محمد علم اللہ، نئی دہلی
تین سال بعد پرگتی میدان میں نئی دہلی ورلڈ بک فیئرکا انعقاد کیا گیا۔ آزادی کے ’امرت مہوتسو ‘ کے موضوع پر یہ میلہ 25 فروری سے 5 مارچ تک جاری رہا۔ پچاس سال پورا کرنے والے اس میلے میں اس مرتبہ فرانس مہمان ملک کے طور پر شریک ہوا۔ نیشنل بک ٹرسٹ (این بی ٹی) کے زیر اہتمام اس میلے میں کئی نئی چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ کتاب کے شائقین کے لیے گیت اور ڈرامہ ڈویژن، ساہتیہ کلا پریشد اور دیگر اداروں کے ذریعے پروگرام پیش کیے گئے۔ مصنفین کے زاویہ میں رائٹرز فورم اور لٹریچر فورم کے ساتھ مکالمے، پینل ڈسکشن، ڈومیسٹک پبلشرز اور کتابوں کی اشاعت جیسے پروگرام بھی ہوئے۔ میلے کے مرکز میں کاروبار کے مواقع کو مد نظر رکھا گیا۔ این بی ٹی نے جواں سال مصنفین کو ادبی مباحثہ اور بات چیت کے لیے عالمی اسٹیج فراہم کیا جس میں اردو کی نمائندگی بھی دیکھنے کو ملی۔ این بی ٹی نے میٹرو تک آنے جانے کے لیے سواری کا بھی انتظام کیا تھا۔
دہلی میں عالمی کتاب میلہ (این ڈی ڈبلیو بی ایف) پہلی بار 1972 میں منعقد ہوا تھا جس کا افتتاح اس وقت کے صدر جمہوریہ ہند وی وی گری نے کیا تھا۔ اس کی کامیابی نے ملک کے دیگر حصوں میں کتاب میلوں کو تحریک دی ، اسی کے بعد کولکاتا میں پہلا بین الاقوامی کتاب میلہ 1976 میں منعقد ہوا تھا۔ آج یہ دنیا کے سب سے بڑے ادبی پروگراموں میں سے ایک ہے، جس میں 2 ملین سے زیادہ افراد آتے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دہلی کا عالمی کتاب میلہ علم و ادب کا جشن تھا اور اس نے کچھ رجحانات اور مسائل پر بھی روشنی ڈالی۔ مثبت باتوں کا ذکیا جائے تواس میلے نے ناشروں کو اپنی تازہ ترین پیشکش کی نمائش اور قارئین سے رابطہ قائم کرنے کے لیے ایک عمدہ پلیٹ فارم مہیا کیا۔ کتاب سے محبت کرنے والوں کے لیے یہ ایک اچھا موقع تھا کہ وہ نو بہ نو، رنگا رنگی کو دریافت کریں، نئے مصنفین سے رو برو ہوں اور اپنی پسند کی کتابیں خریدیں۔ یہ میلہ مصنفین کے لیے بھی اپنے قارئین سے قریب ہونے اور مختلف ادبی موضوعات پر بامعنی گفتگو کرنے کا ایک بہترین موقع تھا۔ اس کے ساتھ ہی میلے نے کچھ دیگر رجحانات کو بھی اجاگر کیا یعنی یہ میلہ ادب کے جشن سے زیادہ ایک تجارتی منصوبہ لگتا تھا۔ پڑھنے لکھنے کے رویے کو پروان چڑھانے کے بجائے اداروں کی جانب سے محض کتابیں بیچنے پر توجہ نظر آتی تھی۔ناشرین نئے مصنفین یا کم معروف اصحاب قلم کو مشتہر کرنے کے بجائے اپنے بہترین فروخت کنندگان کی نمائش اور منافع کمانے میں زیادہ دلچسپی کا مظاہرہ کرتے پائے گئے۔
میلے میں سیاست اور نظریات کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ایک اضافی پہلو تھا۔ جہاں سیاسی رہنمائوں کی موجودگی بھی دیکھنے میں آئی اور جگہ جگہ سیاسی شخصیات کے بینر اور ہورڈنگ آویزاں نظر آئے۔ یہ رویہ تشویشناک ہے کیونکہ کتاب میلوں یا ادبی و ثقافتی پروگراموں کو غیر سیاسی سمجھا جاتا ہے، جس کا بنیادی مقصد اور توجہ علم، ادب، ثقافت اور کتابوں کے فروغ پر ہونی چاہیے۔ سیاست اور نظریے کا تعارف میلے کو اس کے اصل مقصد سے ہٹا کر تقسیم اور تعصب کی فضا کو جنم دے سکتا ہے۔
ایک اور اہم مسئلہ مقامی ناشروں کی شرکت کا فقدان تھا۔ اگرچہ یہ میلہ اشاعتی اداروں کے لیے اپنی تازہ ترین پیشکش کی نمائش کا ایک بہترین موقع تھا، لیکن مقامی ناشروں کی جانب سے شرکت کی کمی کو دیکھ کر مایوسی ہوئی۔ ان کی غیر موجودگی کا مطلب یہ تھا کہ شائقین کو علاقائی مصنفین اور غیر معروف قلم کاروںکے کاموں کو تلاش کرنے کا موقع نہیں دیا گیا۔
