پردہ اور مختلف مذاہب کی تعلیمات!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

عورتوں کے لئے پردہ کا تصور قریب قریب ہر مذہب میں رہاہے، مغرب نے جب مذہب سے بغاوت کی اور نفس کی آسودگی کے لئے عورت کو بازار میں لے آیا تو اس مسئلہ میںبھی اسلامی شریعت کو ہدف بنایا گیا ؛ حالاں کہ پردہ کا حکم صرف عورتوں کے لئے نہیں ہے، مردوں کے لئے بھی ہے ، مردوں کے حق میں لازمی حکم یہ ہے کہ ناف سے لے کر ٹخنہ تک کا حصہ چھپایا جائے ، فقہاء اسلام نے اس کی صراحت کی ہے :عورۃ الرجل ما بین سرتہ الیٰ رکبتیہ (المبسوط للسرخی:۱۰؍۱۴۶) ’’ یعنی مرد کا حصۂ ستر ناف سے گھٹنوں تک ہے‘‘۔

 یہ تو مردوں کے لئے ستر کا لازمی حکم ہے ؛ لیکن مستحب طریقہ یہ ہے کہ گردن سے کمر تک کا حصہ بھی چھپا ہوا ہو ؛ اسی لئے رسول اللہ ﷺ نماز کے لئے دو کپڑوں کا استعمال فرماتے تھے، ایک : تہبند جو کمر کے نیچے کے حصہ کو ڈھانک لے، دوسرے : وہ کپڑا جس سے اس سے اوپر کا حصہ چُھپ جائے، ایک بار آپ ﷺ نے صرف ایک تہبند میں نماز پڑھی تو دیکھنے والے صحابی کے لئے یہ بات حیرت کا باعث ہوگئی، آپ ﷺ نے ان کا استعجاب دور کرنے کے لئے فرمایا :کیا میری اُمت کے تمام لوگوں کے پاس دو چادریں ہوں گی ؟ (مسند احمد، حدیث نمبر: ۱۶۲۸۷) مقصد یہ تھا کہ اُمت میں ایسے غریب افراد بھی ہو سکتے ہیں ، جن کو دو چادریں میسر نہ ہوں ، ان کے پاس ایک ہی چادر ہو ، ایسی صورت میں وہ نماز سے محروم نہ ہو جائیں ، اس سے معلوم ہوا کہ عام طور پر کمر سے نیچے اور کمر سے اوپر دونوں حصے چھپائے جاتے تھے ، عربوں کا جبہ اسی روایت کا تسلسل ہے ، جس کو مرد استعمال کرتے ہیں ، اور جو گردن سے پاؤں تک پورے جسم کو چھپائے ہوا ہوتا ہے۔

 عورتوں کے لئے پردہ کی زیادہ رعایت ملحوظ رکھی گئی ہے، جس کی تفصیل حسب ذیل ہے :

 (الف) مَحرم ( جس سے نکاح کرنا حرام ہے) کے لئے چہرہ، ہاتھ، بازو ، گردن سے متصل حصہ ، پنڈلی اور پیٹھ ستر میں شامل نہیں ہے ، جسم کے باقی حصہ کا ستر ضروری ہے ، (تکملہ البحرالرائق:۸؍۲۲۱)اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ محرم کے سامنے خواتین ان تمام اعضاء کو کھول کر رکھیں ؛ بلکہ منشاء یہ ہے کہ اصل میں تو چہرہ اور ہاتھ محرم کے سامنے کھولنا چاہئے ؛ لیکن اگر یہ اعضاء بھی کھل جائیں یا معمولی ضرورت کی بناء پر کھولے جائیں تو اس کی گنجائش ہے ۔ (المبسوط للسرخسی:۱۰؍۱۳۹)

