شمس تبریز قاسمی
10 جون 2022 ۔ جمعہ کا دن ۔ ایک بج کر 40 منٹ کے بعد اچانک ٹی وی چینلوں اور مین اسٹریم میڈیا پر یہ خبر نشر ہونے لگی کہ نوپور شرمار کے خلاف دہلی کی جامع مسجد میں زبردست احتجاج ہورہا ہے۔ سوشل میڈیا پر آگ کی طرح یہ خبر دنیا بھر میں پھیل گئی ۔ کچھ ہی دیر میں ملک کے الگ الگ حصوں سے نماز جمعہ کے بعد احتجاج کی خبریں آنے لگی ۔ سہارنپور ، مردآباد ، الہ آباد ، ہاتھرس ، دیوبند ، کولکاتا ، اورنگ آباد ، شولاپور ، رانچی ، کلبرگی جیسے اضلاع ہیں جہاں کی خبریں ٹیوٹر اور ٹی وی چینلوں پر نشر ہونے لگی ۔ کچھ دیر کے بعد ان اضلاع سے تشدد کی خبریں آنے لگی ، الہ آباد ، سہارنپور ، مرادباد ، دیوبند سمیت کئی اضلاع ہے جہاں کے بارے میں بتایا گیا کہ یہاں تشدد ہوا ہے اور پولس پر مظاہرین نے پتھراؤ کیا ہے ۔ الہ آباد کی ویڈیوز سب سے زیادہ چونکانے والی تھی جہاں ٹوپی کرتا پہنے نوعمر بچے پولس پر پتھر پھینک رہے تھے ، کچھ گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا ۔ پولس بھی پتھر پھینکتے ہوئے نظر آرہی تھی ۔ اس کے فوراً بعد جھارکھنڈ کی راجدھانی رانچی سے خبر آنے لگی کہ جامع مسجد کے باہر نوپور شرمار کے خلاف مسلمان احتجاج کررہے تھے جس پر پولس نے فائرنگ کی بوچھار کردی ۔ کہا جارہا ہے کہ مسلمانوں نے پہلے پتھراؤ کیا ، حالات بے قابو ہوگئے تھے اس لئے پولس کو فائرنگ کرنی پڑ ی لیکن خبر یہ ہے کہ پولس نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ 14 لوگوں کو گولی لگی جس میں سے دو کی موت ہوچکی ہے اور اکثر شدید زخمی ہیں ۔ یوپی کے اکثر اضلاع میں اب پولس نے مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کردیا ہے اور 227 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا ہے ۔تقریباً 5 ہزار سے لوگوں پر ایف آئی آر درج کی گئی ہے ۔
کہا جارہا ہے کہ جمعہ کی نماز کے بعد مسلمانوں نے نوپور شرمار اور نوین کمار جندل کے خلاف احتجاج کیا ، گرفتاری کا مطالبہ کیا اور پھر بھیڑ اچانک بے قابو ہوگئی ۔ پولس پر پتھراؤ کردیا ۔ دفاع میں پولس کو آنسو گیس کے گولے داغنے پڑے ۔ واٹر کینن کا استعمال کرنا پڑا اور رانچی میں پولس نے فائرنگ کی بوچھار کردیا لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ۔ ناقابل یقین بھی ہے اور ا س کے پیچھے کی کہانی کچھ اور نظر آتی ہے ۔ کچھ سوالات ہیں جن کا جواب جانے بغیر گتھی کو سلجھایا نہیں جاسکتا ہے ۔
سوشل میڈیا پر بھارت بند کا ایک پوسٹر وائرل ہورہا تھا جس پر کسی بھی تنظیم کا نام درج نہیں تھا ، کسی بھی ذمہ دار شخص نے سوشل میڈیا پر اس کو شیر نہیں کیا ۔ مسلمانوں کے درمیان مختلف حیثیت سے معروف شخصیات میں سے کسی نے اس پوسٹر کو اپنی وال پر پوسٹ نہیں کیا تھا ، کسی نے بھی اپنے ٹیوٹر ہینڈل یا فیس بک اور انسٹاگرام پیج پر بھارت بند کی اپیل نہیں کی تھی، پھر بھارت بند کا یہ پوسٹر کیوں وائرل ہوتا رہا ۔ سائبر کرائم ، خفیہ ایجنسیاں اور پولس نے اس پر توجہ کیوں نہیں دی ؟ کن لوگوں نے بھارت بند کا پوسٹر وائرل کیا ؟ کون لوگ اس کے پیچھے تھے ؟ کیا سچ میں مسلمان تھے بھارت بند کی اپیل کے پیچھے یا پھر کچھ دوسرے عناصر مسلمانوں کے خلاف ایک سازش انجام دے رہے تھے ؟ جانچ کیوں نہیں ہوئی؟
