علیزے نجف
اس وقت دنیا کے بیشتر ممالک آمریت اور ملوکیت سے آزاد ہو کر جمہوریت کے دور میں داخل ہو چکے ہیں جمہوریت نے انسان کے بنیادی حقوق کو جو اہمیت دی ہے وہ اس سے پہلے کسی اور دور میں اسے حاصل نہیں تھے، جمہوری طرز حکومت نے دنیا کی ترقی میں بھی غیر معمولی کردار ادا کیا ہے، افراد کی انفرادی صلاحیتوں کو مہمیز دی ہے۔ اس طرح یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جا سکتی ہے جمہوریت نے ہر انسان کو جینے کا حق دیا وہی حق جو اس کے خالق نے اسے عطا کیا تھا جس کی طلب وہ اپنے اندر ازل سے رکھتا رہا ہے یہ جمہوری دور دنیا کی تاریخ کا سب سے روشن دور ہے۔
اس وقت دنیا کے نقشے پہ موجود ممالک کی اکثریت جمہوری طرز حکومت کی حامل ہے یہ الگ بات ہے کہ بہت سے ممالک جمہوریت کی آڑ میں بھی اپنے مفاد کے لئے آمریت اور ملوکیت کا فروغ چاہتے ہیں اور اپنے دائرہء اختیار میں وہ ایسا کرتے بھی رہتے ہیں کیوں کہ انھیں اپنے مفاد عزیز ہوتے ہیں اس ضمن میں کئی سارے ممالک کے نام لیے جا سکتے ہے پھر بھی وہ برملا طور پہ آمرانہ فیصلے نہیں کر سکتے دنیا میں ایسے کئی ادارے تشکیل پا چکے ہیں جو اس طرح کے آمریت پسندانہ معاملات پہ گہری نظر رکھتے ہیں اور اس کی سرزنش کرتے ہیں۔ اس دنیا میں ہر طرح کی مثالیں موجود ہیں ہر ملک کی اپنی ایک شناخت ہے۔ اسی دنیا کے نقشے پہ نیوزی لینڈ نامی ایک ایسا ملک بھی ہے جہاں کی جمہوریت نے ایک مثال قائم کی ہے، اس کا سہرا وہاں کی وزیر اعظم جیسنڈا آرڈرن کے سر جاتا ہے، انھوں نے اپنے ملک کے ارتقاء کے نشیب و فراز میں جس طرح کی حکمت عملی اپنائی وہ آج کی تاریخ میں سیاست دانوں کے لئے ایک مثال ہے، ایسے وقت میں جب کہ سیاسی لوگ مادہ پرستی اور فرقہ پرستی کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں انھوں نے کسی مخصوص مذہب سے اپنی جذباتیت کو جوڑنے کے بجائے ہر مذہب کی جس طرح تعظیم کی ہے یہ بھی لوگوں کے سامنے ہے 2019 میں جب نیوزی لینڈ کی دو مساجد میں اندھا دھند فائرنگ کی وجہ سے مسجد میں موجود مصلیان جاں بحق ہوئے ایسے میں انھوں نے جس طرح ان مظلوم خاندانوں کے درد کو اپنا درد کہا اس کو بھی دنیا نے دیکھا اور مرتکبین کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے انھوں نے جس طرح کے اقدامات کئے اس سے ان کی حکمت اور انسانیت پسندی صاف ظاہر ہوتی ہے، یہ اسلاموفوبیا کو بڑھاوا دینے والوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے اس واقعے میں مسلمان مظلوم ہیں اور اس کے ساتھ ان کے ملک کی وزیر اعظم کھڑی برابر سے ان کے غم میں شریک ہیں یہ منظر ہر کسی کے لئے جذباتیت سے بھرپور تھا۔ خطہء ارض پہ ایسی حکومتوں کے ہونے سے یہ صاف پیغام ملتا ہے کہ کسی کے مذہب کی توہین اور اس کو مغلوب کرنے کی کوشش کئے بغیر بھی اقتدار کو برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ حکومتیں عوام کی ضرورت ہیں تاکہ ملک کا نظم و نسق چلایا جا سکے لیکن جب اس سے عوام کا ہی استحصال ہونے لگے تو یہ کیا یہ کسی بدترین المیہ سے کم نہیں۔
