دربھنگہ: (نمائندہ) معروف صاحبِ قلم عمر فاروق قاسمی کو پی ایچ ڈی کی تکمیل کے موقع پر شعبۂ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی دربھنگہ نے پی ایچ ڈی ڈگری کا اہل قراردیا۔ان کے مقالے کا عنوان تھا ”نور عالم خلیل امینی:احوال و آثار (اردو زبان وادب کے حوالے سے) ”۔ چار سو چھ صفحے پر مشتمل اس مقالے کو انھوں نے سابق صدرِ شعبۂ اردو للت نارائن متھلا یونیورسٹی پروفیسر محمد آفتاب اشرف صاحب کی نگرانی میں مکمل کیا۔ اس موقع سے موجودہ صدرِ شعبہ ڈاکٹر سرور کریم کی صدارت میں ایک مختصر سا پروگرام منعقد ہوا جس میں ممتحن کی حیثیت سے شعبہ ٔ اردو لکھنؤ یونیورسٹی کے سربراہ ڈاکٹر فاضل احسن ہاشمی تشریف لائے اور اوپین وائیوا کے ذریعے انھوں نے مختلف سوالات کئے،اطمنان بخش جواب ملنے کے بعد انھوں نے عمر فاروق قاسمی کو پی ایچ ڈی ڈگری کا اہل قرار دیا۔ انھوں نے مقالے کی اشاعت کا بھی مشورہ دیا ۔ مولانا نور عالم خلیل امینی عربی و اردو زبان و ادب کے مشہور و معروف انشا پرداز تھے دارالعلوم دیوبند میں تقریباً چالیس سالوں تک انھوں نے تدریسی خدمت انجام دی۔علمی دنیا انھیں عموماً عربی زبان وادب کے حوالے سے جانتی ہے۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی اردو تحریر بھی اتنی خوبصورت اور چاشنی سے لبریز ہوتی ہے جتنی کہ ان کی عربی تحریر۔جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے مولاناعمرفاروق قاسمی نے ان کی اردو تحریر کے حوالے سے یہ مقالہ تحریر کیا ہے، جو اردو ادب میں یقیناً ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ویسے تو اس مقالے میں مولانا کی زندگی سے متعلق مختلف عناوین(مثلاًخلیل امینی کا سفر حیات،خلیل امینی کے معاصرین، خلیل امینی کی سوانحی خاکہ نگاری، تصنیفات و تالیفات ایک عمومی جائزہ، اور اسلوب نگارش) کے حوالے سے بحث کی گئی؛ لیکن سوانحی ادب بالخصوص خاکہ نگاری کے حوالے سے یہ مقالہ بڑی اہمیت کا حامل ہے۔مقالہ نگار نے بڑی محنت سے بہت ہی سائنٹفک انداز میں مولانا کی خاکہ نگاری اور ان کے اسلوب پر روشنی ڈالی ہے۔جس سے سوانحی دنیا میں ایک وقیع باب کا اضافہ معلوم ہوتا ہے۔
یاد رہے کہ مولانا عمر فاروق کا تعلق مدہوبنی ضلع کی مشہور مردم ساز بستی دملہ سے ہے ،والد صاحب کانام محمد ابوظفر اور دادا کا نام حاجی مطیع الرحمن ہے،ان کی ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں ہوئی، یہیں حفظ قرآن کی تکمیل ہوئی اور عربی پنجم تک یہیں تعلیم حاصل کی۔ 1999 میں انھوں نے ازہر ہنددارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا، 2001 میں سند فراغت حاصل کرنے کے بعد وہیں سے 2002 میں تکمیل ادبِ عربی کیا،دوران تعلیم تقریروتحریرکے حوالے سے طلبہ دارالعلوم میں وہ بہت ممتاز رہے اور وہاں کی مشہور ومعرف انجمن تہذیب الافکار اور بزم سجاد میں اکثر پوزیشن حاصل کرتے رہے۔ 