ملک میں دینی جامعات کا نصاب اور موجودہ حالات کا تقاضا

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 
حکومت کے تعاون اور اثر سے آزاد برصغیر کے دینی مدارس کی ایک روشن تاریخ رہی ہے ، موجودہ دور میں عام طور پر تعلیم وتعلم کا مقصد کسبِ معاش ہوا کرتا ہے ؛ اسی لئے جب کسی کورس کی ترغیب دی جاتی ہے تو بطور خاص اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اس سے آئندہ کیا معاشی مواقع پیدا ہوں گے ؟ عام طور پر ہمارے عصری اداروں میں بہتر روزگار کا حامل شخص پیدا کرنے پر زور دیا جاتا ہے ، ڈاکٹر بنایا جاتا ہے ، انجینئر بنایا جاتا ہے ، وکیل اور ہنر مند بنایا جاتا ہے ، ادیب اور جرنلسٹ بنایا جاتا ہے ؛ لیکن انسان کو سچ مُچ کا انسان بنانے پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے ۔
دینی مدارس نے اپنا مقصد بنایا ہے : اچھے انسان پیدا کرنا ، اس مقصد کے لئے اسلامی تعلیمات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اور ہر طرح کی آمیزش سے اس کو محفوظ رکھنا، مدارس کی یہ تحریک جس دور میں شروع ہوئی ، اس وقت ہندوستان پر انگریزوں کا تسلط تھا، انھوں نے یہاں کے قدیم نظام تعلیم کو ختم کر کے ایک نئے نظام تعلیم کی بنیاد رکھی تھی ، اس نظام میں مذہبی تعلیمات اور اخلاقی اقدار کا کوئی گزر نہیں تھا ؛ بلکہ اس میں دین بیزاری اور اخلاقی بندشوں سے آزادی کو نہایت ذہانت کے ساتھ شامل کر دیا گیا تھا ، اس پس منظر میں علماء نے ایسے ادارے قائم کئے ، جو خالصتاً دینی تعلیم کے تھے ؛ کیوں کہ عصری تعلیم کے لئے تو حکومت خود ہی ہر طرح کی سہولت فراہم کر رہی تھی ؛ اس لئے اُس وقت کے حالات کے لحاظ سے مدارس کے نصاب میں جدید علوم پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی، پھر جب اس ملک سے انگریز چلے گئے تو کیا مدارس کے تعلیمی نظام کو اسی نہج پر قائم رہنا چاہئے یا اس میں عصری نظام کی بھی شمولیت ہونی چاہئے ؟ اس میں مسلمانوں کے درمیان نقطۂ نظر کا اختلاف پیدا ہوا ، یہ اختلاف آج بھی ہے ، اور اس میں خاصا افراط و تفریط پایا جاتا ہے ۔
ایک رائے یہ ہے کہ مدارس میں تھوڑی سی بھی عصری علوم کی شمولیت نہیں ہونی چاہئے ، دوسری انتہا پر وہ حضرات ہیں جو نہ صرف عصری علوم کی شمولیت کے حامی ہیں ؛ بلکہ چاہتے ہیں کہ ایک شخص بیک وقت عالم بھی ہو اور ڈاکٹر یا انجینئر بھی ، اسی طرح مختلف علوم وفنون کے ماہر علماء وجود میں آئیں ، حقیقت یہ ہے کہ راہ اعتدال ان دونوں کے درمیان ہے ، نہ یہ مناسب ہے کہ دینی علوم حاصل والے طلبہ کومکمل طور پر عصری علوم سے محروم رکھا جائے ، اورجب وہ مدرسہ سے نکل کر میدان عمل میں آئیںتو ایسا محسوس کریں کہ وہ کسی اور دنیا میں آگئے ہیں ، اور نہ یہ بات قابل عمل ہے کہ ایک شخص بیک وقت اسلامی علوم میں بھی بصیرت حاصل کر لے اور عصری تعلیم کے کسی شعبہ کا بھی ماہر ہو جائے ۔
