مزدوروں کے ساتھ آپ ﷺ کا سلوک (2)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

مزدوروں کے ساتھ مالکین اور ذمہ داروں کا کیا سلوک ہونا چاہئے ؟ اس سلسلہ میں حضور ﷺ کا ارشاد ہے کہ وہ تمہارے بھائی ہیں :  إنھم اخوانکم (ردالمحتار : ۳؍۳۸۰) یعنی ان سے سلوک حاکمانہ نہیں بلکہ برادرانہ ہونا چاہئے ، قرآن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی بحیثیت آجر یہ صفتیں بیان کی گئی ہیں  :
وَ مَا اُرِیْدُ اَنْ اَشُقَّ عَلَیْكَ سَتَجِدُنِیْ اِنْ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ ۔ (القصص : ۲۷۔)
میں تم کو تکلیف دینا نہیں چاہتا ، انشاء اللہ تم مجھے صالح و نیک پاؤگے ۔
گویا آجر کا سلوک مزدور کے ساتھ ایسا ہوا کہ اس کو تکلیف اور کسی بھی طرح کی ذہنی ، جسمانی یا عملی مشقت نہ ہو اور اس کے ساتھ نیک سلوک روا رکھے ، حضور ﷺ کی حیاتِ طیبہ میں ہمیں اس کا عملی نمونہ ملتا ہے۔
خدام و ملازمین کی تکریم اور دل جوئی کے لئے آپ ﷺ نے بہت سی ہدایات دی ہیں ؛ چنانچہ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا  :
جب تم میں سے کسی کا خادم اس کے لئے کھانا بنائے ، پھر کھانا لے کر اس کے پاس آئے ، جس نے اس کی تپش اور دھنواں برداشت کیا ہے ، تو چاہئے کہ اس کو اپنے پاس بیٹھاکر کھلائے ، پھر اگر کھانے کی مقدار کم ہو تو لقمہ دو لقمہ اس کے ہاتھ میں رکھ دے ۔ (مسلم ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۱۶۶۳)
اس ارشاد میں نہ صرف مالی حسنِ سلوک کی تعلیم ہے ؛ بلکہ خدام و ملازمین کے اکرام کی بھی ہدایت ہے ، کہ ملازم کو اپنے ساتھ بیٹھ کر کھلایا جائے ، باورچی ، فراّش اور عام کارکنوں کو اپنے ساتھ بیٹھاکر کھلانے سے تو لوگ عام طورپر عار محسوس کرتے ہیں ؛ لیکن ہندوستان میں تو ذات پات کی بنیاد پر بھی اونچی ذات کے لوگ نچلی ذات کے لوگوں کو ساتھ کھلانا تو کجا ساتھ بیٹھانے کو اپنی بے عزتی سمجھا کرتے ہیں ۔
ملازمین اور مزدوروں کے ساتھ توقیر و تکریم ہی ایک پہلو یہ ہے کہ آپ ﷺ بہ نفس نفیس ان کے جنازہ میں شرکت فرمایا کرتے تھے ، اس کا اس درجہ اہتمام تھا کہ ایک سیاہ فام خاتون مسجد میں جھاڑو دیا کرتی تھیں ، چند دنوں آپ کو نظر نہیں آئیں ، آپ ﷺ نے ان کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ ان کی وفات ہوگئی ہے ، آپ ﷺ نے استفسار کیا ، تم لوگوں نے مجھے کیوں اطلاع نہیں کی ؟ آپ کو یہ بات ناگوار ہوئی ، آپ نے فرمایا : گویا لوگوں نے اس کے معاملہ کو حقیر سمجھا :  فأنھم صغروا أمرھا پھر ارشاد ہوا : مجھے اس کی قبر بتاؤ ، آپ کو قبر بتائی گئی ، آپ بہ نفس نفیس تشریف لے گئے اور قبر ہی پر نماز جنازہ ادا فرمائی ۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۹۵۶)
