شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
شعبان کا مہینہ برصغیر میں ایک خاص روایت کا حامل ہوگیا ہے ؛ کیوں کہ دینی مدارس کا آغاز شوال سے ہوتا ہے اور شعبان پر تعلیم اور حساب و کتاب کا اختتام عمل میں آتا ہے ، جو مدارس ابتدائی تعلیم کے ہیں ، ایک خاص حد تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد طلباء وہاں سے نسبتاً بڑے مدارس میں منتقل ہوجاتے ہیں ، جن درس گاہوں میں حفظ قرآن کی تعلیم کا نظم ہے ، وہاں یہی تکمیل درس قرآن کا موسم ہوتا ہے ، جہاں دورۂ حدیث تک یا تخصصات کی تعلیم کا انتظام ہے ، وہاں سے طلباء سند ِفراغت حاصل کرتے ہیں ، یہ ان کی زندگی میں ایک نیا مرحلہ اور نیا موڑ ہوتا ہے ، اب انھیں اُمت کے مختلف کاموں کی ذمہ داری انجام دینی ہوتی ہے ، عام طورپر امامت ، خطابت ، مکتب کی تعلیم یا نسبتاً اونچی جماعتوں کی تدریس ان سے متعلق ہوتی ہے ؛ لیکن ان کی جدوجہد کا دائرہ اسی میں محدود نہیں ہوتا ، وہ ان کاموں کو کرتے ہوئے دوسرے اُمور بھی انجام دیتے ہیں اور اُمت کی دوسری دینی ضروریات بھی ان ہی سے پوری ہوتی ہیں ، مسلمانوں میں اختلاف ہوجائے تو ان کے درمیان صلح کرانا ، اور سماج میں جو بھی مسئلہ پیش آئے ، ان کے بارے میں شرعی احکام کی رہنمائی کرنا ، سماج کو نیکی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا ، ہر عالم اس کو اپنا فریضہ سمجھتا ہے ، اور اپنی صلاحیت اور توفیق کے مطابق اسے انجام بھی دیتا ہے ، اس لحاظ سے ان کی ذمہ داریاں بڑی اہم ہیں اور بحیثیت مجموعی اُمت کو اسلام سے مربوط رکھنے اوران کے شیرازہ کو بکھراؤ سے بچانے میں ان فضلاء کا بڑا اہم رول ہے ۔
ان مدارس کا نظام سادگی پر رکھا گیا ہے ، سادہ عمارت ، سادہ رہن سہن ، خورد ونوش کا سادہ انتظام ، پہننے اوڑھنے میں سادگی ، ہر طرح کے تکلفات اور تعیشات سے دور ، ابتداء ً ان مدارس کا یہی مزاج تھا اور بہت سے دینی درس گاہیں اپنے زمانہ کے معیار زندگی کے اعتبار سے اسی روش پر قائم ہیں ، ایسا لگتا ہے کہ تحریک مدارس کے مؤسسین نے قصداً یہ طرز عمل اختیار کیا تھا ؛ تاکہ ان مدارس میں تعلیم حاصل کرنے والے لوگ مشکل حالات میں کام کرنے کے عادی رہیں اور دین کی خدمت انجام دے سکیں ، یہ نہایت اہم پہلو ہے ، اور ہمارے فضلاء کے لئے ضروری ہے کہ وہ ہمیشہ اس کو ملحوظ رکھیں ۔
اﷲ تعالیٰ کو جن لوگوں سے اپنے دین کاکام لینا مقصود ہوتا ہے ، ان کی تربیت کا بھی انتظام کیا جاتاہے اور اس کا سب سے اہم حصہ یہ ہوتا ہے کہ انھیں مشقتیں جھیلنے اور خلاف طبیعت باتیں برداشت کرنے کی عادت ہوجائے ، قرآن مجید نے انبیاء کرام کے واقعات کو تفصیل سے بیان کیا ہے ، ان میں زیادہ تر واقعات انبیاء اور ان کی اقوام کے درمیان کشمکش اورمخالفین حق کی جانب سے ایذاء رسانی کے ہیں ، رسول اﷲ ﷺ آخری نبی اور انسانیت کے لئے اُسوۂ کاملہ تھے ، اس لئے آپ اور زیادہ ابتلاؤں سے گذارے گئے اور آپ کو اوروں سے بڑھ کر آزمائش کی بھٹیوں میں تپایا گیا ، غور کیجئے ! کیا خدا