ہندوستان کے ماحول کے لحاظ سے ضرورت ہے کہ دینی مدارس کے نصاب میں توازن کے ساتھ –عصری علوم انگریزی زبان، معاشیات، سیاسیات کی مبادی، تاریخ، جغرافیہ، حساب ، ملکی دستور وغیرہ– کو داخل کیا جائے اور ان مضامین کا بوجھ اتنا زیادہ بھی نہ ہو کہ دینی علوم کی طرف توجہ کم ہو جائے، اور اسلامی علوم میں صلاحیت کا معیار گر جائے۔
اگر غور کیا جائے تو علماء کے انگریزی زبان اور عصری علوم حاصل کرنے سے مختلف دینی فائدے متعلق ہیں ، اول یہ کہ اس طرح وہ برادران وطن تک بہتر طریقہ پر اسلام کی دعوت پہنچا سکتے ہیں ؛ کیوں کہ انگریزی ایسی زبان ہے ، جو ملک کے تمام علاقوں میں پڑھے لکھے لوگوں کے درمیان بولی اور سمجھی بھی جاتی ہے ، اور دعوت دین کے کام میں عصری معلومات مؤثر رول ادا کرسکتی ہیں ، دوسرا اہم ترین فائدہ یہ ہے کہ اس وقت اسلام کے خلاف ایک زبردست فکری یلغار جاری ہے ، قرآن مجید ، حدیث نبوی ، پیغمبر اسلام ﷺ کی سیرت، اسلامی شریعت غرض کہ دین کے ہر شعبہ پر حملے کئے جارہے ہیں ، اور خود مسلمانوں کی نئی نسل میں تشکیکی ذہن پیدا ہو رہا ہے ؛ اگرچہ کہ اب ہندوستان میں سنگھ پریوار کے لوگ بھی اسلام کے خلاف غلط فہمیاں کرنے کا کام بڑے پیمانے پر کر رہے ہیں ؛ لیکن ان سب کا سرچشمہ یہودی اور عیسائی مستشرقین ہی کا مواد ہے ، جو انگریزی زبان میں ہے ؛ اس لئے اگر آج علماء دفاعِ اسلام کا کام کرنا چاہیں تو ان کے لئے انگریزی زبان سے واقف ہونا نہایت ضروری ہے؛ کیوں کہ دعوتِ دین کا کام تو عوام بھی کر سکتے ہیں اور کر رہے ہیں ؛ اسی لئے قرآن مجید میں فریضۂ دعوت کا مخاطب پوری اُمت کو بنایا گیا ہے:كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ(آل عمران: ۱۱۰) لیکن دفاع اسلام کا کام علماء ہی کر سکتے ہیں ، اور علماء نے ہمیشہ اس کام کو سب سے زیادہ اہمیت دی ہے ۔
عباسی دور میں جب یونانی فلسفہ عالم اسلام میں داخل ہوا ، اور یہ علوم تشکیکی ذہن پیدا کرنے کا سبب بننے لگے تو امام غزالیؒ اُٹھے اور انھوں نے فلسفہ ومنطق کے اُصولوں پر ان سوالات کے جوابات د یئے، پھر آگے علامہ ابن تیمیہؒ علم کے اُفق پر نمودار ہوئے اور انھوں نے اقدامی طریقۂ کار اختیار کرتے ہوئے خود فلاسفہ یونان کے افکار کو غلط ثابت کیا ، اور اس طرح دفاعِ اسلام کا بہت بڑا کام انجام پایا ، افسوس کہ موجودہ دور میں ہم اس سے غافل ہو گئے ہیں ، اور ہماری زیادہ تر توجہ باہر سے ہونے والی فکری یلغار کے مقابلہ باہمی مسلکی اختلاف کی طرف ہو گئی ہے ، ہندوستان میں تعلیمی اعتبار سے دو اہم دبستان ہیں ، دارالعلوم دیوبند اور ندوۃ العلماء ، دارالعلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ نے پوری زندگی آریہ سماج اور ہندو احیاء پرستی کے مقابلہ میں لگائی ، اور تحریک ندوۃ العلماء کے مؤسس حضرت مولانا سید محمد علی مونگیریؒ نے عیسائیت اور قادیانیت کے رد کو اپنی زندگی کا مشن بنایا ، یہ فضلاء کے لئے خاموش پیغام ہے کہ ان کی توجہ کا اولین ہدف دفاعِ اسلام ہونا چاہئے ، اور اس کے لئے انگریزی زبان ، مغربی افکار اور مغربی اور ہندوستانی تاریخ سے واقف ہونا ضروری ہے ۔