حسن سلوک ہی کا ایک عمل یہ ہے کہ اگر خدام بیمار پڑجاتے تو آپ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اس میں مسلمان اور غیر مسلم کی بھی تفریق نہیں تھی ، آپ کے خادموں میں ایک یہودی لڑکا تھا ، وہ بیمار ہوا تو آپ ﷺ اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے ۔ (بخاری ، حدیث نمبر : ۳۵۶)
خادموں کے ساتھ کرم فرمائی کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ بعض اوقات آپ خود ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے ، اس تشریف آوری کی خوشی ان کے لئے عید سے کم نہیں ہوتی تھی ، حضرت انسؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمارے یہاں تشریف لائے ، اس وقت میں تھا ، میری والدہ تھیں اور میری خالہ ’’ اُم حرام ‘‘ تھیں ؛ حالاںکہ نماز کا وقت نہیں تھا ؛ لیکن آپ کا حکم ہوا کہ کھڑے ہوجاؤ ، میں تم لوگوں کو (نفل ) نماز پڑھاؤں گا ؛ چنانچہ آپ نے نماز پڑھائی ، پھر تمام گھر والوں کے لئے دنیا اور آخرت کی ہر طرح کی بھلائی کی دُعا فرمائی ، میری والدہ نے میرے بارے میں درخواست کی کہ اپنے اس چھوٹے خادم کے لئے بھی دُعا فرما دیجئے ؛ چنانچہ آپ ﷺ نے میرے لئے ہر خیر کی دُعاء فرمائی اور اخیر میں کہا : ’’ اے اللہ ! اس کے مال واولاد میں کثرت پیدا فرما اور اس میں برکت بھی دے ‘‘ حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ اس دُعاء کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انصار مدینہ میں ان کو سب سے زیادہ دولت عطا فرمائی ، اور اولاد اس کثرت سے دی کہ ان کی صاحبزادی امینہ نے ان کو بتایا کہ بصرہ میں حجّاج کی آمد سے پہلے ان کی ۱۲۰ سے زیادہ اولاد کی وفات ہوچکی تھی ، (بخاری ، حدیث نمبر : ۱۹۸۲) یعنی دولت بھی حاصل ہوئی اولاد بھی اور عمر میں بھی اتنی برکت ہوئی کہ اتنی اولاد آپ کے سامنے گذر گئی اور آپ زندہ رہے ۔
آپ ﷺ کے عمل سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ مقررہ اُجرت کے علاوہ بھی اپنے خادموں کی ضروریات کا خیال رکھنا چاہئے اور استفسار کرتے رہنا چاہئے ، قبیلہ ٔبنو مخزوم کے ایک صاحب زیادؒ نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کے ایک خادم تھے ، آپ ان سے دریافت کرتے رہتے تھے :  ألک حاجۃ؟ (کیا تمہاری کوئی ضرورت ہے ؟) (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۱۵۶۴۶) آپ ﷺ ان کوآزادی دیتے تھے کہ جو بھی مانگنا چاہیں مانگ لیں ، ربیعہ بن کعب اسلمیؓ کا بیان ہے کہ میں آپ ﷺ کے پاس رات گزار رہا تھا ، میں نے آپ کے وضوء اورضرورت کے لئے پانی رکھا ، آپ نے فرمایا : جو مانگنا چاہو مانگو ، میں نے عرض کیا : میرا سوال ہے جو میں نے عرض کیا : آپ ﷺ نے فرمایا پھر تو کثرت سے سجدہ کیا کرو ، (مسلم ، حدیث نمبر : ۴۸۹ ) یعنی خوب نماز پڑھا کرو ۔