کورونا کے دور میں بھی نیوزی لینڈ کی وزیراعظم جیسنڈا آرڈرن نے اس منظم انداز میں اپنے ملک کے شہریوں کی جان کو تحفظ فراہم کیا اور ان کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھا کہ وہ ایک رول ماڈل بن گیا انھوں نے ہر گھڑی ہر لمحے ان کے ساتھ رہ کر یہ پیغام دیا کہ اقتدار صرف عیش و عشرت، بالادستی حاصل کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک ذمےداری ہے جس کے لئے اپنی ذات اور خواہشات کو پیچھے رکھنا پڑتا ہے، ان کی اس کوشش کو چو طرفہ ستائش بھی حاصل ہوئی یہاں تک کہ واشنگٹن پوسٹ نے ان کی ان کوششوں کو ‘ماسٹر کلاس ان کرائسس کمیونیکیشن’ قرار دیا تھا ایسے وقت میں جب کہ حکومتیں عیش و طرب میں ڈوب کر اپنی غیر زمہ دارانہ رویے کا الزام دوسروں کے سر ڈالنے کا وطیرہ سیکھ چکی ہیں ایسے میں جیسنڈا آرڈرن کا طرز حکومت تاریکی میں جگنو کی طرح ہے جس کی خواہش ہر کسی کے دل میں پیدا ہونی چاہئے لیکن افسوس لیڈروں کی مفاد پرست غلامانہ ذہنیت نے انھیں اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ اس طرف قدم اٹھانے کا تصور کر سکیں۔
جیسنڈا آرڈرن کی کامیاب قیادت کی بےشمار مثالیں ہیں۔ جیسنڈا آرڈرن جب سنہ 2017 میں 37 سال کی عمر میں نیوزی لینڈ کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تھیں تو اس وقت وہ دنیا کی سب سے کم عمر خاتون سربراہ حکومت بنی تھیں۔
انھوں نے وزیر اعظم بننے کے بعد شادی کی وزیر اعظم بننے کے ایک سال بعد وہ دوسری ایسی منتخب عالمی رہنما بن گئیں تھیں جنھوں نے اپنے عہدے پر رہتے ہوئے بیٹے کو جنم دیا تھا۔
مسجد پہ ہوئے حملے کے وقت ملک کا نظم و نسق پرامن طریقے سے چلانے کی کوشش کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’امن کے وقت میں اپنے ملک کی رہنمائی کرنا ایک چیز ہے، یہ ایک اور چیز ہے کہ بحرانوں کے دوران ملک کی رہنمائی کی جائے۔‘ بےشک یہ ایک بڑا سچ ہے کہ عام حالات میں دعوے کرنا اور وقت پڑنے پہ اس کا مقابلہ کرنا دونوں الگ الگ چیز ہے۔ انھوں نے یہ سب کچھ زبانی طور پہ ہی نہیں کہا بلکہ اس کو پورا بھی کر دکھایا۔جیسنڈا آرڈرن کی اپنے ملک کے لیے خدمات کو سراہتے ہوئے آسٹریلیا کے وزیر اعظم نے انھیں طاقتور، دانشور اور ہمدردی سے بھرپور رہنما قرار دیا ہے۔ ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انھوں نے لکھا کہ ’جیسنڈا نیوزی لینڈ کا مؤقف دنیا کے سامنے لانے والی بے باک رہنما، بے شمار لوگوں کے لیے قابل تقلید مثال اور میرے لیے ایک بہترین دوست ثابت ہوئی ہیں۔‘
