احتشام الحق قاسمی رامپوری
دین اسلام دین فطرت ہے اس کے احکامات انسانی فطرت سے مکمل ہم آہنگ ہیں مامورات و عبادات منہیات و معاصی سب کھول کھول کر بیان کردئے گئے ایک مرتبہ نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں تمهیں ایسی ملت پڑ چهوڑ کر جارہا ہوں جس کے سب گوشے روشن اور واضح ہیں ( لیلها ونهارها سواء ) الحدیث
اس کا کوئی گوشہ تاریک نہیں ہے۔ مذہب اسلام میں وه تمام چیزیں حرام قرار دی گئیں جن سے انسانی فطرت ازخود بغاوت کرتی ہے مردار کا گوشت، بہتا ہوا خون، خنزیر کا گوشت، غیر اللہ کے نام پر چڑهایا ہوا جانور ، درندے جانور اور شکاری پرندے کا گوشت وغیره اور بھی بھت سے چیزیں جو انسان کی جسمانی اور روحانی صحت کے لئے ضرر رساں ہوں، خدائے حکیم و خبیر نے حرام قرار دیں اسی طرح شراب اور جوا جو انسانی معاشرے کیلئے ناسور ہے، اس پر بهی اسلام نے قدغن لگاکر اسے حرام قرار دیا۔
شراب کو عربی میں خمر کہا جاتا ہے اور اس کے معنی ہے چهپا دینا – شراب کو خمر اسی لئے کہا جاتا ہے کہ شراب عقل کو چهپا دیتی ہے۔ شراب کا نقصان انسان کی عقل کے ساتھ ساتھ انسان کی صحت پر بھی زبردست ہوتا ہے شراب دھیرے دھیرے معدے کے فعل کو فاسد کردیتی ہے۔ کھانے کی خواہش کم کردیتی ہے، چہرے کی ہیئت بگاڑ دیتی ہے، پیٹ بڑھ جاتا ہے مجموعی حیثیت سے تمام اعضائے رئیسہ کو بگاڑ دیتی ہے۔ جرمنی کے ایک ڈاکٹر نے لکھا ہے کہ جو شخص شراب کا عادی ہوتا ہے، چالیس سال میں اس کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جیسے کہ ساٹھ سالہ بوڑهے کی ،، وه جسمانی اور قوت کے اعتبار سے سٹهیائے ہوئے بوڑھوں کی طرح ہوجاتا ہے، شراب جگر اور گردوں کو خراب کردیتی ہے، سل کی بیماری شراب کا خاص اثر ہے۔ یورپ میں سل کی بیماری کی کثرت کا بڑا سبب شراب ہی کو بتایا جاتا ہے، وہاں کے اطباء کہتے ہیں یورپ میں آدھی اموات مرض سل میں ہوتی ہیں جو کہ شراب نوشی کا نتیجہ ہے۔ ڈاکٹروں کا اتفاق ہے اس بات پر کہ تمام غذائیں اور مشروبات بدن کا جزء بنتی ہیں سوائے شراب کے کہ نہ اس سے خون بنتا ہے نہ ہی وه بدن کا جزء بنتی ہے۔ اس کا کام صرف خون میں ہیجان پیدا کرنا ہے، جس کی وجہ سے وقتی طور پر قوت محسوس ہوتی ہے لیکن خون کا دفعہ یہی ہیجان ہارٹ اٹیک کا سبب بھی بن جاتا ہے۔ شراب سے شرائین سخت ہوجاتی ہیں، جس سے بڑهاپا جلد آجاتا ہے۔ شراب کا اثر انسان کے حلقوم اور تنفس پر بھی خراب ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آواز بھاری ہوجاتی ہے۔ کھانسی دائمی ہوجاتی ہے، وہی آخر کار سل تک نوبت پھونچا دیتی ہے۔ شراب کا اثر نسل پر بہی برا پڑتا ہے۔ شرابی کی اولاد کمزور رہتی ہے اور بعض اوقات اس کا نتیجہ قطع نسل تک جا پہونچتا ہے۔
یاد رکهنے کی بات ہے شراب پینے کی ابتدائی حالت میں بظاہر انسان جسم میں چستی اور قوت محسوس کرتا ہے اس لئے بعض لوگ جو اس میں مبتلا ہوتے ہیں وه مذکوره طبی حقائق کا انکار کرتے ہیں لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ شراب کا زہر ایسا زہر ہے جس کا اثر تدریجی طور پر ظاہر ہونا شروع ہوتا ہے اور کچھ عرصہ بعد مذکوره بالا ساری مضرتیں ظاہر ہونے لگتی ہیں۔