اس پر قادر نہیں تھا کہ جو غلبہ آپ کو فتح مکہ کے بعد حاصل ہوا ، وہ نبوت کے پہلے ہی دن حاصل ہوجاتا ، اور جن لوگوں نے ۸ ہجری میں آپ کے شوکت و جلال کو دیکھ کر سرتسلیم خم کیا، وہ اول دن ہی اسلام کے سامنے سرجھکا دیتے ؛ لیکن ایسا نہیں ہوا ، آپ نے پتھر بھی کھائے ، گالیاں بھی سنیں ، چوٹیں بھی سہیں ، بھوکے بھی رہے ، طائف کی سڑکوں سے بھی گذارے گئے ، بدر و اُحد کے معرکوں میں بھی آزمائے گئے ، چہرۂ انور بھی لہولہان ہوا ، منافقین مدینہ کی ستم انگیزیوں اور جفا کاریوں کو بھی برداشت کرنا پڑا ، پھر جاکر اسلام کو فتح و کامرانی حاصل ہوئی ، کیا خدا اس بات پر قادر نہیں تھا کہ اول دن سے ہی اہل مکہ کے قلوب کو آپ کے لئے نرم کردیتا اور وہ ایمان لے آتے ؟ اﷲ یقیناً اس بات پر قادر تھے ؛ لیکن اس کے ذریعہ تربیت اور امتحان کے مراحل سے آپ کو گذارنا مقصود تھا۔
علماء جب انبیاء کے وارث ہیں تو یقیناً انھیں بھی آزمائشوں سے گذرنا ہوگا ، انھیں زندگی کا ایک سادہ نقشہ تیار کرنا ہوگا ، جس میں معمولی کھانے ، پینے ، معمولی مکان ، معمولی لباس اور معمولی طرز زندگی کی ہی گنجائش ہوگی ، لوگوں کے طعنے بھی سننے پڑیں گے ، تکلیف دہ باتوں کو بھی انگیز کرنا ہوگا اور زندگی کی بہت سی نعمتوں سے اپنے آپ کو دُور رکھنے پر آمادہ رکھنا ہوگا ، یہ مشقتیں اوروں کے لئے مشقت ہے اور کاروانِ عشق کے لئے حاصلِ حیات ، بقول اقبالؒ :
کس سے کہوں کہ زہر ہے میرے لئے مئے حیات
کہنہ ہے بزم کائنات ، تازہ ہیں میرے واردات
صدقِ خلیلؑ بھی ہے عشق ، صبر حسینؓ بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
اس مئے حیات کو بچانا وقت کی ضرورت ہے ، جہاں پوری فضاء مادیت کی پرستار اوردلدادہ ہو ، وہاں قناعت و توکل کی بات مضحکہ خیز سمجھی جاتی ہے ؛ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قناعت ہی کی خمیر سے ان مدارس کا وجود اُٹھا ہے اور جس قدر اس کی اہمیت کل تھی اس سے زیادہ آج ہے ، اس وقت صورت ِ حال یہ ہے کہ بہت سے علاقے شہر کی رونقوں اور راحتوں سے دُورہیں ، وہاں ہمارے خاندان کا ایک حصہ آباد ہے ، ان میں بعض مسلمان ایسے ہیں جن کے کانوں نے آج تک اﷲ اکبر کی صدا بھی نہیں سنی ہے اور جن کی زبانیں جہالت کی وجہ سے اﷲ اور رسول کا نام بھی صحیح طریقہ پر نہیں لے سکتیں ، ہمارے نوجوان فضلاء وہاں کام کرنے سے گریزاں ہیں ؛ کیوںکہ وہاں وہ سہولتیں نہیں ہیں اور معاشی اعتبار سے بھی وہاں کے حالات بہت مایوس کن ہیں — اگر ان مقامات پر ہم جاکر اپنی قوم کی خدمت نہیں کریں تو کون ان کے ایمان کی حفاظت کرے گا اور کیوںکر ان کو اسلام پر قائم رکھنا ممکن ہوگا ؟ اگر ایسی جگہوں پر عیسائی مشنریز اور قادیانیت پہنچتی ہے ، تو ہمارے لئے شکوہ سنج ہونے کا کوئی جواز نہیں ، یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی طبقے کو آپ ٹھکرائیں اور اسے کوئی اور بھی نہ اپنائے ؟
