مبارک بدری ؔ
دلی کا ماحول ہمیشہ ہی خوبصورت رہا ہے،ہند میں مسلم عہد حکومت کے قیام کے بعد یہاں کا ماحول اور تہذیب و تمدن خوبصورت رنگ میں ڈھلنے لگے تھے،شاہوں کے دربارِ خاص میں بولی جانے والی زبان روز مرہ کی زندگی کا حصہ بننے لگی تھی ہر سمت خالص شفاف ساماحول پیدا ہوگیا تھا،اس وجہ سے بھی کہ دلی شروع سے ہی ہمہ گیر، ہمہ جہت اور جامع شخصیات کا مسکن رہی، اولیاء اللہ کی ایک جماعت یکے بعد دیگر ے یہاں رہ کر اپنا فیض عام کرتی رہی،صلحاء اور اسلام کے مبلغین کا وجود مسعود یہاں کے ماحول کو فیضیاب کرتا رہا، ادباء و شعراء کی جماعت یہاں ہر وقت موجود رہی، موسیقی کے استادوں سے دلی کے گلیارے کبھی خالی نہیں ہوئے،افسانہ نویسوں کو دلی نے کبھی در بدر ی پر مجبور نہیں کیا، نثر نگاروں کی یہاں سدا حوصلہ افزائی ہوتی رہی، خاکہ نگاروں اور مصوروں کو یہاں ہمیشہ پسند کیا گیا، ایک وقت تھا جب ایک شخص ولایت کے اعلی درجہ پر فائز رہ کر بھی شاعری کو ترک نہیں کرتا تھا وہ تنہا شاعر، ادیب اور ولی ہوتا تھا۔ حضرت امیر خسرو ؒ ، قطب دوراں محبوب الہی حضرت نظام الدین ؒ کے تربیت یافتہ تھے وہ ولی بھی تھے اور اعلی درجہ کے شاعر بھی،موسیقی سے بھی خاص لگاؤ رکھتے تھے،اردو شاعری کے بانی کا شرف بھی آپ کو ہی حاصل ہے۔خدائے سخن حضرت میر ، شاعری اور زبان و ولایت کا مجسم نمونہ تھے۔ ان کی شاعری ولایت کے راستے کی رکاوٹ نہیں بنی، پھر آہستہ آہستہ دہلی کے ادبی ماحول میں تنقید کی راہ آسان ہوتی گئی ۔یہاں تک کہ وہ وقت آیا کہ غالب کو بھی ذوق کی تنقید سے فرار نہ مل سکا، نقد و جرح کے دریچے وا ہوتے گئے اور دلی کا ادبی ماحول کسی حد تک محدود ہونے لگا،خصوصاً بیسویں صدی کے ربع اخیر کے بعد کا ماحول علمی کم مائیگی اور شعری تنزلی کا شکار ہو گیا اور شعراء کی جگہ زبان و بیان سے عاری افراد نے لے لی ۔ اور فنکاروں کو نظر انداز کئے جانے کا سلسلہ شروع ہوگیا۔آج بھی بہت سے فنکار اور بے بہا صلاحیتوں کی مالک شخصیات گوش�ۂ گمنامی میں زندگی کے ایام کاٹنے پر مجبور ہیں۔اور سینکڑوں سال قبل کہا گیا میر ؔ کا یہ شعراپنے مفہوم کا تکرار کرتا کرتا نظر آ رہا ہے۔
پگڑی اپنی سنبھالئے گا میر
اور بستی نہیں یہ دہلی ہے!