بعض دفعہ لوگ بلا جھجک اپنے ملازموں اور ماتحتوں پر الزام لگادیتے ہیں اور اس کو صفائی کا موقع تک نہیں دیتے ہیں ، آپ نے اس پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ، آپ نے فرمایا : جس شخص نے اپنے غلام پر زنا کی غلط تہمت لگائی تو قیامت کے دن اس شخص پر زنا کی سزا جاری کی جائے گی ، (بخاری ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۶۸۵۸) اگر واقعی غلطی ہوجائے اور اس کے عمل سے مالک کو تکلیف پہنچے ، تب بھی آپ نے تلقین فرمائی کہ عفو و درگذر سے کام لیا جائے ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک صاحب بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میرا ایک خادم ہے جو غلطیاں اورزیادتیاں کرتا ہے ، کیا میں اس کی پٹائی کرسکتا ہوں ؟ آپ خاموش رہے ، اس نے دوسری بار اور پھر تیسری بار یہی سوال کیا ، بعض روایتوں میں ہے کہ دریافت کیا کہ آخر کتنی بار معاف کروں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : ہر دن ستر بار ، (ابوداؤد ، حدیث نمبر : ۵۱۶۴ ، ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۹۴۹ )ظاہر ہے کہ اس میں ۷۰ کی تحدید مقصود نہیں ہے ؛ بلکہ کثرت مقصود ہے ۔
خود آپ ﷺ کا معمول مبارک تھا کہ آپ ﷺ نے کبھی اپنے کسی خادم یا بیوی پر ہاتھ نہیں اُٹھایا ، (مسلم عن عائشہ ، حدیث نمبر : ۲۳۲۹) آپ کے خادم خاص حضرت انسؓ جو بہت کم عمری میں آپ ﷺ کی خدمت میں آئے ، نقل کرتے ہیں کہ حضور ﷺ نے ایک دن مجھے ایک ضرورت کے لئے بھیجا ،میں نے کہا : ’’ واللّٰه لا اذھب‘‘ یعنی میں نہیں جاؤںگا ؛ حالاںکہ میرے دل میں تھا کہ میں جاؤں گا ؛کیوںکہ نبی کریم ﷺ نے مجھے حکم فرمایا ہے ، میں نکلا ، یہاں تک کہ میرا گذر کچھ بچوں پر ہوا، جو بازار میں کھیل رہے تھے ، اتنے میں دیکھتا ہوں کہ آپ ﷺ نے پیچھے سے میری گردن پکڑ رکھی ہے ، میں نے دیکھا تو آپ ہنس رہے تھے ، آپ نے پوچھا : اے انس ! میں نے جہاں جانے کو کہا تھا ، تم گئے تھے ؟ میں نے عرض کیا : ’’ جی ، اے اللہ کے رسول ! میں جارہا ہوں ‘‘ ۔ (مسلم ، عن انسؓ ، حدیث نمبر : ۲۳۱)
حضرت انسؓ ہی کی روایت ہے کہ میں نے (۱۰ سال ) سفر و حضرمیں آپ ﷺ کی خدمت کی ، آپ ﷺ نے مجھے کبھی اُف بھی نہیں کہا ، نہ کبھی یہ فرمایا کہ فلاں کام کیوں کیا ؟ یافلاں کام کیوں نہیں کیا ؟ یا فلاں کام کیوں چھوڑ دیا ، (بخاری ، عن انسؓ ، حدیث نمبر : ۲۷۶۸)نیز اگر کوئی غلطی ہوگئی اور اہل خانہ میں سے کسی نے ڈانٹ ڈپٹ کی تو فرماتے : چھوڑدو ، یہی مقدر تھا جو ہوا :  لوقُضی أن یکون کان ۔ (مسند احمد ، عن انسؓ ، حدیث نمبر :۱۳۴۱۸)
