خود مکتفی امت بننے کی کوشش کریں! (۳)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی 

۶۔ ایک اہم مسئلہ خود مسلمانوں کے اپنے معاملات کو سرکاری عدالتوں سے حل کرنے کا ہے، لوگوں میں قوت برداشت کم ہوگئی ہے، اخلاقی گراوٹ اور اسلامی اقدار سے دوری کی بنا پر چھوٹی چھوٹی باتوں پر جھگڑے ہوتے ہیں، اس کا سب سے افسوس ناک پہلو طلاق وخلع کے واقعات کی کثرت اور عورتوں کو میراث کے حق سے محروم رکھنا ہے، پھر جب کورٹ میںجاتے ہیں تو پریشانی اور ہراسانی کے علاوہ دو اور بڑے نقصان ہوتے ہیں، ایک تو پیسوں کی بربادی، سالہا سال مقدمات لڑ کر وہ جو کچھ حاصل کرتا ہے، اس سے زیادہ پیسے لُٹا دیتا ہے، ایک دوسرے کو دیکھ کر مقدمہ بازی کا رجحان بڑھتا ہے، لاکھوں روپئے بے فائدہ مقدمات میں خرچ ہوتے ہیں، دوسرے: جب کوئی فریق عدالت میں پہنچ جاتا ہے تو آپسی مصالحت کا دروازہ بند ہو جاتا ہے، نفرتیں بڑھ جاتی ہیں، اس کے لئے ضروری ہے کہ ملک کے مختلف علاقوں میں دارالقضاء یا محاکم شرعیہ اور کونسلنگ سینٹر قائم کئے جائیں، جن کے ذریعہ بیرون عدالت آپسی مسائل حل ہو جائیں، مسلمان وکلاء بھی اس میں اہم رول ادا کر سکتے ہیں کہ وہ مسلم فریقوں کے کورٹ میں جانے کی حوصلہ افزائی نہ کریں؛ بلکہ صلح کے ذریعہ مسئلہ کو حل کریں اور اپنی واجبی فیس بھی حاصل کریں، جو مسائل صلح سے یا دارالقضاء میں حل ہو سکتے ہیں، ان کو کورٹ میں لے جانا اپنی دنیا اور آخرت دونوں کو ضائع کرنا ہے، اگر دارالقضاء کے نظام کو ہم مضبوط کر لیں تو باہمی نزاعات کے معاملہ میں خود مکتفی ہو سکتے ہیں، اور سرکاری عدالتوں کی سر گردانی، رسوائی اور کثیر اخراجات سے اپنے آپ کو بچا سکتے ہیں۔

۷۔ مسلمان جیسے معیشت میں سب سے نیچے ہیں اور ان کی حالت بہت خراب ہے، اسی طرح صحت کے اعتبار سے بھی مسلم آبادیوں کا حال بہت برا ہے، مناسب غذا کی قلت، اچھے ماحول سے محرومی، صفائی ستھرائی کے ناقص انتظام، تنگ مکانات، علاج کی سہولت مہیا نہ ہونے وغیرہ کی وجہ سے بیماریوں نے مسلمانوں کو اپنا نشانہ بنا رکھا ہے، صحت انسان کی بنیادی ضرورت ہے، اگر بچے صحت مند نہ ہوں تو وہ کیسے بہتر طور پر تعلیم حاصل کر سکتے ہیں، اگر نوجوان صحت مند نہ ہوں تو وہ اپنی روزی کے لئے کس طرح دوڑ دھوپ کر سکتے ہیں، اگر خواتین صحت سے محروم ہوں تو کیسے امت کے نونہالوں کی پرورش کر سکتی ہے؟ اس لئے اس پر توجہ کی بڑی ضرورت ہے۔

