مولانا عبدالحمید نعمانی
بھارت، کئی طرح کی خصوصیات و خوبیوں کا حامل ہے اور کئی قسم کے تماشے اور تلاش کے لیے بھی جانا جاتا ہے، یہاں بسا اوقات کہانیوں کو تاریخ سے اور تاریخ کو کہانیوں سے الگ کرنا مشکل ہوتا ہے، بہت سی بنیادی باتوں اور ضروری سوالات پر بنیاواد اور برہمن واد حاوی ہو جاتا ہے۔سنجیدہ روحانی معاملات اور خالق و مخلوق کی عظمت و توقیر اور انسانی نجات کے متعلق ہندوتو وادی عناصر خصوصاً سنگھ کا پورا لٹریچر، اصل سوال اور صحیح جواب سے تقریباً خالی ہے، ایسی حالت میں ضروری ہے کہ ملک میں وحدت انسانی کے تناظر میں ملک کے باشندوں کا صحیح رشتہ وحدت الہ، وحدت انسانی اور جغرافیائی ارضی وحدت سے استوار کیا جائے، یہ کوشش اس گروہ انسانی کی طرف سے زیادہ ضروری ہے جس کے پاس محفوظ و مکمل وحدت کا ریکارڈ ہو، آج کی تاریخ میں اس مستحکم پوزیشن میں امتِ مسلمہ کے سوا کوئی اور نہیں ہے اس کے توسط سے وہ اصل فکر و عمل کی طرف مقامی و آفاقی و عالمی سطح پر دعوت دے کہ وہ اپنے اصل نظریاتی گھر میں قیام پذیر ہے، اس کی شدھی اور گھر واپسی، قطعی بے معنی اور گاڑی کو گھوڑے کے آگے باندھنے کے ہم معنی ہے، اس کے متعلق ملک کی امت مسلمہ کے پاس ایک خالق، پالنہار نسل انسانی کی اصل اور ملک سے ارضی وابستگی کا سب سے زیادہ واضح اور نسبتا محفوظ و مکمل حوالہ ہے، اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے 24ویں اجلاس عام کے پلیٹ فارم سے ایک بہتر و موثر بیانیہ، 2023 کے ماہ فروری کے 12تاریخ کو مولانا ارشد مدنی نے پیش کیا ہے، انھوں نے بھارت سے جس طرح آدم اول کے حوالے سے دین توحید کا رشتہ اصل معبود خالق و رب سے قائم کر کے ملک کی اہمیت و عظمت کا اثبات و اظہار کیا ہے اس نے اصل حقیقت سے منحرف عناصر اور تفریق پسند فرقہ پرست طاقتوں پر ضرب کلیم لگانے کا کام کیا ہے، اس سے ان کا کاروبار حیات متاثر ہوتا نظر آتا ہے، جب کہ وحدت انسانی کے خواہاں افراد نے اصل مرجع کائنات، آدم اول اور اپنے وطن سے ارضی وابستگی کی کوشش کو بہ نظر تحسین و تائید دیکھا ہے، مولانا مدنی نے بہت زیادہ نئی باتیں نہیں کہی ہیں تاہم جس وقت اور جہاں سے کہی ہیں وہ بہت حد تک منفرد و ممتاز ہے، آزادی سے پہلے، تقسیم وطن کے پر شور نعرے میں حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی رح نے اپنی کتاب ” ہندستان اور اس کے فضائل ” میں یہ کہا تھا کہ
(1) سب سے پہلے انسان اور ہم سب کے مورث اعلی حضرت آدم علیہ السلام مسلمانوں کے سب سے پہلے پیغمبر ہیں، اسی سرزمین پر تشریف لائے۔
(2) توسیع نسل انسانی کا آغاز سب سے پہلے اسی سرزمین پر نور اسلام سے ہوا۔
(3) صدیوں تک پیغمبروں کا سلسلہ اسی سرزمین میں جاری رہا۔
(4) نور محمدی ص اور افضل سرمدی کا سب سے پہلا مطلع ارض ہند اور سب سے آخری مشرق حجاز ہے۔
(5) بناء بریں اسلامی روایات اور تعلیمات کے مطابق آبائی وطن عہد قدیم سے ہندستان، مسلمانوں کا ہی ہوگا، مسلمانوں کے لیے اس کو اپنا وطن قدیم سمجھنا ضروری ہے۔
حضرت شیخ الاسلامؒ کے ان مذکورہ نکات کو سامنے رکھتے ہوئے، آزادی سے پہلے کے حالات سے زیادہ شدید ہندوتو وادی یلغار میں، مولانا ارشد مدنی نے بصیرت سے کام لے کر مزید نکات کے ساتھ، اللہ، اوم، آدم، منو کے ایک ہونے کے نظریہ کے حوالے سے وحدت الہ، انسانی وحدت ویک جہتی کے در کو مزید وسیع کر دیا ہے، اس کی مخالفت، تفریق پسندی، فرقہ پرستی اور ناسمجھی و بے جا تعصب کی علامت و اظہار کے سوا کچھ اور نہیں ہے،