جیسنڈا آرڈرن نے موسمیاتی تبدیلیوں،رہائش کے مسائل اور بچوں میں غربت میں کمی کے حوالے سے اپنے دور حکومت میں کیے جانے اقدامات کو اپنی حکومت کی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات ان کے اپنے لیے بھی قابل فخر ہیں۔
تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ ’نیوزی لینڈ انھیں ہمیشہ ایک ایسی شخصیت کے طور پر یاد رکھے گا جو ہمیشہ اُن کے لیے مہربان ثابت ہوئی۔‘
ایسی کامیاب حکومت کا سربراہ اگر استعفے دے تو یہ واقعی چونکا دینے والا فیصلہ ہے۔ وہ اس وقت زندگی کی 42 بہاریں دیکھ چکی ہیں یہ دور تو کیرئر کے عروج کے طور پہ لیا جاتا ہے اس عمر میں لوگ زیادہ سے زیادہ پا لینے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن جیسنڈا آرڈرن نے یہ منفرد فیصلہ لے کر بھی لوگوں کو سوچنے پہ مجبور کر دیا کہ ہمیشہ ہر جگہ خود کو پیش پیش و مقدم رکھتے ہوئے یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ دوسرے بھی لوگ ہیں جنھیں یہ حق ملنا چاہئے تاکہ ان خوبیوں کو روایت میں بدلا جا سکے وہ اپنے بعد ایسے لوگ چھوڑ جائیں جو اخلاقی اقدار کے امین تھے، ہمارے یہاں بدقسمتی سے اس سے الٹا ہوتا ہے جب تک کہ قائدین کے اعضاء یا اس کی سانسیں جواب نہ دے دیں وہ بخوشی کبھی پیچھے ہٹنا گوارا نہیں کرتے نتیجتا ان کے بعد کے لوگوں کو ان کے ساتھ یا ان کی رہنمائی میں کام کرنے کا موقع نہیں مل پاتا ان کے تجربے ان کے ساتھ خاک میں مل جاتے ہیں اس کی وجہ سے کئی سارے منفی مضمرات پیدا ہوتے ہیں، سیاست میں نشیب و فراز کا آنا فطری ہے نیوزی لینڈ کے حوالے سے اگر اس کو دیکھا جائے تو یہ بات قطعا نہیں کہی جا سکتی کہ جیسنڈا آرڈرن کے اس فیصلے کے پیچھے ملک میں پیدا کوئی سیاسی و اقتصادی بحران ہے جس سے نمٹنے کی ہمت وہ خود میں نہیں پاتیں تھیں، ان کی کامیابی کا سب سے روشن پہلو یہ ہے کہ انھوں نے ایک عورت ہونے کو کبھی اپنی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں پایا انھوں نے اس دوران نہ صرف ایک بیوی ہونے کی ذمے داری کو قبول کیا بلکہ اپنے نوازائدہ بچے کو لے کر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پہنچ کر اپنے ماں ہونے کی افضلیت کو قائم رکھتے ہوئے عوام کی سربراہی اپنا فرض عین سمجھا، ان کی یہ کامیابی صرف ان کے ملک کی ہی کامیابی نہیں ہے بلکہ ایک عورت کی بھی کامیابی ہے جو یہ پیغام دیتی ہے کہ جب حوصلے بلند ہوں تو مسئلے بھی مہمیز کن بن جاتے ہیں۔
وزیر اعظم کے عہدے سے سبکدوش ہونے کا اعلان کرتے ہوئے جیسنڈا آرڈرن کافی جذباتی نظر آئیں اور اُن کی آواز بھر آئی۔ انھوں نے تفصیل سے بتایا کہ بطور وزیر اعظم کے چھ سال ان کے لیے کتنے چیلنجنگ رہے اور اس کا ان کی شخصیت پر کیا اثر پڑا۔ انھوں نے میڈیا کے نمائندوں کو بتایا کہ ’مجھے امید تھی کہ میں اس چیز کی تلاش کر پاؤں گی جو مجھے اپنا کام جاری رکھنے کی تحریک دے پائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔اس صورتحال میں اپنا کام جاری رکھنے کا فیصلہ نیوزی لینڈ کی خدمت نہیں ہو گا۔‘
