سیتامڑھی: وراثت میں بیٹیوں کا حق اللہ نے مقرر فرمایا ہے بلکہ بڑی تاکید کے ساتھ تقسیم وارثت کی تفصیلات قرآن کریم مذکور ہیں،جو لوگ اس نظام وراثت سے روگردانی کرتے ہوئے بیٹیوں اور بہنوں کو محروم کرتے اور نہیں دیتے ہیں درحقیقت وہ اپنی ساری عبادتوں کے باوجود خود کو جنت سے محروم کررہے ہیں،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو لوگ اپنے ورثا کو وراثت سے محروم کرتے ہیں جسے اللہ نے فرض قرار دیا ہے اللہ تعالیٰ ان کو جنت کی وراثت سے محروم فرمادے گا، یہ وہ باتیں ہیں جو ملک کے مشہور عالم دین و خطیب اور المعھد الاسلامی للبنات رائپور ضلع سیتامڑھی بہار کے ناظم و بانی حضرت مولانا محمد شمیم اختر ندوی مدرسہ عزیزیہ جامع مسجد پوپری میں نمازِ جمعہ سے پہلے فرما رہے تھے، موصوف نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا کہ قران کریم میں آیات وراثت کا آغاز یوصیکم اللہ سے ہوا ہے جس کا مطلب ہے کہ اللہ تمہیں وصیت کرتا ہے اور اس کے اختتام پر اسے حدود اللہ قرار دیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ جو لوگ ان حدود اللہ پر عمل کرتے ہیں اللہ انہیں ایسی جنت عطاء فرمائے گا جس کے نیچے نہریں جاری ہونگی اور وہ ہمیشہ ہمیش اس میں رہینگے ، اس کے بر خلاف جولوگ ان حدود اللہ کی پامالی کرتے ہیں، اللہ ان کو ہمیشہ ہمیش کیلئے داخل جہنم فرمائیگا، آیات کی ابتدا و انتہا سے اس کی اہمیت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے، سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علم میراث سیکھو اور سکھاؤ، یہ نصف علم ہے، ایک وقت ایسا آئیگا کہ لوگ تقسیم وراثت میں لڑینگے اور اس کا فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ملیگا،میری امت سے سب سے پہلے علم میراث ہی اٹھایا جائیگا، یہ حدیث بھی اس کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے کافی ہے،لوگ سمجھتے ہیں کہ بہن بیٹی کی شادی میں سامان جہیز اور کچھ نقد دیکر ہم وراثت کی ادائیگی سے بری الذمہ ہوگئے یہ ان کی بھول ہے،جتنا بھی شادی بیاہ خرچ کردیا جائے یہ وراثت کا بدل نہیں ہوسکتا، اس لئے کہ یہ شریعت کے مزاج کے خلاف کام ہے، ہندو مت تہذیب میں چونکہ لڑکیوں کا وراثت میں کوئی حق نہیں تھا اس لئے لوگ بچیوں کی شادی کے موقع پر کنیا دان کے طور سامان جہیز دیا کرتے تھے، آج بھی ہم لوگ اسی تہذیب کو اپنائے ہوئے ہیں اور شرعی اصولوں سے حددرجہ دور ہیں، اللہ واسطے اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو اس کے حق سے محروم نہ کیجئے، کیونکہ یہ فرض ہے اور فرض کے بارے میں روز محشر بڑی سختی کے ساتھ بازپرس کی جائیگی، حضرت مولانا قاضی مجاھد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ علیہ بڑے درد کے ساتھ کہا کرتے تھے کہ لوگو جہیز ہٹاؤ اور وراثت کو رواج دو،کاش کہ ہم لوگ اس پر عمل پیرا ہوجاتے، والدین کو چاہیے کہ اپنی زندگی میں بار بار اپنی بیٹیوں کے وراثت کے بارے میں اپنی اولاد کو تاکید کرتے رہا کریں اور اگر اندیشہ ہو تو اپنی