مولانا عبد الحمید نعمانی
بھارت ایک قدیم ملک ہے، اس کا کئی حوالے سے عالمی تاریخ میں اس کے نمایا ں باب کے تحت نام درج ہے، اسلام اور مسلمانوں کی آمد اور یہاں کے باشندوں کی ایک بڑی تعداد کے قبول اسلام کے ساتھ,بھارت کی رنگا رنگی اور تنوعات میں اضافہ ہی ہوا ہے، اس کا کھلے دل سے اعتراف واقرار, ملک کے قومی شاعر رام دھاری سنگھ دنکر نے اپنی کتاب ”بھارتیہ سنسکرتی کے چار ادھیائے“ مہا پنڈت راہل سنسکرتیان نے درشن دگ درشن اور ڈاکٹر تارا چند نے ”ہندستانی تہذیب پر اسلام کا اثر“Influence of Islamic on Indian Culture میں کیا ہے، ڈاکٹر تارا چند نے اپنی دوسری کتاب (جو درحقیقت چند خطبات کا مجموعہ)میں بھارت میں اسلام اور مسلمانوں کے اہم کردار ہونے کے تناظر میں لکھا ہے”دنیا کی بڑی تہذیبوں میں دعوت فکر دینے والی تیسری تہذیب مسلم ثقافت ہے، ہندو تہذیب کی مانند اور انجیلی عیسائیت کے بر خلاف اسلام ایک مکمل نظام قانون اور احکامات فراہم کرتا ہے، جو انسان کے تمام مسائل کا احاطہ کرتے ہیں، مسلمان علماء کے قول کے مطابق اس عقیدے کے دو واضح شعبے ہیں ایک دین کہلاتا ہے اور دوسرا شریعت، دین علی الخصوص عقیدے کے باطنی پہلو سے منسوب ہے اور عبادت (نماز)زکوۃ صوم اور حج کی شکل میں اس عقیدے کے عملی اظہار سے متعلق ہوتا ہے، اسے دو باتوں میں سمیٹا جا سکتا ہے ایک تو خدا کی وحدانیت میں یقین (توحید)اور دوسرے سچائی کے مطابق زندگی گزارنا (اخلاق حسنہ) شریعت انسان کی خارجی زندگی کے اصول و ضوابط یعنی اس کی ضرورتوں کی تکمیل نیز عقیدہ یا دوسرے مذاہب میں یقین رکھنے والوں سے گھریلو، سماجی، معاشی اور سیاسی سطحوں پر تعلقات کی حدوہیت کا تعین کرتی ہے“۔
(قومی یک جہتی اور سیکولرازم صفحہ 46 مطبوعہ انجمن ترقی اردو ہند دہلی 1975ء)
ہندو تووادی عناصر اور رہ نما عموماً بھارت پر اسلام اور مسلمانوں کے اثرات اور دین /عطیات کو نظر انداز یا انکار کرتے ہیں لیکن مذکورہ تینوں دانشوروں، مورخوں کے علاوہ دیگر رہ نماؤں و دانشوروں گاندھی، نہرو، رادھا کرشنن وغیرہم نے بھارت کی بہتر تصویر بنانے اور ہندستانی تہذیب و سماج پر بہتر اثرات کے سلسلے میں اسلام اور مسلمانوں کے رول کا اعتراف و اظہار کیا ہے۔ ڈاکٹر تارا چند نے مذکور کتاب ہندستانی تہذیب پر اسلام کا اثر، میں مختلف شعبہ ہائے افکار و اعمال پر اسلام اور مسلمانوں کے اثرات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ مثلاًوہ لکھتے ہیں ”جو شہادتیں ہیں ان کی روشنی میں کسی شبہ کی مطلق گنجائش نہیں رہتی ہے کہ ویر شیوا در سدھار، اسلام سے کافی متاثر ہوئے“۔ (کتاب کا صفحہ 163)
ہندستانی تمدن کے ارتقاء میں مسلمان فتوحات کا زبردست اثر تھا، (کتاب کا صفحہ171)
گاندھی جی نے لکھا ہے ”میں اس بات کا دعویٰ کرتا ہوں کہ میں نے ایک بے غرض طالب علم کی طرح پیغمبر اسلام کی زندگی اور قرآن کا مطالعہ کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قرآن کی تعلیمات کے اصلی اجزاء عدم تشدد کے موافق ہیں، جو لوگ مسائل کو غلط سمجھنا پسند کرتے ہیں وہ قرآن پڑھیں تب انھیں معلوم ہوگا کہ قرآن میں سینکڑوں باتیں ہیں جو ان کے لیے بھی قابل قبول ہیں اور بھگوت گیتا میں ایسی باتیں ہیں جن پر کوئی مسلمان بھی اعتراض نہیں کر سکتا، کیا میں کسی مسلمان سے صرف اس لیے نفرت کرنے لگوں کہ قرآن میں بعض آیات ایسی ہیں جن کے صحیح معنی میں نہیں سمجھ سکا ہوں، (ہند سوراج صفحہ 62 مطبوعہ 108ء مذہب اور دھرم صفحہ 2،از گاندھی جی)