رواں مہینے وہ اپنے عہدے سے مستعفیٰ ہو چکی ہیں لیکن سوچنے والے ذہنوں کے لئے بہت کچھ ایسا چھوڑ گئی ہیں جو انھیں سوچنے کی دعوت دیتا ہے لیکن افسوس ہم اور ہماری قیادت اس قدر بےحس ہو چکے ہیں کہ ہم تعریف تو کررہے ہیں لیکن خود کو اس جیسا قابل تعریف بنانے کی خواہش سے بیزار ہیں۔ انھوں نے جاتے جاتے جس طرح سے سچائی کا سامنا کرتے ہوئے یہ کہا کہ اب میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں اس لئے ضروری ہے کہ اس عہدے کو کسی ایسے انسان کو سونپ دیا جائے جو نیوزی لینڈ کی ترقی کی روایت کو نہ صرف برقرار رکھ سکے بلکہ آگے بھی لے جا سکے یہ بہت بڑی بات ہے۔ ہمارے یہاں قائدین کو اس منصب پہ قائم رہنے کے لئے ماحول کو بگاڑنے سے ہی فرصت نہیں ملتی کجا کہ وہ اس حوالے سے اپنی ذمے داریوں کو قبول کرتے ہوئے خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھیں۔
اس وقت ذہن میں یہ سوال تو پیدا ہونا فطری ہے کہ ہمارے یہاں ایسی قیادت کیوں نہیں اس کے پیچھے اتنے سارے عناصر کارفرما ہیں کہ ان کو بیک وقت مختصرا ذکر کرنا بھی محال ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے یہاں کی سیاست اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے اخلاقیات کے اصول ایسے مسلمہ اصول ہوتے ہیں جس کے لئے کسی خاص مذہب، ملک اور طرز معاشرت کی شرط نہیں ہے کہ کیوں کہ ہم میں سے ہر انسان کی فطری جبلت ایک ہی ہے بشرطیکہ ان کو مسخ کرنے کی کوشش نہ کی جائے، ہمارے یہاں کی سیاست میں اخلاقیات کا بیڑہ غرق ہو چکا ہے، سیاست کی اصل منشاء محض اقتدار بن چکا ہے اس کو حاصل کرنے کے لئے سام، دام، دنڈ، بھید وہ سب کچھ کو جائز سمجھنے لگے ہیں ایسے میں اگر بنیادی انسانی حقوق کا استحصال ہوتا ہے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں، جیسنڈا آرڈرن جیسی قیادت کے لئے سب سے پہلے بنیادی انسانی حقوق کو یکساں اہمیت دینا ہوگا اس کا تعلق خواہ کسی مذہب یا مسلک سے ہو، اقتدار کی رسی کشی میں انسانوں کی حق خود ارادی کو داؤ پہ لگانے کا حق کسی کو بھی نہیں حاصل ہونا چاہئے، تاکہ سیاست کی اٹھا پٹخ عام انسانی زندگیوں کو کم سے کم متاثر کر سکے۔ کسی بھی ملک کی بقاء و استحکام کا انحصار وہاں کی معیشت پہ بھی ہوتا ہے اگر ملک کی خوشحالی مطلوب ہے تو معیشت و اقتصادیات کو سیاست سے اوپر رکھا جائے کہ خواہ کسی بھی جماعت کی حکومت ہو اس میں کسی کو بھی دخل اندازی کرنے کا حق حاصل نہیں ہوگا جب ملک کے عوام خوشحال ہوں گے تو سیاست میں لوگ اوچھا پن دکھانے سے گریز کریں گے اور عوام سیاست دانوں کے استحصال سے بھی محفوظ رہیں گے۔