مگر ایسے ماحول میں بھی کچھ دیوانگان عشق و وفا ادبی چراغ کو جِلا دے رہے ہیں اور باد سموم سے جھلسنے والی پتیوں پر عرق گلاب کا چھڑکاؤکر رہے ہیں۔
اسی قافلۂ عشاق کی فہرست میں شامل ایک نام’ علامہ سیدعبد العزیز ظفرؔ جنک پوری قاسمی حسینی‘ کا ہے۔
موصوف نے بیسویں صدی عیسوی کے اوائل میں اس دنیائے رنگ و بو میں آنکھیں کھولیں۔ تعلیم کا آغاز دینی مکتب سے ہوا اور اس کے بعد بڑے مدارس کا رخ کیا جہاں موصوف نے فارسی کی ’ گلستاں و بوستاں‘ کی تکمیل کے ساتھ عربی کی ابتدائی کتب پڑھنا شروع کیں ، 1955ء میں موصوف نے دار العلوم دیوبند میں درس نظامی کی تکمیل کی اور دستار فضیلت سے سرفراز ہوئے، آپ کے اساتذہ میں مولانا حسین مدنی، مولانا ادریس کاندھلوی، مولانا اعزاز امروہوی، قاری محمد طیب، علامہ ابراہیم بلیاوی وغیرہم کے نام شامل ہیں۔
ابتدائی تعلیمی دور سے ہی موصوف کو شاعری کاشوق رہا ، دن بدن موصوف کی تخییل بلند پرواز کرتی گئی۔ جب موصوف مدرسہ امینیہ دہلی میں عربی کی ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے، تو بقول استاد شاعر عبد العزیز یاس ؔ چاند پوری ’’ میں جب کشمیری گیٹ کے قریب کام کرتا تھا تو اس وقت مدرسہ امینیہ کے طالب علم عبد العزیز ظفر ؔ جنکپوری سے اپنا کلام دکھایا کرتا تھا ‘‘۔
درجہ چہارم میں پہنچنے تک موصوف عربی زبان میں بھی اشعار کہنے لگے تھے۔
’’مدرسے سے خانقاہ اور مسجد تک‘‘
تعلیمی دور سے ہی موصوف کا رجحان صلحاء و اتقیاء کی جانب رہا ہے اس سلسلے میں موصوف نے ایشیا کی معروف خانقاہ ’’رائے پور ضلع سہارنپور‘‘ کا رخ کیا ویسے تو آپ دوران تعلیم سے ہی اپنے اساتذہ کرام سے روحانی فیض حاصل کرتے رہے، مگر باضابطہ طور پر آپ نے حضرت شاہ عبد القادر رائے پوری ؒ کے دست مبارک پر بیعت فرمائی اور ان کی خدمت میں رہ کر اصلاح حال کی کوشش کرتے رہے۔ آپ کے دینی جذبے اور ذوق للہیت کے پیش نظر حضرت رائے پور ی نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت رائے پوری کے وصال کے بعد آپ نے روحانی تعلق مولانا خالد سیف اللہ سے قائم کیا جو ’’ سپاہ صحابہ پاکستان‘‘ کے عظیم کارکن اور اس کے بانیان میں سے تھے حضرت مولانا خالد سیف اللہ نے بھی آپ کی دین پروری کی بناء پر خلافت سے نوازا،علامہ قمر الزماں الہ آبادی کی جانب سے بھی آپ کو اجازت و خلافت حاصل ہے۔ یہ حضرت رائے پوری کے فیضان صحبت کی ہی برکت تھی کہ آپ نے اپنی زندگی دین متین کی خدمت کیلئے وقف کردی اور دہلی کی فرینڈس کالونی کی ایک مسجد میں خاموش مزاجی کے ساتھ اصلاح باطن کی خاطر سر گرم عمل ہوگئے۔
’’مسجد کے احاطہ میں‘‘
چونکہ ذوق شاعری آپ کو بچپن سے تھا لہذا مسجد میں قیام کے بعد بھی آپ نے اپنا ادبی سفر جاری رکھا۔ علامہ ظفر اپنے بارے میں فرماتے ہیں:
’’ میں نے شمیم جے پوری اور جگر مراد آبادی وغیرہ کے ساتھ مشاعرے پڑھے ہیں‘‘
