محمد فیاض عالم قاسمی
عام طورپر مدارس کے بارے میں یہ تصورکیا جاتا ہے کہ صرف تعلیم گاہ ہے؛ حالاں کہ مدارس تعلیم گاہ کے ساتھ تربیت گاہ بھی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے رسول ﷺ کی بعثت صرف تعلیم وتعلم کے لئےنہیں، بلکہ ایک ایسی قوم کی تعمیر وتربیت کے لئے کی تھی جو رہتی دنیاتک کے لئے آئیڈیل بن سکے۔ (سورہ آل عمران:١۶٤) غورکیجئے کہ صحابہ کرام میں اکثر لکھناپڑھنانہیں جانتے تھے، لیکن ان ہی کو ہدایت یافتہ کا تمغہ دیاگیا۔ وہ مروجہ نصابِ تعلیم سے ناآشنا تھے، لیکن آپ علیہ السلام کی تربیت نے انھیں دنیامیں روشن ستارےکی طرح منورکردیا۔ یہ نگاہ محمدی کی برکت تھی کہ اونٹ چرانے والے ملک عرب کے بادشاہ بن گئے، نور رسالت کا کرشمہ تھاکہ جو خود گمراہ تھے اورں کے ہادی بن گئے۔ یہ سب تربیتِ محمدی ﷺ کانتیجہ تھاکہ جو خود غیرمہذب تھے دنیامیں مہذب ترین قوم کے طورپر ابھرے۔ مدارس اسلامیہ کی کڑی اسی تربیت گاہِ نبوی سے جاملتی ہے، اوراس کی تاریخ اِسی آفتابِ نبوت سے روشن ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان ہی مدارس سےحضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ آفتابِ عالم بن کر چمکے،حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ طبیب امت اورنباض وقت بن کرنکلے، اورشیخ الاسلام مولاناحسین احمدمدنیؒ مرشدِ حجاز بن کرنمودارہوئے۔پھر ان کی صحبت اورتربیت سے آسمان ِ دنیاپر ہزاروں ستارے چمکے۔ ظاہرہے کہ یہ کرشمہ مروجہ نصاب کانہیں تھا ، بلکہ بقول شاعر:
نہ کتابوں سے نہ وعظوں سے نہ زر سے پیدا دین ہوتاہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
ماضی بعید میں کتابیں کم پڑھائی جاتی تھیں، البتہ دل ودماغ پر محنت زیادہ ہوتی تھی،طلبہ کے دل کی دنیابدلنے کی کوشش کی جاتی تھی، ان کے ذہن ودماغ میں دین اور اسلام کی روح پیوست کی جاتی تھی۔مدرسہ کا فارغ التحصیل بیک وقت عالم ِدین ہونے کے ساتھ ساتھ عارف باللہ بھی ہوتاتھا، وہ سراپامسلمان ہوتاتھا،گفتگو سےدینداری محسوس ہوتی تھی۔ ان کے اخلاق وکردارسےاسلام ٹپکتاتھا، آنکھوں سے تقویٰ جھلکتاتھا،اورچہرےپر نورنظر آتاتھا۔لیکن افسوس کہ گزشتہ چنددہائیوں سےمدارس سے صرف عالم دین نکل رہے ہیں،عارف باللہ کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے۔ فضلاءِ مدارس کے پاس علم کا بھنڈارا تو ضرورہوتاہے، لیکن معرفتِ خداوندی نہیں ہوتی ہے۔ ان کے ذہن ودماغ میں اسلامی تعلیمات تو ہوتی ہیں؛ لیکن دل ان پر عمل کرنے پر آمادہ نہیں ہوتاہے۔علامہ اقبال ؒ نے سچ کہاہے:
خِرد نے کہہ بھی دیالاالٰہ تو کیاحاصل دل ونگہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
آئیے اس کوتاہی پرٹھنڈے دل سے غورکرتےہیں۔فضلاء مدارس کی زندگی کو ہم تین مرحلوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ایک مرحلہ وہ ہوتاہے جس میں طالب علم سنِ غیرشعوری میں رہتاہے۔ یہ اس کے مکتب کازمانہ ہوتاہے۔ اس زمانہ میں وہ گھرسے مکتب اور مکتب سے گھرآمدورفت کرتاہے۔جب وہ مکتب جاتاہے تو گھرواپس آنے کی فکررہتی ہے۔ اور جب گھرمیں رہتاہے تو کلیۃ ً بے فکر ہوجاتاہے حتیٰ کہ کھانے پینے کابھی خیال نہیں رہتاہے؛ اسےوقت پر مکتب بھیجناپڑتاہے۔ اس زمانہ غیرشعوری میں اس کااکثروقت اپنے ماں باپ اوربھائی بہنوں کے ساتھ گزرتاہے۔ اس لئے اس پر ان کے رہن سہن ، طوروطریق اور اخلاق وکردارکااثر پڑتاہے۔اس عمرمیں بچہ کےبگڑنے یابننے میں والدین کا اہم رول ہوتاہے، تاہم بچہ نیک ہے یانہیں جلدی فیصلہ کرنادشوارہوتاہے، البتہ کچھ علامتوں کو دیکھ کر صرف اندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آگے چل کریہ بچہ کیسابنے گا۔