جیسنڈا آرڈرن جیسی قیادت کے لئے یہ بھی ضروری ہے عوام بیدار ہوں وہ جذباتی ہو کر جینے کے بجائے عقل سے زمینی سطح پہ رہتے ہوئے سوچیں، کسی بھی فیصلے کی تائید و تردید محض اس بنیاد پہ نہ کریں کہ یہ ان کی پسندیدہ پارٹی کی عزت کا سوال ہے اور نہ ہی اپنے بنیادی حقوق پہ کسی ایسی چیز کو ترجیح دیں جو دوررس نتائج سے عاری ہو، مذہب اور مسلک کے غلبے کے نام پہ خوش ہونے کے بجائے انسانیت اور انسانی حقوق کو ترجیح دیں۔ ہمیشہ حکومت کو الزام دینے کے بجائے اپنی ذمےداری بھی قبول کرنا سیکھیں کیوں کہ یہ عوام ہی ہے جو ایسے انتہا پسند قائدین کو منصب اقتدار تک پہنچاتے ہیں اگر یہ اپنے ہاتھ پیچھے کر لیں تو یہ خودبخود اپنی پہچان کھو دیں گے لیکن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے بیچ شعوری قیادت کا فقدان ہے جب ہمارے اندر خیر و شر کی تمیز ہی باقی نہ رہی ہو تو پھر ہماری بربادی میں کوئی دو رائے کیسے ہو سکتی ہے۔
صحت مند قیادت کے لئے تعلیمی نظام کو واضح اصولوں کے ساتھ مستحکم کرنا ازحد ضروری ہے کیوں کہ تعلیم کے ذریعے ہی شعور کی نشوونما کی جاتی ہے اور شعور ہی ہے جو انسانوں کی ترقی کو مہمیز دے سکتی ہے۔ ہمارے یہاں کا تعلیمی نظام جس پسماندگی کا شکار ہے اس سے ہم سب واقف ہیں اس کی وجہ سے معاشرے میں بیمار ذہنیت کے حامل افراد کا تناسب بڑھ رہا ہے لوگ ملکی سطح پہ ہی نہیں بلکہ معاشرتی، ادارتی و خاندانی سطح پہ بھی مسائل کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ اس حوالے سے کام کرنا اور بیداری کو فروغ دینا وقت کی ضرورت بن چکا ہے اس کے لئے صرف موجودہ حکومت یا عوام ہی ذمے نہیں ہیں بلکہ اس کے لئے ہم سب کے ساتھ پچھلی حکومتیں بھی ذمےدار ہیں جنھوں نے عوامی شعور کو کبھی اتنی اہمیت ہی نہ دی اور نہ ہی اس کی نشوونما کے لئے خاطر خواہ کوششیں کیں کہ وہ اپنے صحیح و غلط کی تمیز پیدا کرنے کی صلاحیت کے ساتھ سیاسی لیڈران کے ہتھکنڈوں کو ناکام کر سکتے۔ یاد رکھئے کوئی بھی تباہی اچانک سے نہیں آتی بلکہ ہم خود سالوں غفلت میں کھو کر اس کی پرورش کرتے ہیں پھر آتش فشاں کی سی تباہی چاروں طرف نظر آنے لگتی ہے۔
اس وقت جیسنڈا آرڈرن جیسی سربراہ کے لئے عوام کو خود بیدار ہونا ہوگا اپنے اندر ایسے اشخاص پیدا کرنے ہوں گے جو جمہوریت کی علمبرداری کر سکیں، مشکلات اور پریشانیوں پہ کسی دوسرے کو لعن طعن کرنے کے بجائے اپنے حصے کے کام پہ توجہ دینی ہوگی، بےشک یہ دور بہت مشکل ہے لیکن خوشی کی بات ہے کہ یہ وقت بھی گزر جائے گا اور اس وقت یہ وقت بدل بھی جائے گا جب ہم بدل جائیں گے جو لوگ منصب اقتدار پہ ہیں وہ بھی ہماری طرح انسان ہیں ان کے ساتھ انسان بن کے پیش آئیں اور وہ تمام حکمت عملی اختیار کریں جس سے سیاست میں اخلاقیات کو پھر سے داخل کیا جا سکتا ہے، کیوں کہ نظام کو چلانے والوں کی تبدیلی سے ہی نظام میں تبدیلی آنی ممکن ہے بغاوت کرنے کے بجائے ممکنہ امکانات کو عمل میں لائیں۔ پھر ہم تھوڑی تاخیر سے ہی سہی اپنی ملک میں بھی نیوزی لینڈ جیسی جمہوریت کا غلبہ دیکھ سکتے ہیں۔