بین مذہبی مذاکرات ، ایک اہم ضرورت

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
یہ ایک حقیقت ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو ایک ایسی مخلوق بنایا ہے، جس میں عقل و فہم کی غیر معمولی صلاحیت رکھی گئی ہے؛ لیکن جیسے انسان کے ظاہری رنگ و روپ، شکل و صورت اور آواز وغیرہ میں فرق رکھا گیا ہے، اسی طرح اس کی سوچ اورمزاج و مذاق میں بھی فرق اور تنوع پایا جاتا ہے، جس کا دن رات مشاہدہ ہوتا رہتا ہے، اسی کا اثر ہے کہ کسی کو مثلاً سرخ رنگ پسند ہے اور کسی کو سیاہ، کسی کو ایک پھل پسند ہے اور کسی کو دوسرا، یہ اختلاف جس طرح مادی چیزوں میں ہے، اسی طرح معنوی چیزوں میں بھی ہے، فکر و نظر کے اسی اختلاف اور ذوق و مزاج کے اسی تنوع کی وجہ سے دنیا میں سیکڑوں ادیان ومذاہب موجود ہیں اور جو گروہ جس دین کو قبول کرتا ہے، وہ اسی پر پورا ایقان رکھتا ہے۔ قرآن مجید چوںکہ خود خالق فطرت کی اُتاری ہوئی کتاب ہے؛ اس لئے اس میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ اگر اﷲ کو منظور ہوتا تو ساری انسانیت ایک ہی دین پر قائم ہوتی، یہ اختلاف ِدین اگرچہ اﷲ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق نہیں ہے؛ لیکن اس کے پیچھے بھی اﷲ ہی کی مشیت کار فرما ہے۔ (یونس: ۹۹، ہود: ۱۱۸، نحل: ۹۳)
جب خود اﷲ تعالیٰ نے انسان کو راہِ ہدایت اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا ہے ، اس کو ارادہ واختیار کی قوت دی ہے اور اس کی سوچ میں اختلاف رکھا ہے تو اب نوع انسانی کو ہدایت کی طرف لانے کا طریقہ یہی ہے کہ قوموں کے درمیان تبادلۂ خیال ہو، اور باہمی مذاکرہ کا راستہ اختیار کیا جائے، جو خیر اُمت کیلئے شہادت حق کا ایک پُر امن راستہ ہے، اس پس منظر میں مذہبی مذاکرات کی بڑی اہمیت ہے ۔
اس سلسلہ میں سب سے قابل توجہ امر یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان مذاکرات سے ہمارے مقاصد کیا ہونے چاہئیں ؟
(۱) مذاکرات کا پہلا مقصد نفرت اور عداوت کے جذبات کو ختم کرنا یا کم کرنا ہے، بہتر گفتگو عام طورپر رائیگاں نہیں جاتی اور اگر مخاطب آپ کی بات کو پوری طرح قبول نہ کرے اوراس کی مخالفت بالکل ختم نہ ہوجائے تو کم ضرور ہوجاتی ہے:
’’بھلائی اور برائی برابر نہیں ہو سکتی (اس لئے برائی کا) ایسے طریقہ سے جواب دیجئے جو بہت اچھا ہو تو یکایک جس شخص کے اور تمہارے درمیان دشمنی تھی، وہ ایسا ہو جائے گا جیسے کوئی جگری دوست۔ ‘‘( فصلت : ۳۴ )
یہ آیت واضح کرتی ہے کہ دعوت کا جہاں یہ فائدہ ہے کہ مخاطب کو ہدایت نصیب ہوتی ہے، وہیں اس کا ایک بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ مخالفت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں یا کم ہوجاتے ہیں ۔ صحابہ ؓ نے جب رسول اﷲ کی ایماء پر حبش کو ہجرت فرمائی اور ایسے حالات پیش آئے کہ صحابہ کا نجاشی اور ان کے اعوان و انصار کے ساتھ مذاکرہ ہوا تو یہی گفتگو نجاشی کے اطمینان کا، مسلمانوں کے ساتھ بہتر سلوک کا اور بالآخر ایمان لانے کا سبب بنا۔ آپؐ نے جب مدینہ ہجرت فرمائی تو وہاں کے یہودیوں اور مشرکین کے ساتھ مذاکرہ فرمایا، جس کے نتیجہ میں’’ میثاقِ مدینہ‘‘ پر تمام لوگوں کے دستخط ہوئے اورمسلمانوں کو پر امن زندگی گزارنے کا موقع ملا، یہود اورمنافقین اگرچہ خفیہ طورپر سازشیں کرتے رہے؛ لیکن غزوۂ احزاب تک انہوں نے کھل کر مسلمانوں کے خلاف محاذ آرائی نہیں کی، اسی لئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں موجود مشرک، یہود اور عیسائی قبائل سے گفتگو کی۔ اس گفتگو کے ذریعہ صلح کا راستہ ہموار ہوا اور پر امن ماحول میں اسلام کی دعوت کو فروغ دینے کا موقع ملا ۔