2008 میں بہار مدرسہ بورڈ سے فاضل کی ڈگری حاصل کی،2009میں انھوں نے ملت کالج مدہوبنی سے بی ایڈ کیا۔ 2012 میں مانو سے ایم اے اردو کرنے کے بعد 2015میں یوجی سی نیٹ پاس کیا، 2019 میں للت نارائن متھلا یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں پی ایچ ڈی میں داخلہ لیااور بالآخراس میں کامیاب ہوگئے۔ ان کے تدریسی سلسلے کا آغاز مدرسہ چشمہ فیض ململ سے ہوا، 2003 میں وہاں سے جاری ہونے والے رسالہ سہ ماہی بصیرت کے ایڈیٹر بھی رہے، 2009 میں مدرسہ اسلامیہ محمود العلوم دملہ میں عربی زبان کے استاذ کی حیثیت سے بحال ہوئے۔ وہاں سے بھی ندائے محمود کے نام سے ایک رسالہ جاری کیا جو لوگوں میں کافی مقبول رہا۔ 2011 کے پہلے ٹی ای ٹی اور ایس ٹی ای ٹی امتحان میں مڈل، ہائی اسکول اور پلس ٹو تینوں کے لیے اعلیٰ نمبرات سے کامیابی حاصل کی، 2013 میں شری لیلا دھر ہائی اسکول بینی پٹی مدہوبنی میں اردو استاد کی حیثیت سے بحال ہوئے، 2014 میں ودیا پتی پلس ٹو ہائی اسکول بسفی میں سینئر سیکنڈری ٹیچر کی حیثیت سے تقرری ہوئی اور ابھی تک وہیں ہیں۔موصوف نے کہاکہ مولانا نور عالم خلیل امینی کی مشہور و معروف کتاب’’ وہ کوہ کن کی بات‘‘ اور’’ حرف شیریں ‘‘کے اسلوب نگارش سے وہ کافی متاثر تھے اس لیے انھوں نے پی ایچ ڈی کے عنوان کے لیے مولانا نور عالم خلیل امینی ہی کو منتخب کیا تاکہ سوانحی ادب میں ان کی قدروقیمت متعین کی جاسکے۔ مقالے کے نگراں پروفیسر محمد آفتاب اشرف نے ایک موقع پر کہا تھا کہا کہ مولانانور عالم خلیل امینی عالمی شہرت یافتہ ادیب تھے میری نگرانی میں اس پر مقالہ لکھاجانامیرے لئے بذات خود خوشی کی بات ہے۔ریسرچ اسکالر عمرفاروق نے تحقیق کا کام اچھی طرح کیا ہے۔ سابق صدر شعبہ پروفیسر ایس ایم رضوان اللہ نے مقالہ نگار کو مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر اس مقالے کو زیور طبع سے آراستہ کیا جائے تو اردو قارئین کے لیے ایک نئی چیز ہوگی ۔اس موقع سے مبارکباد دینے والوں میں ایل این ایم یو کے رجسٹرار ڈاکٹر مشتاق احمد ، ڈین آف ہیمونیٹز پروفیسر اے کے بچن موجودہ صدر شعبہ اردو پروفیسر سرور کریم، ڈاکٹر وصی احمد شمشاد، ڈاکٹرمطیع الرحمان، ڈاکٹر شکیل احمد قاسمی، محمد ابو ظفر، قاضی اعجاز احمد قاسمی، مولاناعبد السمیع سلفی، ڈاکٹر زیبا پروین، ڈاکٹر ناصرین ثریا، داکٹر ارشد سلفی، ڈکٹر ارشد کمالی، ڈاکٹر رضوان احمد، مولانا غفران ساجد ، جناب نوشاد عثمانی، مولانا ظفر صدیقی ، ریسرچ اسکالر حسان جاذب ، اصغر علی کے علاوہ مولانا صادق ظفر قاسمی جناب شوکت صاحب جناب عقیل احمد ڈاکٹر ولی اللہ شامل ہیں۔