ملک میں کہیں بھی مسلمانوں نے احتجاج کا پہلے سے کوئی منصوبہ نہیں بنایا تھا ۔ مختلف شہروں اور علاقوں کی ذمہ دار شخصیات نے احتجاج کا کوئی اعلان نہیں کیا تھا ۔ احتجاج کرنے کیلئے پہلے سے کوئی اعلان نہیں کیا تھا ۔ کسی کی طرح کی کوئی میٹنگ تک نہیں ہوئی تھی اور نہ کوئی تیار ی تھی پھر یہ احتجاج ایک ساتھ اتنے شہروں میں اچانک کیسے ہوا ؟
کل جمعہ کی نماز سے پہلے مختلف شہروں کی جامع مسجد کے پاس پولس کو تعینات کردیا گیا تھا ، صبح تقریباً ساڑھے گیارہ بجے ایک جگہ سے میں جامعہ نگر لوٹ رہا تھا تو یہاں بھی دیکھاکہ غیر معمولی طور پر پولس اہلکار بٹلہ ہاؤس چوک پر تعینات ہیں ، میرے ساتھ ملت ٹائمز کے رپورٹر نسیم اختر بھی تھے، میں نے پوچھا نسیم! آج پولس یہاں کیوں ہے ، اس نے کچھ سوچا اور پھر بتایاکہ سر! آج جمعہ ہے ، ہوسکتاہے ان لوگوں کو اندازہ ہوکہ مسلمان احتجاج کریں گے اس لئے پولس کو تعینات کردیا گیا ہے ؟۔
مسلمان ، ملی تنظیمیں اور سول سوسائٹی کے لوگ جب بھی احتجاج کرتے ہیں ، کوئی پروٹیسٹ کرتے ہیں تو پہلے سے اس کا اعلان کرتے ہیں ۔ میڈیا ہاؤسز کو کوریج کیلئے دعوت نامہ بھیجتے ہیں ۔ صحافیوں اور رپورٹرس کو بلاتے ہیں لیکن جمعہ کو جو احتجاج ہوا ہے اس کے تعلق سے صحافیوں اور میڈیا ہاؤسز کو کسی طرح کا کوئی دعوت نامہ موصول نہیں ہوا تھا ۔
دہلی ، اتر پردیش ، بہار ، مدھیہ پردیش ، بنگال ، راجستھا ن سمیت ملک کے اکثر حصوں میں اگر مسلمانوں کا کوئی پروگرام ہوتا ہے ۔ ملی تنظیموں کا کوئی احتجاج ہوتا ہے تووہ عموماً ملت ٹائمز سے رابطہ کرکے کوریج کی درخواست کرتے ہیں ۔ کسی رپورٹر کو بھیجنے کی اپیل کرتے ہیں لیکن کل ہندوستان کے مختلف حصوں میں جمعہ کے بعد احتجاج ہوا اور کہیں سے ملت ٹائمز کے پاس کوئی دعوت نہیں آئی ، کسی کا میسیج تک نہیں آیا ؟
دہلی کی جامع مسجد کے باہر سیڑھوں پر مسلمانوں نے احتجاج کیا اور وہاں ایک بھی ڈیجیٹل میڈیا کا کوئی صحافی موجود نہیں تھا اور نہ کوئی یوٹیوبر تھا ۔ مسلمانوں کا جب بھی کوئی احتجاج اور پروگرام ہوتا ہے تو وہاں مین اسٹریم میڈیا کے صحافی نہیں پہونچتے ہیں لیکن دہلی کے سرکردہ صحافی اور یوٹیوبر ضررو موجود رہتے ہیں جس میں ملت ٹائمز کے رپورٹر کے علاوہ نیوز میکس کے شکیل اختر، فرحان یحییٰ ، ساحل نقوی، غزالہ احمد ، عاقل رضا جیسے صحافیوں کا نام سر فہرست ہے لیکن جامع مسجد پر احتجاج کے دوران ان میں سے کوئی وہاں نہیں تھا اور نہ کسی کو احتجاج کی خبر تھی البتہ ٹی وی چینلز اور اسٹریم میڈیا کے صحافی اور ان کے کیمرے وہاں ضرور موجود تھے ؟۔
