مسجد اقصیٰ کی مختصر تاریخ 

عظمت علی، نئی دہلی

 بیت المقدس ایک قدیمی اور تاریخی شہر ہے جو کبھی شامات کا حصہ تھا۔یہ شہر ادیان ابراہیمی(یہودی ، عیسائی اور مسلمان ) کے لیے خاص اہمیت کا حامل ہے۔اہل یہود کے عقید ہ کے مطابق یہاں ہیکل سلیمانی ہےجسے حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیہما السلام کے عہد بادشاہت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ عیسائی کے لیےاس لیے متبرک ہےچوں کہ اسی سرزمین پرحضرت مسیح کی مکمل حیات بسر ہوئی ہے اور اہل اسلام کا یہ قبلہ اول ہے ۔رسول اسلام ؐ نے ہجرت کے بعدسولہ یا سترہ ماہ تک اسی مسجد کی سمت نماز اداکی ہے اورواقعہ معراج اسی سرزمین سے وابستہ ہے۔ مسلمانوں کی نگاہ میں مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے بعد تیسری سب مقدس جگہ بیت المقدس ہے۔

  اس شہر کے مختلف ادوار میں نام بدلتے رہے ہیں۔ قدیم زمانہ میں اسے ’اورشلیم‘یا ’یورشالیم‘سے تعبیر کیا جاتا تھا۔عبرانی زبان میں ’اور‘کے معنی مقدس ، متبرک کے ہیں جبکہ ’شلیم‘سے مراد شہر کے ہیں ۔ یعنی شہر مقدس۔ ’اہل شام اور اس کے اطراف کے لوگ بیت المقدس کو’ قدس‘ لکھتےہیں اوران ممالک کے باشندوں میں سے اگر کوئی حج کو نہیں پہونچ سکتا ہے تو حج کے زمانے میں قدس میں حاضر ہوکر موقف پر ٹھہر جاتا ہےاور عید کی قربانی حسب رواج کردیتا ہے۔ ہر سال دوہزار سے زائد آدمی شروع ماہ ذی الحجہ میں وہاں جمع ہوکر بچوں کا ختنہ کرتے ہیں۔‘

(سفر نامہ حکیم ناصر خسرو،۴۳۷ھ لغایت۴۴۴ھ،اردو ترجمہ: چودھری محمد ثروت اللہ کرمانی سندیلوی، ص۳۵) ۔ایلیا، ہمیقداش وغیر ہ اس کے دوسرے نام ہیں۔

  اسلامی ریاست کے ماتحت آنے سے قبل یہ شہر عیسائی اور یہودیوں کے زیر تصرف تھا لیکن ۱۵؍ ہجری میں مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ عمرابن الخطاب نے اسے اپنی سلطنت میں داخل کرلیا اویہ اسلامی مملکت کا ایک حصہ ہوگیااور وہاں تعمیر مسجد کا حکم صادر کیاگیا۔

 مسجد اقصیٰ

 اقصیٰ کے معنی ’دورترین ‘کے ہوتے ہیں ۔اس لیے مسجداقصیٰ کے معنی ’دورترین مسجد‘ کے ہوئے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ مسجد مکہ معظمہ اور مدینہ منور ہ سے کافی دور ہے۔ یہ مکہ مکرمہ سے تقریباً1300کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ مسجد ،شہر کے مشرقی علاقہ جبکہ حرم کے جنوبی حصہ میں واقع ہے۔’مسجد اقصیٰ، مسجد عمر اور قبہ صخرہ سے ۵۰۰ ؍ میٹر کے فاصلہ پر موجود ہے۔‘

( لغت نامہ دھخدا ،علی اکبر)

 بیت المقدس میں واقع کوہ موریا کے حدود میں حصار بندی کردی گئی ہے جسے مسلمان ’حرم شریف ‘کہتے ہیں ۔ اسی احاطہ میں ’مسجد اقصیٰ ‘ہے۔البتہ قرآن کی تعبیر کے مطابق ’بارکنا حولہ‘ کے الفاظ بھی ہیں جس کی تفسیرپورے حرم قدسی سے ہوتی ہے۔ جس میں گنبد صخرہ بھی شامل ہےجبکہ اُس وقت مسجد کا وجود نہیں تھا۔ گنبد صخرہ کو مسجد اقصیٰ کے صحن کے وسط اور قدس شہر کے جنوب مشرقی جانب بنایا گیا ہے۔لیکن ایک جماعت کا کہنا ہے کہ موجودہ مسجد ہی ’مسجد اقصیٰ ہے‘ مگر مجھے پہلے نظریہ میں زیادہ استحکام نظر آتا ہے۔ اس کے متعدد دلیلیں ہیں:

 ۱۔جہاں تک موجود ہ مسجد الاقصیٰ کا تعلق ہے۔ اسے ہجرت کے بعد تعمیر کیا گیا ہے۔ہجرت رسولؐ کے وقت وہاں مذکورہ نام کی کوئی مسجد نہ تھی۔آپ کے دورمیں اس کا کوئی وجود ہی نہ تھا۔اس لیے لوگوں کو اس بارے میں کوئی علم نہ تھا۔ ابن میمون کی روایت میں مسجد اقصیٰ کی جگہ بیت المقدس کی لفظ آئی ہے۔

 ( سنن ابن ماجہ،ابن ماجہ، ج۱، ص۴۵۱۔، سنن ابن ماجہ، ج۱، ص۴۲۹)

 ابن شہاب زہری کی روایت میں بھی مسجد اقصیٰ کی جگہ بیت المقدس کا استعمال کیا گیا۔

( فضائل بیت المقدس،الامام ضاءالدین محمد بن عبد الواحد بن احمد، قدسی حنبلی،الطبع الاولی، ص؍۵۰، مجموعہ مقالات بلند از: دائرۃ المعارف الامی،مرتضی اسدی)۔

 اس کا واضح مطلب یہ ہوا ہے کہ قرآن میں ذکر شدہ’مسجد الاقصیٰ‘ اور ’بارکنا حولہ‘ سے مراد پورا حرم شریف ہے۔مسجد کی تعمیر تو کافی زمانہ بعد کی ہے ۔ اس لیے موجودہ مسجد اقصیٰ کو ہم قرآن میں بیان کردہ مسجد اقصیٰ سے تعبیر نہیں کرسکتے۔چوں کہ اس وقت وہ خارج میں معدوم تھی۔

 ۲۔مفسرین قرآن نےاللہ کی زبان سے بیان ’بیت الاقصیٰ‘کی تشریح میں ’بیت المقدس ‘مراد لیا ہے۔چونکہ اسلام سے قبل بھی اس کا متبرک وجود تھا ۔ اس لیے بیت المقدس کا دائرہ موجودہ مسجد اقصیٰ سے بزرگ تسلیم کرنا ہوگا۔ اس وجہ سے موجودہ مسجدکو مسجد اقصیٰ مان لینا بہتر نہ ہوگا بلکہ اس سے مراد بیت المقدس ہے کہ جسے ’حرم شریف ‘کہتے ہیں۔

جاری ۔۔۔۔۔

rascov205@gmail.com

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com