آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نو منتخب صدر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب: ایک تعارف

شاہنواز بدر قاسمی

ڈائریکٹر، وژن انٹرنیشنل اسکول سہرسہ 

ملک کی سب سے باوقار مسلم تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نو منتخب صدر فقیہ العصر حضرت مولانا خالدسیف اللہ رحمانی عالمی سطح پر ایک ممتاز عالم دین کے طور پر جانے اور پہچانے جاتے ہیں،3جون 2023 کو اندور کے جامعہ اسلامیہ بنجاری میں منعقدہ بورڈ کے اٹھائیسویں اجلاس میں حضرت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی کے انتقال کے بعد اتفاق رائے سے پانچویں صدر کے طورپر مولانا رحمانی کا انتخاب عمل میں آیا۔

مولانا اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا اور المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کے روح رواں، دارالعلوم ندوۃ العلماء اور دالعلوم وقف دیوبند کے رکن شوری، سہ ماہی رسالہ بحث ونظر کے مدیر، ایک ماہر فقیہ، مقبول عالم دین، ماہر مدرس و مصنف اور ہر دلعزیز علمی شخصیت ہیں، اور تمام ہی طبقات میں پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ مولانا بورڈ کے پہلے ایسے صدر منتخب ہوئے ہیں جنہیں جنرل سکریٹری جیسے اہم عہدے پر بھی رہنے کا شرف حاصل ہے۔

پیدائش اور خاندانی پس منظر:

10جمادی الاولیٰ 1376ھ میں بہار کے ایک قصبہ جالے (ضلع دربھنگہ) کے معروف علمی گھرانہ میں آنکھیں کھولیں، تاریخی نام نور خورشید رکھا گیا جبکہ اصل نام خالد سیف اللہ طے پایا اور اسی نام سے معروف ہوئے۔ والد حکم زین العابدین علاقہ کے معروف لوگوں میں تھے، جبکہ دادا مولانا عبد الاحد صاحب دار العلوم دیوبند کے فاضل اور اس دور کے اہم علما میں تھے، وہ مدرسہ احمدیہ مدھوبنی کے شیخ الحدیث بھی رہے ہیں جبکہ چچا مشہور عالم اور دینی و ملی رہنما قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمہ اللہ تھے، فقہ اور قضا کے باب میں جن کا مقام بلند معروف رہا ہے۔

خالد سیف اللہ کا نانیہالی خاندان بہار کے مشہور بزرگ بشارت کریم گڑھلوی سے وابستہ تھا، اس خانوادہ کے مورث اعلیٰ ملا سید محمد علی ہیں جو’ ملا سیسو‘ کے نام سے مشہور تھے، انہوں نے سید احمد شہید کی تحریک جہاد میں شرکت کی اور معرکہ بالاکوٹ کے بعد بہار لوٹے۔

تعلیم وتربیت:

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب نے ابتدائی تعلیم اپنی دادی، والدہ اور پھوپھا جناب مولانا وجیہ الدین صاحب سے حاصل کی، فارسی اور عربی کی ابتدائی کتابیں اپنے والد سے پڑھیں، اس کے بعد مدرسہ قاسم العلوم حسینیہ دوگھرا (ضلع دربھنگہ) میں کسب فیض کیا، پھر یہاں سے جامعہ رحمانی مونگیر کا رخ کیا جو اس وقت بھارت کا معروف ادارہ اور تشنگان علم دین کا مرکز توجہ بنا ہوا تھا۔ انہوں نے یہاں متوسطات سے دورۂ حدیث تک کی تعلیم حاصل کی، یہاں امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید محمد منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ سے خصوصی استفادہ کیا، ان کے علاوہ وہاں کے دیگر اساطین علم و اصحاب فضل اساتذہ سے بھی استفادہ کیا۔

حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب کے اساتذہ میں حضرت مولانا سید شمس الحق صاحب، مولانا اکرام علی صاحب، مولانا حسیب الرحمن صاحب، مولانا علاء الدین ندوی قاسمی صاحب اور مولانا فضل الرحمن رحمانی صاحب اور امیر شریعت سابع مولانا محمد ولی رحمانی رحمتہ اللہ علیہ وغیرہ شامل ہیں۔

دار العلوم دیوبند سے فراغت:

