کیا مقصد ہے، تلسی کے بیچ میں، قرآن اور مسلمانوں کو لانے کا؟

مولانا عبدالحمید نعمانی 

بات کوئی بھی ہو ،قرآن، اسلام اور مسلمانوں کو درمیان میں لا کر اس کے رخ کو غلط موڑ دینے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی تازہ مثال، تلسی داس کی رام چرت مانس کے حوالے سے اونچ نیچ پر مبنی طبقاتی نظام کی بحث میں ان کو زیر بحث لانے کی منصوبہ بند کوشش ہے، اس سلسلے میں کئی باتوں کو جاننے، سمجھنے کی ضرورت ہے ۔

ہندی، اودھی کے معروف سنت شاعر و ادیب، تلسی داس سولہویں سترھویں صدی کے ہیں، (ولادت 13/اگست 1532،وفات 31جولائی 1623) یہ مغل بادشاہ اکبر کا دورہے(1556سے 1605) ،

تلسی داس کو رام چرت مانس وغیرہ کی وجہ سے غیر معمولی شہرت ملی، مسلم دور حکومت میں رہتے ہوئے ان کے فکر و عمل میں اسلام، قرآن ۱ور مسلمانوں اور ان کے شعائر اور مذہبی مراسم و مظاہر کے خلاف کوئی واضح رد عمل نظر نہیں آتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ تلسی داس کے نظریہ و عمل اور شخصیت پر بحث و گفتگو کے دوران میں اسلام اور مسلمانوں کا ذکر غیر ضروری طور سے منفی شکل میں لانے کی کوشش ہوتی ہے،(دیکھیں سورداس ص 72 مطبوعہ تلسی ساہتیہ پبلیکیشنز میرٹھ)

گزشتہ کچھ عرصے سے یہ باور کرانے کی ہو رہی ہے کہ اظہار رائے کی آزادی یا تو ہندو سماج میں ہے یا اس میں جاری افکار و روایات میں ہے، باقی سماجوں خصوصا اسلام اور مسلم سماج میں تو اظہار خیال پر پوری طرح روک ہے، نہ کوئی مسلم اہل علم اپنی رائے و تحقیق پیش کر سکتا ہے اور نہ کسی غیر مسلم دانشور کو کوئی سوال اور ازالہ شک کے لیے موقع ہوتا ہے، آج بھی یہ تاثر دینے کی کوشش نظر آرہی ہے، بہار سرکار کے وزیر تعلیم ڈاکٹر چندر شیکھر نے جب سماجی اونچ نیچ اور جات پات کے تفوق و تحقیر کے تناظر میں رام چرت مانس، منو سمرتی اور گرو گولولکر کی کتاب Bunch of Thoughts کے حوالے سے کچھ باتیں کہیں تو برہمن وادی عناصر نے بحث کے رخ کو غلط طریقے سے غلط سمت میں موڑنے کی کوشش شروع کر دی اور غلط واقعہ تشریحات و تعبیرات کے سہارے اصل حقائق پر پردہ ڈالتے ہوئے اصل مسئلہ سے توجہ ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی، بی جے پی کے ترجمانوں اور ہندو مسلم نام والے اینکرز نے رام چرت مانس کی حمایت اور تلسی داس کے بچاؤ میں بار بار قرآن اور مسلمانوں کو درمیان میں لا کر چرچا کے رخ کو موڑنے کی کوشش کی، کئی سنجیدہ سیکولر غیر مسلم دانشور بھی قرآن مجید اور رام چرت مانس کی حیثیت میں فرق کو بہتر طور سے نہ سمجھنے کی وجہ سے قرآن مجید کا نام لے کر رام چرت مانس پر اعتراضات کی شدت و حدت کو ہلکا کر کے دکھانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں، تلسی داس کے شعری کلام کے تقابلی مطالعے میں جائسی کی پدماوت یا شیخ سعدی کی گلستان و بوستان یا پھر مولانا روم کی مثنوی وغیرہ کو رکھا جا سکتا ہے، کلام الہی کا موازنہ، تخیلات و تصورات پر مبنی شعری مجموعہ اور انسانی تخلیق سے کرنا کم فہمی اور فساد ذہن کا اظہار و اثبات ہے۔