اگر کوئی شخص اپنے غلام /خادم پر ہاتھ اُٹھاتا تو آپ ﷺ کو سخت تکلیف ہوتی ، حضرت ابو مسعودؓ نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنے غلام کو کوڑے سے مار رہے تھے ، میں نے اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی ، میں اس قدر غصہ میں تھا کہ آواز سن نہیں پایا ، جب یہ آواز دینے والا قریب آیا تو میں نے دیکھا کہ یہ تو رسول اللہ ﷺ ہیں ، آپ فرمارہے تھے : ابو مسعود! جان لو ، ابومسعود ! سمجھ لو ،میں نے اپنا کوڑا ہاتھ سے نیچے گرادیا ، پھر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : ابو مسعود! اچھی طرح جان لو ، تم کو اس غلام پر جتنی قدرت حاصل ہے ، اللہ تعالیٰ تم پر اس سے زیادہ قادر ہیں ، حضرت ابومسعودؓکہتے ہیں : میں نے عرض کیا : میں آج کے بعد کبھی بھی کسی غلام کو نہیں ماروں گا ، نیز یہ بھی کہا : اللہ کے رسول ! یہ اللہ کی خوشنودی کے لئے آزاد ہے ، آپ ﷺ نے فرمایا : اگر تم ایسا نہیں کرتے تو دوزخ کی آگ کی لپیٹ میں آجاتے ۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۶۵۹)
غلاموں کی حیثیت اس زمانہ میں ایسے مزدور کی ہوتی تھی ، جو ہمیشہ اپنے مالک کی خدمت کرتا تھا ، اور وہ لوگوں کے لئے بڑی دولت کی حیثیت رکھتے تھے ؛ کیوں کہ وہ اچھی قیمت میں فروخت کئے جاتے تھے ؛ چوںکہ اس وقت یکلخت غلامی ختم نہیں کی جاسکتی تھی ، توآپ نے حکم دیا کہ ان کو خاندان کا ایک فرد بنالیا جائے اور اسی حیثیت سے ان کے ساتھ سلوک کیا جائے ، ان کو مار پیٹ نہ کی جائے ، یہاں تک کہ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر کوئی شخص اپنے غلام کو تھپر لگادے یا اس کی پٹائی کردے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ وہ اس کو آزاد کردے ۔ (مسلم ، عن زادان ، حدیث نمبر : ۱۶۵۷)
حضرت عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ ایک صاحب رسول اللہ ﷺ کے سامنے آکر بیٹھے اور عرض کیا : اللہ کے رسول ! میرے کچھ غلام ہیں ، وہ مجھ سے جھوٹ بولتے ہیں ، خیانت کرتے ہیں اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں بھی ان کو بُرا بھلا کہتا ہوں اور مار پیٹ کرتا ہوں تو ان کے ساتھ میرا یہ رویہ کیسا ہے ؟ آپ ﷺ نے جواب دیا : ان کی خیانت ، نافرمانی اور جھوٹ اور تمہاری طرف سے ان کی سزا کا حساب کیا جائے گا ، اگر دونوں برابر ہوں ، تو نہ تم کو ثواب ہوگا نہ عذاب ، اگر تمہاری طرف سے سرزنش غلطی کے مقابلہ کم ہوگی تو تم کو ثواب ہوگا اور اگر سزا غلطی سے بڑھ گئی تو تم سے بدلہ لیا جائے گا ، وہ صاحب وہاں سے ہٹ کر رونے لگے ، بالآخر کہنے لگے : اب ان کو الگ کردینا ہی بہتر سمجھتا ہوں ، میں آپ کو گواہ بناکر کہتا ہوں کہ وہ سب کے سب آزاد ہیں ، (ترمذی ، عن عائشہؓ ، حدیث نمبر : ۳۱۶۵)آپ ﷺ کی اس تربیت کا اثر تھا کہ مسلمان غلاموں کے ساتھ کوئی زیادتی روا نہیں رکھتے تھے ، معاویہ بن سوید کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے ایک غلام کو تھپر مار دیا اور (والد کے خوف سے) بھاگ گیا ، پھر ظہر سے کچھ پہلے آیا اور اپنے والد کے پیچھے ظہر کی نماز ادا کی ، والد نے اس غلام کو بھی بلایا اور مجھے بھی ، پھر غلام سے فرمایا : تم اس سے بدلہ لے لو ، مگر اس نے معاف کردیا ۔ (مسلم ، حدیث نمبر : ۱۶۵۸)
