شمس تبریز قاسمی
آل انڈیا ملی کونسل ملک کی مؤقر اور قدیم تنظیموں میں سر فہرست ہے جس نے اول دن سے مسلمانوں کی قیادت کی ہے اور ہر مشکل موڑ پر امت مسلمہ ہندیہ کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ہے ۔ 1992 کی بات ہے جب مسلمانانِ ہند چوطرفہ مسائل سے دوچار تھے ، فرقہ پرست پارٹیوں نے ایک محاذ قائم کر رکھا تھا ، بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنانے کی تحریک چلائی جارہی تھی ، خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا گیا تھا ، سیکولر پارٹیاں اور حکومتوں نے بھی فرقہ پرستوں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے تھے ۔ ایسے وقت میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ ۔ ڈاکٹر منظور عالم صاحب اور دیگر اکابرین نے ممبئی میں ایک نمائندہ اجلاس بلایا جس میں اس وقت کے مؤقر رہنما اور مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی میاں ندوی رحمۃ اللہ علیہ بھی موجود تھے ۔ ملک کی مختلف سرکردہ شخصیات اور سبھی مکاتب فکر اور طبقہ سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو مدعو کیا گیا اور آل انڈیا ملی کونسل کے قیام کا اعلان کیا ، اس طرح دانشوران ، علماء کرام ، وکلاء، بیورکریٹس اور سیاست داں سبھی نے ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر آکر ملت کیلئے آواز اٹھانے کا فیصلہ کیا ۔
1997 میں قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ مفتی اشرف علی باقوی رحمہ اللہ، ڈاکٹر منظور عالم ، مولانا عبد اللہ مغیثی ، مولانا مصفی رفاعی ندوی اور اس وقت کے دیگر اکابرین نے پورے ملک میں کاروان آزادی نکالا ۔ میسور اور مرشدآباد دونوں جگہ سے کاروان آزادی کے قافلہ نے رخت سفر باندھا اور پورے ملک کا دورہ کیا ۔ امت مسلمہ کے مسائل جاننے کی کوشش کی ، حالات کا جائزہ لیا ۔آل انڈیا ملی کونسل نے ٹاڈا پوٹا قانون کی بھی پرزور مخالفت کی ۔ کئی معاملوں میں سرکار کے خلاف کی تحریک چلائی اور قانون کو واپس لینے پر مجبور کیا۔ مودی سرکار کے قیام کے بعد جب پورے ملک میں ماب لنچنگ ہورہی تھی ، آئین میں ترمیم کرنے کی مہم چلائی جارہی تھی ، اقلیتوں کو خوف زدہ کردیا گیا تھا اس وقت بھی سال 2016 میں ملی کونسل نے دہلی کے تالکٹورہ اسٹڈیم میں ایک تاریخی اجلاس بلایا جس میں ملک کے تقریباً بھی سیکولر ذہن کی حامل شخصیات نے شرکت کی اور فرقہ پرستی کے ایجنڈا کی واضح لفظوں میں تنقید کی ۔ یہ چند واقعات بطور مثال تحریر کئے گئے ہیں جس کے تذکرہ کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب بھی ملک میں نازک حالات پیدا ہوئے ہیں ، امت مسلمہ کے نزد یک گھیرا تنگ کرنے کی کوشش ہوئی تو آل انڈیا ملی کونسل نے رہنمائی اور قیادت کا فریضہ نبھایا ہے ۔حالیہ دنوں میں بھی ملی کونسل نے اپنی تاریخ کو دہراتے ہوئے چننئی کے اجلاس عام میں کئی اہم فیصلہ کیا ہے اور ملت اسلامیہ ہندیہ کو بحران سے نکالنے کی کوشش کی ہے ۔
