مہندر سنگھ دھونی:قسمت کا تیز، اپنے دل کا کپتان

نئی دہلی،5جنوری(آئی این ایس انڈیا)
مہندر سنگھ دھونی نے کپتانی کے اپنے دور کے دوران اپنے دل کی آواز پر صحیح وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کی شاندار مثال پیش کی اور ایک بار پھر انہوں نے اپنے ہندوستان کے محدود اوورز کے کپتان کے عہدے سے ہٹنے کا فیصلہ کرکے اپنے اس مہارت کو دکھا کر ہر کسی کو ’’اسٹمپ‘‘آؤٹ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی،کسی کو پتہ نہیں کہ دھونی نے انگریزی کی نظم ’’انوکٹس‘‘پڑھی تھی یا نہیں یا انہوں نے ہالی ووڈ اداکار مورگن فری مین کی آواز میں سنا کہ نہیں کہ’’میں اس کی قسمت کا مالک ہوں، میں نے اپنی روح کا کپتان ہوں‘‘شاعری کے تاثرات مختلف ہو سکتے ہیں لیکن اس کی روح کہیں نہ کہیں جڑی ہوئی ہے۔دھونی نے کل رات جب اپنا فیصلہ عوامی کیا تو ان کے دل میں کہیں نہ کہیں ایسے تاثرات بنے ہوں گے۔
سنیل گواسکر کے بعد کسی بھی ہندوستانی کرکٹر نے اس طرح کے توازن اور دوراندیشی کا ثبوت نہیں دیا جیسا کہ جھارکھنڈ کے اس کرکٹر نے کل بی سی سی آئی کے ذریعہ محدود اوورز کی کپتانی چھوڑنے کا اعلان کرکے دیا۔جب گواسکر نے کپتانی سے ہٹنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے 1985میں بینسن اینڈ ہیجیس عالمی چمپئن شپ جیتی تھی۔اس کے بعد جب انہوں نے ریٹائرمنٹ لیا تو چنا سوامی اسٹیڈیم میں 1987میں 96رن کی جاندار اننگز کھیلی تھی۔یہ ایسا دور تھا جبکہ لوگ ان سے اور کھیلنے کی توقع کر رہے تھے۔کھلاڑیوں کو ہم عموما یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ہم ریکارڈ کے لئے نہیں کھیلتے لیکن کتنے اس پر عمل کرتے ہیں۔دھونی کے معاملے میں اگرچہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ وہ ریکارڈ کے لئے نہیں کھیلتے۔دھونی نے جب ٹیسٹ کرکٹ سے ریٹائرمنٹ لیا تو وہ ملک کی جانب سے 100ٹیسٹ میچ کھیلنے سے صرف دس ٹیسٹ دور تھے لیکن انہوں نے اپنی دل کی آواز سنی اور اس پر یقین لائے،وہ جانتے تھے کہ وراٹ کوہلی عہدہ سنبھالنے کے لیے تیار ہے۔
اپنے فیصلے سے انہوں نے کوہلی کو اگلے ورلڈ کپ کے لیے ٹیم تیار کرنے کا 30ماہ کا وقت دے دیا ہے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ دھونی نے ہمیشہ ہندوستانی کرکٹ کے مفاد میں فیصلے کئے۔دھونی کی قیادت میں ہندوستان نے دو عالمی کپ(ایک 50اوور اور دوسرا ٹی 20)دلائے ۔دھونی ہندوستان کے دائمی عظیم کپتان ہیں اور سچن تندولکر، یوراج سنگھ، کپل دیو اور کوہلی کے ساتھ ملک کے چوٹی کے پانچ ون ڈے کھلاڑیوں میں شامل ہیں۔جس طرح کسی فلم میں اداکار کو کچھ مخصوص کردار کے لئے جانا جاتا ہے اسی طرح سے دھونی کو دو فیصلوں کے لیے خاص طور پر یاد کیا جائے گا جس سے وہ’’کیپٹن کول‘‘بنے۔ان میں سے پہلا فیصلہ ابتدائی ٹی 20ورلڈ کپ کے فائنل میچ میں جوگندر شرما کو آخری اوور سپردکرنا اور دوسرا ممبئی میں ورلڈ کپ 2011کے فائنل میں خود یوراج سنگھ سے پہلے بلے بازی کے لیے اترنا۔دھونی نے کچھ بڑے فیصلے کرنے میں کبھی ہچکچاہٹ نہیں دکھائی،انہیں پتہ تھا کہ سوربھ گانگولی اور راہل ڈراوڈ جیسے کھلاڑی آسٹریلیا کے بڑے میدانوں پر ون ڈے میں ٹیم پر کچھ حد تک بوجھ بن سکتے ہیں اور اس وجہ سے انہوں نے 2008کی سی بی سیریز(ون ڈے سیریز) اس سے پہلے سلیکشن کمیٹی کو اپنی جذبات سے آگاہ کرانے میں دیر نہیں لگائی۔اس سیریز کے دوران گوتم گمبھیر اور روہت شرما نے شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور اس طرح سے دھونی کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔
اس درمیان ’’ہیلی کاپٹر‘‘شاٹ ان کی شناخت بن گیا لیکن ایسے کتنے کھلاڑی ہیں جو ایک رن کو دو یا تین رن میں تبدیل کرنے کی اہمیت جانتے ہوں۔دھونی اس میں ماہر تھے،اگر تندولکر ایک رن لینے کے لئے بہت اچھی طرح سے اندازہ لگا لیتے تھے تو دھونی کا وکٹوں کے درمیان دوڑنے اور دو رن لینے میں کوئی ثانی نہیں تھا۔اپنے کیریئر کے شروع میں ان کی وکٹ کیپنگ پر سوال اٹھے لیکن بعد میں انہوں نے اپنے کھیل کو نکھارا اور دنیا کے بہترین وکٹ کیپرو میں ان کی گنتی ہونے لگی۔رن آؤٹ کرنے میں ان کی پھرتی اور سمجھ تو دیکھتے ہی بنتی ہے۔ دھونی بھلے ہی جارحانہ کھلاڑی تھے لیکن دکھاوے میں نہیں۔ان کا خیال ہے کہ کھیلوں میں بدلاجیسا لفظ بہت سخت ہے۔اس کے علاوہ طنزو مزاح میں بھی ان کا کوئی جواب نہیں ہے۔ایک بار ڈیوڈ وارنر اور روندر جڈیجہ کے درمیان نوک جھوک ہو گئی،میچ ختم ہونے پر اس کے بارے میں دھونی سے پوچھا گیا تو انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ جب اسکولی بچے گریجویٹ بننے کے لیے کالج جاتے ہیں تو ایسا ہوتا ہے۔یہی نہیں جب ایک آسٹریلوی صحافی نے ورلڈ ٹی 20سیمی فائنل میں شکست کے بعد ان سے ریٹائرمنٹ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے اس صحافی کو اپنے ساتھ اسٹیج پر بلا یا،کسی کو یہ مضحکہ خیز لگالیکن دھونی تو دھونی ہے۔دھونی کا یو ٹیوب پر ایک پرانا ویڈیو ہے جس میں انہیں فلم ’’کبھی کبھی‘‘کا مکیش کا گیت ’’میں پل دو پل کا شاعر ہوں‘‘گاتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔دھونی ’’دو پل کا شاعر‘‘سے بھی زیادہ ہیں،وہ اب اپنے شاندار کیریئر کے آخری پڑاؤ پر ہیں،ہمیں آخر تک ان کے ساتھ کا لطف اٹھانا چاہئے۔

SHARE