مونگیر میں دورہ مکمل کرنے کے بعد دار العلوم دیوبند کا رخ کیا اور وہاں دورہ حدیث مکمل کیا۔ اس دوران میں جن اساتذہ سے اکتساب فیض کیا ان میں حضرت مولانا شریف حسین دیوبندی، حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی، حضرت مولانا محمد حسین بہاری،حضرت مولانا معراج الحق، حضرت مولانا سید انظر شاہ کشمیری، حضرت مولانا نظام الدین اعظمی اور حضرت مولانا محمد سالم قاسمی سرفہرست ہیں۔ دار العلوم دیوبند سے فراغت کے بعد مولانا خالد سیف اللہ امارت شرعیہ پٹنہ آ گئے اور وہیں افتا وقضا کی تربیت حاصل کی۔

تدریسی زندگی:

1397ھ میں حضرت مولانا محمد حمید الدین حسامی عاقل کی دعوت پر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دار العلوم حیدرآباد پہنچے اور ایک سال تک وہاں تدریسی خدمت انجام دی۔ اس وقت قدوری، شرح تہذیب، رحمت عالم اور شرح ماۃ عامل وغیرہ کتابیں پڑھائیں۔ اس کے بعد 1398ھ میں دارالعلوم سبیل السلام منتقل ہوئے، یہاں بحیثیت صدر مدرس تدریسی اور انتظامی امور میں مصروف ہوئے اور بائیس برس اسی مدرسے میں خدمات انجام دیں۔ اس دوران رحمت عالم سے بخاری شریف تک کا درس دیا۔ نیز حضرت مولانا کی شبانہ روز کوششوں سے مدرسہ سبیل السلام کو بڑی شہرت اور ترقی حاصل ہوئی، طلبہ کثرت سے اس کی طرف رجوع کرنے لگے، تدریس کے ساتھ مدرسے کی تعمیر و ترقی میں بھی اہم کردار ادا کیا اور ہمیشہ وہاں کے ذمہ دار حضرت مولانا محمد رضوان القاسمی کا دست و بازو بن کر کام کرتے رہے، ان کوششوں کے نتیجہ میں مدرسہ چند کمروں سے نکل کر ایک وسیع اور کشادہ دار العلوم میں تبدیل ہو گیا۔ جہاں عربی کے چند طلبہ تھے وہاں دورہ حدیث کے علاوہ اختصاص کے شعبے قائم ہوئے۔

المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد کا قیام:

اس طویل تدریسی سفر میں مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے محسوس کیا کہ مدارس میں طلبہ کی کثرت کی وجہ سے افراد سازی پر توجہ پوری طرح نہیں ہو پا رہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے فراغت کے بعد چند باصلاحیت طلبہ کی کسی خاص فن میں تربیت دینے کا خاکہ بنایا، چنانچہ مدرسہ سبیل السلام میں اختصاص فقہ کے شعبے ان کی توجہ کا مرکز رہے اور اس شعبے نے کم وقت میں بڑی شہرت پائی، مگر بعض اسباب کی بنا پر وہ اپنے خاکہ میں پوری طرح رنگ نہیں بھر سکے۔ چناں چہ اسی مقصد کے لیے حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے باضابطہ ایک مستقل ادارہ قائم کرنے کا پروگرام بنایا۔ اور 1420ھ میں ادارہ المعہد العالی الاسلامی کے نام سے وجود میں آیا جو افراد سازی اور طلبہ میں علمی ذوق پیدا کرنے کے سلسلہ میں پورے ملک میں خاص مقام حاصل کر چکا ہے۔ ان کے اس اقدام کی بڑی ستائش ہوئی اور اکابر علما نے اسے وقت کی ضرورت قرار دیا۔

 علمی خدمات:

قرآنیات کے موضوع پر حضرت مولانا خالد سیف اللہ کی پہلی کتاب “قرآن ایک الہامی کتاب” ہے۔ چند سال قبل ہندو تنظیم کے بعض ذمہ داروں کی طرف سے قرآن کی بعض آیات پر اعتراضات سامنے آئے۔ انہوں نے فوراً ان اعتراضات کا علمی جائزہ لیا اور ان کا تسلی بخش جواب دیا۔ یہ تحریر “24 آیتیں” کے نام سے شائع ہوئی ہے۔ فقہ القرآن کے موضوع پر بھی ان کے متعدد مقالات ہیں جو ابھی تشنہ طباعت ہیں، قرآن کا ترجمہ و مختصر تشریح پر بھی انہوں نے کام کیا ہے جو مکمل ہوا، اس کا اڈیشن بھی شائع ہوگیا۔

