امریکہ کے جنوبی ایشیااور خلیجی ممالک سے متعلق قومی سلامتی امور کے پروفیسر جودت بہجت کا شعبہ عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ میں توسیعی لکچر

نئی دہلی (پریس ریلیز۔ملت ٹائمز)
شعبہء عربی جامعہ ملیہ اسلامیہ کی جانب سے میر انیس ہال میں ایک توسیعی لیکچر کا انعقادکیا گیا جس میں جنوبی ایشیاء اور بالخصوص مصر، ایران،اور خلیجی ممالک سے متعلق امریکہ کے قومی سلامتی امور کے پروفیسر اور مشہور امریکی تھنک ٹینک ڈاکٹر جودت بہجت نے عرب بہاریہ اور امریکی کردار کے موضوع پر خطاب کیا ، لکچر کا آغاز شعبہ کے طالب علم توحید عالم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا، پروفیسر عبد الماجد قاضی نے مہمان کا تعارف کرایا اور شعبہ میں ان کی تشریف آوری پر خوشی کا اظہار کیا ، شعبہء عربی کے صدر پروفیسرمحمد ایوب ندوی نے اپنے صدارتی کلمات میں شعبہء عربی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کا مختصر تعارف پیش کیا اور کہا کہ پروفیسر جودت بہجت کے خطاب سے ہمیں وہ باتیں معلوم ہونگی جنکے بارے میں ہمیں گنجلک معلومات ہوتی ہیں اور ہم بہت سی حقیقتوں سے ناآشنا ہوتے ہیں ہم شعبہ عربی میں فاضل خطیب کا استقبال کرتے ہیں
مصری نژاد امریکی پروفیسر جودت بہجت نے اپنے خطاب کے آغاز میں ہندوستان اور امریکہ کے گہرے تعلقات کا ذکر کیا ، اور اپنے ہندوستان کے دورے کو خوش آئند قرار دیا ، انھوں نے اپنے خطاب میں مشرق وسطی کے حالات پر تفصیلی روشنی ڈالی اور شام عراق اور یمن کی ناگفتہ بہ صورت حال کے اسباب کا ذکر کیا اور اسے نااہل حکمرانوں کی بد انتظامیوں ،کرپشن ، اور تانا شاہی کو اس کا شاخصانہ قرار دیا ، انھوں نے روس ، ایران ، اور سعودی عرب جیسی قوتوں کی پراکسی وار کو بھی اس کا ذمہ دار قرار دیا، انھوں نے تیل کی قیمتوں میں آنے والی گراوٹ سے یورپ اور امریکہ کو پہنچنے والے شدید نقصان کا بھی ذکر کیا اور سعودی عرب کو اس کے لئے ذمہ دار قرار دیا ، انھوں نے کہا کہ تیل پیدا رکرنے والے ممالک نے اپنے اس قدم سے ایک نئی ٹیکنالوجی ’’ شیل آیل ‘‘ کوآگے بڑھنے سے روکنے اور ایران کومتاثر کرنے کی کوشش کی اس سے یورپ میں بیروزگاری بڑھی اور تیل والے ممالک کو بھی نقصان ہوا،
لکچر کے بعد سوال وجواب کا وقفہ ہوا جس میں بہت سے سوالات کئے گئے ، شعبہء عربی کے پروفیسر حبیب اللہ خان کے سوال پر کہ کیا یہ خیال صحیح ہے کہ امریکہ بین الاقوامی دنیا میں اپنا قائدانہ کردار کھو رہا ہے،اور روس ایک مرتبہ پھرعالمی منظر نامے پر پوری قوت سے ابھر رہاہے، فاضل خطیب نے اس بات کا اعتراف کیا کہ امریکہ میں بھی اس خیال پر پالیسی ساز اداروں میں بحث جاری ہے اور شدت سے یہ محسوس کیا جارہا کے روس کی عالمی منظرنامے پر سرگرمی زیادہ مؤثر دکھائی دے رہی ہے، اس سوال پر کہ امریکہ نے عراق اور افغانستان کی طرح شام میں مداخلت کیوں نہیں کی فاضل خطیب نے حیرت انگیز طور پر یہ اعتراف کیا کہ امریکہ کے پاس اب وہ وسائل اور قوت نہیں رہی کہ وہ کسی اور جنگ میں بھر پور حصہ لے سکے، اس سوال پر کہ اقوام متحدہ شام میں جنگ کیوں نہیں رکوا پارہا ہے فاضل مصنف نے حیرت انگیز طور پر کہا کہ اقوام متحدہ کوئی سیاسی ادارہ نہیں ہے اس لئے وہ کوئی کردار نہیں ادا کرسکتا ،
پروگرام میں شعبہ عربی کے اساتذہ ، طلبہ ، ریسرچ اسکالرس اور دیگر شعبوں کے اساتذہ اور طلبہ نے شرکت کی ۔