آج کی تاریخ میں مشترکہ تہذیب اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی پر قائم طرز حیات کو مسترد کرتے ہوئے، اورنچ نیچ اور تفریق و نفرت پر مبنی فکر وعمل کو فرو غ دینے کی کوششیں زوروں پر ہیں، آر، ایس ایس کے سر سنچالک ڈاکٹر موہن راؤبھاگوت کچھ مسلم شخصیات سے ملاقاتیں کرتے ہوئے کچھ سوالات (مثلاً ہندو کو کافر سمجھنے کا سوال) کو بھی سامنے رکھ رہے ہیں، اور معاملے کو ان پہلوؤں کو نمایاں کر کے پیش کرتے ہیں جن کے سبب فرقہ وارانہ اتحاد کی صحیح راہ ہموار ہونے سے زیادہ دیگر قسم کے ایشوز سامنے آکر زیر بحث آجاتے ہیں اور ان کو میڈیا ایک خاص رنگ میں پیش کر کے ہندو مسلم کے درمیان دوری اور نفرت پیدا کرنے کا کام کرتا ہے، سنگھ اور پارٹی کے ترجمان بھی میڈیا کے ذریعے اسلام،قرآن اور مسلمانون کا نام لے کر جس جارحیت و نفرت کا اظہار کرتے ہیں، اس سے آر، ایس ایس اور ڈاکٹر بھاگوت کے اعلانیہ بیان و نظریہ، بھارت کے سارے باشندے ہندو ہیں کی کھلی تردید تکذیب ہوتی ہے، ڈاکٹر موہن بھاگوت سمیت ان سے پہلے کے پانچ سنگھ سر سنچالک مسلم صفیاء،دعاۃ، تجار، علماء کے کردار و حوالہ کو نظر انداز کر کے صرف مسلم حکمرانوں کے تناظر میں حملہ آور کے طور پر بھارت میں آمد کا ذکر کے تاریخ کے رخ کو غلط سمت میں موڑ دینے کا کام کرتے ہیں، کچھ دنوں پہلے سنگھ کے معروف اشاعتی ادارہ سروچی پرکاشن اور اس کی معاون تنظیم وشو ہندو پریشد وغیرہ نے جس طرح کا لٹریچر شائع کر کے لوگوں تک پہنچانے کا سلسلہ شروع کیا ہے، اس سے کسی طرح بھی ہندو مسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ ہموار نہیں ہو سکتی ہے، خود ڈاکٹر بھاگوت کی جو بیانات و خطابات، ہندو، ہندو راشٹر، ہندوتو،سماجک سمرستا اور بھوشیہ کا بھارت کے نام سے کتابی شکل میں شائع ہو کر لوگوں تک پہنچ رہے ہیں، ان میں کئی طرح کی ایسی باتیں ہیں،جو اقلیتوں خصوصاً مسلم ملت کی بہتر شبیہ اور آزادانہ کردار و شناخت کے خلاف ہیں، سنگھ کے اشاعتی ادارہ سروچی پرکاشن دہلی کی،ایس کے۔ اگروال کی کتاب ”ڈاکٹر امبیڈکر کی درشٹی میں مسلم کٹرواد“ جیسی تحریریں جن سے رہ نمائی و روشنی لے کر سنگھ اور بی، جے پی کے لیڈر و ترجمان سماج میں فرقہ پرستی و نفرت کا دھندو دھواں پھیلاتے ہیں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں، ڈاکٹر امبیڈکر کے حوالے سے مسلم کٹر واد کو پیش کرنے کی کوشش ایک تیر سے دو شکار نہیں بلکہ کئی شکار کرنے کے منصوبہ بند عمل کا حصہ ہے، یہ قابل توجہ بات ہے کہ جو لوگ ڈاکٹر بھاگوت سے ملاقاتیں کر رہے ہیں یا جن سے ڈاکٹر بھاگوت ملاقاتیں کرکے اپنی باتوں کو کہہ رہے ہیں، وہ سنگھ کے لٹریچر، اصل افکارو تاریخ اور سر سنگھ چالک کے پورے نظریے سے واقفیت نہیں رکھتے ہیں یا تو وہ متعلقہ باتوں کے حوالے سے ہندومسلم اتحاد اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے تناظر میں ضروری سوالات پیش کر کے ان کو زیر بحث لانا نہیں چاہتے ہیں، اس سے گریز پائی پسپائی کے اسباب و وجوہ واضح نہیں ہیں ہندو تو وادی عناصر اور درجنوں شدت پسند فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے جس طرح کے اشتعال انگیز بیانات اور پروگرام ہو رہے ہیں، وہ بھارت کی شبیہ و تصویر بگاڑنے کا کام کر رہے ہی، جب تک سنگھ اور اس کی اعلیٰ قیادت، ہندوتو کے جارحانہ فرقہ وارانہ نفرت انگیز سرگرمیوں کے خلاف موثر رول ادا نہیں کر ے گی تب تک نہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی راہ ہموار ہوگی اور نہ بھارت کی بہتر تصویر و شبیہ بنے گی۔
Noumani.aum@gmail.com