نئی دہلی: (پریس ریلیز) گزشتہ ۲۱ دسمبر کو اردو گھر میں خسرو فاؤنڈیشن کی جانب سے تالیف حیدر کی لکھی گئی کتاب ” اودو کی ترویج و اشاعت میں غیر مسلموں کی خدمات ” کا رسم اے اجراء کیا گیا۔اس سے پہلے خسرو فاؤنڈیشن کی جانب سے ہی” ہندوستان کی شرعی حیثیت ” نام سے ایک اور کتاب منظر ے عام پر آ چکی ہے ۔ خوشی کی بات یہ ہے کہ فاؤنڈیشن نے یہ کتابیں ایسے وقت میں تیار کرائی ہیں جب مسلمانوں کی حب الوطنی کو مشکوک ٹھہرایا جارہا ہے اور اردو زبان کو ایک مخصوص طبقہ سے جوڑ کر دیکھا جارہاہے۔ اس نازک دور میں ایسی تعمیری اور مثبت پیش رفت کے جو نتائج ہندوستانی معاشرے پر مرتب ہوں گے وہ کسی کی نظروں سے مخفی نہیں ہیں۔حالانکہ ابھی اس ادارے کے قیام کو زیادہ وقت نہیں ہوا ہے اس کے باجود فاؤنڈیشن نے جن تعمیری امور کی انجام دہی کا فریضہ انجام دیا ہے وہ غیر معمولی ہے۔ وہی خسرو فاؤنڈیشن کے ممبران پروفیسر اختر الواسع، سراج الدین قریشی، روہت کھیڑا اور رنجن مکھرجی جیسی شخصیات کی اس ادارے کو سرپرستی حاصل ہے۔
پنڈت گلزار دہلوی کی زبانی اردو کی کشش، سلاست اور دلکشی کو بیان کرتے ہوئے ممتاز اردو دوست اور بانی ‘جشن بہار’ کامنا پرساد نے کہا کہ اردو خالص ہندوستانی زبان ہے جس میں مذہب کی بنیاد پر کبھی کوئی رکا وٹ نہیں آئی۔کیونکہ یہ زبان اپنی پیدائش سے ہی مذہب کے بندھنوں سے آزاد رہی ہے۔انہوں نے آگے کہا کہ اردو زبان ہمیشہ سے مشترکہ تہذیب کی علامت رہی ہے ،ساتھ ہی ہمیں اس بات کو یاد رکھنا چاہیے کہ زبان کو کسی مذہب کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ مذاہب کو زبان کی ضرورت ہوتی ہے۔ حقیقت یہی کہ ہندوستان میں بہت سے ہندو اور سکھ شعراء اور شاعرات بھی اپنی مادری زبان سے زیادہ اردو زبان میں شاعری کرتے ہیں اور اردو شاعر کی حیثیت سےمشہور ہوئے ہیں ۔
خسرو فاونڈیشن کے ڈائریکٹر اور ممتاز اسلامی اسکالر پدم شری پروفیسر اختر الواسع نے استقبالیہ خطبے میں پہلے خسرو فاونڈیشن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ ہمارا مقصد موجودہ حالات میں معاشرے کو جوڑنا ہے ۔ہمیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں کہ کسی کی حکومت ہے اور کس کی ہوگی ۔ انہوں نے کہا کہ تالیف حیدر کو اس موضوع کے ساتھ اپنے مشن کا حصہ اس لیے بنایا گیا ہے کہ وہ نوجوان ہیں اور معاشرے کو جوڑنے کا کام اب نئی نسل کو ہی کرنا ہوگا۔ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ہم ہندی کے فروغ میں مسلم حضرات کے اہم کردار کو بھی اجاگر کرنے پرکام کررہے ہیں جسے بہت جلد کتابی شکل میں سامنے لایا جائے گا۔
پروفیسر اختر الواسع نے مزید کہا کہ کامنا پرساد اردو تہذیب کی علامت ہیں جنہوں نے اردو مشاعرہ کی تہذیب کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔پروفیسر اختر الواسع نے کہا کہ ملک کے حالات ایسے ہیں کہ ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ یہ دوریاں، یہ ٹکراؤ اور یہ تشدد بار بار کیوں دیکھنے کو مل رہا ہے؟ اس کا سیدھا سادھا جواب یہی ہے کہ ہم نے انہیں بھلا دیا ہے جنہیں ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔ دیوی دیوتاؤں، پیغمبروں، پیروں اور رشیوں مُنیوں کے تیاگ، تپسّیا، سمرپن اور سیوا بھاؤ کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے۔
وہی ممتاز شاعر پی پی سریواستو رند نے اس موقع پر اپنے پیغام میں کہا کہ سب سے پہلے ایک ایسے وقت میں اس کتاب کی اشاعت کے لیے خسرو فاونڈیشن کو مبارک باد دیتا ہوں جب افراتفری کے اس دور میں تہذیب و تمدن کے سارے عناصر مادیت اور صارفیت کے شکار ہورہے ہیں ۔یہ کتاب ماضی کی یادوں کو زندہ رکھنے کا کام کرے گی۔
یاد رہے کہ پروفیسر اختر الواسع ،روہیت کھیڑا، سراج الدین قریشی اور رنجن مکھرجی نے مل کر جنوری 2021 میں ”خسرو فاؤنڈیشن“ کی بنیاد رکھی تھی۔جبکہ اس کا نام حضرت امیر خسرو کے نام پر اس لئے رکھا گیا کہ وہ ہندوستان کے عہد وسطیٰ کی وہ محبوب، دلنواز اور ہمہ گیر شخصیت ہیں جنہیں صدیاں گزر جانے کے باوجود یاد رکھا گیا اور ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