(۲) مذاکرات کا دوسرا مقصد مخاطب کی غلط فہمی کو دور کرنا ہے؛ کیوںکہ اگر دل میں شکوک وشبہات کے کانٹے چبھ رہے ہوں اور غلط فہمیاں اور بدگمانیاں پائی جاتی ہوں تو کیسے تعلقات خوشگوار ہو سکتے ہیں اور تعارف اسلام کے لئے میدان فراہم ہو سکتا ہے؟ انبیاء کی اپنی اقوام سے جو گفتگو ہوتی رہی ہے، اگر اس کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی گفتگو کا مقصود مخاطب کی غلط فہمی کو دور کرنا ہوتا تھا؛ مخاطب انہیں جادوگر کہتے تھے، مجنون (پاگل) کہتے تھے، کہتے تھے کہ جس کتاب کو وحی الٰہی کہتے ہو ، وہ ’’ اساطیر الاولین‘‘ (پہلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہیں) ہے، الزام لگاتے تھے کہ یہ سنی ہوئی کہانیاں ہیں، انبیاء مثبت انداز میں پورے تحمل اور بردباری کے ساتھ ان کا جواب دیتے تھے اور ان کی غلطی کو دلائل سے واضح فرماتے تھے۔ اہل مکہ کا گمان تھا کہ فرشتے اﷲ کی بیٹیاں ہیں، قرآن نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسی بات ہے کہ بیٹی کی پیدائش کو اپنے لئے عیب سمجھتے ہو اور خدا کیلئے بیٹیاں ثابت کرتے ہو، اہل مکہ کہتے تھے کہ جب انسان کی موت ہوجائے گی اور وہ ریزہ ریزہ ہوجائے گا تو پھر کس طرح وہ دوبارہ زندہ کئے جائیں گے؟ قرآن نے کہا کہ جب اﷲ تعالیٰ پہلی بار تمہاری تخلیق کرسکتے ہیں تو دوبارہ تمہیں زندگی عطا کرنا کیا دشوار ہے؟ (یٰسین:۷۹)
یہودی کہتے تھے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام یہودی تھے اور عیسائیوں کا دعویٰ تھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام عیسائی تھے، قرآن نے وضاحت کی کہ حضرت ابرہیم نہ یہودی تھے نہ عیسائی ؛ بلکہ وہ دین حنیف پر قائم تھے؛ کیوںکہ یہودیت اور عیسائیت کا آغاز ہی حضرت ابراہیم کی کئی نسلوں کے بعد ہوا، عیسائی کہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اﷲ کے بیٹے ہیں؛ کیوںکہ کسی باپ کے بغیر ان کی پیدائش ہوئی ہے، قرآن نے حضرت آدم علیہ السلام کی مثال دی کہ حضرت آدم علیہ السلام کی پیدائش تو ماں باپ دونوں کے بغیر ہوئی، اگر یہ خدا کے بیٹے ہونے کی دلیل ہوتو انہیں بھی خدا کا بیٹا ماننا پڑے گا۔ (آل عمران: ۵۹)
عیسائی علماء نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ قرآن نے حضرت مریم کا بھائی حضرت ہارون علیہ السلام کو قرار دیا ہے؛ حالاںکہ حضرت ہارون ان سے مدتوں پہلے پیدا ہوئے اور وہ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے رفیق تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دوسرے ہارون ہیں اور لوگوں میں یہ رواج تھا کہ وہ گزشتہ انبیاء کے نام پر اپنے بچوں کے نام رکھا کرتے تھے۔
(۳) مذاکرات کا سب سے بنیادی مقصداسلام کا تعارف اور اللہ کی طرف بلانا ہے؛ اس اُمت کو اسی لئے خیر اُمت کا مقام دیا گیا ہے کہ وہ لوگوں کو معروف کی طرف بلاتی اور منکر سے روکتی ہے۔(آل عمران:۱۱۰)
’’ ناس ‘‘ کا لفظ قرآن مجید میں زیادہ تر مشرکین کے لئے استعمال ہوا ہے ۔
’’ معروف ‘‘ کا سب سے اعلیٰ درجہ ایمان ہے ۔
’’ منکر ‘‘ میں سب سے سخت درجہ کفر و شرک ہے ۔
اس طرح گویا اس آیت میں مسلمانوں کو غیر مسلموں پر دعوتِ ایمان پیش کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اسی لئے اس آیت میں اہل کتاب کے ایمان لانے کی طرف خاص طورسے اشارہ کیا گیا ہے، قرآن مجید میں انبیاء کی اپنی قوم کے ساتھ مذاکرات کے جو واقعات آئے ہیں یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے مخاطبین کے ساتھ گفتگو کی جو تفصیل آئی ہے، ان سب کی بنیاد دعوتِ ایمان ہے؛ اس لئے مذاکرات کا بنیادی مقصد دعوت الی اﷲ ہے، پس یوں تو مذاکرات کے بہت سے فوائد ہیں؛ لیکن یہ بنیادی مقاصد ہیں، جو نہایت اہم ہیں اور جن کو مذاکرات کے ذریعہ بہتر طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے، غرض کہ مذاکرات کا ایک فائدہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہے اور اس کیلئے یہ بہت مؤثر ذریعہ ہے ۔
بائبل میں بھی اور قرآن مجید میں بھی انبیاء کے واقعات اور اپنی قوموں کے ساتھ تبادلۂ خیال کو دیکھا جائے تو وہ مذاکرات کے بہترین نمونے ہیں؛ چنانچہ سورۂ ہود (۲۵تا ۴۹ ) میں حضرت نوح علیہ السلام ، سورہ شعراء ، سورۂ بقرہ ، انعام اور انبیاء میں حضرت ابراہیم علیہ السلام، اسی طرح سورۂ شعراء اور سورۂ نمل میں حضرت لوط علیہ السلام، سورۂ یوسف میںحضرت یوسف علیہ السلام، اعراف، ہود اور نمل میںحضرت صالح علیہ السلام، ہود، اعراف اورشعراء میں حضرت ہود علیہ السلام، اعراف، ہود اورشعراء میں حضرت شعیب علیہ السلام، اعراف، شعراء اور سورۂ طٰہٰ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام، سورۂ نمل میں حضرت سلیمان علیہ السلام، آل عمران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مختلف سورتوں میں رسولِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنی قوم سے خطاب اور سوال وجواب کے مضامین کو دیکھا جاسکتا ہے ، اسی طرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دعوت کی بہترین مثال اہل کتاب کو دی گئی دعوت ہے ۔ (آل عمران : ۶۴-۶۸)
سلف صالحین نے بھی اپنے اپنے زمانہ میں مختلف اہل مذہب سے مذاکرات کا سلسلہ قائم فرمایا اور کوئی شبہ نہیں کہ اس کے بہت اچھے اثرات مرتب ہوئے، ان واقعات کو اکثر مناظرہ کے عنوان سے مختلف کتابوں میں نقل کیا گیا ہے، اسی میں وہ مشہور واقعہ ہے جس میں امام ابوحنیفہؒ نے ملحدین کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے وجود پر مباحثہ کیا تھا اور خلیفہ ہارون رشید نے اپنے ایک نصرانی طبیب سے مناظرہ کیا تھا، یا خلیفہ مامون نے کلثوم بن عمر و عتابی اور ابن فروہ نصرانی کے درمیان مباحثہ کرایا تھا ۔
مذاکرات کی کامیابی میں بڑا دخل مذاکرہ کرنے والے کے اخلاق اور طرز گفتگو کا ہوتا ہے۔
(۱) اس میں ایک بنیادی چیز وہ ہے جسے قرآن مجید نے ’’ قول حسن ‘‘ (بہتر بول) سے تعبیر کیا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے :’’وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْناً‘‘۔ ( البقرۃ : ۸۳)حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کو جب اﷲ تعالیٰ نے فرعون کو دعوت دینے کے لئے بھیجا تو ہدایت دی گئی کہ فرعون سے نرم گفتگو کی جائے: (طٰہ:۴۴)اُصولِ دعوت کے بارے میں بتاتے ہوئے اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:ترجمہ: (اے رسول!) آپ اپنے پروردگار کے راستے کی طرف حکمت اور عمدہ نصیحت کے ذریعہ بلائیے، اور ان سے بہتر طریقہ پر بحث کیجئے۔ ( النحل : ۱۲۵)ایک اور موقع پر کہا گیا کہ اہل کتاب کے ساتھ تمہاری گفتگو صرف اور صرف بہتر طریقہ پر ہو:اہل کتاب سے ایسے طریقہ سے بحث کیا کرو، جو سب سے بہتر ہو، ہاں اُن میں سے جو زیادتی کرے (تو ان کو اسی کے مطابق جواب دے سکتے ہو)۔ ( العنکبوت : ۴۶)(۲) دوسرا ضروری وصف یہ ہے کہ فریق مخالف کے ساتھ عام سلوک کے اعتبار سے بھی خوش اخلاقی سے پیش آیا جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت اس سلسلہ میں ہمارے لئے بہترین نمونہ ہے ؛ اسی لئے انبیاء اپنے مخاطب کفار و مشرکین کو ’’ یا قومی ‘‘ (اے میری قوم) کہہ کر خطاب کرتے تھے، جس میں اپنائیت ومحبت کا اظہار ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف بادشاہوں اور رؤساء کو دعوتی خطوط لکھے تو ان میں بھی ان کے درجہ و مقام اور حیثیت عرفی کی پوری پوری رعایت تھی، ابوجہل کو اسلام کی دعوت پیش کی تو اس کو ’’ابوالحکم ‘‘کے لفظ سے مخاطب کیا ، جو اس کے لئے سب سے محبوب نام تھا اور جس سے اس کی عزت اورلیاقت کا اظہار ہوتا تھا، عدی بن حاتم آئے تو ان کو دولت خانہ پر لے گئے اور توقیر کے ساتھ بٹھایا؛ ہرقل کے نام لکھے گئے خط میں اس کو ’’ عظیم الروم ‘‘ کے لفظ سے مخاطب فرمایا۔(۳) مذاکرہ کے مؤثر ہونے کے لئے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ فریق مخالف کے ساتھ عدل کا رویہ اختیار کیا جائے اور اس میں جو خوبیاں ہوں، ان کے اعتراف میں بخل سے کام نہ لیا جائے، اﷲ تعالیٰ نے ہر شخص میں اور ہر گروہ میں خیر کے پہلو بھی رکھے ہیں، اگر ان خوبیوں کا تذکرہ کیا جائے تو اس سے فریق مخالف کے اندر قبول کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے؛ چنانچہ قرآن مجید نے صاف صاف کہا ہے: ’’کسی قوم کی دشمنی تم کو ناانصافی پر آمادہ نہ کرے، انصاف کرو، یہی تقویٰ سے قریب تر (طریقہ ) ہے۔‘‘ ( المائدۃ : ۸)
قرآن مجید میں ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں اہل کتاب کی ناشائستہ باتوں پر نقد کیا گیا ہے، وہیں ان میں جو خوبیاں پائی جاتی تھیں، یا ان کے کسی گروہ میں اگر کوئی خوبی موجود تھی تو اس کا بھی بہتر طورپر ذکر فرمایا گیا ہے، جیسے:
اہل کتاب میں سے بعض وہ ہیں کہ اگر تم ان کے پاس مال کا ایک ڈھیر بھی امانت رکھ دو تو وہ تم کو ادا کر دیں گے، اور بعض ایسے ہیں کہ اگر ان کے پاس ایک دینار بھی رکھو تو واپس نہ کریں گے، سوائے اس کے کہ ان کے سر پر کھڑے رہو، یہ اس لئے کہ وہ لوگ کہتے ہیں کہ جو اہل کتاب نہیں اُن کے مال کے سلسلہ میں ہم پر کوئی گناہ نہیں اور وہ جانتے بوجھتے اللہ پر جھوٹ گھڑ رہے ہیں۔ (آل عمران : ۷۵)
(۴) مذاکرہ کے لئے ایک نہایت ہی اہم وصف صبر اور بردباری کا بھی ہے۔ جب کسی اختلافی مسئلہ پر گفتگو ہوتی ہے تو بعض باتیں طبیعت کے خلاف بھی کہی جاتی ہیں، اور ایسی بھی باتیں ہوتی ہیں، جن سے انسان کی اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہے ، بظاہر اس کا وقار مجروح ہوتا ہے، مذاکرہ کرنے والے کا کمال یہ ہے کہ وہ ایسی باتوں سے متاثر نہ ہو اور صبر کا دامن اس کے ہاتھوں سے چھوٹنے نہ پائے، وہ کانٹوں کا جواب پھول سے اور نفرت کا جواب محبت سے دے، قرآن مجید میں بار بار اس کی تاکید کی گئی ہے، (الاعراف : ۱۹۹)
اپنے مخاطب کے مقابلہ حلم و بردباری اور عفو و صبر کی بہترین مثال وہ مکالمات ہیں جو انبیاء اور ان کی اقوام کے درمیان پیش آئے ہیں اور قرآن نے ان کا تفصیل سے ذکر کیا ہے ۔
