مشرّف عالم ذوقی
کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ اس وقت یہ طے ہوتا ہے کہ کون کس شخص کا سیارہ بنایا جائے گا۔ جس طرح کسی خاص درجہ حرارت پر پہنچ کر ٹھوس مائع اور مائع گیس میں بدل جاتا ہے‘ اسی طرح کوئی خاص گھڑی بڑی نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے، اس وقت ایک قلب کی سوئیاں کسی دوسرے قلب کے تابع کر دی جاتی ہیں۔ پھر جو وقت پہلے قلب میں رہتا ہے وہی وقت دوسرے قلب کی گھڑی بتاتی ہے‘ جو موسم‘ جو رُت‘ جو پہلے دن میں طلوع ہوتا ہے وہی دوسرے آئینے منعکس ہو جاتا ہے۔ دوسرے قلب کی اپنی زندگی ساکت ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد اس میں صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔
بانو قدسیہ کے ناول “راجہ گدھ” سے اقتباس
بانو نے سچ لکھا .کچھ لمحے بڑے فیصلہ کن ہوتے ہیں۔ایک قلب کی چلتی ،دھڑکتی ہوئی سوئیاں آج رک گی ہیں ..صرف بازگشت کی آواز آتی ہے۔..ایک قلب خاموش ھوا ..لیکن یہ دل ہزاروں لاکھوں کروڑوں دلوں میں دھڑک رہا ہے .کیا راجہ گدھ کویی ایسا ناول ہے جسے اردو ادب کی تاریخ فراموش کر دے …؟ عینی بی ،عبد الله حسین ،ممتاز مفتی ، انتظار حسین ..اشفاق احمد …ایک موت نے کتنی یادوں کو زندہ کر دیا ہے ..یہ کچھ ایسے نام ہیں جو کبھی بھلاہے نہیں جا سکتے ..بانو کی تحریر مختلف تھی ..انداز مختلف تھا .زندگی کو دیکھنے کا فلسفہ مختلف تھا .. آتش زیر پا، ایک دن،راجہ گدھ.. امر بیل .. کویی لکیر سیدھی نہیں ..ہر لکیر دل میں اتر جانے والی .گھنٹوں سوچنے پر مجبور کرنے والی ..مجھے یاد ہے ،راجہ گدھ کا مطالعہ کرتے ہوئے ہر دو صفحے کے بعد رک جاتا … خیالوں کی سنا می سے باہر نکلنا آسان ہوتا ہے کیا ؟ راجہ گدھ علامتی پیراہے میں انسانی تاریخ کا ایسا المیہ بیان کرتی ہے کہ رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں … ہر قدم ایک نیا فلسفہ ایک نیا سوال ہم پر حاوی ہو جاتا ہے .. مشرق اور مغرب کی تفریق کو لے کر حاصل گھات لکھا تو یہاں بھی الجھے الجھے فلسفوں کی دستک موجود تھی .اشفاق احمد کو ہم گڈریا کے حوالہ سے جانتے تھے ..پہلے یہ دنیا گلوبل نہیں ہوئی تھی .پاکستان سے خبریں ہم لوگوں تک تاخیر سے پہچتی تھیں . پھر معلوم ہوا ..اشفاق احمد ڈرامے بھی لکھتے ہیں .ٹی وی کی دنیا کا بڑا نام ہیں . ہم نے اشفاق احمد کو بانو کے حوالے سے نہیں جانا .بانوکو اشفاق احمد کے حوالے کی ضرورت نہیں تھی .دونوں کے اسلوب جدا تحریر مختلف .. گڈریا کا سرور آج بھی باقی ہے .راجہ گدھ کا نشہ آج بھی قایم .. یہ نہ ختم ہونے والا نشہ ہے ..بانو نے صرف راجہ گدھ لکھا ہوتا ،تب بھی یہ نام اردو تاریخ کا ایک اہم حصّہ ہوتا …
پچھلے برس فیس بک پر ایک ادبی فورم نے بانو کو فرضی ٹھہرانے کی ایک مذموم مہم شروع کی …یہ کہا گیا کہ بانو نے جو بھی لکھا ،وہ اشفاق احمد کی دین ہے .مفروضہ یہ پیش کیا گیا کہ اشفاق احمد کے انتقال کے بعد بانو کا قلم خاموش کیوں ہو گیا ؟ ٨٨ برس کی عمر میں بانو کا انتقال ہوا ..اگر کچھ برسوں سے بانو نے لکھنا منقطع کر دیا تو اسکا مطلب یہ نہیں کہ بانو قدسیہ کی شخصیت کو فرضی ثابت کیا جائے ..یہ ہمارا کیسا معاشرہ ہے جو عورتوں سے اس حد تک بد ظن ہے کہ انپر تہمتوں کی بارش کرتا ہے …الزام لگاتا ہے .بانو کا قلم الٹا چلتا تھا ..وہ مرد عورت میں تقسیم کی قایل نہیں تھیں …مردوں سے زیادہ عورتوں کو لہو لہان کرتی تھیں ..یہ ایک پہلو تھا کہ عورت کی خود داری اور مضبوطی جاگ اٹھے ..اور ہمارا یہ مرد معاشرہ بنو قدسیہ جیسی عظیم المرتبت شخصیت کو داغدار کرنے کے بہانے تلاش کرتا ہے …
عینی بی کا انتقال ہوا تو شدت سے اس بات کا احساس ہا کہ آج ہم نے بہت کچھ کھو دیا ہے …بانو قدسیہ کے جانے سے لگتا ہے ، ہم اردو تھذیب کے جنازے میں شامل ہیں …وقت کی چلتی ہوئی سوئیاں اچانک رک گی ہیں … وہ ..جو اپنی تحریر میں تھذیب و ثقافت کو زندہ و پائندہ رکھنے کی ذمہ داریاں اٹھاے پھرتے تھے ، جنکے دم سے ہماری یہ محفل روشن ہوا کرتی تھی ..آھستہ آہستہ یہ چراغ بجھتے جا رہے ہیں ..آج ایک داستانی سفر ختم ہوا …. ممتاز مفتی نے بانو کے بارے میں لکھا …. قدسیہ جاٹ ہے ، بانوبے ذات ہے- اشفاق براہمن ہے، قدسیہ شودہرہے ، بانو ہاری ہے شہد کی مکھی ہے- قدسیہ پروانہ ہے ، اشفاق بھڑہے- بانو ذہن ہے قدسی دل ہے، اشفاق ذہن ہے-
بانوکے فکر کی منزل ہے ، قدسی کے لیے پتی بھگتی ہے ، اشفاق کے لیے ذات منزل ہے— یہ آواز میرے دل کی بھی ہے .. بانو اور اشفاق احمد میاں بیوی تھے .. مگر ادب میں دو مختلف شخصیت … ایک شخصیت کو دوسری میں ضم کرنا بد دیانتی ہے . بانو کی شخصیت امر بیل کی طرح امر ہے …..