ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی جانب سے لکھنؤ میں تیسرا ایک روزہ ورکشاپ کا کامیاب انعقاد
لکھنو(ملت ٹائمز؍پریس ریلیز)
ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے زیر اہتمام تیسرا ایک روزہ شمالی ہند ورکشاپ ،بعنوان’’تحفظ شریعت اور اصلاح معاشرہ‘‘مولانا محمد ولی رحمانی صاحب، جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی صدارت اور ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ،مسؤلہ ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا کی نگرانی میں میں لکھنو میں منعقد کیا گیا ۔ورکشاپ میں شمالی ہند کی ریاستوں راجستھان،نئی دہلی، اترپردیش،علی گڈھ، مرادآباد،ہریانہ،پنجاب ،میرٹھ ،سہارنپور، سنبھل اور دیوبند کی خواتین نے شرکت کیں۔
ورکشاپ میں جملہ تین سیشن رکھے گئے ۔پہلے سیشن کا آغازمحترمہ میمونہ خالد خاں صاحبہ،طالبہ الہدی ماڈل کالج کی قرأت کلام پاک سے ہوا۔محترمہ نگہت پروین خاں صاحبہ کوآرڈینیٹر ویمنس ونگ لکھنؤ، نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا۔ انھوں نے ورکشاپ میں،شمالی ہند کی مختلف ریاستوں سے آنے والی بہنوں کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ آج کا یہ ورکشاپ یقیناًً اس بات کی گواہی ہیکہ ہم مسلمان بہنیں اسلام کے صحیح پیغام کو دوسروں تک پہنچانے کیلئے اکٹھا ہوئیں ہیں۔۔ دین کی خدمت،امربالمعروف و نہی عن المنکرکے کام میں مومن مردو مومن عورتیں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔انبیاء ؑ کی جن بیویوں نے ان کا ساتھ دیا ان کیلئے دین کی اشاعت و اطاعت کا کام آسان ہوگیا۔حضرت ابراہیم ؑ کا چھوٹا سا کنبہ اللہ کے حکموں پر چلنے والا بن گیا۔ رسول اکرمؐ نے جب دعوت کا پیغام دیا تو سب سے پہلے آپ کا ساتھ دینے والی ،اپنا مال خرچ کرنے والی،آپؐکی معاون و مددگار اسلام کی خاتون اول ام المؤمنین سیدہ خدیجۃ الکبریٰ ہیں۔اللہ رب العزت کی طرف سے سب سے پہلا سلام حضرت خدیجہؓ کی طرف آیا۔
حضرت عمرؓ کے ایمان لانے کا ذریعہ انکی بہن بنیں،حضر ت عثمان بن عفانؓ کی خالہ سعدیہ بنت قریظہؓ ایمان لانے کے بعد سب سے پہلے اپنے بھانجے کے پاس گئیں اور اسلام کی دعوت دی اور حضرت عثمانؓ ایمان لائے۔اسطرح تاریخ اسلام عورتوں کے کارناموں سے بھری پڑی ہے۔ آج بھی امت مسلمہ میں کمی نہیں ہے، ایسی ماؤں کی جو شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ ، حضرت جنید بغدادیؒ ، وغیرہ جیسے جانشین پیدا کریں اور وہ اپنے نور ایمانی سے ویران دلوں کو روشن کریں۔
ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ مسؤلہ ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ورکشاپ میں ’’شریعت اسلامی کے اہم نکات ‘‘پر پاور پاؤئنٹ پریزینٹیشن کے ذریعہ روشنی ڈالی۔ انھوں نے کہا کہ اسلامی نظریہ ازدواج نے نکاح کیلئے ایک سادہ قانون لوگوں کو پیش کیا۔جس کے تحت رشتہ ازدواج میں ہونے والے مسائل کا حل رکھا گیا ۔نکاح کو آسان و سہل کرکے بے حیائی اورناجائز راستوں کے تمام دروازوں کو بند کردیا گیا۔ اسلام میں نکاح مرد و عورت کے درمیان شرعی اصولوں پر کیا گیا ایک معاہدہ ہے۔ احکام نکاح ،طریقہ نکاح اور اصول نکاح سمجھنے کی ضرورت ہے۔
دوسرے سیشن میں حضرت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب جنرل سکریٹری آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ تین طلاق کا مسئلہ جب سپریم کورٹ میں آیا تو حکومت اورمیڈیا کی جانب سے یہ کوشش کی گئی کہ طلاق کے واقعات کوپرنٹ اور الکٹرانک میڈیامیں بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور مسلم سماج کو بدنام کیا گیا اور قانون شریعت اور قانون طلاق کو نشانہ بنایا گیا۔