 (ب) ایسے غیر محرم جن سے بار بار سامنا ہونے کی نوبت آتی ہو ، جیسے ہندوستانی معاشرہ میں ایک ہی گھر میں دو بھائیوں یا دو بہنوں کی اولاد کا قیام ہوتا ہے اور چچا زاد ، خالہ زاد، ماموں زاد بھائی بہنوں میں مکمل پردہ دشوار ہوتا ہے، تو اس صورت میں چہرہ اور ہتھیلی کے بقدر ہاتھ نیز پاؤں کھلے رکھنے کی گنجائش ہے ، جیسا کہ فتح مکہ کے موقع سے آپ کی چچا زاد بہن حضرت اُم ہانی بنت ابی طالبؓ آپ کے سامنے ہوئی ہیں ، (حاشیہ علی مسند احمد: ۴۴؍۴۵۵) یا حضرت اسماء بنت ابی بکرؓ آپ کے سامنے ہوتی رہی ہیں ، (سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۱۸۱۸) مگر یہ حکم اسی وقت ہے جب کہ ان کے ایک دوسرے کے سامنے آنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ، فتنہ سے مراد ہے : گناہ میں مبتلا ہو جانے کا شدید اندیشہ، (ردالمحتار:۱؍۴۰۶)

 (ج ) جو عورتیں عمر دراز ہوں ، یعنی ان کی عمر پچاس سال سے اوپر ہو چکی ہو ، پردہ کے معاملہ میں ان کا حکم مردوں کے لئے محرم عورتوں کا سا ہے ۔ (ہدایہ:۴؍۳۶۸) یعنی وہ چہرہ کھول سکتی ہیں۔

 (د) عورت کے لئے عورت سے پردہ اسی قدر ہے ، جتنا مرد کا حصۂ ستر ہے ۔ (تکملہ البحر الرائق:ٌ؍۲۱۹)

 دو صورتیں ایسی ہیں جن میں مردوں اور عورتوں کا حکم یکساں ہے ، ایک : ازدواجی رشتہ ، اس میں نہ شوہر کے لئے بیوی سے ستر ضروری ہے اور نہ بیوی کے لئے شوہر سے ؛ البتہ شوہر وبیوی کے لئے بھی بہتر ہے کہ بلا وجہ ایک دوسرے کے سامنے اپنے صنفی اعضاء کو نہ کھولیں ، یہ حیاء کے خلاف ہے؛ آپ ﷺ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا ہے : (ابن ماجہ، حدیث نمبر: ۱۹۲۱)

 دوسرا موقع ہے ضرورت کا ، ضرورت دو طرح کی ہے ، ایک وہ جو زندگی کے عام مسائل میں پیش آتی ہو ، اس میں چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے؛ رسول اللہ ﷺ سے بہت سی صحابیات ملاقات کیا کرتی تھیں اور مسائل دریافت کرتی تھیں، خود حضور ﷺ کا حضرت ام سلیطؓ اورحضرت بریرہؓ کے یہاں جانا ثابت ہے ، (عمدۃ القاری:۱۴؍۱۶۸، نیز دیکھئے: سنن ابی داؤد، حدیث نمبر: ۲۲۳۱) حج کے موقع سے ایک خثعمی خاتون نے آپ سے مسئلہ دریافت کیا، اس وقت حضرت فضل بن عباسؓ آپ کے ساتھ اونٹنی پر سوار تھے، آپ ﷺ نے ان کا چہرہ موڑ دیا ، (مسلم، حدیث نمبر: ۱۲۱۸) ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ضرورت کے مواقع پر عورت کے لئے چہرہ کھولنے کی گنجائش ہے؛ چنانچہ جس عورت کو نکاح کے ارادہ سے پیغام دیا گیا ہو، اس کو دیکھنے کی اجازت دی گئی ہے، نیز فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر عورت گواہ یا مدعیہ یا مدعی علیہا ہو تو قاضی اس کا چہرہ دیکھ سکتا ہے، (ہدایہ: ۴؍۳۶۸-۳۶۹)