عصری علوم سے واقفیت کا تیسرا فائدہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ ہمارے فضلاء عصری درسگاہوں اور بالخصوص انگلش میڈیم اسکولوں میں بہتر طور پر کسی احساس کمتری کے بغیر اسلامیات کی تعلیم دے سکتے ہیں ، یہ ایک اہم کام ہے ، اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کام کی اہمیت بڑھتی جا رہی ہے ، اللہ کا شکر ہے کہ مسلم مینجمنٹ کے تحت چلنے والے اداروں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ، اور وہاں اسلامیات کی تعلیم کے لئے ایسے اساتذہ کی ضروت پڑ رہی ہے جو انھیں انگریزی زبان میںدینی تعلیم دے سکیں ، اُردو زبان میں اگر انھیں تعلیم دی جائے تو اول تو بہت سے طلبہ اسے سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں ، دوسرے : چوںکہ اس وقت انگریزی زبان کا جادو پورے ماحول پر اثر انداز ہے ؛ اس لئے طلبہ اُردو زبان میں ہونے والی تعلیم کو قدر و وقعت کی نظر سے نہیں دیکھتے اور خود مدرس میں بھی احساس کمتری پیدا ہو جاتا ہے ۔
اسی سے قریب تر چوتھا فائدہ یہ ہے کہ اگر علماء انگریزی زبان سے واقف ہوں تو وہ بہتر طور پر نئی نسل سے مخاطب ہو سکتے ہیں ، یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارے دینی مدارس اور علماء کا طبقہ عربی و فارسی آمیزالفاظ نیز علمی اصطلاحات سے بوجھل جس طرح کی اُردو بولتا ہے ، وہ اکثر نئی نسل کی سمجھ سے باہر ہوتی ہے ، بہت سے نوجوان عقیدت کے جذبہ اور ادب کے تقاضے سے سر جھکا کر بظاہر توجہ کے ساتھ ہم جیسوں کی بات سنتے ہیں ؛ لیکن پھر اگر وہ کوئی سوال کریں تو اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہمارے خطاب کی بنیادی باتوں کو بھی نہیں سمجھ پائے ؛ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہو گئی ہے کہ خود مسلمانوں میں دعوت واصلاح کے کام کے لئے علماء انگریزی زبان سیکھیں ، اور انگریزی آمیز اُردو میں اپنی بات نئی نسل کے سامنے پیش کریں ۔
ایک تصور ذہنوں میں بیٹھ گیا ہے کہ جو نصاب زمانۂ قدیم سے آرہا ہے ، اس سے کوئی چھیڑ چھاڑ ہر گز نہیں کرنی چاہئے ؛ لیکن جس مبالغہ کے ساتھ یہ بات کہی جاتی ہے ، وہ صحیح نہیں ہے ، ہندوستان میں یہ نصاب درس نظامی کہلاتا ہے ، اس کی بنیاد تو ملا قطب الدین سہالویؒ نے رکھی ہے ؛ لیکن اس کو فروغ ملا نظام الدین فرنگی محلیؒ کے ذریعہ حاصل ہوا ہے ؛ اسی لئے یہ ’’درس نظامی‘‘ کہلایا ، اصل درس نظامی ۵۲؍ کتابوں پر مشتمل تھا، جس میں ۲۵؍ کتابیں منطق کی تھیں ، ۶؍ ریاضی کی اور ۱۲؍ کتابیں اسلامی علوم کی، تفسیر میں جلالین اور بیضاوی ، حدیث میں صرف مشکوٰۃ شریف، فقہ میں شرح وقایہ کا پہلا اور