آپ نے گفتگو اور خطاب میں بھی اس کی تلقین کی کہ غلام کے ساتھ تحقیر نہ ہو اور مالک کے احترام میں مبالغہ نہ ہو ، جب غلاموں کے لئے یہ حکم ہے تو عام ملازمین اور خادمین کے لئے توبہ درجۂ اولیٰ یہ حکم ہوگا ، اسلام سے پہلے غلام اپنے مالک کو ’’رب ‘‘ اور مالک اپنے غلام کو ’’ عبد‘‘(بندہ ) کہا کرتا تھا ، آپ ﷺنے فرمایا : تم سب اللہ کے بندے ہو ، غلام اپنے آقا کو سردار یاآج کی زبان میں ’’ سر ‘‘ کہہ سکتا ہے، اسی طرح آقا اپنے غلام کو اے بچے ، اے نوجوان ! کہا کرو ۔ (بخاری ، عن ابی ہریرہؓ ، حدیث نمبر : ۲۵۵۲)
آپ ﷺ کو اس طبقہ کا کتنا لحاظ تھا ، اس کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ وفات کے وقت جب آپ کی سانس اکھڑنے لگی تو آپ نے آخری نصیحت یہی فرمائی ، نماز کا اور غلاموں کا خیال رکھو :  الصلوٰۃ وما ملکت أیمانکم (سنن ابن ماجہ ، عن انسؓ ، حدیث نمبر : ۲۶۹۷)
اسلام اس بات کو بھی پسندیدگی کی نظر سے دیکھتا ہے کہ مزدور کاروباری نفع میں شریک ہوں ، ’’ مضاربت ‘‘ کی اصل یہی ہے ، مضاربت یہ ہے کہ ایک شخص کا سرمایہ اور دوسرے آدمی کی محنت ہو ، پھر اس سے جو نفع حاصل ہو ، اس کو باہم متعینہ تناسب مثلاً پچاس فیصد وغیرہ کے حساب سے تقسیم کرلیا جائے ، یہاں دوسرے فریق کو جو کچھ نفع مل رہا ہے ، وہ عامل ہی کی حیثیت سے ہوگا ، اس کی طرف اس حدیث میں بھی اشارہ موجود ہے جس میں آپ ﷺنے کھانا پکانے والے خادم کو کھانے میں سے کم از کم ایک دو لقمہ کھلانے کی تلقین کی ہے ۔ (بخاری ، کتاب الاطعمۃ ، باب ألاکل مع الخادم ، حدیث نمبر : ۵۴۶۰)
مزدوروں کے حقوق کے سلسلے میں پیغمبر اسلام ﷺ کی تاکید کو سامنے رکھتے ہوئے اسلام نے ان کو قانونی تحفظ بھی بخشا ہے اور حکومت کے لئے مداخلت کی گنجائش رکھی ہے ؛ چنانچہ قاضی ابوالحسن ماوردی ( متوفی : ۴۵۰ھ) ’’ محتسب ‘‘ کے فرائض پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں  :
اگر کوئی شخص مزدور و ملازم ( اجیر ) پر زیادتی کرے ، مثلاً اُجرت کم دے یا کام زیادہ لے تو محتسب ایسا کرنے سے روکے ، اور حسب درجات تنبیہ کرے ، اور اگر زیادتی اجیر کی طرف سے ہو ، مثلاً کام کم کرے اور اُجرت زیادہ مانگے تو اس کو بھی روکے اور تنبیہ کرے ، اوراگر ایک دوسرے کی بات کا انکار کریں تو فیصلے کا حق حاکم کو ہے۔ (الاحکام السلطانیہ للماوردی ، مترجم : ۲۹۹ ، باب :۲۰)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com