 دوسری ضرورت ہے ’’ علاج‘‘ اگر مرض کی تشخیص کے لئے زبانی کیفیت بتانا کافی ہو جائے، تو واجب ہے کہ جسم کو کھولنے سے بچا جائے، یہ حکم مردوں کے لئے بھی ہے اور عورتوں کے لئے بھی؛ لیکن اگر مرض کی تشخیص کے لئے جسم کا معائنہ ضروری ہو تو پہلی ترجیح یہ ہے کہ مرد، مرد معالج اور عورت، عورت معالج سے رجوع ہو، اگر اپنی جنس کا معالج موجود نہ ہو تو بدرجۂ مجبوری مخالف جنس معالج کو احتیاط کے ساتھ مرض کی جگہ دکھائی جا سکتی ہے۔

 غرض کہ پردہ کے احکام مردوں کے لئے بھی ہیں اور عورتوں کے لئے بھی ؛ البتہ اس کے حدود الگ الگ ہیں؛ اسی طرح مردوں اور عورتوں دونوں کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ غضِّ بصر سے کام لیں ، یعنی صنف مخالف کو تاکنے، جھانکنے، نظر جما نے اور لذت اندوز ہونے سے بچیں ، قرآن مجید نے جہاں نگاہ کو پست رکھنے کا حکم دیا ہے ، وہاں عورتوں سے پہلے مردوں کو خطاب کیا گیا ہے ؛ البتہ عورتوں کو دوپٹے کا بھی حکم دیا گیا ہے، جو سر، گردن اور سینہ کو چھپائے ہوا ہوتا ہے، (نور: ۳۰-۳۱)

 اس سے معلوم ہوا کہ قرآن مجید نے جو پردہ کا حکم دیا ہے، اس میں سر اور چہرہ بھی شامل ہے؛ چنانچہ حضرت عبداللہ ابن مسعودؓ سے اس آیت کی تفسیر میں منقول ہے کہ عورتیں جب کسی ضرورت سے گھر سے باہر جائیں تو ان کے لئے حکم ہے کہ سر کے اوپر سے گھونگھٹ (جلباب) ڈال کر چہرہ کو چھپا لیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں (تفسیر طبری: ۲۰؍ ۳۲۴)

 پردہ کی حدود مردوں کے مقابلہ عورتوں کے لئے زیادہ کیوں رکھی گئی؟ یہ بالکل واضح ہے اور فطرت کی آواز ہے، اللہ تعالیٰ نے تخلیقی طور پر عورتوں کے اندر مردوں کے مقابلہ زیادہ کشش رکھی ہے ؛ اسی لئے دنیا کے تمام ہی مذاہب میں اس کی رعایت ہے ، ہندو مذہب میں سیتاجی کو ایک آئیڈیل خاتون مانا گیا ہے، جنھوں نے دشمنوں کے بیچ رہ کر بھی اپنی عفت وعصمت کی حفاظت کی اور اپنی آبرو پر کوئی دھبہ لگنے نہیں دیا، سیتا جی کے بارے میں ہندو مذہبی مآخذ میں یہ بات لکھی گئی ہے کہ جب شری رام جی کے بھائی لکشمن کو کہا گیا کہ وہ سیتا جی کا چہرہ دیکھ کر ان کو پہچانیں تو انھوں نے کہا کہ میں نے کبھی اپنی بھاوج کے قدموں سے اوپر نگاہ نہیں اُٹھائی اور ان کا چہرہ نہیں دیکھا ؛ چنانچہ انھوں نے سیتا جی کے پازیب دیکھ کر ان کو پہنچانا ؛ اسی لئے عام طور پر ہندو بھائیوں کے یہاں دیویوں کی تصویر اس طرح بنائی جاتی ہے کہ ان کا سارا بدن سوائے چہرہ کے ڈھکا ہوتا ہے اور سرپر آنچل ہوتا ہے ، ہندوؤں کے بہت سے خاندانوں، خاص کر اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں عورتوں کے گھونگھٹ لٹکانے کا قدیم رواج رہا ہے ، اور بہت سی جگہوں پر آج بھی موجود ہے ، یہ گھونگھٹ اتنا بڑا ہوتا ہے کہ سر ، چہرہ اور سینہ کا حصہ اچھی طرح چھپ جاتا ہے ؛ بلکہ ہندو دھرم کی بنیادی کتاب وید میں پردہ کا بہت واضح حکم ملتا ہے :