اس کے لئے دو باتیں تو بہت ہی ضروری ہیں، ایک یہ کہ مسلم محلوں میں علاج کی سرکاری سہولتیں مہیا کرانے کی کوشش کی جائے، سرکاری اسکیموں سے فائدہ اٹھایا جائے، مسلمانوں کو اس سلسلے میں باخبر کیا جائے، مسلم محلوں میں دینی اجتماعات کے ذیل میں حفظان صحت کے بھی پروگرام رکھے جائیں، حاملہ عورتوں، شیر خوار بچوں کی ماؤں، بوڑھے اور ضعیف لوگوں کے لئے خصوصی پروگرام رکھے جائیں اور ان کی ان کے مخصوص حالات کے اعتبار سے رہنمائی کی جائے۔

اس کے علاوہ ملت کی تنظیمیں اور بااثر شخصیتیں کوشش کریں کہ ہر محلے میں سستے ہسپتال قائم کئے جائیں، جہاں ڈاکٹروں کی معمولی فیس ہو، جینریک دوائیں مہیا کی جائیں اور غریبوں کو مفت علاج کی سہولت دی جائے، اس کام کو تنظیمیں بھی کر سکتی ہیں اور سماج کے لوگ بھی مل جل کر انجام دے سکتے ہیں، ڈاکٹروں سے اعزازی طور پر ان کا کچھ وقت حاصل کیا جائے، میڈیکل دوکانوں سے دوائیں دینے کی اپیل کی جائے، اصحاب خیر سے علاج کے لئے مدد فراہم کرنے کو کہا جائے اور ہر محلہ میں سستے آؤٹ پیشنٹ ہسپتال قائم کئے جائیں، غریب اور مزدور مسلمانوں کا ہیلتھ انشورنس کرایا جائے، اس طرح ہم اپنی قوم کو ایک صحت مند قوم بنا سکتے ہیں، ہمیں یہ بات رکھنی چاہئے کہ ایک صحت مند جسم کے اندر ہی ایک صحت مند دماغ پرورش پاتا ہے، اور جب کوئی قوم جسمانی طور پر بیمار اور کمزور ہو جاتی ہے تو وہ حوصلہ وہمت سے بھی محروم ہو جاتی ہے، مسلمانوں میں تعلیم، معاشی ترقی اور مذہبی مقاصد کے لئے تحریکیں اٹھتی رہی ہیں اور ادارے قائم ہوتے رہے ہیں؛ لیکن صحت کے بارے میں لوگوں نے بہت کم توجہ دی ہے، اللہ کا شکر ہے کہ ادھر مختلف شہروں میں مسلمانوں نے اپنے ہسپتال قائم کئے ہیں؛ لیکن وہ ضرورت کے اعتبار سے بہت کم ہیں، شاید یہ بات کم لوگوں کے علم میں ہوگی کہ ہندوستان کی بعض ریاستوں میں جو خون ریز فساد ہوا اور مسلمان بڑی تعداد میں زخمی ہوئے تو اس وقت بعض فرقہ پرست ڈاکٹروں اور ہاسپیٹلوں نے مسلمان زخمیوں کا علاج کرنے سے انکار کر دیا اور مسلمانوں کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑا۔