زندگی میں ہی اپنی بیٹیوں کا شرعی حق اس کے حوالے کردیں، میت کے متروکہ مال میں سے تجہیز و تکفین، میت کے قرض،اور ایک تہائی سے ان کی وصیت کو پورا کرنے کے بعد ان کی اولاد و بیوہ کے درمیان تقسیم وراثت کا عمل شروع ہوگا اور ایک جنس کی اولاد کی صورت میں دوسرے اقارب بھی مستحق وراثت ہونگے، بعض لوگ بسا اوقات لاعلمی کی وجہ سے یہ کہتے دکھائ دیتے ہیں کہ بیٹوں کو بیٹیوں کے بالمقابل ڈبل حصہ کیوں دیا جاتا ہے ،ان کی غلط فہمی کو دور کرنے کیلئے صرف اتنا عرض ہے کہ لڑکیوں کے سارے اخراجات کی ذمہ داری اس کے شوہر پر عائد ہوتی جبکہ لڑکوں کو اپنی بیوی و اولاد کے اخراجات بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ،اگر صرف اسی حکمت پر غور کرلیا جائے تو بات آئینہ کی طرف صاف ہوجاتی ہے۔
اسی طرح مورث کا اپنی زندگی میں کسی وارث کو محروم کرنے کی غرض سے کوئ ایسا قدم اٹھانا جس سے وہ محروم ہوجائے باعث لعنت ہے جیساکہ بسا اوقات لاولد حضرات یا ایک جنس کی اولاد والے اس طرح کا قدم اٹھایا کرتے ہیں۔
شریعت کے احکام دو طرح کے ہیں ایک کا تعلق عبادات سے اور دوسرے کا تعلق معاملات سے ہے، عبادات میں کمی کوتاہی کو اللہ اپنی رحمت سے معاف بھی فرما دے گا ان شاء اللہ، لیکن معاملات میں کمی کوتاہی کو اللہ ہرگز معاف نہیں فرمائے گا جب تک کہ اہل حق خود معاف نہ کردے،یہ وراثت کا تعلق بھی معاملات سے ہے، اس لئے بہت زیادہ حساس ہونے کی ضرورت ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح سمجھ عطا فرمائے، آمین
دنیا کی زندگی کیلئے مال اسی طرح ضروری ہے جیسے کشتی کیلئے پانی لیکن اس مطلب یہ نہیں کہ حرام کی بھی پرواہ نہ کریں ،مال حرام کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں آگ سے تعبیر فرمایا ہے، گویا ہم مال حرام کیا کھاتے ہیں درحقیقت جہنم کی آگ کے انگارے کو اپنے پیٹ میں جگہ دیتے ہیں۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنی اولاد کو اس حال میں چھوڑو کہ وہ مالدار ہو اس سے بہتر ہے کہ تم اسے فقر کی حالت میں چھوڑو اور وہ دنیا کہ سامنے ہاتھ پھیلائے،اس لئے دنیا کا حصول غلط نہیں ہے البتہ اس کے حصول کیلئے حلال و حرام کی تمیز کو بھلا دینا غلط ہے۔
یاد رہے کہ اولاد والدین کی کمائی ہوئی دولت میں ہی وراثت کی حق دار ہیں نہ کہ بھائیوں کی کمائی ہوئ دولت میں، آج ہمارے معاشرے کی ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ لوگ اپنی اولاد کی کمائی سے اپنے نام پر جائیداد خریدتے ہیں جوکہ سوفیصد غلط ہے، کیونکہ اگر کوئی اولاد والدین کی زندگی میں ہی انتقال کرجاتی ہے تو مرنے والے بیٹے کی اولاد خود اپنے باپ کی کمائ ہوئ دولت سے بھی محروم ہو جاتی ہے ،الا یہ کہ دادا اپنے طور پر کچھ دے دیں، اس لئے خدارا جب اولاد بالغ ہو جائے اور کمانے لگے تو اس کی کمائ کو الگ کردیجئے ، جہاں تک والدین کی خدمت اور بیمار ہونے کی صورت میں علاج و معالجہ کی بات ہے ،تو یہ اولاد کے ذمہ ہیکہ وہ حسب حیثیت ماں باپ پر خرچ کرے اور ان کی خدمت کو عبادت سمجھ کر کام کرے۔