حدیث کے موضوع پر بھی متعدد کتابیں ہیں۔ مدارس کے طلبہ کے لیے “آسان اصول حدیث” تحریر کی جو متعدد مدارس کے نصاب میں شامل ہے۔ آثار السنن کا تکملہ ابھی غیر مطبوع ہے، جبکہ علوم حدیث کے موضوع پر متعدد مقالات اور تحریریں کسی مجموعہ میں شامل ہونے کی منتظر ہیں۔ ایک طویل عرصہ تک حدیث کی مشہور کتابیں صحیح بخاری اور سنن ترمذی کا درس بھی دیا ہے چنانچہ ان دونوں نسخوں پر اپنے حواشی اور تعلیقات بھی تحریر کیے۔

فقہ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا خاص موضوع ہے اور ان کی تصنیفی زندگی کا آغاز بھی اسی موضوع سے ہوا۔ 1976ء میں جب جامعہ رحمانی مونگیر میں زیر تعلیم تھے کہ حکومت کی طرف سے چلائی جانے والی جبری نسبندی تحریک کے تناظر میں ادارہ المباحث الفقہیہ کی جانب سے ایک مفصل سوالنامہ حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی رحمہ اللہ کو موصول ہوا، انہوں نے مولانا خالد سیف اللہ کو اس سوالنامہ کا جواب لکھنے کی ذمہ داری دی۔ یہی جواب بعد میں “فیملی پلانگ اور اسلام” کے نام سے دار التصنیف ہاپوڑ سے شائع ہوا اور اب جدید فقہی مسائل جلد سوم کا حصہ ہے۔ جدید فقہی مسائل کو انہوں نے اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور متعدد تحقیقات پیش کیں۔ فقہ کے موضوع پر لکھی جانے والی تحریروں میں ائمہ اربعہ کے علاوہ صحابہ و تابعین اور محدثین کی آراء سے استفادہ، ائمہ کی آرا کے درمیان تطبیق و ترجیح، مقاصد شریعت کی رعایت، مسائل کے حل میں عرف و زمانہ سے آگہی، دلائل کی بنیاد پر دوسرے امام کی رائے پر فتوی، اسی طرح ضرورت پڑنے پرخود ائمہ احناف کے مفتی بہ قول کے علاوہ دوسرے قول پر فتوی اور مسائل کی تحقیق میں اجتہادی شان، یہ وہ امتیازی پہلو ہیں جو دوسرے مصنفین سے آپ کو ممتاز کرتی ہیں۔

 جدید مسائل کیسے حل کیے جائیں؟

اس سلسلہ میں مولانا نے مسائل کی تبدیلی کے اسباب اور حل کے رہنما اصول سے متعلق تفصیلی تحریر جدید فقہی مسائل کے شروع میں بطور مقدمہ شامل کیا ہے، اس کے علاوہ اجتہاد، تقلید، تلفیق، دیگر دبستان فقہ استفادہ، اجتماعی اجتہاد، جیسے موضوعات پر آپ کے تحقیقی مقالات ہیں جس میں آپ کی فکر پوری طرح واضح ہو کر سامنے آتی ہے، اس طرح آپ نے جدید مسائل کے حل کے لیے رہنما اصول بھی بتائے اور پھر عملی طور پر اسے برت کر دکھایا-

فقہ کے موضوع پر مولانا کے قلم سے بڑا علمی سرمایہ تیار ہو گیا ہے، آپ کی کتاب جدید فقہی مسائل کو جو پذیرائی ملی وہ کم کتابوں کو ملی ہوگی، یہ پہلے دو جلدوں میں شائع ہوئی تھی، جس میں ہر باب سے متعلق جدید مسائل کا بیان تھا، اب یہ پانچ جلدوں میں شائع ہو رہی ہیں، اخیر کی تین جلدیں آپ کے فقہی مقالات پر مشتمل ہیں، جو موضوعی ترتیب :عبادات کے مسائل، معاشرتی مسائل اور معاشی مسائل کے عنوان سے ہیں، اس کتاب کا ترجمہ و تلخیص عربی میں نوازل فقہیۃ معاصرۃ کے نام سے شائع ہو چکی ہے_