دوسرا حصہ اور ہدایہ کا تیسرا اور چوتھا حصہ ، اُصولِ فقہ میں تین ، علم کلام میں معقولی انداز کی چار کتابیں ، یہی پورا نصاب تھا ، جس سے اندازہ کیا جاسکتاہے کہ معقولات پر کتنی زیادہ توجہ دی جاتی تھی اور خالص اسلامی علوم پر کتنی کم ، اور حدیث جیسے اہم مضمون میںصرف مشکوٰۃ المصابیح پر اکتفاء کیا جاتا تھا ۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر عطا فرمائے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کو ، کہ انھوں نے درسِ نظامی کے بعض مضامین کو شامل کرتے ہوئے ایک نیا نصاب بنایا ، جو ۲۹؍ کتابوں پر مشتمل تھا ، اس میں تفسیر کی دو ، حدیث کی تین ، علم کلام کی تین ، اُصول فقہ کی دو ، تصوف کی چار کتابیں اور فقہ میں صرف شرح وقایہ پڑھائی جاتی تھی ، یہ یقیناً ایک بہتر تبدیلی تھی کہ ملا نظام الدینؒ کے نصاب میں تو ۵۲؍ کتابوں میں سے صرف بارہ ایسی کتابیں تھیں ،جن کا تعلق براہ راست اسلامی علوم سے تھا ، اور شاہ ولی اللہ صاحبؒ کے یہاں ۲۹؍میں سے ۱۵؍کتابیں براہ راست علوم اسلامی سے متعلق تھیں ، مولانا عبد الحئی حسنیؒ کی نصاب تعلیم سے متعلق کتاب اور شاہ ولی اللہ صاحب کی ’’الجزء اللطیف‘‘ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں ؛ اس لئے حقیقت میں دارالعلوم دیوبند اور موجودہ دور کے دیگر مدارس کے نصاب میں ملا نظام الدین کے نصاب سے زیادہ شاہ ولی اللہ صاحب کے نصاب سے استفادہ کیا گیا ہے ؛ لیکن اس سے بہر حال یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ہر دور میں علماء نے اپنے زمانہ کی ضرورت کے مطابق نصاب میں تبدیلی کی ہے ، اور اگر یہ عمل حقیقت پسندی کے ساتھ ہو تو یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے وحشت محسوس کی جائے اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مدارس کے نظام میں اس طرح کی تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں ، مگر اس تبدیلی میں عصری علوم کی شمولیت پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی گئی۔
البتہ قابل غور پہلو یہ ہے کہ اگر مدارس کے مروّجہ نصاب میں عصری علوم کو شامل کیا جائے تو کیا شکل ہو سکتی ہے کہ دینی تعلیم کو متأثر کئے بغیر عصری مضامین کی تعلیم دی جا سکے، راقم الحروف کے خیال میں اس کی تین صورتیں ہو سکتی ہیں :
اول یہ کہ دسویں جماعت تک مشترکہ نصاب ہو ، جو کتابیں عصری درسگاہ میں پڑھائی جاتی ہیں ، بعض تبدیلیوں کے ساتھ وہ مدارس میں بھی پڑھائی جائیں ، عصری درسگاہوں میں درس کا دورانیہ کم ہوتا ہے ، چالیس منٹ کی پانچ سے سات گھنٹیاں ہوتی ہیں ، بعض جگہ تو صرف ۳۵؍ منٹ کی گھنٹیاں ہوتی ہیں ، اس طرح اوقاتِ تعلیم کم وبیش چار گھنٹے ہوتے ہیں ، دینی مدارس میں چھ گھنٹے تو لازماً اسباق پڑھائے جاتے ہیں ، اور بعض دفعہ فجر بعد ہی سے اسباق شروع کر دیئے جاتے ہیں ، اس لحاظ سے مدارس کے