں تو آپ کے ساتھ ہوجائیں گے ، آپ کے جلسوں میں تشریف لائیں گے ، سیاسی جماعتوں کے لیڈرس آپ سے ملاقات کریں گے کیوں کہ انہیں لگے گا عوام ان کے ساتھ ہے لیکن اگر آپ کے پاس کوئی منصوبہ نہیں ہے ، قوم کی خدمت کیلئے آپ کے پاس کوئی جذبہ نہیں ہے ، آپ صرف پہلے سے موجود جماعتوں کاخاتمہ چاہتے ہیں ،مسلمانوں کو ان سے دور کرنا چاہتے ہیں تو سنگین تباہی اور بربادی ہے کیوں کہ معمولی سی مسلمانوں کی جو قیادت بچی ہے وہ بھی منہدم ہوجائے گی اور پھر اپنی بربادی کا رونا رونے کے علاوہ کوئی چار ہ نہیں ہوگا ۔ سقوط غرنا طہ سے قبل ابو عبد اللہ کا اندازہ تھا کہ شاہ فرڈینند اور ملکہ آئزابیلا کے ہاتھوں میں قلعة الحمراء کی کنجی سونپ دینے کے بعد مسلمانوں کو عزت کے ساتھ اندلس میں رہنے دیا جائے گا لیکن پل جھپکتے ہی مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا ، جو بچ گئے انہیں جلا وطن کیاگیا یا پھر عیسائی مذہب اختیار کرنے پر مجبور کیاگیا ۔
میری سوچ صرف اتنی ہے کہ اگر کسی کو کسی کے کام پر بھروسہ نہیں ہے ۔ کسی کو لگتاہے کہ قائدین کا فیصلہ امت کے خلاف ہے۔ ملت کیلئے نقصان کا سبب بن رہاہے تو انہیں خود آگے بڑھ کر یہ ذمہ داری نبھانی چاہیئے اور عملی طور پر یہ ثابت کردینا چاہیئے کہ یہ طریقہ کار ہے جس سے امت کا بھلا ہوگا ۔ اور جب ایسا ہوتاہے تو خود بخود قائدین کو اپنی غلطی کا احساس ہوجاتا ہے ۔ اس کی تازہ مثال سی اے اے ، این آر سی پروٹیسٹ ہے ۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں سے جب شہریت ترمیمی بل پاس ہوگیا ۔ سرکار نے پورے ملک میں این آرسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تو پورے ملک میں سناٹا ، مسلمانوں میں مایوسی اور بے چینی تھی ، کسی کو سمجھ میں نہیں آرہاتھا کہ کیا کریں ، کیسے مقابلہ کریں۔ اس دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اسٹوڈینٹ نے مورچہ سنبھال لیا ، انہوں نے سی اے اے کے خلاف لڑائی لڑنے کا فیصلہ کیا ۔ قائدین کو کوسنے ، انہیں گالیاں دینے اور تنقید کرنے کے بجائے عملی طور پر میدان میں آگئے اور ایک ایسی تحریک کی شروعات کی جو آزاد ہندوستان کیلئے ایک مثال بن گئی ہے۔ ان اسٹوڈینٹ پر جب حملہ ہوا اورتحریک کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو خواتین نے آگے بڑھ کر مورچہ سنبھال لیا اور شاہین باغ تحریک کے نام سے ہندوستان میں ایک نئے انقلاب کا آغاز ہوا ۔ خواتین نے مردو کو چوریاں بھیجنے کا کام نہیں کیا ،مردوں کو گالیاں نہیں دی ، کوسنا شروع نہیں کیا بلکہ عملی مظاہرہ کیا ۔
بات آئی ہے عملی اقدام کی تو ایک اور مثال لے لیجئے اور یہ مثال خود میری ہے ۔ مسلمانوں کو ہمیشہ میڈیا سے شکایت ہوتی ہے ، اس بات کا بھی شکوہ ہوتا ہے کہ مسلمانوں کے پاس اپنا کوئی میڈیا ہاؤس نہیں ہے ۔ جب کبھی کسی معاملے میں مسلمانوں کا میڈیا ٹرائل ہوتاہے تواس کی ضرورت واہمیت پر بحث زور پکڑ لیتی ہے اورچند دنوں بعد پھر خاموشی طاری ہوجاتی ہے ۔