شراب کا عقلی اور معاشرتی مفسده
شراب کا نشہ جب تک رہتا ہے انسانی عقل کام نہیں کرتی ہے نشہ کی عادت قوت عاقلہ کو کمزور کردیتی هے جسکا اثر هوش میں آنے تک بھی برقرار رہتا ہے اور بعض اوقات جنون تک اس کی نوبت آجاتی ہے شراب اکثر لڑائی جھگڑے کا سبب بنتی ہے شرابی کو کسی کی تمیز نہیں رہتی ماں بہن بیٹی اور بیوی کا فرق ختم ہوجاتا ہے مدہوشی کے عالم میں شرابی کبھی کبھی اپنا پوشیده راز بھی بیان کرنے لگتا ہے جس کی مضرت اکثر تباه کن ہوتی اور قتل کے واقعات، سڑک حادثات، ریپ کے واقعات اور بهی کئی طرح کے جرائم کا ذریعہ بھی شراب ہی ہوتی ہے، شراب خانے قتل اور زنا کے اڈے ہوتے ہیں شراب کا ایک بڑا نقصان یہ بہی ہے کہ شراب انسان کو کهلونا بنا دیتی ہے جسے دیکھ کر بچے بهی ہنستے ہیں، اگر کسی بستی میں ایک شراب کی دکان ہو تو پوری بستی کی دولت وہاں سمٹ آتی ہے۔
یہ ہیں شراب کے وه نقصانات جن کو قرآن نے اپنے بلیغ کلام میں فرمایا ” یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیهما اثم کبیر و منافع للناس واثمهمااکبر من نفعهما ،، (بقره ) لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں، شراب اور جوئے کے بارے میں آپ فرما دیجئے اس میں تھوڑا نفع اور زیاده نقصان ہے اور نقصاں زیاده بڑھا ہے اس کے نفع سے اور جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بلیغ خطاب میں” ام الخبائث یا ام الفواحش ،، تما م جرائم کی ماں یعنی سبب اور بنیاد قرار دیا،
شراب کی خرابیوں پر مقالہ لکهتے ہوئے جرمنی کے ہی ایک ڈاکٹر نے لکھا کہ اگر آدھے شراب خانے بند کردیئے جائیں تو میں ضمانت لیتا ہوں کہ آدھے شفاء خانے اور آدھے جیل خانے بے ضرورت ہوکر بند ہوجائیں گے۔ ( معارف القرآن و تفسیر منار عبده )
ایک انگریز قانون داں بنتام لکھتا ہے کہ” اسلامی شریعت کی بے شمار خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ بھی ہے کہ اس میں شراب حرام ہے، ہم نے دیکھا کہ جب افریقہ کے لوگوں نے شراب استعمال کرنا شروع کیا تو ان کی نسلوں میں پاگل پن سرایت کرنے لگا ، یورپ کے جن لوگوں کو اس کا چسکا لگ گیا ان کی بھی عقلوں میں تغیر آنے لگا لہذا افریقہ کے لوگوں کےلئے بھی اس کی ممانعت ہونی چاہیے اور یورپین لوگوں کو بھی اس پر سخت سزا دینی چاہئے ،،
عرب کا معاشره اور حرمت شراب
ابتداء اسلام میں عام رسوم جاہلیت کی طرح شراب خوری عام تھی لوگوں کی گهٹیوں میں شراب بھری ہوئی تھی، عام لوگ صرف ظاہری فوائد کو دیکھ کر فریفتہ تھے، ایک مرتبہ چند صحابہ ، فاروق اعظم معاذ بن جبل وغیرهم و دیگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے شراب کی قباحت بیان کی اور آپ صلی اللہ علیه وسلم کی رائے دریافت کی اس کے جواب میں سوره بقرہ کی آیت 219 نازل ہوئی کہ لوگ آپ سے شراب اور قمار کی نسبت دریافت کرتے ہیں آپ فرما دیجئے کہ ان دونوں میں گناه کی بڑی بڑی باتیں بھی ہوجاتی ہیں اور لوگوں کو بعض فائدے بھی ہیں اور وه گناه کی باتیں ان فائدوں سے زیاده بڑهی ہوئی ہیں ( اس لئے دونوں قابل ترک هیں ) القرآن