مروجہ آٹھ سالہ نصاب میں سے پہلے تین سال کے وہ مضامین جو عربی زبان اور فن کی ابتدائی معلومات سے متعلق ہیں ، بآسانی اس دس سال میں سموئے جا سکتے ہیں ، اس دس سالہ نصاب کے بعد جیسے عصری تعلیم حاصل کرنے والے مزید پانچ سال میں گریجویشن کرتے ہیں ، اسی طرح جو طلبہ عالم کورس کرنا چاہیں ، وہ پانچ سال میں درس نظامی کے مروجہ نصاب کو مکمل کرلیں ، پھر عصری تعلیم حاصل کرنے والے جیسے مزید دو سال کا وقت لگا کر ماسٹر کی ڈگری حاصل کرتے ہیں ، اسی طرح دینی تعلیم حاصل کرنے والے افتاء اور تکمیل وتخصص وغیرہ کا کورس کر سکتے ہیں ، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ جو طلبہ دسویں جماعت کے بعد عالم کورس کی تعلیم حاصل کریں گے ، وہ بنیادی عصری علوم سے واقف ہوں گے ، اور جو آگے عصری علوم حاصل کرنا چاہیں گے ، وہ بنیادی دینی تعلیم حاصل کر چکے ہوں گے ، اور ایک ساتھ دینی وعصری تعلیم کا ایسا بوجھ نہیں پڑے گا ، جو طلبہ کے لئے ناقابل تحمل ہو جائے ۔
دوسری صورت یہ ہے کہ دورۂ حدیث شریف (حدیث کی کتب تسعہ کی جماعت) سے فارغ ہونے والے طلبہ کے لئے ایک تین سالہ نصاب ڈیزائن کیا جائے ؛ تاکہ وہ انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عصری علوم سے بھی آشنا ہو جائیں ، فی الحال کئی اداروں نے فارغین مدارس کے لئے انگریزی کا دو سالہ نصاب شروع کیا ہے ، اس سے زبان تو آسکتی ہے ؛ لیکن دوسرے عصری مضامین سے مناسبت پیدا نہیں ہو سکتی ؛ حالاں کہ یہ بھی ضروری ہے ۔
تیسری صورت یہ ہے کہ درس نظامی کی تعلیم کے ساتھ اعدادیہ تا درجہ چہارم عربی پانچ سال کے عرصہ میں ہر جماعت میں ۴۵-۴۵؍ منٹ کی دو گھنٹیوں کا اضافہ کیا جائے ، ایک گھنٹی انگریزی زبان کے لئے مخصوص ہو اور ایک گھنٹی میں ہفتہ میںدو دو دِن جنرل سائنس ، حساب اورتاریخ کے مضامین شامل کئے جائیں ، پھر پنجم عربی سے لے کر دورۂ حدیث تک کے مرحلہ کو مروجہ درس نظامی کی کتابوں ہی کے لئے خالص رکھا جائے ، ابتدائی پانچ سالہ مدت میں انگریزی اور عصری مضامین کو شامل کرنا بہت دشوار نہیں ہے ، اگر منطق وفلسفہ کے مضامین کو اصطلاحات کے تعارف تک محدود کر دیا جائے اور جو مضامین مقصود ہیں ، یعنی تفسیر، حدیث ، عقیدہ ، اُصول کے علاوہ دوسرے مضامین سے مکررات کوکم کر دیا جائے ،تو بسہولت یہ ضرورت پوری ہو سکتی ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ مدارس کی تعلیم کو دینی مقاصد کے لئے زیادہ مؤثر اور مفید بنانے کی غرض سے مروجہ نصاب تعلیم پر غور مکرر کی ضرورت ہے ، بدلتے ہوئے حالات میں اگر ہم نے اس طرف توجہ نہیں دی اور جیسے ہمارے بزرگوں نے اپنے زمانہ کے احوال کے لحاظ سے تعلیم وتربیت کا نظام بنایا تھا ، اگر ہم نے اس کو ملحوظ نہیں رکھا تو علماء پر اسلام کی دعوت و حفاظت کا جو فریضہ عائد ہوتا ہے ، اندیشہ ہے کہ مستقبل میں وہ اس کو صحیح طور پر ادا نہیں کر پائیں ۔