دوسری اہم بات یہ ہے کہ علماء کا اُمت سے تعلق محض ایک قانونی تعلق نہیں ہے ؛ بلکہ روحانی اور ایمانی تعلق ہے ، قانونی تعلق میں انسان اپنے آپ کو ڈیوٹی تک محدود رکھتا ہے ، مقررہ کام کے سوا اور وہ کوئی اور کام کرنا نہیں چاہتا ؛ کیوں کہ اس کا اسے معاوضہ نہیں ملتا ؛ لیکن عالم کی حیثیت ایک ایسے چوکیدار کی ہے جو صرف اﷲ کی رضا کے لئے دین کی حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے ، وہ ملازم نہیں ؛بلکہ رضاکار ہے ، اس کے فرائص غیر محدود ہیں ، اس کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے اور وہ تمام اُمور اس کے فرائض میں داخل ہیں جو اس اُمت سے اﷲ کو مطلوب ہیں ، اگر کوئی شخص فساد عقیدہ میں مبتلا ہوتو اس کے عقیدہ کی اصلاح ، بے نمازی ہو تو نماز کی دعوت ، کسی برائی میں مبتلا ہوتو اس کو برائی سے بچانے کی کوشش ، مسلمان خاندان یا شوہر اور بیویوں میں اختلاف ہو ، تو رفع اختلاف کی سعی ، بچوں اور بڑوں کی تعلیم کا انتظام نہ ہو ، تو ان کی تعلیم کا انتظام ، کوئی آفت سماوی آجائے تو لوگوں کی مدد کے لئے اُٹھ کر کھڑا ہونا ، الیکشن ہو رہا ہو تو مسلمانوں کے مفاد کی رعایت کے ساتھ لوگوں کی رہنمائی ، اگر وہاں براداران وطن کی آبادی بھی ہو تو ان کے ساتھ داعیانہ ربط و ضبط ، فرقہ وارانہ منافرت پھیل رہی ہوتو امن و امان قائم کرنے کی کوشش ، غرض اُمت کا کوئی مسئلہ ہو ، عالم کا فرض ہے کہ وہ کسی دنیوی منفعت کی طمع کے بغیر محض ملی مفاد اور دینی تقاضہ کے تحت اُٹھ کھڑا ہو ، یہ نہایت اہم ضرورت ہے اور یہی علماء سلف کا طریقہ تھا ، افسوس کہ اب فضلاء مدارس نے اپنے دائرہ عمل کو مسجد اور مدرسہ تک محدود کردیا ، اس کی وجہ سے مسلمانوں میں صالح اور بے لوث قیادت کا خلا پیدا ہوگیا ہے ، یہاں تک کہ بعض جگہ جاہل اور غیر سماجی عناصر نے مسلمانوں کے مسائل کو اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے اور ان کے عمل دخل سے جن نتائج کی توقع کی جاسکتی ہے ، وہی نتائج ظہور میں آرہے ہیں ۔
تیسری اہم بات مصلحت اندیشی اور زمانہ شناسی ہے ، ہمارے نوجوان فضلاء میں بہ تقاضۂ عمر جوش اور زود رنجی زیادہ ہوتی ہے اور وہ زمین کے تیار ہونے سے پہلے پودا لگانے کی کوشش کرتے ہیں ، اگر زمین نرم نہ کی گئی ہو اور اس میں بیج ڈال دیا جائے ،ا گر توا گرم نہ ہوا اوراس پر روٹی رکھ لی جائے ، پھل تیار نہ ہو اور اسے مصنوعی طورپر پکایا جائے تو مطلوبہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکتا ، اسی طرح اگر کوئی برائی جڑ پکڑ چکی ہے اور مدت دراز سے اس کی خو چلی آتی ہو ، تو بیک لمحہ اس کی اصلاح نہیں ہوسکتی اور ایسی اصلاح سے اندیشہ ہے کہ فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہو ، اسی لئے احکام شریعت میں تدریج کا لحاظ رکھا گیا ہے ، اکثر محرمات بہ تدریج حرام قرار دی گئیں اور شراب کا معاملہ تو بالکل واضح ہے ، وہ تین مرحلوں میں حرام ہوئی ، اس لئے یہ بات ضروری ہے کہ حکمت و مصلحت کے پہلو کو ہمیشہ ملحوظ رکھا جائے ، انسان جو کچھ کہے حق کہے ؛ لیکن ہر حق بات کا ہر وقت کہہ دینا ضروری نہیں بعض دفعہ مرحلہ وار حق کا اظہار زیادہ مفید ثابت ہوتا ہے — اگر علماء اس بات کو ملحوظ رکھیں تو بہت سے باہمی اختلاف جو مسجدوں اور دینی کاموں میں پیدا ہوجاتے ہیں ، ان کی نوبت نہ آئے ۔