13 سے 15 جنوری 2023 کے درمیان مشہور اقتصادی اور تاریخی شہر چننئی ( جس کا قدیم نام مدراس ہے) میں آل انڈیا ملی کونسل کا بائیسواں اجلاس عام منعقد ہوا ہے جس میں ملک بھر سے تقریباً 200 کے قریب اراکین اور مدعوین خصوصی نے شرکت کی ۔ملی کونسل کے قومی سکریٹری جنرل اور مشہور دانشور ڈاکٹر مظور عالم نے بھی اس اجلاس میں شدید بیماری اور ضعف کے باوجود شرکت کو لازمی سمجھا ، کونسل کے صدر مولانا عبد اللہ مغیثی ، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی ۔ مولانا مصطفی رفاعی جیلانی ، مولانا انیس الرحمن قاسمی مولانا عبد العلیم بھٹکلی جیسی شخصیات اجلاس کا حصہ رہے ۔ تقریباً تین دنوں تک ملک وملت کو درپیش مسائل پر گفتگو ہوئی ، دسیوں ایشوز زیر بحث آئے ۔ مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کی سازش کا ذکر ہوا ۔ ماب لنچگ اور زبردستی جے شری رام کا نعرہ مسلمانوں سے لگوانے کا معاملہ سامنے آیا ۔ پلیٹ فارم اور عوامی مقامات پر نماز پڑھنے پر مقدمہ عائد کئے جانے کا مسئلہ شرکاء نے پیش کیا ۔ مسلمان لڑکیوں میں ارتداد کے بڑھتے واقعات پر تشویش ظاہر کی گئی ، گیان واپی مسجد ، متھرا کی شاہی عید گاہ ، بدایوں کی جامع مسجد ، ٹیپو سلطان مسجد سمیت ان تمام مساجد پر بات ہوئی جہاں پہلے کبھی مندر ہونے کا جھوٹا دعوی کیا جارہا ہے ۔ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال پر گفتگو ہوئی ۔ نوجوانوں کو جوڑنے اور ان کی صلاحیت سے کام لینے کا مشورہ سامنے آیا ۔ سیاسی مسائل پر بات چیت ہوئی کہ کو ن پارٹی بہتر ہے ، مسلمانوں کو کسے ووٹ کرنا چاہیے اور کسے نہیں ۔ ماضی میں ہوئے انتخابات کا سیاسی جائزہ بھی لیا گیا کہ کہاں کس کی کس وجہ سے ہار ہوئی اور کس وجہ سے جیت ہوئی ۔ یونیفارم سول کوڈ پر مسلمانوں کا لائحہ عمل طے کیاگیا ۔مسلمانوں کی بے دخلی اور بلڈوزر پر بی چینی کا اظہار کیا گیا ۔ ٹی وی چینلوں اور اخبارات میں مسلمانوں کے خلاف ہونے والے منفی پروپیگنڈہ کا حل تلاشنے اور جواب دینے کے طریقہ کار پر چرچا ہوئی ۔ قائدین نے یہ بھی اشارہ دیا کہ ضرورت پڑنے پر ملک کے سربراہوں سے ملاقات بھی کی جاسکتی ہے لیکن شرط یہی ہے کہ ان کی طرف سے بھی دلچسپی سامنے آئے ۔ مختصر یہ کہ دانشوران اور علماء نے سہ روزہ میٹنگ میں کسی نتیجہ تک پہونچنے کی کوشش اور مجلس عمومی کے اختتام پر ایک تاریخی اعلامیہ جاری کرکے حکومت ہند کو واضح طور پر پیغام دیا کہ ملک کے مسلمان برابر کے شہری اور حصہ دار ہیں ۔ سرکار کی سبھی پالیسیوں اور مسلم مخالف مہم پر گہری نظر ہے ۔ چننئی کے اجلاس نے 8 نکات پر مشتمل جامع اعلامیہ جاری کیا جس کے کچھ نکات یہاں پیش ہیں۔
ملک میں فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے والی سازشوں کو ناکام بنایا جائے ۔ ملی کونسل اس ملک کے تمام انصاف پسندوں اور جمہوری وآئینی اقدار پر یقین رکھنے والوں کو آواز دیتی ہے کہ وہ اس ملک کی تہذیبی وراثت کے تحفظ اور بھائی چارے کے جذبے کو قوت و توانائی بخشیں تاکہ یہ ملک عالمی سطح پر اپنی شبیہ کو بہتر بناسکے اور اپنی خوب صورت شناخت کے ساتھ ترقی کر سکے۔
