موجودہ مسجد الاقصی کی عمارت مستطیل شکل میں ہے جس کی لمبائی 80 میٹر اور چوڑائی 55 میٹر ہے۔
( تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی،موسی غوشہ، ص۱۰، سال اشاعت:۱۳۹۰شمسی)
مسجد کی عمارت 53 سنگ مرمر کے ستون اور 49 بنیادوں پر بنی ہوئی ہے۔
(تاریخ اورشلیم، حمیدی،ص۱۸۳، سال اشاعت:۱۳۸۱ش)
مسجد ایک بڑے ہال پر مشتمل ہے جس کے درمیان میں ایک گنبد واقع ہے۔
( تاریخ مجموعہ مسجد الاقصی،موسی غوشہ، ص۱۰،سال اشاعت: ۱۳۹۰ش)
مسجد تقریباًسبز گنبد سے مزین تھی ۔اسے عبد الملک نے تعمیر کرایا تھالیکن گردش ایام اور جدیدتعمیرات نے اس کی شکل میں کافی تبدیلی داخل کردی۔ اس کا دل اتنا کشادہ ہے کہ اس میں۵؍ہزارلوگ نماز ادا کرسکتے ہیں جبکہ صحن میں بھی ہزاروں افراد ادائے فرائض انجام دےسکتے ہیں۔
ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں مسجد اقصیٰ کا تذکرہ کیا ہے کہ:’یہ مسجد خوبصورتی اور دل آویزی میں دنیا کی عجیب مسجدوں میں سے ہے اور خوبصورتی اور دل آویزی میں اسے اعلیٰ درجہ کا تفوق حاصل ہے ۔ کہتےہیں کہ تمام عالم کی مساجد میں سے کوئی مسجد اس سے بڑی نہیں۔ مشرق سے مغرب تک اس کا طول سات سو باون گز ہے اور قبلہ سے سامنے کے رخ یعنی شمال و جنوب چار سو پینتیس گز عرض ہے ۔
(عجائب الاسفار ، جلد ، ۱ ۔سفرنامہ ابن بطوطہ، ترجمہ: عطاء الرحمٰن ، ص ؍۷۲،ناشر: رحمانی پریس دہلی، ۱۳۴۸ھ)
شبلی نعمانی نے اپنے سفرنامہ میں اس عظیم الشان مسجد کا تذکرہ یوں کیا ہے کہ : مسجد کی عمارت جس کا طول ایک ہزار (۱۰۰۰)گز اورعرض ۷۰۰؍گز ہے ،نہایت خوبصورت، پر تکلف اور شاندار ہے ۔ چھت ستونوں پر ہے اور (۷۰۰)صرف سنگ رخام کے ستون ہیں۔ جابجا پچے کاری اور طلائی کا م ہے ۔ یہ عمارت جس قدر ہے ، عبد المالک بن مروان کی بنوائی ہوئی ہے البتہ بنیادوں کی نسبت کہاجاتا ہے کہ حضرت داؤدؑ کےعہد کی ہیں ۔ بائیں جانب عمارت اور کسی قدر فاصلہ پر ایک وسیع تہ خانہ ہے۔ دس بارہ سیڑھیاں اتر کر مسطح زمین ملتی ہے ۔ یہاں نہایت عالی شان محرابوں کی سات قطاریں ہیں ۔ محرابوں کے ستون نہایت چوڑے اور بلند ہیں ۔ مجاورین ان محرابوں کو حضرت سلیمان ؑکے عہد کی تعمیر بتاتے ہیں اور اس قدر تو یقینی ہے کہ اسلام کے قبل کی ہیں۔
(سفرنامہ رو م و مصر و شام ، شبلی نعمانی، ص ؍ ۹۵،ناشر: مہتاب پریس دہلی، ۱۹۲۷ء) ۔۔۔
ای میل: rascov205@gmail.com