تلسی داس کا عہد، اکبر و جہانگیر کے دور حکومت کا بڑی حد تک احاطہ کرتا ہے جو عام ہندو مسلم کے تصادم سے بڑی حد تک خالی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی و قرب سے معمور ہے، تلسی داس کے حالات زندگی اور فکر و رویہ پر لکھتے ہوئے جس طرح ہندو سماج کو مظلوم و مغلوب اور مجبور و مقہور دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے وہ پوری طرح مفروضے پر مبنی اور خود کی تنگ نظری اور فرقہ پرستی ہے، اکبر و جہانگیر خصوصا عہد اکبری میں جس طور سے ہر طرح کی آزادی غیر مسلم سماج کو حاصل تھی اس سے زیادہ کا تصور نہیں کیا جا سکتا ہے، حکمراں بے شک مسلم نام والے تھے لیکن بڑی تعداد میں کار پرداز ہندو تھے، یہاں تک کہ افواج میں ہندوؤں کی تعداد خاصی تھی، دلچسپ بات تو یہ ہے کہ اورنگزیب جو تلسی داس کے بعد کا حکمراں ہے کی حکومت میں گزرتے دنوں کے ساتھ غیر مسلم برابر ہو ہو گئے تھے، یہ تصور کرنا ہندوتو وادیوں کے لیے مشکل ہے، سیاسی کشمکش اور اقتداری تفوق کے لیے جنگ جوئی کو نظر انداز کر کے مذہبی رنگ دے کر شر انگیز کہانیاں گھڑنا سراسر شر پسندی ہے، تلسی داس کے وقت کے عہد اکبری و جہانگیری میں ہندو مسلم علوم و فنون کا عروج نظر آتا ہے، ان کو زبردست فروغ ملا، دونوں فرقوں میں اتحاد و یگانگت تھی، ہر مذہب و خیال کو ابلاغ و اشاعت کی پوری آزادی تھی، ہندو مسلم شعراء و فقراء کے ساتھ ہندو سادھو سنتوں کا بھی ہر طرف احترام تھا، یہی وہ ماحول ہے جس میں مخلوط سماج و روایات کے پروان چڑھنے کی راہ ہموار ہوئی اور جس نے تلسی داس جیسے سنت شاعر و ادیب کو پیدا کیا، ان کے کلام میں فرقہ واریت کا دور دور تک کوئی اثر و عنصر نظر نہیں آتا ہے۔ فرقوں کے درمیان باہمی سماجی قربت اور خیالات و افکار کا لین دین دکھائی دیتا ہے، کبیر، نانک، رحیم، جائسی اور تلسی کو ملا کر مطالعہ کرنے سے کئی خوش آئند مماثلت و قربت اور ہم آہنگی و رواداری کے کئی گوشے ہمارے سامنے آتے ہیں، اس کے برعکس تلسی داس کی شخصیت و شاعری کے ماحول و اثرات دکھانے کے تناظر میں اسلام اور مسلمانوں کے غلط دباؤ اور مزاحمتی عمل کو دکھانے کی کوششیں، ذہنی کجی اور فساد نظر کا حصہ ہیں،

جس طرح یہ حقیقت ہے کہ تلسی داس ہندو مسلم فرقہ واریت سے دور تھے اور انہوں نے ہندوتو وادیوں کے لیے کوئی خالی جگہ نہیں چھوڑی ہے اسی طرح یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام، مسلم صوفیاء اور مسلم سلطنتوں کے زیر اثر پیدا شدہ ماحول میں جس طرح جات پات کا نظام کمزور ہونے کے ساتھ مختلف محنت کش طبقات کے پس کردہ افراد سماجی و مذہبی طور سے آگے آ رہے تھے اور نرگن نظریہ (بے جسم معبود کی عبادت) اور برابری کی سمت میں بڑھ رہے تھے اس سے تلسی داس خاصے فکر مند اور غصے میں تھے، اس کا اظہار وہ مختلف مواقع پر مختلف طریقوں سے کرتے ہیں ،اس کے لیے انہوں نے پہلے سے موجود مواد و ماخذ کا بھرپور استعمال کیا ہے، جس دور میں تلسی داس نے شودروں (بعد کے ہریجن، دلت) کے ساتھ خواتین کے متعلق خیالات پیش کیا ہے وہ محنت کشوں کی بیداری، اٹھان اور مزاحمت سے دور تھا بہت بعد کے دنوں میں پیدا ہونے والے، جیوتی با پھولے، امبیڈکر، پری یار، کرپوری، کانشی وغیرہ مستقبل میں تھے، اس لیے تلسی داس کو اپنے خیالات کے اظہار میں کوئی زیادہ دقت نہیں تھی، برہمن وادی سماج کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ حالات کے اثر اور دباؤ میں کسی کتاب میں کمی بیشی اور معانی و مطالب میں تبدیلی و تحریف سے کام لینے میں شرم و تذبذب نہیں کرتا ہے، گیتا پریس گورکھپور کی شائع کردہ بامعنی رام چرت مانس کے ایک سے لے کر ستیسویں ایڈیشنز تک میں تاڑنا کے معنی دنڈ ہے، بعد کے اڈیشن میں دنڈ کو شکچھا کر دیا گیا، اور اب اسی کو برہمن وادی دکھاتے پھر رہے ہیں، کسی ماہر لسانیات نے تاڑنا کا معنی شکچھا نہیں کیا ہے، تمام معتبر و مستند سنسکرت، ہندی، سنسکرت ہندی، انگریزی لغات میں تاڑنا کے معنی دنڈ وغیرہ ہے، تلسی کے کلام پر مبنی ڈکشنری، تلسی شبد ساگر، از بھولا ناتھ تیواری، متفق علیہ سنسکرت ہندی لغت از وامن شیو رام آپٹے، سنسکرت، ہندی، انگریزی ڈکشنری از سوریہ کانت، ہندی شبد کوش از ہردیو باہری وغیرہ کو دیکھا جا سکتا ہے، اس تحریف کے کھیل کے ساتھ 1995 سے یہ دھاندلی اور ڈھٹائی شروع کی گئی کہ دلت مسئلہ اور چھوا چھوت اسلام اور مسلمانوں کا پیدا کردہ ہے ،ایسا وشو ہندو پریشد کے اشوک سنگھل نے ہندستان ٹائمس (16/جون، 1995) اور سنڈے آبزرور (30/جولائی 1995) کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا اور بعد میں بی جے پی لیڈر سونکر شاستری نے مختلف جاتوں پر مبنی تحریر کردہ کئی کتابوں اور سوریہ کانت بالی نے بھی “بھارت کا دلت ومرش” میں اسی طرح لکھا ہے،یہ کتابیں پربھات پرکاشن دہلی نے شائع کی ہیں، ان تمام لوگوں کے پاس اپنے جھوٹے دعوے پر کوئی دلیل و ثبوت نہیں ہے، اس سلسلے میں گریز کے بجائے اقدام و اظہار حقیقت بلکہ مزاحمت کی بھی ضرورت ہے، اس کے لیے مسلم تنظیموں اور تعلیمی اداروں کو اپنے یہاں تحقیقاتی کاموں پر توجہ دینا چاہیے !

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com