ہندوستان کی سرزمین مختلف مذاہب کا گہوارہ اور مختلف تہذیبوں کا ملک ہے۔ یہاں سبھی مذاہب کے ماننے والے رہتے ہیں، جن میں سناتن دھرم، بدھ مت، اسلام، عیسائیت، سکھ دھرم، پارسی مذہب لنگایت، قبائلی وآدیباسی سبھی شامل ہیں۔ یہ سبھی صدیوں سے محبت اور ایک دوسرے کی ہمدردی کے ساتھ سکون و اطمینان سے رہتے آئے ہیں۔ آئین کے معماروں نے بھی مختلف تہذیب و تمدن اور رسم و رواج کے پیش نظر سب کے لیے یکساں پرسنل لاء نہیں بنایا، بلکہ دستور ہند میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کا پورا اختیار دیا گیا ہے۔ اسی طرح مسلمانوں کو بھی آئین ہند سے اپنے پرسنل لاء پر عمل کرنے کا پورا اختیار ملا ہوا ہے۔ آل انڈیا ملی کونسل کی مرکزی مجلس عمومی کا شدید احساس ہے کہ ملک میں تہذیبی تنوع کو برقرار رکھنا ضروری ہے، نیز انسانی حقوق کے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے اقلیتوں کے تہذیبی اور تعلیمی حقوق کو اس کے حدود کے اندر شامل کیا جانا چاہئے، تاکہ ہر اقلیت اپنی شناخت پر اصرار کرسکے، کیوں کہ ہمارے آئین کی دفعات 29 اور 30 کے تحت ان اصولوں کی ضمانت بھی دی گئی ہے۔
گیان واپی مسجد و متھرا شاہی عیدگاہ اور دیگر مساجد پر ہندوؤں کے غلط اور بے بنیاد دعووں کے پیش نظر کئی معاملات عدالتوں میں زیر غور ہیں اور حسب فیصلہ ان پر سماعت ہوتی رہتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ تمام معاملات عدالتوں میں Places of Worship Act, 1991 کے خلاف چلائے جا رہے ہیں ۔آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس حکومت ہند کی اس معاملہ پر خاموشی اور نچلی عدالتوں کے ذریعہ معاملہ کو پیچیدہ بنانے کی کوشش کو تشویش کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور حکومت سے یہ مطالبہ کرتا ہے کہ Places of Worship Act, 1991 کے تحت متھرا اور کاشی اور دیگر بعض مساجد سے متعلق معاملات کو حسب فیصلہ سابق بحال کیا جائے اور پارلیمنٹ کے مذکورہ منظور شدہ قانون کی کسی بھی معاملہ میں ان دیکھی نہ کی جائے۔
پورے ملک میں اس وقت جو حالات ہیں، وہ دراصل ثقافتی طور پر تنگ نظر گروہ اور فرقہ پرست طاقتوں کی ریشہ دوانیوں کے نتیجے میں ہیں اور جس کے پس پشت جمہوریت اور سیکولرازم نیز آئین کی بالادستی پر یقین نہ رکھنے والی وہ قوتیں ہیں جو اس ملک میں ایک مخصوص آئیڈیالوجی کے تحت اپنی ثقافتی بالادستی کو یقینی بنانا چاہتی ہیں تو دوسری جانب ملک میں خوف کی نفسیات پیدا کی جارہی ہے جو کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس حکومت ہند اور متعلقہ ریاستی حکومتوں کو یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اس وقت مسلمانانِ ہند جس بے چینی سے گزر رہے ہیں اور حکومت ہند اور بعض ریاستیں جس طرح ایسے قوانین نافذ کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں وہ دستور ہند کے صریحاً خلاف اور مسلمانوں کے لیے ناقابل قبول ہے۔
حالیہ دنوں میں ملک کے مختلف مقامات پر تجاوزات کے نام پر غریب شہریوں اور بالخصوص مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں و پس ماندہ طقبات سے تعلق رکھنے والوں کو بے دخل کرنے کی کارروائیاں تسلسل کے ساتھ انجام دی جا رہی ہیں ۔ حکومت ایک طرف تو ہر شری کو گھر دینے کی بات کرتی رہی ہے اور دوسری جانب شہریوں کے گھروں کو توڑ کر انہیں بے گھر کرنے کی کوشش کررہی ہے، آسام اور ہلدوانی اور دہلی کی مثالیں سب کے سامنے ہیں ۔ آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس اس صورت حال پر سخت تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اپنے شہریوں کے خلاف اس طرح کی کارروائیوں کا سلسلہ بند کےا جائے اور ملک میں امن و امان کی فضاءکو متاثر ہونے سے بچایا جائے۔