۸۔ کسی بھی ملک میں سیاسی قوت کا بڑا اثر ہوتا ہے؛ مگر افسوس کہ مسلمان اس سلسلے میں پسماندہ سے پسماندہ تر ہوتے چلے جا رہے ہیں، آزادی سے پہلے متناسب نمائندگی کی بنیاد پر الیکشن ہوتا تھا، اب بھی بعض ملکوں میں یہ طریقہ جاری ہے، اس میں ووٹوں کی تعداد کے لحاظ سے نمائندوں کی تعداد متعین کی جاتی تھی، مثلاََ اگر ایک لاکھ ووٹ پر ایک نمائندہ منتخب ہونا ہے اور کسی پارٹی کو دس لاکھ ووٹ ملتے ہیں تو اس کے دس نمائندے ہوں گے، اس طرح کوئی ووٹ ضائع نہیں ہوتا تھا؛ مگر ۱۹۴۷ء کے بعد الیکشن کا طریقہ یہ رکھا گیا کہ ہر حلقہ کے اعتبار سے وہاں ووٹنگ ہوگی اور اکثریت حاصل کرنے والا کامیاب سمجھا جائے گا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جن گروہوں کی آبادی بکھری ہوئی ہے، یا ان کے ووٹ کم ہیں، ان کی نمائندگی کم ہو گئی، پھر مزید یہ صورت حال پیش آئی کہ حلقوں کی تقسیم میں تعصب برتا گیا، جہاں مسلمانوں کی آبادی مرتکز تھی، اس کو اس طرح کاٹ کر ہندو اکثریت حلقوں کے ساتھ جوڑا گیا کہ مسلمان اپنے ووٹوں سے کامیابی حاصل نہیں کر پائیں، ہر پارٹی مسلمانوں کو اس حلقہ میں کھڑا کرتی ہے، جہاں مسلمانوں کی کثیر آبادی ہے اور جہاں ایک سیٹ کے لئے کئی کئی مسلمان امیدوار کھڑے ہو جاتے ہیں، اس کا نتیجہ ہے کہ پارلیامنٹ اور اسمبلی میں مسلمان نمائندگی کم سے کم ہوتی چلی جا رہی ہے، اور اب تو بی جے پی نے یہ تحریک شروع کی ہے کہ ہمیں مسلمانوں کے ووٹ کی ضرورت نہیں، وہ نفرت انگیز پروپیگنڈوں کے ذریعہ اکثریت کے ووٹ کو متحد کرتی ہے؛ تاکہ اقلیت کا ووٹ بے اثر ہو جائے۔

اس پس منظر میں دور رس اور وسیع کوشش کی ضرورت ہے، ہر علاقہ میں مسلمان باوثوق شخصیتوں کی ایک کمیٹی بنائی جائے، جو پارٹی اور خاندانی مفادات سے اوپر اٹھ کر مضبوط مسلمان امیدوار کی تائید کرے اور متحدہ طور پر اس کو ووٹ دیا جائے، الیکشن کے وقت پارٹیوں کے سامنے اعلانیہ یا خفیہ طور پر اپنا ایجنڈا رکھا جائے اور جو پارٹی اس کو قبول کرے، اسی کی تائید کی جائے، ووٹرس کے ناموں کا اندراج کرانے کی بھر پور کوشش کی جائے اور مسلمانوں کو آگاہ کیا جائے کہ وہ ضرور اپنے حق رائے دہی کا استعمال کرے، ایک اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کو پنچایت اور کارپوریشن کی سطح پر بہتر نتائج لانے کی بھر پور کوشش کرنی چاہئے؛ کیوں کہ یہ نسبتاََ آسان ہے ، اب مقامی عوامی اداروں کو بھی کافی اختیارات حاصل ہیں، اور حکومت کی طرف سے ان کو مناسب فنڈ مہیا کیا جاتا ہے، اس سے مقامی طور پر تعلیم، صفائی ستھرائی اور صحت کے سلسلے میں کافی کام ہو سکتا ہے اور مقامی انتخابات میں اپنے اثرو رسوخ کا استعمال کر کے ہندو مسلم اتحاد کی فضا قائم کرنے میں بھی اہم رول ادا کر سکتے ہیں۔

ان کوششوں کے ذریعہ یہ کہنا تو مبالغہ ہوگا کہ ہم سیاسی معاملات میں خود مکتفی ہو جائیں گے؛ لیکن اتنا ضرور ہے کہ اس وقت مسلمان جس سیاسی بے وزنی سے دوچار ہیں، اس میں کمی ہوگی اور بہت سے مسائل کو وہ اپنی کوششوں کے ذریعہ حل کر سکیں گے۔