یہ پہلی آیت ہے جس میں شراب اور جوئے سے مسلمانوں کو روکنے کا ابتدائی قدم اٹھایا گیا اس آیت کے نازل ہونے کا بعد بہت سے صحابہ کرام تو اس مشوره ہی کو قبول کرکے شراب اگر پیتے تھے تو ترک کردئے لیکن بعض نے یہ خیال کیا کہ اس آیت نے شراب کو حرام نہیں کیا ہے بلکہ مفاسد کو بتایا ہے ہم اس کا اہتمام کریں گے کہ مفاسد واقع نہ ہوں پھر اچانک ایک روز یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت عبدالرحمن بن عوف نے اپنے یہاں چند صحابہ کی دعوت کی کھانے کےلئے، کهانے کے بعد عرب کے دستور کے مطابق شراب پی گئی، اسی حال میں مغرب کی نماز کا وقت ہوگیا، سب نماز کےلئے کھڑے ہوگئے تو ایک صاحب کو امامت کیلئے آگے بڑھایا گیا انہوں نے نشہ کی حالت میں جو تلاوت شروع کی سوره کافرون کو غلط پڑها تو اس پر شراب سے روکنے کیلئے دوسرا قدم اٹھایا گیا اور سوره نساء کی آیت 43نازل ہوئی” اے ایمان والوں تم نشہ کی حالت میں نماز کے پاس نہ جاؤ “ اس آیت میں نماز کے اوقات میں شراب پینے کی ممانعت کردی گئ باقی اوقات میں اجازت رهی اب بہت سے صحابہ اس آیت کے نزول کے بعد شراب ترک کردیئے مگر چونکہ نماز کی اوقات کے علاوه شراب کی حرمت صاف نازل نہیں ہوئی تھی اس لئے کچھ حضرات اب بهی نماز کی اوقات کے علاوه دیگر وقت مین شراب پیتے تھے پھر ایک واقعہ اور پیش آیا جس کے بعد مکمل شراب کی حرمت نازل ہوگئی، ہوا یوں کہ عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ نے چند صحابہ کے کھانے کی دعوت کی جن میں سعد بن ابی وقاص بھی تھے کھانے کے بعد حسب دستور شراب کا دورچلا پھر شعرو شاعری اور فخرو مباہات کا بیان شروع ہوا حضرت سعد نے ایک قصیده پڑها جس میں انصار مدینہ کی مذمت اور اپنی قوم کی تعریف کی اس پر ایک انصاری نوجوان کو غصہ آیا اور اس نے اونٹ کے جبڑے کی ہڈی حضرت سعد کے سر پر دے ماری جس سے ان کو شدید زخم آگیا حضرت سعد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس انصاری جوان کی شکایت کی تو آپ نے دعا فرمائی ” اللهم بین لنا فی الخمر بیانا شافیا ،، یا اللہ شراب کے بارے میں ہمیں کوئی واضح حکم اور قانون عطا فرما اس پر اللہ تعالی نے تیسرا قدم اور فیصله کن حکم شراب کی حرمت کے متعلق نازل فرمائی ” فرمایا اے ایمان والوں بلاشبہ شراب ، جوا، بت ، جوے کے تیر ، یہ سب گندی باتیں اور شیطانی کام ہیں سو اس سے بالکل الگ رہو تاکہ تم فلاح پائو شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے ذریعے تمھارے آپس میں بغض اور عداوت پیدا کرے اور اللہ کی یاد سے تم کو باز رکھے سو کیا اب بهی باز نہ آؤگے ،، مائده آیت 90