یوں تو علامہ ظفرنے جملہ اصناف میں طبع آزمائی ہی نہیں بلکہ اپنی قابلیت و صلاحیت کا لوہا منوایا ہے مگر علامہ کی پسندیدہ اصناف میں حمد و نعت اور منقبت و قصیدہ شامل ہیں۔
فی البدیہہ اور تضمینی کلام کہنے میں آپ کو خاصی مہارت حاصل ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں حمدیہ اور نعتیہ کلام آپ کی تخلیقات کاحصہ ہیں۔
ہر کسی نے حضور پرنورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں کچھ نہ کچھ کہنے کی جسارت کی ہے مگراکثر شعراء عدم احتیاط کا شکار ہوئے ہیں۔ نعت گوئی کو انتہائی نازک صنف سمجھا جاتا ہے اوراس صنف میں دانستہ و غیر دانستہ ہر کسی کے ہاتھ سے احتیاط کا دامن چھوٹ جاتا ہے، مگر علامہ ظفر نے اپنی نعتیہ شاعری کو شرعی حدود کے دائرے سے خارج نہیں ہونے دیا۔ اگر میںیہ کہوں’’ کہ علامہ ظفر(خصوصاً )اپنے ہم عصروں میں اس لحاظ سے یکتا و یگانہ ہیں‘‘ تو میں حق بجانب رہوں گا۔
نمونے کے طور پرایک نعت پیش ہے:
زمیں سے آسماں تک روشنی معلوم ہوتی ہے
رخِ احمدؐ کی یہ جلوہ گری معلوم ہو تی ہے
جھکاجاتا ہے دل میر اجو تعظیمِ محبت میں
مجھے آقا ؐسے قربت ہو گئی معلو م ہوتی ہے
زباں پہ میری ،نامِ احمدِ ذیشان کیا آیا
مری دنیائے دل بدلی ہوئی معلوم ہوتی ہے
غلاموں کو بھی تاجِ قیصری بخشا ہے آقا ؐنے
یہ فیاضی ہی شانِ سروری معلوم ہوتی ہے
طلوعِ روشنی سے مطلعِ انوار ہے عالم
نبوّت کی یہ شمعِ آخری معلوم ہوتی ہے
ہوئی ہے جب سے مجھ کو نسبتِ خیر الوریٰ حاصل
مرے تاریک دل میں روشنی معلوم ہوتی ہے
زیارت ہوگئی تجھ کو کہیں کیا سرورِ دیں کی
ظفر ؔ چہرے پہ تیرے زندگی معلو م ہوتی ہے
یہ ایک نمونہ ہے۔ علامہ کا سارا کلام ہی جہاں مرصعیت اور جامعیت سے آراستہ و پیراستہ ہے وہیں علامہ کے کلام میں شرعی حدود کی پاسداری کا خصوصی لحاظ رکھا گیا ہے۔ علامہ ظفر ؔ کی غزلیں ، غزل اور حسن کاخوبصورت آئینہ ہیں ۔ کلام میں روانگی اور تسلسل کی روایات کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ علامہ کی تخلیقات کے مطالعہ کے بعد بجا طور پر کہا جا سکتا ہے کہ جگر ؔ جیسا تغزل نہ سہی، مگر جگر ؔ کا اتباع مکمل ہے۔
تاریخ نکالنے والے فنکار نایاب نہ سہی،کمیاب ضرور ہیں۔ اس فن کو جیسے معدو م ہی کر دیا گیا ہو۔ ادبی اداروں کی توجہ بھی اس فن کو کم کم حاصل ہے۔ اس فن کی معنویت میں گرچہ قابل ذکر کمی نہیں ہوئی مگر اس فن کو لوگوں نے فنون کی فہرست سے نکال پھینکا ہے۔ ادارے نہیں، بلکہ بہت کم لوگ اس فن کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ علامہ ظفر ؔ کو اس فن میں کامل مہارت حاصل ہے۔ لمحوں میں آپ تاریخ نکالنا جانتے ہیں ۔ علامہ کے تاریخی کتبے ہندوستان سے لے کر سعودی عرب تک پہنچے ہوئے ہیں۔ اس فن کے لحاظ سے بھی علامہ کودور حاضر کے فنکار وں میں اول مقام حاصل ہے۔