ایک دن قبل 9 جون کو مجلس اتحاد المسلمین کی دہلی یونٹ نے جنتر منتر پر احتجاج کرنے کا اعلان کیا تھا ، میڈیا والوں کو بلایا تھا لیکن مین اسٹریم سے وہاں کوئی نہیں پہونچا تھا ۔ صرف نیوز پورٹل اور یوٹیوب چینل کے صحافی ہی پہونچے تھے ۔ کیا یہ سب محض اتفاق ہے کہ جس احتجاج کا اعلان کیا جاتا ہے وہاں ٹی وی چینلوں کے صحافی اور کیمرہ مین نہیں پہونچتے ہیں اور جس احتجاج کی کانوں کان کسی کو خبر نہیں تھی وہاں یہ لوگ موجود تھے ؟
سبھی احتجاج شہروں کی مسجدوں میں ہوئے ہیں اور شہروں میں عموماً گلیوں میں پتھر نہیں ہوتے ہیں ۔ اینٹ نہیں ہوتی ہے پھر نماز کے فوراً بعد وہاں پتھر کہاں سے آگئے، اینٹیں کیسے دستیاب ہوگئی ۔ کس نے پہونچایا؟ یہ بھی جانچ کا ایک ضروری حصہ ہے ۔
نماز جمعہ کے بعد مسجد باہر نکلتے ہی سب سے پہلے نعرہ کس نے لگایا ؟ کس نے گستاخ رسول مردہ باد کہا؟ کس نے لوگوں کو احتجاج کرنے پر اکسایا ۔کس نے اللہ اکبر کا نعرہ بلند کیا۔ ایسے کتنے لوگ تھے جس نے احتجاج شروع کیا ۔ سب کچھ سے پہلے اس کی شناخت اور پہچان ضروری ہے ۔
سبھی جگہوں کی وہی ویڈیوز وائرل ہوئی ہیں جس میں یہ دیکھا جارہا ہے کہ مسلم نوجوان پولس پر پتھر پھینک رہے ہیں لیکن پتھر پھینکنے سے پہلے کیا ہوا تھا ، مسلم نوجوانوں نے کیوں پتھر پھینکا تھا ، پتھر پھینکنے پر انہیں کیوں مجبور ہونا پڑا تھا اس کی کوئی ویڈیوز وائرل نہیں ہورہی ہے ۔ وائرل ویڈیوز کا ایک سچ یہ بھی ہے کہ اسے دوسری طرف سے شوٹ کیا گیا ہے غور سے دیکھنے کے بعد پتہ چلتاہے کہ کچھ لوگ پہلے سے ویڈیوز ریکاڈ کرنے کیلئے تعینات تھے اور اسے پتہ تھاکہ ایسا ماحول ہوگا ۔ یہ اتفاق ہے کہ جھارکھنڈ میں وہاں ایک صحافی پورے معاملہ کو لائیو کررہا تھا جس کی وجہ سے پولس کے کالے کرتوت بھی اس میں قید ہوگئے ہیں اور یہ سوال بجا طور پر صحیح لگنے لگا ہے کہ کیا وہاں جمعہ کے بعد جو کچھ ہوا اس کی اسکرپٹ پہلے سے لکھی جاچکی تھی ؟۔ کیوں کہ پولس کو فائرنگ کرتے ہوئے دیکھا جارہا ہے اگر یہ ویڈیو سامنے نہیں آتی پولس یقینی طور پر فائرنگ کے دعویٰ کو جھوٹ قرار دیتی ، ایسی ہی ایک ویڈیو میں دیکھا جارہا ہے کہ ایک معصوم بچہ تشدد کے دروان پھنس گیا ہے اور وہ بھاگنے کیلئے راستہ تلاش کررہا ہے پولس پہلے اس کو جانے کیلئے کہتی ہے پھر لاٹھی چارج کرتی ، پتھر مارتی ہے اور اس پر گولی بھی چلاتی ہے ۔الہ آباد کی بھی ایک ویڈیو میں پولس اہلکار کو پتھر چلاتے ہوئے قید کرلیا گیا ہے جس کے بار میں یہی کہا جاسکتا ہے غلطی سے یہ سین ریکاڈ ہوگیا ہوگا یا پھر اے این آئی کیلئے اس کو ایڈٹ کرنا مشکل ہوگیا ہوگا ۔ ہر تشدد میں یہی ہوتا ہے کہ صرف ان ویڈیوز کو وائرل کیا جاتا ہے جس میں مسلمان پتھر پھینکتے ہیں ۔ جس سے مسلمانوں کے مجرم ہونے کا ثبوت ملتا ہے اور دوسری ویڈیوز کو چھپا دیا جاتا ہے ۔ اگر کوئی اسے وائرل کرتا ہے تو پولس اس کو بھی چھپانے کیلئے پوری کوشش کرتی ہے جیسا کہ کانپور تشدد معاملہ میں ہوا ہے ۔ ٹی وی چینلوں اور مین اسٹریم میڈیا نے دکھایا کہ مسلمان پتھر پھینک رہے تھے ، دوسری طرف کیا ہورہا تھا اسے نہیں بتایا جارہا تھا تب میں نے کانپور تشدد کی دو ویڈیو ٹویٹ کئے جس میں دوسری طرف کے لوگ مسلمانوں پر پتھر پھینک رہے تھے اور ان کے ساتھ پولس بھی موجود تھی ۔ یہ ویڈیو پولس اور انتظامیہ کو برداشت نہیں ہوسکی کیوں کہ جھوٹ کا پردہ فاش ہوگیا تھا اور یکطرفہ موقف غلط ثابت ہورہا تھا، چنانچہ کانپور پولس نے میرے خلاف ایف آئی آر درج کرلیا یہ الزام عائد کرتے ہوئے کہ شمس تبریز قاسمی نے کانپور معاملہ میں جعلی ویڈیوز ٹویٹ کیا تھا ۔ جن لوگوں نے اس ٹویٹ کو ریٹیوٹ کیا ان میں سے بھی کچھ لوگوں کو کیس میں شامل کرلیا ۔ بہر حال سوال یہ ہے کہ پتھر پھینکنے سے پہلے کیا ہوا اور ماحول کیسے خراب ہوا اس کو کیوں چھپایا جارہا ہے؟۔
تاریخ میں وقت کے چالاک حکمرانوں کے ایسے دسیوں واقعات موجود ہیں جنہوں نے حالات کا رخ بدلنے اور نظریہ تبدیل کرنے کیلئے سازش کو انجام دیا ہے اور ایسا طریقہ اختیار کیا ہے جس کا عوام کو اندازہ تک نہیں ہوپایا کہ یہ کیسا ہوگیا جیسے آج ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے۔ مسلمان یہی سمجھ نہیں پارہے ہیں کہ احتجاج کیسے ہوگیا ۔ کس نے شروع کیا ۔ پتھر کہاں سے آیا ۔ کس نے پہلے پتھر پھینکا۔ ماحول کیسے خراب ہوگیا ۔ اچانک دس منٹ میں یہ کیسے ہوگیا اور پھر دنیا کی نگاہوں نے صرف یہ دیکھاکہ مسلمانوں نے پولس پر پتھراؤ کیا ہے ۔ مسلمانوں نے مسجدوں میں پتھر اکٹھا کیا تھا ۔ مسلمان شرپسند ، جذباتی اور ملک دشمن ہوتے ہیں ۔
یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ مسلمانوں اور ملی تنظیموں نے جب بھی کوئی احتجاج کیا ہے ۔ پروٹیسٹ کیا ہے تو وہ پرامن رہا ہے ۔ اس میں کوئی تشدد نہیں ہوا ہے ۔ پولس پر پتھراؤ نہیں ہوا ہے ۔ ہاں پولس نے احتجاج ختم کرنے کیلئے آنسو گیس کے گولے ضرور داغے ہیں ۔ فائرنگ ضرور کی ہے لیکن مسلمانوں کی طرف کے کبھی پتھر نہیں پھینکا گیا ہے۔ پولس پر حملہ نہیں ہوا ہے۔ 100 سے دنوں سے زیادہ تک چلنے والے سی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج میں بھی پورے ملک میں ایک جگہ بھی ایسا واقعہ پیش نہیں آیا جس میں مسلمانوں نے پولس پر پتھر پھینکا ہو۔اس سے پہلے تین طلاق کے خلاف ملک گیر احتجا ج ہوا اس میں بھی کوئی واقعہ ایسا پیش نہیں آیا۔ ماب لنچنگ کے خلاف ایک ساتھ 70 شہروں میں احتجاج ہوا لیکن کہیں بھی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا ۔ اہانت رسولؐ کے خلاف یہ کوئی پہلا احتجاج نہیں ہے بلکہ اس موضوع پر اکثر احتجاج ہوتا رہا ہے لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا ۔ اس لئے یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ 10 جون کو اچانک یہ سب کیسے ہوگیا؟