کتاب میلے میں بین الاقوامی ناشروں کی غیر حاضری بھی نمایاں تھی۔ دوسرے لفظوں میں تنوع اور شمولیت کا فقدان تھا جس کی توقع اس طرح کے مہتم بالشان میلے میں نہیں کی جاتی ہے۔
ہندوستان ایک بڑا ملک ہے، جس کے پڑوس میں کئی چھوٹے ممالک ہیں۔ ایسے میں اسے ان سب میں ایک بڑے بھائی کے طور پر کردار نبھانے کی ضرورت ہے تاکہ خطے میں اس کی مسلمہ حیثیت کا اظہار ہو، مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک کے ارباب حل و عقد کو اس کی قطعا ً پروا نہیں، شاید اسی وجہ سے پڑوسی ملکوں کے کتابوں کے اسٹال بھی امسال غائب تھے۔ ہندوستان نے افغانستان اور بنگلہ دیش جیسے ملکوں میں بڑی سرمایہ کاری کی ہے۔ ایسے مواقع پرانہیں بھی شرکت کا موقع دیا جانا چاہیے تھا تاکہ نوجوان نسل ایک دوسرے کی ثقافت سے متعارف ہو تے اور انس و محبت کے ماحول کو تقویت ملتی۔
اس مرتبہ پاکستان کا بھی کوئی اسٹال نظر نہیں آیا، حالانکہ دنیا میں امن و امان کی بحالی کے لیے ایسے مواقع غنیمت تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان اردو کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اور وہاں جدید موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کے تراجم اردو میں بآسانی دستیاب ہوتے ہیں، اگر وہاں کے ناشروں کو موقع دیا جاتا تو ہندوستان میں، جہاں دنیا کے سب سے زیادہ اردو بولنے والے لوگ موجود ہیں، اس سے فائدہ اٹھایا جاتا۔
کتاب میلے میں شائقین کے لیے مناسب جگہ اور سہولت کے مواقع اس طرح نہیں تھے جیسا کہ اس طرح کے بڑے پروگراموں میں ہونا چاہیے تھا۔ بیٹھنے کے انتظامات اور آرام کی مناسب جگہوں کی کمی، موبائل ری چارج اورانٹر نیٹ وغیرہ کی سہولیات نہ ہونا بھی پریشانی کا سبب تھی۔ بہت سے زائرین نے بیٹھنے کی کمی، ناکافی موبائل نیٹ ورک اور خراب ہوا داری کی بھی شکایت کی۔ اس کی وجہ سے میلے میں جانا اور سہولیات سے لطف اندوز ہونا مشکل ہو گیا۔ پانی، خوراک اور بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولتوں کی کمی نے بھی میلے میں آنے والوں کے لیے طویل وقت گزارنا مشکل بنا دیا تھا۔ فوری طور پر طبی سہولیات کی کمی بھی نوٹ کی گئی، ایسے مواقع پر میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں ڈاکٹر اور کچھ بنیادی دواؤں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ہندوستان ترقی پذیر ممالک کی صف میں بہت آگے ہے۔ اسے اس طرح کی چھوٹی چھوٹی چیزوں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ ایسے پروگراموں سے اپنی قربت محسوس کریں۔
یہاں اردو کے حوالے سے بھی کچھ چیزیں دیکھنے کو ملیں مثلا سرکاری ادارے این بی ٹی، ساہتیہ اکادمی، بنگال اردو اکادمی، یوپی اردو اکادمی اور این سی پی یو ایل کی اکثر کتابیں بوسیدہ اور خراب حالت میں نظر آئیں، ایسا محسوس ہوتا تھا کہ اردو کی یہ کتابیں دھول پھانک رہی ہیں اور اپنے قارئین کو ترس رہی ہے۔ اگر اگلے کچھ سالوں میں ان اداروں نے اُردو کتاب چھاپنا بند کر دیا یا اردو کے فنڈ میں کمی کر دی تو کوئی تعجب کی بات نہیں ہوگی، بلکہ اس کے ذمہ دار خود اردو والے ہوں گے۔ یہ شکوہ بجا کہ حکومت اردو کے تئیں سنجیدہ نہیں ہے لیکن سوال یہ بھی ہے کہ ہم خود اردو کے تئیں کتنے سنجیدہ ہیں؟۔
مجھے دہلی میں منعقد ہونے والے اس میلے میں کم از کم گذشتہ دس سالوں سے شرکت کا موقع ملتا رہا ہے۔ لیکن اس مرتبہ جو رویہ دیکھنے کو ملا اس سے قبل ایسا نہ تھا۔ جگہ جگہ مقتدر پارٹی کے سربراہ کے بڑے بڑے ہوڑڈنگ اور بینر لگے ہوئے تھے۔ اسی کے ساتھ ایک مخصوص نظریے کو پھیلانے کی دانستہ کوشش بھی صاف نظر آتی تھی۔ حالانکہ اس مرتبہ ایسی بھی خبریں تھیں کہ میلے میں کسی قسم کی مذہبی تبلیغ اور پرچار کی اجازت نہیں ہوگی۔ لیکن کچھ عناصر نے اس کا غلط استعمال کیا اور ادب کے میلے میں بے ادبی کا ماحول بھی دیکھنے کو ملا۔