(۵) مذاکرہ کار کے لئے ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اپنے مخاطب کی زبان سے واقف ہو، اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ انبیاء کرام نے اپنی اپنی اقوام کو انہی کی زبان میں مخاطب کیا ہے :’’ہم نے اپنا پیغام دینے کے لیے جب کبھی کوئی رسول بھیجا ہے، اُس نے اپنی قوم ہی کی زبان میں پیغام دیا ہے ۔‘‘ ( ابراہیم:۴)
ایک اہم سوال یہ ہے کہ مذہبی مذاکرات کے مضامین کیا ہونے چاہئیں۔ اس سلسلے میں قرآن مجید سے ہمیں یہ رہنمائی ملتی ہے کہ پہلے ان اُمور کی دعوت دی جائے اور ان باتوں سے گفتگو کا آغاز کیا جائے جو دونوں کے درمیان مشترک ہوں، جس کو قرآن مجید نے ’’ کلمۂ سواء‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔ (آل عمران: ۶۴)
’’ کلمہ سواء ‘‘ جس کی طرف تمام انبیاء نے دعوت دی ہے، وہ بنیادی طورپر توحید ورسالت اورآخرت ہے، خاص کر تمام آسمانی کتابیں ان عقائد پر متفق ہیں؛ اس لئے حوار کا بنیادی مضمون یہی ہونا چاہئے اور اس بات کو ضرور ملحوظ رکھنا چاہئے کہ اسلام گفتگو کے آغاز کے لئے اور دعوتِ اسلام کو آسان بنانے کے لئے اس بات کا تو قائل ہے کہ کلمہ سواء اور مشترک عقائد سے آغاز کیا جائے؛ لیکن وہ وحدت دین کا قائل ہے کہ دین ہمیشہ سے ایک ہی رہا ہے ۔(شوریٰ: ۱۳) اور یہ بھی واضح فرما دیا گیا کہ اﷲ کے یہاں اس دین کے علاوہ کوئی اور دین قابل قبول نہیں۔ ( آل عمران:۸۵)
وہ وحدت ادیان کا قائل نہیں ہے جیساکہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ تمام مذاہب ایک ہیں، منزل ایک ہے اور راستے الگ الگ ہیں۔ اسلام کی نظر میں ایک ہی راستہ ہے جو اﷲ کی رضا ء وخوشنودی کی طرف آتا ہے، اس کے سوا جو بھی راستے ہیں، وہ انسان کو گمراہی کی طرف لے جانے والے ہیں ۔
یوں تو مذاکرات اور حوار (مکالمات) کی اہمیت ہر جگہ ہے ؛ لیکن ہندوستان میں اس کی اہمیت نسبتاً زیادہ ہے اور اس کے دو بنیادی اسباب ہیں ، ایک یہ کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا کثیر مذہبی ملک ہے، دنیا کا شاید ہی کوئی مذہب ہو، جس کے ماننے والے اس ملک میں نہیں بستے ہوں ، ہندوستان کا یہ ملا جلا معاشرہ صرف اِسی دور میں نہیں ہے؛ بلکہ زمانۂ قدیم سے اس کی یہی روایت رہی ہے، اس ملک میں بودھ ازم پیدا ہوا، اسی ملک میں ویدک دھرم ( ہندو مذہب ) نے جنم لیا، اسی ملک میں جین مت اور سکھ مت پیدا ہوئے، خود اسلام بالکل ابتدائی دور میں یہاں پہنچا اور بہت کم عرصہ میں ملک کے طول و عرض میں اس کی روشنی پھیل گئی، اس کے علاوہ عیسائی ، یہودی ، پارسی وغیرہ بھی یہاں بڑی تعداد میں رہے ہیں اور اس وقت بھی موجود ہیں۔ باہمی مذاکرات سے یہاں پُر امن ماحول قائم ہوگا، مفاہمت کا مزاج پیدا ہوگا اور بقاء باہم کے اُصول پر تمام مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے ساتھ رہنے کے عادی بنیں گے ۔
دوسرے: یہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے ، جس میں تمام گروہوں کو مذہبی آزادی حاصل ہے، یہاں جمہوریت کو استحکام اور ہمہ مذہبی کلچر کو قبول عام حاصل ہے؛ لہٰذا ا اس ملک میں مذاکرات کیلئے سازگار فضا اور خوشگوار ماحول موجود ہے، جو نہ صرف بہت سی غلط فہمیوں کو دور کرنے میں ممد ومعاون ہوں گے ؛ بلکہ اسلام کی دعوت و اشاعت میں بھی ان سے فائدہ اُٹھایا جاسکے گا۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com