چوں کہ برہم (خدا) نے تمہیں عورت بنایا ہے ؛ اس لئے اپنی نظریں نیچی رکھو، اوپر نہیں ، اپنے پیروں کو سمیٹے ہوئے رکھو ، اور ایسا لباس پہنو کہ کوئی تمہارا جسم دیکھ نہ سکے ۔ (رگ وید:۸؍۱۹-۳۳)

 تورات کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودی مذہب میں بھی عورتوں کے لئے پردہ کا حکم تھا ، عیسائیوں کے یہاں حضرت مریم علیہا السلام کی شخصیت آئیڈیل اور نمونہ ہے ، ان کی تصویریں بھی اس طرح بنائی جاتی ہیں کہ سوائے چہرہ کے پورا جسم چھپا رہتا ہے ، آج بھی چرچ کی راہبات سوائے چہرہ کے پورے جسم کو چھپانے والا ڈھیلا ڈھالا لباس پہنتی ہیں ، جن مغربی ملکوں میں برقعہ یا حجاب پر پابندی لگائی گئی ہے ، وہاں بھی نَنوںکو اپنا بدن ڈھانک کر رکھنے کی اجازت دی گئی ہے ، راہبات کے لئے تو سر چھپانا ان کے یہاں واجب ہے ہی ؛ لیکن اس کے علاوہ بعض عیسائی فرقوں جیسے : آمیش اور مینونایت کے نزدیک عورت کے لئے سرچھپانا ضروری ہے ؛ بلکہ ۱۹۱۷ء تک کیتھولک چرچوں میںعورتوں کے لئے سر چھپانا ضروری سمجھا جاتا تھا ۔ (دیکھئے: وکی پیڈیا، مادہ: غطاء الرأس فی المسیحیۃ)

 غرض کہ یہودی اور عیسائی مذہب میں بھی پردہ کے سلسلہ میں مردوں اور عورتوں کے احکام یکساں نہیں ہیں ؛ اسی لئے تورات نے عورت کو مرد کا اورمرد کو عورت کا لباس پہننے سے منع کیا ہے ؛ چنانچہ تورات میں ہے :

عورت مرد کا لباس نہ پہنے اور نہ مرد عورت کی پوشاک پہنے ؛ کیوں کہ جو ایسے کام کرتا ہے ، وہ خداوند کے نزدیک مکروہ ہے ۔ (استثناء:۲۱:۵)

 یہودیوں کے یہاں یہودی علماء کے اجتہاد واستنباط سے جو فقہی کتاب مرتب ہوئی ہے اور جس کو پوری دنیا کے یہودی مسائلِِ زندگی کے لئے معتبر مانتے ہیں، وہ ’’ تلمود‘‘ ہے ، اس کتاب میں خاص طور پر عورت کے بال سے متعلق بحث گئی ہے ؛ چنانچہ مایر شلّر(Mayer Schiller) نے نقل کیا ہے :

فقہاء یہود کا اس بات پر اجماع ہے کہ شادی شدہ یہودی عورت سڑک پر سر کے پورے بال نہیں کھول سکتی … کوئی بھی نص یا فقیہ کا معتبر قول نہیں ہے ، جو شادی شدہ عورت کو عام مقامات پر پورے بال کھلے رکھنے کی اجازت دیتا ہو۔(نیٹ سے: 104-405 M,Schiller op cit:)

 یہ جو بات کہی گئی ہے کہ پورے سر کے بال کھلے رکھنے کی ممانعت پر اجماع ہے ، اس کا پس منظر یہ ہے کہ یہودیوں کے بعض فرقے جیسے سفار دیم اور بعض علماء جیسے موشی فائنسٹاین (Moshe Feinstein ) جو امریکہ کے یہودیوں کے درمیان مقبول عالم ہیں ؛ کی رائے ہے کہ عورت سر کے اگلے حصے سے صرف انگشت کے بقدر بال کھلا رکھ سکتی ہے :Jerusalem Feldheim Pullishers 1992, P:122-123.