قران کے اس اسلوب سے اندازه ہوتا ہے کہ شریعت اسلام نے شراب کی حرمت میں تدریج سے کام لیا چونکه کسی چیز کی عادت کو چھڑانا دوده چھڑانے سے بھی زیاده مشکل ہوتا ہے اس لئے پہلے شراب کی قباحت بیان کی پھر نماز کے اوقات میں منع کیا پھر ایک مدت کے بعد حرام قطعی قرار دیا – شراب بندی جس طرح تدریجا کی گئی اس کا نفاذ اسی طرح سختی کے ساتھ کیا گیا،
اب آئیے ذرا حدیث کا جائزه لیتے ہیں کہ احادیث میں شراب کے متعلق زبان رسالت نے کیا فرمایا ؟
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ شراب ام الخبائث ہے دوسری حدیث میں ارشاد ہے کہ شراب اور ایمان ایک ساتھ جمع نہیں ہوسکتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شراب کے بارے میں دس طرح کے افراد پر لعنت کی بد دعا کی 1شراب نچوڑنے والا 2 بنانے والا 3پینے والا 4پلانے والا 5لاکر دینے والا 6جسکے لئے لایا جائے 7شراب بیچنے والا 8خریدنے والا 9شراب کو هبه کرنے والا 10 اس کی آمدنی کھانے والا مذکوره بالا احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ شراب بندی نازل ہونے کے بعد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی سختی فرمائ –
عملی طور پر بھی آپ نے قانونی اعلان فرمایا کہ جس کے پاس شراب ہو وه اس کو فلاں جگہ پر جمع کردے جب آپ کے منادی نے مدینہ کی گلیوں میں یہ ندا لگائی تو تاریخ شاہد ہے اس ندا کو سنتے ہی جس کے ہاتھ میں شراب تھی اسے پھینک دیا جام و سبو توڑ دئے گئے شراب کے مٹکے اور گھڑے پھوڑ دئے گئے مشکیزے چاک کردئے گئے مدینہ میں اس روز شراب اس طرح به رهی تھی جیسے کہ بارش کا پانی مدینه کی گلیوں میں عرصہ دراز تک یہ حالت رہی کہ جب بارش ہوتی تو شراب کی بو اور رنگ مٹی میں نکھر آتا تھا ایک صحابی جو شراب کی تجارت کرتے تھے اور ملک شام سے شراب برآمد کرتے تھے اتفاقاً اس زمانے میں ساری رقم جمع کرکے ملک شام شراب خریدنے گئے ہوئے تھے جب تجارتی مال لیکر واپس آرہے تھے تو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی ان کو شراب کی حرمت کے اعلان کی خبر ہوگئی خبر ملتی هی اسی جگه شراب کو ایک پہاڑی پر رکھ دیا اور خود حضور صلی الله علیه وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سوال کیا کہ اب میرے اس مال کے متعلق کیا حکم ہے مجھے کیا کرنا چاہیے ؟ آپ نے فرمان خداوندی کے مطابق حکم دیا کہ سب مشکیزوں کو چاک کرکے شراب بہا دو؛ حکم ملتے ہی اس جانثار صحابی نے اپنے ہاتھوں بلا جھجک زندگی کے سارے سرمائے کو بہادیا ( دیکھئے -معارف القرآن تفسیر مظهری ابن کثیر ) یہ بھی اسلام کا ایک معجزه اور حضور اکرم صلی الله علیه وسلم کی نورانی اور پاکیزه تربیت کا ثمره تھا کہ حکم الہی اور فرمان نبوی نے ان کی زندی یکلخت بدل دی، اب وه شراب سے ایسے ہی متنفر ہوگئے جیسے کہ وه اس کے رسیا تھے
سچ کہا کسی نے کہ
خود نہ تھے جو راه پر اوروں کے ہادی بن گئے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا