دنیاوی حکومت مشیتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے!

مدثر احمد قاسمی
تاریخِ انسانی کا جب ہم مطالعہ کرتے ہیں تو شکست و فتح اوربادشاہت و محکومی کی ان گنت داستانوں کا ہمیں علم ہوتا ہے۔ اِس سے یا بات ظاہر ہوتی ہے کہ انسانوں کا عروج و زوال اللہ رب العزت کی حکمتِ کاملہ کا حصہ ہیں۔ اسی کے ساتھ یہ بات بھی عیاں ہے کہ انسان کی جبلت میں حکومت کرنے کا عنصر شامل ہے لیکن اقتدار سنبھالنے میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جو فعال و متحرک ہوتے ہیں اور حاکم بننے کے ضروری بنیادی صفات سے اپنے آپ کو مزین کرتے ہیں۔ اِس کے علاوہ جب ہم حکومت و محکومی کی بات کرتے ہیں توتمام لوازمات کے ساتھ ہمیں یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ اِس باب کا مرکزی نقطہ حُکمِ الٰہی ہے کیونکہ اللہ رب العزت کی ذات ہی مسبب الاسباب ہے وہ جسے چاہتا ہے عزت اور حکومت سے سرفراز کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے حکومت سے محروم اور ذلیل و خوار کرتا ہے۔ اِس فلسفے کو قرآن مجید نے صاف لفظوں میں بیان کردیا ہے:
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: کہہ دے، اے اللہ!بادشاہی کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دیتا ہے اور جس سے چاہے بادشاہی چھین لیتا ہے اور جسے چاہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہے ذلیل کردیتا ہے،تیرے ہی ہاتھ میں ہر بھلائی ہے ، بے شک ہر چیز پر تو پوری طرح قادر ہے۔ (آل عمران:۲۶) اِ س آیتِ کریمہ کا پس منظر یہ ہے کہ جب غزوہ احزاب کے موقع پر نبی اکرم ﷺ نے یہ پیشن گوئی کی تھی کہ روم و ایران کی حکومتوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہوجائے گا تو غیروں نے خوب مذاق اڑایاتھا کہ جن کے کھانے پینے کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے ، جو اپنی دفاع کے لئے خندق کھودتے ہیں ،بھلا وہ کیسے روم و ایران کی عظیم الشان سلطنتوں پر قابض ہو جائیں گے؟ چنانچہ اِن کے خود ساختہ نظرئیے کی تردید اور مسلمانوں کی تسکین کے لئے یہ کلماتِ قرانیہ نبی اکرم ﷺ پر نازل کئے گئے اور بعد میں نبی اکرم ﷺ کی پیشن گوئی صد فیصد صحیح ثابت ہوئی۔
موجودہ وقت میں اللہ رب العزت کے حاکم و محکوم بنانے کے نظام کی عملی شکل طالبان کے ذریعہ امریکہ اور مخالفین کو شکست دینا ہے۔ طالبان کے بارے میں بھی ایک طبقے کی طرف سے یہ بات کہی جا رہی تھی کہ اِن کے لئے سوپر پاور کو شکست دینا ممکن نہ ہوگا ، لیکن دنیا نے کُھلی آنکھوں امریکہ کی شکست کا نظارہ کر لیا اور عزت کے نقشے میں ذلت اور ذلت کے نقشے میں عزت کو دیکھ لیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جو ذات زندوں سے مردوں کو اور مردوں سے زندوں کو نکالنے والی ہے ،اُس کے لئے اقتدار کی منتقلی کیا بڑی بات ہے! مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ صرف ایک ہی ذات ایسی ہے جس کی بادشاہت کو کوئی زوال نہیں ہے اور وہ اللہ رب العزت کی ذات ہے۔اِسی بات کو نبی اکرم ﷺ نے ایک حدیث میں خوبصورتی سے بیان فرمایا ہے ۔ چنانچہ ارشادِ نبوی (ﷺ) ہے:بادشاہ کوئی نہیں ہے سوائے اللہ کے۔ (مسلم)
اوپر مذکور سورہ آلِ عمران کی آیت ۲۶ کے اخیر میں بہت ہی معنیٰ خیز دو اصطلاحات ہیں کہ اللہ رب العزت جسے چاہتے ہیں عزت دیتے ہیں اور جسے چاہتے ہیں ذلت دیتے ہیں۔ اِس کا عملی مظاہرہ روزِ اول سے آج تک جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا۔ اس کا صریح مطلب یہ ہے کہ کسی کو حقیقی عزت یا ذلت دینا انسانی بس میں نہیں ہے۔ اس لئے ہمیں انسانوں سے ڈرنے کی نہیں بلکہ اللہ کی طاقت و قدرت کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔
جہاں ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ دنیاوی حکومت مستقل بالذات نہیں ہے بلکہ مشیتِ باری تعالیٰ کے تابع ہے وہیں یہ بات بھی ذہن میں بٹھانے کی ہے کہ قیامِ حکومت اور بقائے حکومت کے لئے اللہ رب العزت نے کچھ شرائط و اسباب کی تکمیل کو لازمی قرار دیا ہے۔منجملہ شرائط و اسباب میں سے سرفہرست ایمان اور عملِ صالح ہیں۔ اِس حوالے سے قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا یہ ارشاد موجود ہے: تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کئے، اللہ نے اُن سے وعدہ کیا ہے کہ وہ اُنہیں زمین میں ضرور خلیفہ بنائے گا،جس طرح اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا۔ (النور:۵۵) مسلمانوں کو اِس آیتِ کریمہ سے سبق لینے کی ضرورت ہے کہ محض عظمتِ رفتہ پر آنسو نہ بہائیں بلکہ اُس کی بحالی کے لئے اپنااعمال و کردار درست کریں۔