چوتھی اہم بات اُمت کی وحدت کی حفاظت اور اس کو انتشار سے بچانا ہے ، اتحاد کی ضرورت کب نہیں رہی ؟ لیکن موجودہ حالات میں اس کی اہمیت اور بڑھ گئی ہے ، یوں تو اختلاف کے مختلف اسباب ہیں ، سیاسی ، خاندانی ، کاروباری وغیرہ ؛ لیکن مذہبی اختلاف کا مسلم سماج پر زیادہ گہرا اثر پڑتا ہے اورا س کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ مساجد ، دینی درس گاہیں اوردینی اجتماعات اور مذہبی تقریبات جن کو اُمت کے اتحاد و اتفاق کا نمونہ ہونا چاہئے ، وہی اختلاف و انتشار کا سبب بن جاتے ہیں اور جو لوگ اُمت کو جوڑنے کا کام کرتے ، وہی اختلاف کے علمبردار بن کر کھڑے ہوجاتے ہیں ، تو ایسی صورت میں کون ہے جو ان بکھرے ہوئے تسبیح کے دانوں کو پرو سکے ، اور شکستہ دلوں پر مرہم رکھ سکے ! — ہمارے فضلاء کو اس پر ضرور توجہ دینی چاہئے کہ وہ اُمت کے کسی ایک طبقہ کے رہنما نہیں ہیں ؛ بلکہ پوری اُمت کے لئے دواء ِدل کا درجہ رکھتے ہیں ، ان کو تمام مسلمانوں سے بحیثیت مسلمان محبت رکھنی چاہئے اور اس بات کی کوشش کرنی چاہئے کہ ان کی زبان اور قلم کہیں اُمت میں انتشار کا باعث نہ بنے۔
پانچویں اور بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ اُمت کا ایک بہت بڑا طبقہ وہ ہے جس نے جدید علوم کو حاصل کیا ہے ، جیسے ہمارے علماء دین کا وجود ایک ضرورت ہے ویسے ہی عصری علوم کے ماہرین بھی ہمارے لئے بہت بڑی ضرورت ہیں ، ہم ان کی اہمیت کو نظر انداز نہیں کرسکتے ، یہ قوم کا بہت بڑا اثاثہ ہیں ، یہ عام طورپر اسلام کے بارے میں مخلص بھی ہیں ، اگر کچھ لوگ ایسی باتیں کرتے ہوں جو دین کے مزاج و مذاق کے خلاف ہیں ، تو یہ زیادہ تر ان کی ناواقفیت اورناآگہی کی وجہ سے ہے اور باہمی غلط فہمی کی وجہ سے علماء اور جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے درمیان ایک خلیج سی پیدا ہوتی جارہی ہے ۔
یہ بہت افسوس ناک ہے اور اس میں زیادہ تر محض باہمی دوری اور غلط فہمی کو دخل ہے ، علماء کا فریضہ ہے کہ وہ اس طبقہ کو اُمت کی بہترین امانت سمجھ کر قریب کریں ، ان کے شکوک وشبہات کو تحمل کے ساتھ سنیں اور محبت کے ساتھ ان شکوک کے کانٹوں کو ان کے دلوں سے نکالیں ، اُمت میں جو لوگ فکری اعتبار سے راہ مستقیم سے منحرف ہوں ، ان کے ساتھ ہمارا سلوک وہی ہونا چاہئے جو ایک ہمدرد اور فرض شناس معالج کا اپنے ناسمجھ مریض کے ساتھ ہوتا ہے ، ہمارا رویہ ان کے ساتھ فریق اور رقیب کا نہ ہو؛ بلکہ رفیق اور صدیق کا ہو ۔
یہ ہمارے نوجوان فضلاء کے لئے ان کے ایک ایسے بھائی کی گذارشات ہیں جو اس راہ سے بہ مقابلہ ان کے کسی قدر پہلے گذر چکا ہے ، یہ ایسی حقیقتیں ہیں کہ جن پر دھیان دینا وقت کی بہت بڑی ضرورت ہے اور جن سے پہلو تہی اُمت اور علماء ِ اُمت دونوں کے لئے نقصان دہ ہے ۔