۹۔ شریعت میں جان ومال کے تحفظ کو بڑی اہمیت حاصل ہے؛ بلکہ یہ شریعت کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے، زندگی کے بچاؤ کے لئے شریعت میں بعض ایسی چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے، جو بنیادی طور پر حرام ہیں، اور ان کا شمار بڑے گناہوں میں ہے، نہ صرف اپنی جان ومال کی حفاظت ضروری ہے؛ بلکہ سماج کی حفاظت بھی ضروری ہے، ہر انسان کو بچانا ’’چاہے وہ مسلمان ہو یا غیر مسلم ‘‘ ہمارا مذہبی فریضہ ہے، اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مسلمانوں کی جان ومال پر حملہ، ماب لنچنگ اور آتش زنی ایک عام سی بات ہوگئی ہے، افسوس کہ حکومت بھی اس پر توجہ نہیں دیتی ہے، بعض واقعات تو وہ ہیں کہ جن کا شور امریکہ تک پہنچ جاتا ہے؛ لیکن ہمارے ملک کے حکمرانوں کے کانوں تک نہیں پہنچتا، ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ مسلمان ’’ اپنی حفاظت آپ‘‘ کا پروگرام بنائیں، پولیس اور حکومت پر تکیہ نہ کریں، مارے جائیں تو سر جھکا کر نہیں؛ بلکہ مقابلہ کرتے ہوئے، حملہ آوروں کو نقصان پہنچا سکیں اور ان کو احساس دلا سکیں کہ یہ ایسا نرم نوالا نہیں ہے کہ جو چاہے چبا ڈالے۔

اس کے لئے ایک تو ورزش اور خاص کر مارشل آرٹ سیکھنا سکھانا چاہئے،عورتوں کو بھی اس کی تربیت دینی چاہئے؛ تاکہ وہ اپنی عزت وآبرو کی حفاظت کر سکیں، یہ قانون کے دائرہ میں ہے، ہر گھر میں کم سے کم لاٹھی رکھنے کا اہتمام کرنا چاہئے؛ تاکہ انسان موذی جانور سے بھی اپنے آپ کو بچائے اور موذی انسانوں سے بھی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرے، قانون بھی ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے، دینی مدارس اور اسکولوں میں اس کی تربیت ہو، ہر مسجد کے تحت لوگ اس کی مشق کریں ؛ البتہ انہیں بتایا جائے کہ اس تربیت کا استعمال بے قصوروں پر ظلم کرنے کے لئے نہیں کرنا ہے؛ بلکہ اپنے آپ کو ظلم سے بچانے کے لئے ہے، اس کی بھی کوشش کرنی چاہئے کہ مشتبہ علاقوں میں تنہا سفر کرنے سے بچیں، اپنی آبادیوں کو مجتمع کریں، جن دیہاتوں میں اکّا دکّا مسلمان آباد ہیں، ان کو شہروں کے مسلمان اپنے یہاں آباد کریں؛ تاکہ اجتماعی حفاظت ہو سکے، ایک ساتھ مل کر ایک دوسرے کو بچائیں، یہ اس وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تنہا سفر کرنے سے منع فرمایا ہے، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو اپنے ماحول میں آباد رہنے کی تلقین فرمائی ہے، مسلمانوں کی آبادیاں اگر مرتکز ہوں تو اس سے سیاسی فائدہ بھی ہوگا، مسلمانوں کے اپنے تعلیمی ادارے بھی قائم ہو سکیں گے، جان ومال اور عزت وآبرو کی حفاظت بھی ہوگی، مسلمانوں کی نئی نسل اپنی تہذیب پر قائم رہے گی اور مسلم تہذیب پر حملہ کرنے اور مسلمانوں کی نئی نسل کو اس سے ہٹانے کی جو کوشش ہو رہی ہے، اس صورت حال سے بھی مسلمان اپنی نسلوں کو بچا سکیں گے۔

یہ نکاتی مشورہ ہے، جو علماء ،دانشوران، مسلم تنظیموں جماعتوں اور باشعور مسلمانوں کی خدمت میں غور وفکر کے لئے پیش ہیں، جن کا مقصد یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ مسائل اور ضرورتوں میں خود مکتفی ہوں، وہ حکومت اور دوسروں کے محتاج ہو کر زندگی نہ گزاریں، جو قوم اپنے مسائل خود حل نہیں کر سکتی ، وہ اپنی ضرورتوں میں دوسروں کی محتاج رہتی ہے، آزاد ہونے کے باوجود غلامی کی زنجیریں اس کے پاؤں میں پڑی رہتی ہیں۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com