مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
دہلی کے رام لیلا میدان میں حضرت مولانا سید ارشد مدنی دامت برکاتہم کی تقریر تاریخی بھی تھی اور حقیقت کی صحیح ترجمانی بھی، ان کی اس تقریر سے امارت شرعیہ کے قاضی القضاۃ حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ علیہ کی وہ تقریر یاد آگئی جو انہوں نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس بنگلور میں کی تھی اور لال کرشن اڈوانی اور ان کے ہم نواؤں کو اسلام میں داخل ہونے کی دعوت دی تھی، قاضی صاحبؒ کی جانب سے یہ دعوت اس قدر مؤثر تھی کہ اگلے دن سارے اخبارات کی وہ شہ سرخی بن گئی تھی، حضرت مولانا ارشد مدنی مدظلہ نے یہ دعوت ایسے وقت پیش کی جب مختلف مذاہب کے پیشوا اسٹیج پر رونق افروز تھے، جین دھرم کے پیشوا کو یہ بات راس نہیں آئی اور اس نے دوبارہ مائیک پر آکر احتجاج درج کرایا اور اس پوری تقریر کو بکواس قرار دے کر چلتا بنا، یہ مسلمانوں کا ظرف تھا کہ بڑی تعداد میں ہونے کے باوجود اس کے خلاف کوئی شور شرابہ نہیں ہوا، اسے اپنی بات کہنے کا موقع دیا اور صبر و ضبط کے ساتھ سن لیا، اگر جین منی کی تقریر پر مسلمان مشتعل ہوتے تو بات بہت بڑھ جاتی، مسلمانوں کے اس طرز عمل سے یہ پیغام گیا کہ یہ جذباتی قوم نہیں ہے اور اسے بڑوں کے اشاروں کو سمجھنا اور اس کے مطابق عمل کرنا آتا ہے، برداشت اور تحمل کی اس ادانے غیر مسلم پیشواؤں کو مولانا ارشد مدنی کی حمایت میں کھڑا کر دیا اور ان کے بیانات حمایت میں اس قدر آئے کہ جین منی کو معافی مانگنی پڑی اور گودی میڈیا کے ٹرائل کے باوجود حق غالب آیا اور باطل نے دم توڑ دیا۔ جَاء َ الحَقّْ وَزَھَقَ البَاطِل اِنَّ البَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا۔ ”حق آیا اور باطل مٹ گیا اور باطل تو مٹنے ہی کے لیے ہے۔“
اس قضیہ سے مسلمانوں کو بھی سبق ملا، ان میں سے ایک بڑا سبق یہ ہے کہ ہم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو بانی اسلام کہہ کر، لکھ کر اور اشتہارات دے دے کر غلط فہمیاں پیدا کرنے کا کام کیا ہے، ہمارے اس عمل سے غیر مسلموں میں یہ پیغام گیا کہ اسلام صرف چودہ سو چوالیس سال پرانا ہے، اس کے مقابل دوسرے مذاہب قدیم ہیں اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل کے ہیں، حالاں کہ اسلام اللہ کا بھیجا ہوا دین ہے، اس کے بانی رسول و نبی میں سے کوئی نہیں ہے روئے زمین پر آنے والے پہلے انسان حضرت آدم علیہ السلام اسلام ہی کی تبلیغ کرتے تھے اور لوگوں کو اللہ کی عبادت کی تلقین کرتے تھے، وہ اللہ کے احکام لوگوں کو سناتے تھے، خود اسلام کے بانی نہیں تھے، اللہ رب العزت کے نزدیک کل بھی دین اسلام ہی دین تھا اور لوگ اسی پر چلا کرتے تھے، آج بھی دین اسلام ہی دین ہے اور اسے قیامت تک باقی رہنا ہے، پھر حضرت آدم کی ذریت نے خواہشات نفس کی پیروی شروع کی، اسلامی عبادت سے گریز کیا اور بدلتے چلے گئے، اس تبدیلی کو پھر سے صراط مستقیم کی طرف گامزن کرنے کے لیے انبیاء اور رسل آتے رہے، سب کا دین اسلام ہی تھا، کوئی دوسرا نہیں، آخر میں اس اسلام کا آخری ایڈیشن آقا و مولا فخر موجودات، سرور کونین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا اور اسے ہمیشہ ہمیش کے لیے باقی رکھنے کے سامان خود اللہ رب العزت کی جانب سے کیے گئے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت بھی محفوظ کرائی گئی، اور قرآن کریم کو بھی تغیر و تبدل سے ماوریٰ بنایا گیا، اسلام کی یہ وہ حقیقی تصویر ہے جس کو غیر مسلم اور ان کے پیشوا نہیں جانتے، وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام کے بانی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، وہ اسے الٰہی مذہب نہیں مانتے اور اسے اپنے مذہب کی طرح ہی تصور کرتے ہیں؛حالانکہ یہ بالکل سامنے کی بات ہے کہ جین مذہب بھی مہابیر کو اس کا بانی نہیں مانتا؛ کیوں کہ مہابیر ان کے نزدیک اس مذہب کے چودہویں تیرتھنکر تھے، سکھوں کے یہاں مذہب کے بانی کا مقام گر و نانک کو حاصل ہے، اس کے بعد ان کے یہاں دس گرو ہوئے اور دسویں گرو کے بعد یہ رواج ان کے یہاں اختتام پذیر ہوگیا، اب ان کے یہاں مذہب کی تشریح کرنے کے لیے پنچ پیارے ہوا کرتے ہیں، بودھوں کے یہاں بھی مہاتما بدھ کی جانشینی کا تصور نہیں ہے، ان کے معتقد بھکچھو کہلاتے ہیں اور دلائی لامہ ان کے مذہب کے بڑے پیشوا تصور کیے جاتے ہیں،ہندؤوں کے یہاں بھی ایشور ایک ہی ہے اور یہ جتنے دیوی دیوتا ہیں وہ ان کی مختلف صفات کا مظہر ہیں۔
دین اسلام اللہ کا دین ہے، اس کا کوئی انسان بانی نہیں ہے، حالات اور زمانہ کے اعتبار سے انبیاء و رسل مختلف علاقوں میں اللہ نے بھیجے، ان کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، ہمارے آقا و مولا فخر موجودات، سرور کونین، خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری رسول ہیں، ان کے بعد کوئی دوسرا نبی و رسول نہیں آئے گا۔ قرآن کریم آخری کتاب الٰہی ہے، جس کے بعد کوئی کتاب نہیں آئے گی،اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن ہے،یہ پیغام برادران وطن تک پہونچانا وقت کی ضرورت ہے اور یہی ہماری دعوت کا مرکز و محور ہے۔