اس حوالے سے یہ خبر بھی کتاب کے شائقین کے لیے بہرحال تشویش کا باعث تھی کہ ایک خاص فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے، اپنے سے الگ فکر رکھنے والے مذہبی گروہوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ اس بابت ایک ٹولے کی جانب سے ’جے شری رام‘ کے نعرے لگاتے ہوئے ایک عیسائی تنظیم کے اسٹال پر توڑ پھوڑ بھی کی گئی،’ ہنومان چالیسا‘ کا ورد کرنے کے ساتھ ساتھ’ مفت میں بائبل تقسیم بند کرو‘، ’عیسائی بنانا بند کرو‘ جیسے نعرے بھی لگاتے ہوئے فسادیوں کو دیکھا گیا۔ حالانکہ اس کے بالکل برعکس دوسری جانب سے لوگوں کو یوگا کراتے اور خاص کپڑوں میں ملبوس، قشقہ لگائے اور ہاتھوں میں مالا لئے اکثریتی طبقہ کے پجاریوں اور پنڈتوں کو کھلے عام تبلیغ کرتے ہوئے دیکھا گیا جو اس بات کا ثبوت تھا کہ قانون کی پاسداری محض دوسروں کے لیے ہے اور ایک خاص طبقہ اس سے مبرا ہے۔
ہم کسی بھی قسم کی تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ہمارا آئین ہمیں اس بات کی آزادی دیتا ہے کہ ہر مذہب کے لوگ بلا کسی خوف و خطر اپنے پیغامات کی ترسیل اور تبلیغ کر سکتے ہیں، لیکن فی زمانہ دیکھنے میں یہی آتا ہے کہ ایک مخصوص طبقہ خود تو اس کا فائدہ اٹھانا چاہتا ہے لیکن دوسروں کو اس سے روکتا ہے۔ در اصل یہی نظریہ خطرناک اور ملک کے شیرازہ کو منتشر کرنے والا بھی ہے۔
ادب اور ثقافت کو اس کی اصل کے ساتھ باقی رکھنا ہی دانش مندی کی بات ہے ورنہ اس کی روح مجروح کرنے کی صورت میں جو نقصان ہوگا اس کی تلافی مشکل ہوگی، لیکن موجودہ سیاست میں پرانی تہذیبی علامات اور فرسودہ روایات کی تجدید والی مہم بہرحال تشویش ناک ہے۔ پرانے خیالات کو نئے خیالات کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے اس پرجوش جذبے کی کسی طور ہمت افزائی نہیں کی جا سکتی جس میں دوسروں کے پنپنے کے امکان کو بھی دبانے کی کوشش ہوتی ہو۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بر سر اقتدار حکومت میں سیکولرزم، جمہوریت، انصاف، ترقی، قومیت اور سماجی و سیاسی زندگی کے مباحث میں تیز رفتار بدلاؤ آیا ہے۔ یہاں تک کہ مرکز کی سماجی، معاشی اور تعلیمی اسکیمیں بھی ایسے تہذیبی منظرکی عکاس ہیں جس سے ہندوؤں کے مذہبی اور ثقافتی جذبات کو اکسانے کی بے چینی کا پتہ چلتا ہے، تو وہیں اس میں ایک انوکھے سیاسی نظریے کی پر زور وکالت بھی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت عوامی زندگی کے ہر شعبے میں عجیب و غریب طرح کی مداخلت کرنے کی مجاز ہے۔ یہاں تک کہ وہ ادار ے جنہیں اب تک سیاست اور سیاسی حکمرانوں کی دخل اندازی سے آزاد سمجھا جاتا رہا تھا وہ بھی مقید ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ مرکز ی حکومت پروپیگنڈہ کے فلسفے پر یقین رکھتی ہے،جس کی سیاست تعلیم، ترقی، غریبی کے خاتمے اور ہر ممکنہ ترقی پسند قدر کا بظاہر شہرہ تو ہے، مگر وہ محض دکھاوے کی حد تک ہے۔ اس طرح کے ثقافت اور تہذیب کے نام پر ہونے والے اجتماع یا کتاب میلے وغیرہ غیر سیاسی اور سیکولر اقدار پر مبنی ہونے چاہئیں جہاں تمام پس منظر کے لوگ اکٹھا ہو کر ادب کی طاقت کا جشن منا سکیں۔ ضروری ہے کہ منتظمین ان واقعات پر توجہ دیں تاکہ مستقبل میں ایسے مواقع کو مزید سود مند بنایا جا سکے۔ امید کہ آئندہ کتاب میلہ ادب کا جشن منانے اور شمولیت اور رواداری کے کلچر کو فروغ دینے کا ایک مثالی پلیٹ فارم بنے گا اور ہندوستان جو کثرت میں وحدت کی شناخت کا حامل ملک ہے اس کی اس شان امتیازی کو برقرار رکھا جائے گا۔