مدارس اسلامیہ اسلام کے قلعے اور انسانیت کے محافظ ہیں ، ملک کی آزادی میں ان کا کردار قائدانہ رہا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف میدانوں میں ان کی خدمات بے مثال رہی ہیں ۔ افسوس ہے کہ گزشتہ دنوں میں ملک کے مختلف حصوں میں مدارس اسلامیہ کے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔ آسام میں مدارس کا انہدام اور اتر پردیش میں دیگر مذہبی تعلیم گاہوں کے بجائے صرف مدارس اسلامیہ میں سروے کی مہم چلائی گئی۔اس کے علاوہ ان مدارس کے نصاب پر بھی سوالات کھڑے کئے جاتے رہے ہیں ۔ آل انڈیا ملی کونسل کا یہ اجلاس اس صورت حال پر اپنی تشویش کا اظہار کرتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ مدارس اسلامیہ کے ساتھ اس نامناسب رویے کو فوراً ختم کیا جائے۔ ساتھ ہی اجلاس مدارس اسلامیہ کے ذمہ داران سے اپےل کرتا ہے کہ وہ اپنا نظام اور ضروری قانونی دستاویزات کو درست رکھیں اور خاص طور پر مالےاتی نظام کو ہر طرح منظم رکھےں تاکہ کسی کو دخل اندازی کا موقع حاصل نہ ہوسکے۔
طلبہ و طالبات کی نشوونما اور تعلیم کے لئے گھر کی معاشی آسودگی ضروری ہوتی ہے، جو والدین معاشی پریشانیوں میں گھِرے رہتے ہیں، وہ اپنے بچوں کی تعلیم کو ایک ضمنی حیثیت دیتے ہیں اور غریب طلبہ اس سکون واطمینان سے نہیں پڑھ سکتے جو تعلیم کے لیے ضروری ہے۔ اکثر والدین پڑھے لکھے نہیں ہوتے، اگر پڑھ بھی لیتے ہیں تو گھر کے ماحول کی بنا پر اور پھر معمولی اسکول کے ماحول میں بچوں کی صلاحیتیں نکھر نہیں پاتیں، یہ المناک حقیقت ہے جس کی وجہ سے مسلم سماج کے بچے بنیادی اور اعلیٰ تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں۔ اسی صورت حال کے ازالہ کے لئے حکومت ہند نے اقلیتی طلبہ/ طالبات کے لیے پہلی تا آٹھویں جماعت کے لیے پری میٹرک اسکالرشپ کا پروویژن رکھا تھا ، اس سے معاشی اعتبار سے تہی دست خاندانوں کے بچے کم ازکم مڈل سطح تک بآسانی تعلیمی فیس اور دیگر ضروریات پوری کر لیتے تھے۔ اس کے علاوہ اعلیٰ تعلیمی میدان میں تحقےق کے لئے اقلیتی طلباء کو حکومت کی طرف سے مولانا آزاد نیشنل فےلو شپ فراہم کی جاتی تھی جنہےں اب مرکزی حکومت نے ختم کر دیا ہے ۔
آل انڈیا ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ اجلاس مرکزی حکومت کے اس فیصلے پر اپنے شدید دکھ کا اظہار کراس کو اقلےتی طلباءکو تعلےم سے محروم کرنے کی سازشوں کا ایک حصہ تصور کرتا ہے۔ لہٰذا آل انڈےا ملی کونسل کا ےہ اجلاس حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر پہلی تا آٹھویں جماعت کے طلباء کے لئے پری میٹرک اسکالر شپ اور تحقےقی میدان میں مولانا آزاد نیشنل فیلوشپ کو دوبارہ جاری کرے تاکہ طلباء و طالبات کی ابتدائی تعلیم کے علاوہ اعلیٰ تعلیم کے حصول میں درپےش مشکلات کا ازالہ ہو سکے۔
اللہ تعالیٰ نے تمام انسانوں کو ایک مرد اور عورت سے پیدا فرمایا ہے، پھر اسے مختلف گروہوں اور خاندانوں مےں شناخت اور تعارف کے ساتھ زمےن کے مختلف علاقوں مےں آباد کر دےا اور وجہ امتےاز اور تفاخر کی تمام تر جاہلی بنےادوںکو ختم فرما کر یہ اعلان کردیا کہ میری بارگا ہ میں عزت و احترام اور اعزاز صرف اللہ سے ڈرنے والوں کو حاصل ہوگا، کاروبار زندگی میں سب برابر اور یکساں ، رنگ و نسل، تہذیب و ثقافت، زبان و تمدن، فکر و خیال اور ملک و ریاست کے اعتبار سے کسی کو کسی پر امتیاز نہیں ، بحیثیتِ ابن آدم سارے انسان ایک ہیں ، سب کا تخلیقی عنصر ایک ہے، ”کلکم من آدم و آدم من تراب“۔