دوسرامرحلہ وہ ہوتاہے جب اسے دس بارہ سال کی عمرمیں کسی دارالاقامہ والے مدرسہ میں داخل کردیاجاتاہے۔ اب وہ بیس بائیس سال کی عمر تک مدرسہ کی چہاردیواری میں رہتاہے۔ صرف رمضان اور دیگر چھٹیوں میں چنددنوں کے لئے گھر آتاہے۔ والدین اور دیگر رشتہ داروں سے ملاقات کرتاہے، یہ گنے چنے چند دن ماں باپ کے لارڈ وپیار اورضیافت میں گزرجاتے ہیں، اسے محسوس ہوتاہے کہ ابھی تو گھر آیاتھا وقت پورا ہوگیا،پھر وہ خواہی ناخواہی مدرسہ جاتاہے۔ اس طرح وہ مدرسہ میں اپنی عمرکاوہ حصہ گزارتاہے جس میں انسان بنتاہےیابگڑتاہے۔ اس دوران اس پر اس کی تعلیم وتربیت دیگر طلبہ اوربالخصوص اساتذہ کرام کے رہن سہن، طوروطریق، اوراخلاق وکردارکا اثر پڑتاہے۔ ان سے وہ بے حدمتاثر ہوتاہے۔ اس عمرمیں بچہ کے سنورنےاوربگڑنے میں مدرسہ ،ہم سبق طلبہ اور اساتذہ وغیرہ کااہم کردار ہوتاہے۔
تیسرامرحلہ وہ ہوتاہے جب طالب علم تعلیمی نصاب مکمل کرکے گھر آتاہے۔یہ مرحلہ سنورنے یابگڑنے کانہیں؛بلکہ اس کے نتیجہ کاہوتاہے۔اس زمانہ میں اس کوفکرمعاش،خدمت دین، خدمت خلق،شادی، عوام سے رابطہ وغیرہ جیسے جذبات اورخواہشات سے سابقہ پڑتاہے۔ ایسے میں اگر نئے فارغ التحصیل کی علمی صلاحیت اچھی ہوتی ہے، اخلاق وکرداربلندہوتے ہیں۔ تواضع وانکساری اعلیٰ ہوتی ہے۔ عوامی خدمات کے جذبات سے سرشارہوتاہے تو و ہ جلدہی مقبول اورمنظورِنظر ہوجاتاہے۔ لیکن اگر اس کی صلاحیت اچھی نہیں ہے، یا صلاحیت تواچھی ہے، لیکن اخلاق وکرداراچھے نہیں ہیں۔ تہذیب اورسلیقہ مندی نہیں ہے۔وضع قطع اچھی نہیں ہے،ڈاڑھی چھوٹی کرتاہے،بال کسی فلمی ایکٹرجیسےرکھتاہے،کپڑےسنت کے خلاف پہنتاہے، بازاری زبان استعمال کرتاہے،گالیوں سے کلام کرتاہے، لایعنی امورمیں وقت ضائع کرتاہے، تو امت مسلمہ کی نظر میں اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ پہلے مرحلہ میں طالب علم کے سنورنے یابگڑنے میں مکمل طورپروالدین کا ہاتھ ہوتاہے۔دوسرے مرحلہ میں وہ ادارہ جس میں اس نے دس بارہ سال تک تعلیم حاصل کی اوراس کے اساتذہ کرام کاہاتھ ہوتاہے، والدین کا ہاتھ نہیں کے برابرہوتاہے۔اورتیسرامرحلہ دراصل نتیجہ کا ہے، لیکن بعض دفعہ اس مرحلہ میں بھی کوئی سنورجاتاہے یابگڑجاتاہے تو ایسی صورت میں وہ خود ذمہ دارہوتاہے۔فی زمانہ تیسرے مرحلہ میں چوں کہ بچہ جوان ہوچکاہوتاہے تو والدین روکنے ٹوکنے سے بچتے ہیں۔اس لئے اس مرحلہ میں وہ خود اپنے کئے کاذمہ دارہے۔
بہرحال دوسرےمرحلہ کی بہت اہمیت ہے، اس کو غنیمت سمجھناچاہئے، مدارس اسلامیہ، اساتذہ کرام اوروالدین عظام کو چاہئے کہ اس مرحلے میں اپنے طلبہ عزیزکوسنوارنے ، انھیں کسی قابل بنانے،اور ان کے اخلاق وکردارکو بلندبنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ ورنہ جس طرح اچھے عالم دین کے بارے میں لوگوں کایہ خیال ہوتاہے کہ فلاں اچھے مدرسہ کا فاضل ہے تو خراب انسان کے بارے میں بھی یہ خیال ہوگاکہ فلاں مدرسہ کا فارغ ہے۔جس طرح وہ دیگر عالموں اور حافظوں کو دیکھ کر اپنے بچے کےبارے میں فیصلہ کرتے ہیں کہ فلاں مدرسہ میں داخلہ کراناچاہئے اسی طرح وہ بدنام لوگوں کو دیکھ کر یہ فیصلہ کرنے پر مجبورہوں گےکہ فلاں مدرسہ میں داخلہ نہیں کراناچاہئے۔ فقط
رابطہ : 8080697348