دنیا کے مختلف ملکوں میں کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں عائد پابندیوں اور قواعد و ضوابط کے خلاف لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ ہالینڈ، آسٹریا، اٹلی، شمالی آئرلینڈ، کروشیا، فرانس، سوئٹزرلینڈ اور دیگر ملکوں کے شہری پابندیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور ہنگامہ آرائی کے بھی واقعات رپورٹ ہوئے۔
خبر رساں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کے مطابق ہالینڈ میں کرونا وائرس کے سلسلے میں عائد پابندیوں کے خلاف ایک بار پھر احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ ہیگ میں ہفتے کی رات کو نوجوانوں نے سڑکوں اور دفتروں پر آتشی مواد پھینکا۔
ملک میں بدامنی کا آغاز روٹرڈیم میں پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں سے ہوا جب مظاہرین کرونا پابندیوں کے خلاف احتجاج کے دوران اچانک پرتشدد ہو گئے۔ اس موقع پر پولیس نے 51 مظاہرین کو گرفتار کیا جس میں بچے بھی شامل ہیں۔
ہالینڈ کے دوسرے مقامات پر فٹ بال کے دو اسٹیدیمز میں بھی ہنگامے ہوئے اور پولیس نے اپنی ایک ٹوئٹ میں بتایا کہ ہیگ میں سات افراد کو گرفتار کیا ہے جب کہ جھڑپوں میں پانچ پولیس افسر زخمی بھی ہوئے ہیں۔
گزشتہ برس ہالینڈ میں کرونا وائرس کی روک تھام کے سلسلے میں پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ ان کے خلاف ملک میں مظاہرے ہوتے رہے ہیں مگر حالیہ مظاہروں کو بدترین قرار دیا جا رہا ہے۔
ملک کے وزیر انصاف نے ان واقعات کی مذمت کی ہے اور پولیس پر حملوں کو ناروا قرار دیا ہے۔
واضح رہے کہ ہالینڈ میں کرونا کیسز میں اضافے کے باعث گزشتہ ہفتے ہی جزوی لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔
آسٹریا میں حکومت نے ملک بھر میں پیر سے لاک ڈاؤن کا اعلان کر رکھا ہے جس کے خلاف ہفتے کو ویانا میں ہزاروں افراد نے احتجاج کیا۔
آسٹرین حکومت نے لاک ڈاؤن کا اعلان ملک میں کرونا کے باعث اموات میں حالیہ اضافے کے بعد کیا ہے۔ یہ لاک ڈاؤن 10 دن تک رہے گا البتہ اس میں اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔
سوئٹزر لینڈ میں لگ بھگ دو ہزار افراد نے کووڈ 19 پابندی قانون پر ہونے والے ریفرنڈم کے خلاف احتجاج کیا۔ مقامی براڈ کاسٹر ایس آر ایف نے رپورٹ کیا کہ مظاہرین کا دعویٰ ہے کہ یہ قانون امتیازی سلوک برتنے والا ہے۔
اٹلی میں لگ بھگ تین ہزار افراد دارالحکومت روم کے سرکس میکسیمس کے مقام پر جمع ہوئے اور کام کی جگہوں، ریستورانوں، سنیماؤں، تھیٹروں، کھیلوں کے مقامات اور جمز سمیت طویل سفر والی ٹرین، بسوں اور فیری میں ‘گرین پاس’ سرٹیفکیٹ لازمی قرار دینے کے خلاف احتجاج کیا۔
اس موقع پر مظاہرین نے کوئی حفاظتی ماسک نہیں پہنے ہوئے تھے اور ایک بینر پر تحریر تھا کہ ”ہماری طرح کے لوگ کبھی ہار نہیں مانتے۔”
شمالی آئرلینڈ میں بھی سیکڑوں افراد نے ویکسین پاسپورٹس کے خلاف احتجاج کیا اور یہ افراد بیل فاسٹ کے سٹی ہال کے باہر جمع ہوئے جہاں ہفتے کو شہر کی کرسمس مارکیٹ کھولی گئی تھی۔
کروشیا کے دارالحکومت زاگریب میں ہزاروں افراد نے ویکسی نیشن کے خلاف احتجاج کیا۔ مظاہرین نے پرچم، قومی اور مذہبی نشانات اور بینرز اٹھا رکھے تھے اور وہ ویکسی نیشن کو لوگوں کی آزادی پر پابندی قرار دے رہے تھے۔
علاوہ ازیں فرانس کے وزیرِ داخلہ جیرالڈ ڈارمانن نے کیربین جزیرے گواڈالوپ میں پرتشدد مظاہرے کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ پولیس نے رات گئے 29 افراد کو حراست میں لیا ہے۔ حکام نے 200 سے زیادہ پولیس افسران کو جزیرے پر بھیجا ہے اور منگل سے وہاں شام چھ سے صبح پانچ بجے تک رات کا کرفیو نافذ کیا جائے گا۔
گواڈالوپ فرانس کے سمندرپار علاقوں میں سے ایک ہے۔
گواڈالوپ میں مظاہرین نے احتجاج کے دوران سڑک بلاک کی تھی اور گاڑیوں کو آگ لگا دی تھی۔ مشتعل مظاہرین نے فرانس کے کرونا وائرس ہیلتھ پاس کو مسترد کیا ہے۔ یہ پاس ریستورانوں، کیفیز، ثقافتی مراکز، کھیلوں کے مراکز اور طویل سفر کے لیے ضروری ہے۔
مظاہرین ہیلتھ کیئر ورکرز کے لیے فرانس کی جانب سے لازمی ویکسی نیشن کے خلاف بھی احتجاج کر رہے ہیں۔
علاوہ ازیں جاپان میں کرونا مریضوں کی تعداد میں گزشتہ دو ماہ میں اضافہ ہوا ہے۔ حکومت نے اس سے نمٹنے کے لیے اسپتالوں میں بستروں کی گنجائش 37 ہزار تک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ ملک کے اسپتالوں میں اس وقت 28 ہزار بستر موجود ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اگست میں جاپان میں کرونا کے دو لاکھ 31 ہزار مریضوں کو اسپتالوں میں داخلے کی ضرورت تھی اور مریضوں کی تعداد زائد ہونے کی وجہ سے اکثر مریضوں کو گھروں میں قرنطینہ رکھا گیا تھا۔ حکومت کے اس فیصلے کے خلاف جاپانی عوام نے سخت احتجاج کیا تھا۔
اُس وقت کے وزیر اعظم یوشی ہیدے سوگا کے مستعفی ہونے کی ایک بڑی وجہ یہی بنی تھی کہ وہ کرونا وائرس کے خلاف مناسب انتظامات نہیں کر سکے تھے۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اب تک پورے جاپان میں تقریباً اٹھارہ ہزار افراد کرونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں وہ افراد شامل نہیں جو گھروں میں اس مرض کا شکار ہو کر جان کی بازی ہار گئے تھے۔