2016 میں مجھے بھی احساس ہوا کہ ہمارا کوئی اپنا میڈیا ہاؤس ہونا چاہیئے لیکن اس احساس کے بعد ہم نے تنقیدی تحریر نہیں لکھی ، میڈیا کی ضرورت پر لیکچر نہیں دیا ، مسلم قائدین اور ملی تنظیموں کو ہم نے کوسنا شروع نہیں کیا کہ انہوں نے اپنا ایک چھوٹا سا میڈیا ہاؤس تک بھی نہیں بنایا ہے ، ان کے پاس کوئی اخبار تک نہیں ہے ، ٹی وی چینل تو بہت دور کی بات ہے بلکہ ہم نے عملی سطح پر اس کام کو انجام دینے کا فیصلہ کیا۔ سائبر میڈیا کے آنے والے عہد کو دیکھتے ہوئے اردو میں ایک ویب سائٹ سے سفر کا آغاز کیا ۔ ایک سال بعد ملت ٹائمز کا انگریزی نیوز پورٹل شروع ہوا ، ایپ لانچ ہوگیا ۔ ملت ٹائمز ہندی کی بھی شروعات ہوگئی ۔ 2019 کے شروع میں ملت ٹائمز گروپ نے یوٹیوب پرکام کرنا شروع کردیا ۔ ملت ٹائمز اب بنگلہ زبان میں بھی بہت جلد شروع ہونے والا ہے ۔ آج کی تاریخ میں سوشل میڈیا کے سبھی پلیٹ فارمز پر الحمد للہ ملت ٹائمز کے ناظرین اور قارئین کی ماہانہ تعداد 50 ملین سے زیادہ ہے ۔ ملت ٹائمز میں پندرہ لوگ باضابطہ کام کررہے ہیں ۔ ملک بھر میں پچاس سے زیادہ نمائندہ ہیں جور رضاکارانہ طور پر ملت ٹائمز کیلئے خدمات انجام دیتے ہیں ۔ دو لاکھ سے زیادہ ملت ٹائمز کا ماہانہ خرچ ہے، آفس ، سفر اور دوسرے اخراجات اس کے علاوہ ہیں ۔ ملت ٹائمز کو حکومت کی جانب سے کوئی اشتہار اور فنڈ نہیں ملتا ہے ۔ پرائیوٹ کمپنیوں کا بھی ملت ٹائمز پر کوئی اشتہار شائع نہیں ہوتا ہے ۔ ملک کی ملی اور سما جی تنظیموں کا اشتہار بھی ملت ٹائمز کو نہیں دیا جاتا ہے ۔ یوٹیوب اور گل ایڈسینس سے جو رقم آتی ہے اس سے ملت ٹائمز کے بجٹ کا صرف 10 فیصد خرچ پورا ہوتا ہے۔ اس کے باوجود ملت ٹائمز کا نظام جاری ہے اور آئے دن یہ سلسلہ بڑھتا جارہاہے کیوں ؟ ۔۔۔کیوں کہ ملت ٹائمز کے قارئین اور ناظرین ملت ٹائمز پر بھروسہ کرتے ہیں ، اسے ضروری سمجھتے ہیں ، اسے پسند کرتے ہیں اور خود اس کا بجٹ پورا کرتے ہیں ۔ وہ سو دو سو روپیہ سے مدد کرکے ملت ٹائمز کی طاقت بنے ہوئے ہیں اور انہیں کے تعاون ،سپورٹ اور حوصلہ کی وجہ سے ملت ٹائمز کا سفر جاری ہے ۔ یہ وہ لوگ ہیں جن سے ہمارے کسی بھی رکن کی کوئی رشتہ داری نہیں ہے ، کوئی ملاقات نہیں ہے ، کوئی جان پہچان نہیں ،محض ہمارے کام کی بنیاد پر وہ ہمارے ساتھ ہیں او ر ملت ٹائمز کے کروڑوں قارئین و ناظرین میں شامل ہونا اپنے لئے باعث فخر سمجھتے ہیں ۔ یہ بھی واضح رہے کہ ہم نے کبھی روزنامہ انقلاب ، روزنامہ راشٹریہ سہارا ، ہمارا سماج، اخبار مشرق ، قومی تنظیم، قومی آواز اور دوسرے اخبارات کی برائی بھی بیان نہیں کی ، کبھی بھی ان اخبارات کے خلاف لکھ کر قارئین کو ادھر سے ادھر لانے کا ہتکھنڈا نہیں اپنا یا، ان پر کوئی تنقید نہیں کی، ان اخبارات میں ملی تنظیموں کے بڑے بڑے اشتہارات دیکھ کر کئی مرتبہ دل میں درد بھی ہوا کہ آخر ان کو اتنے بڑے بڑے اشتہارات مل رہے ہیں ،ہمیں کیوں نہیں ملتے ہیں، یہ ہماری مدد کیوں نہیں کرتے ہیں جبکہ ہمارے رپورٹرس اور صحافی گراؤنڈ زیرو پر جاکر کوریج کرتے ہیں ۔ پولس کے ساتھ ہماری نوک جھوک ہوتی ہے ، سائبرکرائم کی طرف سے ماب لنچنگ وغیرہ کی کوریج پر لگاتار نوٹس دی جاتی ہے، یوٹیوب اور فیس بک نے دسیوں ویڈیوز کو ڈیلیٹ کردیا ہے ۔ فساد کے دوران ہمارے صحافی اپنی جان خطرے میں ڈال کر رپوٹنگ کرتے ہیں ، پولس کی نوٹس ہمارے پاس لگاتار آتی رہتی ہے ، روزانہ دس پندرہ کال دھمکی بھر ی موصول ہوجاتی ہے ، دھمکی آمیز کمنٹ اور مسیجز کا کوئی شمار نہیں ہے اس کے باوجود اشتہار ہمیں کیوں نہیں ہیں ملتاہے ، کارپوریٹ گھرانوں سے ہماری فنڈنگ کیوں نہیں ہوتی ہے ، سیاسی جماعتوں کی ہم پر عنایت کیوں نہیں ہے۔ اس طرح کی سوچ کے درمیان گم ہونے کے بعد اچانک دل پر دستک ہوتی ہے اور ایک آواز سنائی دیتی ہے کہ تم کسی کی تنقید کرکے اپنی جگہ نہیں بناسکتے ہو بلکہ اپنے کام سے ہی پہچانا اور شناخت حاصل کرسکتے ہو اور یہی ہوا ہے ، ہمارے کاموں کی بنیاد پر قارئین اور ناظرین خود ہماری طرف آگئے۔ کیوں کہ ہم نے ان تک وہ خبر پہونچائی جو وہ چاہتے تھے ۔ ہم نے وہ کام کیا جس کی ضرروت تھی ۔ ایک سال قبل کی بات ہے ، ایک صاحب میری آفس آئے اور کہنے لگے کہ روزنامہ راشٹریہ سہارا بھی اردو پورٹل شروع کرنے جارہا ہے ۔ جب وہاں آن لائن خبر شائع ہونے لگے گی تو آپ کا کیا ہوگا ، آپ کا پورٹل تو پیچھے چھوٹ جائے گا ؟ ۔ ہم نے کہاکہ ایسا بالکل بھی نہیں ہے ۔ ملت ٹائمز پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا ۔ ہمارے قارئین کی تعداد کم نہیں ہوگی اور نہ ہی ہماری مقبولیت پر اثر پڑے گا او رایسا ہی ہے ۔ آج کی تاریخ میں سہارا اور انقلاب کی ویب سائٹ پر بھی خبریں شائع ہورہی ہے ، دسیوں نیوز پورٹل شروع ہوگئے ہیں لیکن ملت ٹائمز کی مقبولیت اور اہمیت برقرار ہے ۔ مین اسٹریم کے اخبارات اور چینل مسلمانوں کے تعلق سے خبریں ملت ٹائمز پر تلاش کرتے ہیں ۔ ملت ٹائمز کی جانب رجوع کرتے ہیں ۔ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا ہے کہ صرف ایک دن میں ملت ٹائمز کے اردو پورٹل کے قارئین کی تعداد پانچ ملین تک پہونچ گئی ہے ۔ یوٹیوب پر ملت ٹائمز کے آٹھ لاکھ سے زیادہ سبسکرائبرز ہیں ، فیس بک پر ون ملین سے زیادہ فلووز ہیں، ویوز اور ریچ کی تعداد دسیوں کڑوڑ میں ہے ۔ ملت ٹائمز کے تعلق سے ان باتوں کے تذکرہ کا مقصد اپنی تعریف کرنا نہیں بلکہ یہ بتانا ہے کہ اپنے حصہ کا م کرنا چاہیئے ۔ میں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد میڈیا کے میدان میں قدم رکھا ، ایک میڈیا ہاؤس کی ضرورت محسوس ہوئی تو تنقید کے بجائے عملی طور پر اسے پورا کرنے کی کوشش کی ۔
برسبیل تذکرہ ایک اور اتحاد ملت کانفرنس کے بارے میں گفتگو کرنا ضروی ہے ۔ دہلی کے جس ہوٹل ریورو یو میں 8 اگست کو اتحاد ملت کانفرنس منعقد ہوئی اسی ہوٹل میں کل ہوکر 9 اگست کو ایک اور میٹنگ منعقد ہوئی جس کا بنیادی ایجنڈا بھی ملت اسلامیہ کا اتحاد تھا ۔ اس کانفرنس کی بنیاد پر تنقید اور اعتراض کی بوچھار اور تیز ہوگئی کہ ایک کانفرنس کے بعد دوسری کانفرنس کیوں منعقد ہوئی ، اس کی کیا ضرورت تھی ۔ اتحاد کے نام پر ملت میں یہ انتشار کی علامت ہے حالاں کہ یہاں اعتراض اور تنقید کا کوئی سوال ہی نہیں ہے ۔ اعتراض کے بجائے خیر مقدم کرنا چاہیئے کہ ملت اسلامیہ کو متحدرکھنے اور اتحاد و اتفاق قائم کرنے کی فکر صرف ان شخصیتوں تک محدود نہیں ہے جنہوں نے 8 اگست کا اجلاس طلب کیاتھا بلکہ ان کے علاوہ بھی بہت سارے لوگ موجود ہیں جن کی یہ سوچ اور فکر ہے اور در اصل یہ لوگ قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے قائد ین کو کوسنے ، تنقید کرنے اور ان کی تنقیص شروع کرنے کے بجائے عملی اقدام کیا اور خود ایک اجلا س طلب کیا ۔ دونوں اجلاس بہت پہلے سے طے تھا ۔ 8اگست کو منعقد ہونے والی اتحاد ملت کانفرنس کی منصوبہ بندی 2018 سے ہورہی تھی ۔ 9اگست کو ہونے والی کانفرنس کی تیاری بھی پچھلے چھ مہینہ سے جاری تھی ۔ کچھ شخصیات نے دونوں کانفرنس میں شرکت کی، دونوں کانفرنس کے بارے میں انہیں معلومات تھا لیکن انہوں نے کسی سے راز شیئر نہیں کیا۔حسن اتفاق دیکھیے کہ دونوں کانفرنس کی انتظامیہ نے بھی خاموشی اختیار کی ، میڈیا سے دوری بناکر رکھی، کریڈٹ لینے کے بجائے مشن اور ایجنڈا کو ترجیح دیا ۔ مسلمانوں کے درمیان ایسی پہل اور کوشش ایک نئے انقلاب کی آہٹ اور کامیابی کی ضمانت ہے ۔ ایسی عظیم کوششوں اور پہل کا خیر مقدم کرنے اور خوش ہونے کے بجائے تنقید، تنقیص ، اعتراض اور برائی کا سلسلہ شرکردینا میری سمجھ سے بالاتر ہے ، آخر یہ کون لوگ ہیں ۔ کہاں سے آتے ہیں ایسی ذہنیت کے حامل افراداور کون ان کی پشت پناہی کرتاہے ؟
بہر حال تنقید کی آڑ میں تنقیص کرنے والوں کو میرا یہی مشورہ ہے کہ آپ اپنے حصہ کا کام کیجئے ،جولوگ کام کررہے ہیں ان پر اگر آپ کو اعتماد نہیں ہے تو خود میدان میں آکر مور چہ سنبھالیے ، آپ کا کام، آپ کی کوشش اگر قوم کو پسند آئے گی تو قیادت اور لیڈر شپ آپ کے ہاتھوں میں آجائے گی ۔ فنڈ آپ کی آرگنائزیشن کو ملے گا ۔ لیڈر اور قائد آپ کہلائیں گے ۔ اگر آپ کے ذہن و دماغ میں یہ سمایا ہوا ہے کہ ہمار آئیڈیا ہی ملت کو تباہی سے بچاسکتاہے اور کوئی آپ سے آکر کہے ، منت سماجت کرے ، درخواست کرے کہ جناب تشریف لائیں ،ملت کی قیادت سنبھالیں، قوم کی آپ کو ضرورت ہے تو یادرکھیں ایسا نہ پہلے کبھی ہوا ہے اور اب ممکن ہے ۔ اقتدار ، قیادت اور لیڈرشپ طشت میں سجاکر کسی کو سونپ نہیں دیا جاتاہے بلکہ اپنی محنت ، جدوجہد اور صلاحیت کا استعمال کرکے خود اسے حاصل کرنا پڑتا ہے ۔ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ پرخطر راہوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔ صرف فیس بک اور وہاٹس ایپ لکھنے اور فورڈ کرنے سے قیادت نہیں مل سکتی ہے ، قوم کی تقدیر نہیں سنور سکتی ہے اور نہ ہی گھر میں بیٹھ کر اس طرح کی تنقید ملت کے مفاد میں سودمند ثابت ہوسکتی ہے ۔
قابل مبارکباد ہیں وہ تمام شخصیات جنہوں نے امت کو مایوسی سے نکالنے کی کوشش کی ہے اور سبھی مسلک ، گروپ ، تنظیم اور طبقات سے تعلق رکھنے والی سرکردہ ہستیوں نے سامنے آکر یہ پیغام دیا ہے کہ قائدین بھی متحد ہیں اور عوام کو اپنا آپسی اتحا د باقی رکھنا چاہیئے ۔ سبھی مسلمان ایک جان دو قالب ہیں ، سب کے مسائل ایک ہیں اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف سب ساتھ مل کر لڑیں گے ۔
stqasmi@gmail.com