محمد اکرم لون
منڈی، پونچھ
کسی بھی خوبصورت مقامات کو صاف رکھنا صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ ہر ایک شہری کافرض ہے۔جموں وکشمیر دنیابھر کے خوبصورت مقامات میں سرفہرست ہے۔جس کا خطہ پیر پنچال کے ضلع پونچھ کوبھی قدرت نے دل و روح کو شاد کر دینے والے مناظر اور حسن سے نوازا ہے۔یہاں کے بلند و بالا کوہساروں کی جولانی، پہاڑوں سے پھوٹتے ہوئے چشموں کا ٹھنڈا و شفاف پانی، ہر سمت سے بہنے والے دریاؤں کی روانی، کوہساروں سے چھپ چھپ کر نکلنے والے سورج کی جوانی، پرندوں کی چہچہاہٹ کثیر معنی، وہ تہذیبیں اور ثقافتیں پرانی، غرض کے سب کو دیکھ کر کسی شاعر کا یہ شعر یاد آ جاتا ہے ’خطہ پونچھ کو حُسن کے عارض کا تل کہئے، اسے کشمیر کی جان کہئے،یا دل کہئے‘
ہندوستان کا تاج کہی جانے والی ریاست جموں وکشمیر جو اب یونین ٹیراٹری میں تبدیل کی گئی ہے۔اس کا ایک سرحدی اور بالائی ضلع پونچھ ہے۔جو جموں ہیڈ کواٹر سے 236 کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔اس ضلع میں بہت سارے ایسے خوبصورت مقامات ہیں،جن پر اگر ذمہ داری کے ساتھ توجہ دی جائے تو بڑے پیمانے پر سیاحوں کی آمد کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ محکمہ سیاحت نے پونچھ کے دور دراز علاقوں میں کچھ قابل قدر خدمات انجام دی ہیں۔لیکن میں صرف ان پارکوں کی بات پر ہی اکتفا کروں گا جو دریاوں کے قریب بنائی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر ضلع پونچھ کی تحصیل منڈی کی پارکوں میں سے پونچھ سے تقریباً 22 کلومیٹر دور اورتحصیل ہیڈ کواٹر سے چار کلومیٹر دور جالیاں کے مقام پر بنائی جانے والی مخدومیہ پارک کا ہی ذکر کر لیں۔ فاروق احمد جو ایک غیر سرکاری تنظیم کا حصہ ہیں۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ پارک اگرچہ ابھی نا مکمل ہے۔لیکن سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن رہی ہے۔ دور دراز سے لوگ یہاں آکر اپنا وقت گزارتے ہیں۔اس پارک کے بالکل سامنے ایک دریا بہتا ہے۔جو اس کی دلکشی اور خوبصورتی میں مزید اضافہ کر دیتا ہے کیونکہ یہ پارک دریا کے عین سامنے ہے۔ اس لیے گرمیوں کے موسم میں لوگ یہاں دریا کی ٹھنڈی ٹھنڈی ہواؤں کا لطف لینے کے لیے کثرت سے آ جاتے ہیں۔
لیکن تشویش میں ڈالنے والی بات یہ ہے کہ اس پارک کی وجہ سے دریا آلودہ ہو رہا ہے۔پارک میں آنے والے سیاح اور مقامی لوگ کھانے پینے کی مختلف اشیا کا استعمال کرنے کے بعد انھیں دریا میں پھینک دیتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر پلاسٹک کے پیکٹ اور بوتلیں بہتے ہوئے شفاف پانی کو الودہ کرتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس حوالے سے پارک کے نگراں ریاض احمد نے اس ضمن میں بتایا کہ پارک میں ابھی تک ڈسٹبین کا انتظام نہیں کیا گیا ہے۔ حالا نکہ کثیر تعداد میں لوگوں کا یہاں انا جانا لگا رہتا ہے۔ریاض نے بتایا کہ ذاتی طور پر انہوں نے ایک عارضی کوڑا دان وہاں لگایا تھا۔لیکن وہ نا کافی تھا۔ پارک میں تفریح کی خاطر آنے والوں کو وہ باور بھی کراتے رہے کہ دریا کے پانی میں کوڑا نہ پھینکا جائے۔ لیکن کم علم لوگ بار بار یہ غلطی دوہراتے ہیں۔یہی دریا جب منڈی کے بیچوں بیچ بہتا ہوا نکلتا ہے تو وہاں کے دکاندار حضرات بھی اس کی آلودگی کی خاطر تیار بیٹھے ہوتے ہیں۔ یہ جہالت کی بدترین شکل ہے۔ کیوں نکہ قدرت نے جو شہ انسان کے نفعے کے لئے پیدا کی اور ایسی شہ جس کے بغیر انسان زندہ بھی نہیں رہ سکتا، اس کو یہ انسان خود برباد کرنے پر تلا ہوا ہے۔ مگر کوئی بھی سنجیدگی سے اس جانب سونچنے کو تیار نہیں ہے۔
اس علاقے کی ایک با وقار شخصیت سید تنویر بخاری سے اس ضمن میں جب تبادلہ خیال کیا گیا تو انہوں نے وضاحت فرمائی کہ پانی انسانی زند گی کے لئے ہی نہیں بلکہ کائنات کے وجو د وبقا کے لیے بھی ضروری ہے۔ اسی لئے تمام مذہبی کتابوں میں بھی اس نعمت کی اہمیت، افادیت اور فضیلت کے زکر متعدد بار کیا گیا ہے تاکہ بنی نوانسان اس سے باخبر رہ سکے۔ پانی عظیم نعمت ہے۔اس کا کو ئی نعم البدل نہیں۔ انسان کی تخلیق سے لیکر کا ئنات کی تخلیق تک سبھی چیزوں میں پا نی کی جلوہ گری ہے۔ اس کو آلودہ کرنا تمام مذہب میں منافی اور گناہ کا کام قرار دیا گیاہے۔اس کو آلودہ کرنا نہ صرف پانی کی آلودگی تک محدود ہے بلکہ اس پانی کو استعمال کرنے والوں کو ضرر پہنچانے کے مترادف ہے۔جو پانی کے اسراف سے بڑھ کر مذموم عمل ہے۔ لہٰذا اس معا ملے میں ہر انسان اپنی ذمہ داری نبھا تے ہوئے پانی کم سے کم خرچ کرے اور اسے آلودگی سے بچانے کی ہر ممکن کوشش کرے۔
پانی انسان کی بنیادی ضروریات میں داخل ہے۔اس کے بغیر زندگی کا تصور ممکن نہیں ہے۔شہروں سے قطع نظر پہاڑی علاقے زیادہ تر صاف و شفاف پانی کی خاطر جانے جاتے ہیں۔ چونکہ پہاڑی علاقوں میں رہنے والے لوگ بہت ہی سادہ زندگی بسر کرتے ہیں۔ لہذا وہ اس بات کے قائل نہیں ہوتے کہ تھوڑے بہت نفعے کے بدلے پانی کو آلودہ کیا جائے۔ لیکن ستم یہ ہے کہ تفریح کی خاطر اس پارک میں آنے والے سیاہ اس کی اہمیت کو نہیں سمجھتے ہیں اور انجانے میں اسے آلودہ کرتے چلے جاتے ہیں۔ لیکن کیا ہوگا اگر یہ صاف شفاف دریا ناپاک ہوجائے؟ اس کا پانی زہریلا ہوکر لوگوں کو ان گنت بیماریوں کا سبب بنانے لگے؟ ان علاقوں کو سیراب کرنے والے دریا کا پانی اگر آلودگی کی وجہ سے دم توڑنے لگے تو سزاوار کون ٹہرایا جایے گا؟عام لوگ اس سزا کے حقدار کہلائیں گے یا سرکاری لوگوں کی گردان پر یہ خنجر پھیرا جائے گا؟
یہ ایک بہت حساس مسلہ ہے جس کی طرف ہم سب کو سوچنے کی ضرورت ہے۔ سیاحتی مقامات کواگر آلودگی سے بچانا ہے تو یہاں آنے والے سیاحوں کو اس کی صاف ستھرائی کے لئے بیدار کرنے کی خاص ضرورت ہے۔کوویڈ۔19کے بعد اب حالات بہت بہتر ہو رہے ہیں۔ سیاحوں کو آنے جانے کی اجازت بھی ملنے لگی ہے۔ ایسے میں ان علاقوں میں سیاحوں کے آنے سے لوگوں کو روزگار بھی ملنے کی امید ہے، لیکن یہ اس وقت ممکن ہوگا جب یہ مقامات صاف ستھرے ہونگے۔یہ بہت اہم ہے کہ ان علاقوں کو صاف ستھرا رکھنے کی ذمہ داری صرف حکومت کی ہی نہیں ہے بلکہ مقامی لوگوں کو بھی آگے آنے کی ضرورت ہے۔