اگر تصویر کا ایک رخ یہ ہے جو دکھایا جارہا ہے کہ نوپورشرما کے خلاف احتجاج کے دوران مسلمانوں نے پولس پر پتھراؤ کیا تو دوسرا رخ اوپر اٹھائے گئے سبھی سوالوں کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بھی ہوسکتاہے کہ کچھ شرپسند عناصر پہلے سے منصوبہ بند ی کرکے ٹوپی ، کرتا اور پائجامہ پہن کر مسجد میں آئے تھے ۔ جمعہ کی نماز کے بعد ان خفیہ شرپسند عناصر نے مسلمانوں کے جذبات کو بر انگیختہ کیا ۔ نوپور شرماکے خلاف نعرہ لگاکر مسلمانوں کو اکسانے کا کام کیا اور اس طرح مسلم نوجوان اس سازش کا شکار ہوکر احتجاج کرنے لگے ، ان لوگوں نے پولس پر پتھراؤ کا آغاز کیا اور یوں پولس کو جوابی کاروائی کرنے کا جواز فراہم کیا ، پھر وہ شرپسند عناصر فرار ہوگئے ، معصوم مسلمان بچے سازش کا شکار ہوگئے ۔ جس کو فائدہ پہونچنا تھا پہونچ گیا ہے جس کا نقصان ہونا تھا اس کا ہورہا ہے ۔ ملک میں کے دانشوروں کے سوچنے کا نظریہ تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے ۔ میڈیا کی زبان پہلے سے زیادہ سخت ہوگئی ہے ۔ پولس انتظامیہ آنکھ بند کرکے گرفتاری کررہی ہے۔صرف دو کی گرفتاری کیلئے اب تک 300 سے زیادہ مسلمان گرفتار ہوچکے ہیں لیکن ان دونوں یعنی نوپور شرمار اور نوین کمار جندل کی اب تک گرفتاری نہیں ہوئی ہے جس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا ہے ۔
مسلمانوں کے سامنے متعدد محاذ ہیں ۔ گیان واپی اور مسجدوں کو مندر میں تبدیل کرنے کا معاملہ سب سے اہم ہے ۔ مسلمان اپنے حقوق اور اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خاتمہ کیئے ابھی منصوبہ بندی ہی کررہے تھے کہ مسلم قیادت سڑکوں پر اتر نے کیلئے غور وخوض ہی کررہی تھی ۔ قائدین کے درمیان یہ معاملہ موضوع بحث تھا کہ سڑکوں پر اترنا صحیح رہے گا یا نہیں کہ اسی درمیان احتجاج کے نام پر پورے ملک میں مسلمانوں کو پتھر باز اور حملہ آور کے طور پر پیش کردیا گیا ہے ۔ مجھے یقین ہے کہ مسلمانوں کے خلاف یہ گہری سازش ہے ۔ گیان واپی ، کامن سول کوڈ اور دوسرے حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کی طرف اٹھنے والی تحریک کی کمر توڑنے کیلئے ابھی سے یہ سب کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کے حوصلے پست ہوجائیں ، ان کے دلوں میں خوف پیدا ہوجائے، نفسیاتی طور پر خوف کا شکار ہوجائیں اور مزاحمت کے تعلق سے وہ آئندہ سوچنا بند کردیں، آئندہ کوئی احتجاج نہ کریں ، ان رہنماؤں کے نظریہ کو تقویت ملے جو یہ چاہتے ہیں کہ مسلمان ہر طرح کے مظالم کو برداشت کریں ، مشکل اوقات میں بھی صبر کا مظاہرہ کریں لیکن سڑکوں پر نہ اتریں، ظلم کے خلاف آواز بلند نہ کریں ، احتجاج اور پروٹیسٹ کرنا چھوڑ دیں تاکہ تاکہ دنیا کو پتہ نہ چلے کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کیا ہورہا ہے ۔
(مضمون ملت ٹائمز کے چیف ایڈیٹر ہیں )