اسلام اور مسلم سماج کے حوالے سے سرزمین ہند پر حضرت آدمؑ کے نزول و ہبوط کے متعلق کتاب حدیث، مستدرک حاکم کے باب ذکر آدم میں حضرت ابن عباسؓ کی روایت اور اس پر ماہر فن رجال امام ذہبیؒ کا سکوت بڑی حد تک اصل کا اثبات و اظہار ہے، اس تعلق سے دیگر روایات و بیانات تاریخ و تفسیر طبری، طبقات ابن سعد، امام سیوطی کی تفسیر درمنثور، عربی و سنسکرت کے جانکار علام غلام علی آزاد بلگرامیؒ کی سبحۃ المرجان فی آثار ھندستان وغیرہ میں موجود ہیں۔
اوم اور منو کے تعلق سے ہندو سماج کے آریا سماجی اور سناتن دھرمی طبقے میں بھی مخالفت کی کوئی جواز و بنیاد نظر نہیں آتی ہے، اوم اور برہم کے متعلق تصور، مقدس کلمہ، اسم اعظم اور واجب الوجود کے پیش نظر، اللہ کے تصور میں کوئی تضاد و تصادم نہیں ہے، دونوں لفظ ایک معنی و مصداق ہونے کے حوالے سے تفریق پسندی اور منفی رویے کا کوئی مطلب نہیں ہے، اوم، برہم ایسی ذات کے لیے بولا جاتا ہے جس میں اصل کے اعتبار سے، معبود کے طور پر غیر اللہ کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، ہندی اردو لغت میں لکھا ہے، اوم، مقدس کلمہ، اسم اعظم،(ص 98،) برہم، واجب الوجود، (ص 115،مطبوعہ دہلی 2004)
سوامی دیانند نے لکھا ہے، اوم، پرمیشور کا اسم اعظم اور ذاتی نام ہے، (دیکھیں،ستیارتھ پرکاش، صفحہ، 9، صفحہ 13،)
اسلامی روایات و تعلیمات میں بھی اللہ کو اسم اعظم قرار دیا گیا ہے۔
آدم اول کو منو کے حوالے سے سمجھنے کے لیے ہندو گرنتھوں اور روایات میں خاصے حوالے دستیاب ہیں، محفوظ اسلامی ماخذ و روایات کی روشنی میں الحاقات و تحریفات کو الگ کر کے انسانی سماج کے اول و اصل مورث اعلی و پیغمبر تک بآسانی پہنچا جا سکتا ہے، ساتھ ہی اس کا رشتہ توحید سے اور ایک برحق معبود کی عبادت سے آغاز ایک طرح سے نقلی و عقلی طور سے ایک طے شدہ بات ہے، اسے سوامی دیانند اور سوامی وویکا نند وغیرہ نے بھی تسلیم کیا ہے، سوامی دیانند نے ستیارتھ پرکاش میں واضح الفاظ میں لکھا ہے ”
”ویدوں میں پرمیشور کو پیدا ہونے مرنے اور جسم اختیار کرنے سے پاک بتایا گیا ہے، اور دلائل سے پرمیشور کا اوتار لینا ثابت نہیں ہو سکتا ہے،”
سوامی وویکا نند نے لکھا ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تصور توحید ہندستان میں بالکل ابتدائی دور میں آیا، وید سمہتاؤں کے اولیں اور قدیم ترین حصہ میں یہ موحدانہ نقطئ نظر پایا جاتا ہے۔
(ہندو ازم صفحہ 24) اور اول منو تو ابتدائی دور میں ہی تھے اور ان ان ہی سے نسل انسانی کی توسیع و افزائش ہوئی ہے، اول آدم و نبی کا تصور، اسلام اور مسلم سماج میں تو بالکل واضح ہے، 13/منو ان کے بعد ہوئے ہیں، سماج کو چار طبقاتی نظام میں تقسیم کرنے والے اور منو سمرتی کے مصنف کا اول منو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے کہ اس وقت کوئی طبقاتی نظام نہیں تھا، کچھ دلت حضرات اور مسلم نام والے افراد کا منو اول کو منو سمرتی والا منو سمجھنا، ناسمجھی اور ناقص علم و مطالعہ پر مبنی ہے، تلسی داس نے (رام چرت مانس بال کانڈ دوہا 141 کی پہلی چوپائی) کہا کہ سویم بھو (اپنے طور سے پیدا) منو اور اس کی بیوی ست روپا سے انسانوں کی یہ بہترین پیدائش ہوئی ہے، ان شوہر بیوی کے دھرم اور اخلاق بہت اچھے تھے، آج بھی وید ان کے اخلاق کا گیت گاتے ہیں۔
وشنو پران میں حوا کو ست روپا اور بھوشیہ پران میں حویہ وتی کہا گیا ہے، اور پہلے انسان کو آدم و منو بتایا گیا ہے، (پہلا کھنڈ، ادھیائے 4،منتر 29) اس سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ حقیقت کس قدر دور کس قدر قریب ہے۔
noumani.aum@gmail.com