انھوں نے کہا کہ ایسے حالات میں مسلمان مردوں اورخواتین پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہیکہ پوری صلاحیت اور سلیقہ کے ساتھ دلیلوں کو پیش کرتے ہوئے مثبت جواب دیں، اپنے سلسلہ کلام کو جاری رکھتے ہوئے حضرت مولانا نے کہا کہ طلاق کا راستہ بند کرنے اور اس کو روکنے سے مسائل سماج میں کم نہیں ہونگے بلکہ خواتین کے ساتھ ظلم و زیادتی مزیدبڑھ سکتی ہے اور خواتین کی عزت اور تحفظ متأثرہوسکتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ شریعت میں طلاق ایک ناپسندیدہ عمل ہے مگر اسکی گنجائش رکھی گئی ہے ،مسائل کی پیچیدگی کے وقت اسکو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے۔مسلم پرسنل لا بورڈ ایک متحدہ اور متفقہ پلیٹ فارم ہے جس میں تمام مکاتب فکر ، مسالک اور جماعتوں کو متحدکیا گیا اور کوشش اس بات کی کی جاتی ہے کہ سب کا احترام کیا جائے۔
محترمہ آمنہ رضوان صاحبہ رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ماڈل نکاح نامہ کے اصول الزوجین بتائے۔نکاح رسول ؐ اور انبیاء کی سنت ہے۔ اس لئے ضروری ہیکہ اسے مسنون طریقہ پر انجام دیں،اور تمام خلاف شرع امور سے بچا جائے،نکاح میں لڑکے یا اس کے سرپرستوں کی طرف سے نقد رقم، جہیزیا اس کے مہمانوں کیلئے دعوت کا مطالبہ کرنا خلاف شرع اور سخت گناہ ہے۔ نکاح کو آسان بنایا جائے اور فضول خرچی سے بچاجائے۔آپ ﷺ نے فرمایا وہ نکاح بابرکت ہے جس میں کم اخراجات ہوں۔
محترمہ سمیہ نعمانی صاحبہ رکن مسلم پرسنل لا بورڈ نے ’’آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اغراض و مقاصد‘‘ پیش کئے۔محترمہ عطیہ صدیقہ صاحبہ رکن آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ’’اصلاح معاشرہ ‘‘ پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کی یہ ذمہ داری ہیکہ وہ شریعت اسلامی کا بغور مطالعہ کریں ،قرآن و سیرت کی تعلیمات سے واقف ہوں اور اپنے گھر،خاندان و معاشرہ کی اصلاح کیلئے اٹھ کھڑے ہوں ۔
تیسرے سیشن میں ڈاکٹر اسماء زہرہ صاحبہ مسؤلہ ویمنس ونگ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے ’’تحفظ شریعت کو درپیش سیاسی و قانونی چیالنجس‘‘ پر مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ہر قوم کی زندگی میں چیلنجس آتے ہیں۔ ہم مسلمانوں کو بھی چیالنجس کا سامنا ہے۔ ہمارے ملک میں ہماری شناخت کو مٹانے کی کوشش کی جارہی ہے۔اسکے لئے ہماری شریعت پر حملہ کرکے مسلم پرسنل لاکے قانون طلاق کے ساتھ چھیڑ چھاڑکرنے اوراسے تبدیل کرنے کی سازش حکومت ‘ میڈیا اورعدالت کی جانب سے ہورہی ہے۔ اسلام دشمن طاقتیں مسلم عورت سے ہمدردی کے نام پر مختلف ظالمانہ قوانین تھوپنا چاہتے ہیں۔مسلمان عورت شریعت اسلامی پراپنا مکمل ایمان و یقین رکھتی ہے، اس سے مطمئن ہیں اور اسکے تحفظ کیلئے اپنی جانیں دینے کو تیار ہیں۔ مسلم خواتین اپنی شریعت میں کسی بھی قسم کی تبدیلی ہرگز برداشت نہیں کرینگی۔
انھوں نے آل انڈیا مسلم ویمن ہلپ لائن کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی اورویمنس ونگ کے کام کے طریقہ کار سے واقف کرواتے ہوئے کہا کہ تعارف شریعت، تفہیم شریعت، دعوت شریعت ،اصلاح معاشرہ اور سماجی برائیوں سے متأثرہ مظلوم خواتین کی خدمت ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ اس کام کیلئے تمام مسالک، مکاتب فکر،جماعتوں کو جوڑکر زمینی سطح تک پہنچنے اورنوجوان طالبات اور غریب خواتین میں اصلاح معاشرہ کی کوششوں کو جاری رکھنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
انھوں نے آخر میں شرکاء ورکشاپ سے اپیل کی کہ وہ ویمنس ونگ سے جڑ کر اپنا وقت، صلاحیت اور پیسہ اس عظیم کام کیلئے لگائیں تاکہ اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح و کامیابی حاصل ہو۔
اس ورکشاپ میں سوال و جواب کا سیشن رہا۔خواتین سے مشورے اور تجاویز طلب کئے گئے ۔ جس میں اہم شریعت بیداری مہم، نوجوان طالبات اور غریب بستیوں میں اصلاح معاشرہ کے پروگرامس، چھوٹے بڑے شہروں میں ورکشاپ اور کونسلنگ سنٹرکا قیام اور گھریلو و عائلی اور خاندانی ازدواجی مسائل سے پریشان حال خواتین کی مدد شامل تھی۔دعاء پر ورکشاپ کا اختتام عمل میں آیا۔