 بعض علماء یہود سے منقول ہے کہ شادی شدہ عورت کو سر چھپانا چاہئے ؛ یعنی غیر شادی شدہ کے لئے یہ ضروری نہیں ہے ؛ مگر یہ متفق علیہ قول نہیں ہے ؛ چنانچہ بعض یہودی علماء جیسے موسیٰ بن میمون نے لکھا ہے :

اسرائیلی عورتوں کے لئے کھلے سر بازار جانا جائز نہیں ہے ، چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا غیر شادی شدہ ۔ (Maimonieles:21/17)

 بعض علماء نے اس یہودی قانون کی تشریح کرتے ہوئے یہ بھی کہا ہے کہ جن حضرات نے غیر شادی شدہ عورت کو سرکھلا رکھنے کی اجازت دی ہے، ان کا مقصد یہ ہے کہ نابالغ لڑکیوں کے لئے سر چھپانا ضروری نہیں ہے؛ چنانچہ تلمود میں سر چھپانے کے احکام اس طرح بیان کئے گئے ہیں :

مرد کبھی اپنے سر چھپا بھی سکتے ہیں اور کبھی کھلا بھی رکھ سکتے ہیں ؛ لیکن عورتیں ہمیشہ اپنا سر چھپائیں گی، اور نابالغ بچیاں سر نہ چھپائیں ۔((Group 2005 p:44

 اسی بناء پر یہودی علماء نے کہا ہے کہ جو شخص اپنی بیوی کو کھلے سر اپنے گھر سے نکلتے ہوئے دیکھے تو وہ کافر (Bodless) ہے اور اس پر واجب ہے کہ وہ اس کو طلاق دیدے ۔ ((1Alvin Schmidt op cit P : 13

 بلکہ بال چھپانے کے حکم میں علماء یہود کے نزدیک اتنی سختی ہے کہ ان کے بعض فرقے شادی کے موقع سے دُلہن کے بال منڈا دیتے ہیں؛ کیوں کہ شادی کے موقع سے بال کو چُھپاکر رکھنا دشوار ہوتا ہے ، اسپین ، یوکرین اور فلسطین کے مذہبی یہودی خاندانوں میں رواج ہے کہ وہ بال منڈا کر سر پر کوئی کپڑا لپیٹ لیتی ہیں ، بعض یہودی علماء نے بھی اس نامعقول عرف کی پوری قوت کے ساتھ تائید کی ہے ۔ ( دیکھئے: منقول از نیٹ: M. Schiller,op,cit pp. 101,102)

 جب بال کے سلسلے میں اس درجہ سخت احکام ہیں تو اسی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ جسم کے دوسرے اعضاء کا لوگوں کے سامنے کھولنا بھی ان کے نزدیک جائز نہیں ہوگا ؛ چنانچہ تلمود کے ایک بڑے عالمRavad of Pasqiures کہتے ہیں :

عورت کی کسی بھی جگہ کو دیکھنا ممنوع ہے، چاہے چھوٹی انگلی ہو یا پھر بال ہی کیوں نہ ہو۔

Cited in Hidelushei ha Rashba, Berakhuted N.M. Harbits, Jerusalem, 1979, Quated by, Shmuel Her feld op, cit) . (منقول از : نیٹ

 تلمود میں ایک یہودی عالم ششت کی بات نقل کی گئی ہے :

اگر کوئی شخص عورت کی چھوٹی انگلی کو بھی گھورتا ہے تو گویا اس نے اس کی شرمگاہ کو گھور کر دیکھا ۔ (Berachoth:24a ،منقول از نیٹ)

 بلکہ یہودی مذہب میں چہرہ کو شامل کرتے ہوئے عورت کے مکمل پردہ کا تصور پایا جاتا ہے ؛ چنانچہ ڈاکٹر Menachem M Brayer نے اپنی کتاب’’ عبرانی ادب میں یہودی عورتیں‘‘ میں لکھا ہے :