تمام انسانوں کے ساتھ انصاف اور ےکساں برتاؤ کی یقین دہانی ہمارے ملک کے دستور مےں بھی کرائی گئی ہے۔ دستور کی تمہےد مےں واضح طور پر ےہ کہا گےا ہے کہ بھارت کے عوام بھارت کو ایسا غیر مذہبی عوامی جمہوریہ بنائیں گے کہ اس کے تمام شہریوں کے لیے سماجی، معاشی اور سےاسی انصاف ، دےن و عقیدہ ، عبادت اور اظہار خیال کی آزادی، مساوات اور اخوت و بھائی چارہ کا حصول ممکن ہو سکے۔
دستور ہند کے اس دیباچہ کی بنیاد پر پورے ملک میں اخوت و بھائی چارہ اور برادران وطن کے ساتھ ملک کی ترقی ، اتحاد و سا لمیت، ایک دوسرے کا احترام، زبان و کلچر، عبادت گاہوں کی حفاظت اور خدمت خلق کی بنےاد پر تمام ہندوستانی شہریوں کے درمیان قومی اتحاد کی بنیاد کو مضبوط کیا جانا چاہئے۔اس وقت ےہ ضروری ہے کہ اشتعال انگیزی سے بچاؤ کرتے ہوئے اپنی اپنی آبادیوں سے مذہبی و ثقافتی جلوسوں کو حسب قانون گزرنے مےں مدد کرنی چاہئے۔ جہاں کہےں بھی اور کسی بھی مذہب سے تعلق رکھنے والے شخص ےا طبقہ کے خلاف ہونے والی ناانصافی اور ظلم نظر آئے، اس کو دور کرنے کی متحدہ کوشش کرنی چاہئے۔
حجاب اسلامی تعلیمات کا ایک اہم حصہ ہے، اس سے دستبرداری مسلم خواتین کے لیے ناممکن ہے۔ گزشتہ دنوں ملک میں مسلم لڑکےوں کے حجاب پہن کر تعلیمی اداروں میں جانے اور تعلیم حاصل کرنے پر بندشیں لگائے جانے کے مختلف واقعات سامنے آئے ہیں ۔ اس سے ہزاروں مسلم لڑکوں کے تعلیمی سلسلے کے منقطع ہونے اور غیر تعلیم یافتہ رہ جانے کا شدید خطرہ پیدا ہو گیا ہے۔ ےہ اجلاس اس صورت حال کو ملک اور ملت کے لیے سخت نقصان دہ سمجھتا ہے اور حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیوں پر فوری روک لگائی جائے اور ہزاروں بچےوں کے تعلیمی سلسلے کو حسب معمول جاری رہنے کو ممکن بنایا جائے۔ یہ معاملہ مذہبی آزادی کا بھی ہے، آزادیِ رائے کا بھی ہے اور حقوق انسانی کا بھی ہے۔
ملی کونسل کی مجلس عمومی کا یہ بائیسواں اجلاس چننئی کے بی ایم کنونش ہال میں ہوا جو ایک تاریخی عمارت ہے ۔ قائد ملت مولانا اسماعیل رحمتہ اللہ علیہ سے موسوم ہے ۔ اسی کے پاس ولاجاہ مسجد میں مولانا اسماعیل کی قبر بھی ہے ۔ ملی کونسل کی چننئی اور تمل ناڈو یونٹ نے شاندار میزبانی کا فریضہ نبھایا ۔ تمل ناڈو کے صدر جناب ابن سعودصاحب ، سکریٹری کاتب حنیف صاحب ، مولانا فیاض عمری صاحب اور دیگر شخصیات نے حسن ضیافت سے تمام مہمانوں کا دل جیت لیا، مولانا سلیمان خان نے ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی دل وجان سے محنت کی۔ پورے ڈسپلن کے ساتھ یہ اجلا س جاری رہا ۔ تمام مہمانوں کا شاندار خیر مقدم کیاگیا ۔ ہر طرح کی سہولت فراہم کی گئی اس لئے تمل ناڈو یونٹ اور تمام ذمہ داران مبارکباد کے حقدار ہیں اور امید ہے کہ کونسل اب پہلے سے زیادہ سرگرمی کا مظاہرہ دیکھائے گی اور ملت اسلامیہ کے مسائل حل کرنے میں اپنی ذمہ داری نبھائے گی ۔
(مضمون نگار ملت ٹائمز کے ایڈیٹر ہیں)