یہودی خواتین کا طریقہ تھا کہ وہ سر ڈھک کر باہر نکلتی تھیں اور بعض دفعہ ایک آنکھ کو چھوڑ کر پورا چہرہ بھی ڈھانکے ہوئے ہوتی تھیں ( Menachem m.brayer.op.cit.p.239 ، نیٹ سے)

 ایک بڑے یہودی عالم اور تورات کے مفسر دانیال قومیصی نے بعض یہودی علماء پر سخت تنقید کی ہے کہ انھوں نے یہودی عورت کو یہودی مرد کے سامنے چہرہ کھولنے کی اجازت دی تھی ۔

 ان تصریحات سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہودیوں کے یہاں پردہ کے قریب قریب وہی احکام ہیں،جو مسلمانوں کے یہاں ہیں۔

 یہ تو مذہبی نقطۂ نظر ہے، جہاں تک ملکی قانون کی بات ہے تو ہمارے دستور میں شخصی آزادی کو بڑی اہمیت دی گئی ہے، ہر شہری کو اپنی پسند کے مطابق لباس پہننے کا حق حاصل ہے، حد تو یہ ہے کہ خواتین کھیل کے میدان میں بہت ہی مختصر ، ہیجان انگیزلباس میں اترتی ہیں، اب ایسا لباس پہننے کی تو آزادی ہو مگر ڈھکا چھپا لباس جس میں عورت کا بھی تحفظ ہو اور سماج میں بھی بے راہ روی کو روکا جا سکے، پر اعتراض کیا جائے، کیا اس میں کوئی معقولیت ہو سکتی ہے؟

 حقیقت یہ ہے کہ پردہ خواتین کے لئے نعمت ہے ، جو ان کو وقار عطا کرتا ہے ، اور پردہ کو ختم کر دینا بہت سی معاشرتی برائیوں کا سبب بنتا ہے ، جن میں سب سے اہم زنا کی کثرت اورعورتوں کو زیادہ سے زیادہ برہنہ کرنا ہے ، زنا اگرچہ دو طرفہ فعل ہے ؛ لیکن اس کا زیادہ نقصان عورت کو اُٹھانا پڑتا ہے ، اگر وہ زنا کی وجہ سے بچے کی ماں بن گئی تو اسے اپنا ہی نہیں اپنے بچہ کا بوجھ بھی اُٹھانا پڑتا ہے ، اور اگر بے قید تعلق کا معاملہ آگے بڑھا اور مختلف مردوں سے اس کا رابطہ ہوا تو پہلے وہی ایڈس کی مریض ہوتی ہے ، پھر مرد ہوتا ہے ، اور اس کی زندگی دُکھ بھری زندگی بن جاتی ہے ، جب عورت کی عریاں تصویر لی جاتی ہے تو اگرچہ مرد بھی اس عمل میں شریک ہوتا ہے ؛ لیکن رُسوائی اس عورت ہی کی زیادہ ہوتی ہے ، اگر وہ آئندہ اپنی پاکیزہ زندگی شروع کرنا چاہے تو اس سے قاصر رہتی ہے ، مجرمانہ ذہن رکھنے والوں کا شکار اکثر وہی عورتیں بنتی ہیں ، جو بر سرِ عام اپنے جسم کی نمائش کرتی ہیں ، نیم برہنہ لباس پہنتی ہیں ، یاایسے چست ملبوسات کا استعمال کرتی ہیں ، جن سے جسم کا نشیب وفراز نمایاں ہو جائے ، جو عورتیں ڈھکا چھپا اور ڈھیلا ڈھالا لباس استعمال کرتی ہیں ، ان کے ساتھ زیادتی کے واقعات کم پیش آتے ہیں اور زیادہ تر وہ عیاش مردوں کی ہوسناک نظروں سے محفوظ رہتی ہیں ۔

                         = = =

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com