کتاب الفتادی چھ جلدوں پر مشتمل آپ کے فتاوی کا مجموعہ ہے جو روزنامہ منصف اور دوسرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوتے تھے، اس کی مزید کئی جلدیں زیر ترتیب ہیں، اس میں جدید مسائل کثرت سے آئے ہیں، اخبار کے قارئین کے لحاظ سے مسائل میں مصالح کا پہلو، آسان زبان، سہل اسلوب جواب کے ساتھ نصیحت اور تذکیر، یہ اس کتاب کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

 قاموس الفقہ آپ کی بلا مبالغہ ایک شاہکار تصنیف ہے، یہ اسلامی علوم کا ایک عظیم الشان انسا ئیکلوپیڈیا ہے، جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے شرعی مسائل کے علاوہ فقہی اصطلاحات، ایمان و کفر سے متعلق اہم مسائل اور مستشرقین کے تختہ مشق بنائے موضوعات مثلا پردہ، جہاد وغیرہ کی وضاحت کی گئی ہے، کتاب پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے، ہر جلد پر ہندوستان کے مشاہیر اہل علم میں سے کسی ایک کا مقدمہ ہے، ان حضرات نے مذکورہ کاوش کو جس طرح سراہا ہے اور جن تاثرات کا اظہار کیا ہے اس سے کتاب کی قدر ومنزلت کا اندازہ ہوتا ہے۔ کئی سال قبل جب اس کتاب کی پہلی جلد اشاعت پذیر ہوئی تو اس کے مقدمہ میں حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندویؒ نے تحریر فرمایا تھا: یہ کتاب مکمل ہونے کے بعد انشاء اللہ بڑی مفید اور اپنے موضوع پر منفرد ہوگی، جس میں مصنف کی وسعت مطالعہ، دقت نظر، مسائل حاضرہ سے واقفیت اور ان کے حل کی مخلصانہ فکر اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کا جذبہ نمایاں ہے۔

تصانیف:

(1) قرآن ایک الہامی کتاب

(2) 24 آیتیں

(3) فقہ القرآن

(4) ترجمہ قرآن مع مختصر توضیحات

(5) آسان اصول حدیث

(6) علم اصول حدیث

(7) قاموس الفقہ

(8) جدید فقہی مسائل

(9) عبادات اور جدید مسائل

(10) اسلام اور جدید معاشرتی مسائل

(11) اسلام اور جدید معاشی مسائل

(12) اسلام اور جدید میڈیکل مسائل

(13) آسان اصول فقہ

(14) کتاب الفتاویٰ (چھ جلدوں میں)

(15) طلاق و تفریق

(16) اسلام کے اصول قانون

(17) مسلمانوں وغیر مسلموں کے تعلقات

(18) حلال وحرام

(19) اسلام کے نظام عشر وزکوٰۃ

(20) نئے مسائل

(21) مختصر سیرت ابن ہشام

(22)خطبات بنگلور

(23) نقوش نبوی

(24) نقوش موعظت

(25) عصر حاضر کے سماجی مسائل

(26) دینی وعصری تعلیم

(27) مسائل وحل

(28) راہ اعتدال

(29) مسلم پرسنل لا ایک نظر میں

(30) عورت اسلام کے سایہ میں

امتیازی خصوصیات:

مولانا جہاں ایک عظیم علمی شخصیت کے مالک ہیں وہیں آپ کی زندگی میں متعدد ایسے اوصاف وخصوصیات ملتے ہیں جن کی وجہ سے آپ کا قد اپنے ہم عصروں کے درمیان ممتاز اور نمایاں نظر آتا ہے، آپ کی شخصیت کا سب سے امتیازی پہلو فکری اعتدال ہے، یہ اعتدال و توازن آپ کے فکر و عمل میں پوری طرح رچا بسا نظر آتا ہے، فقہی تحریروں میں اسلاف کے علمی سرمایہ، فقہا کے اختلافات، محدثین کی آراء، صاحب تحریر کی تحقیق اور زمانہ کے تقاضوں کی رعایت ان سب سے بیک وقت وابستہ پڑتا ہے، ایسے موقع حسب مراتب ومدارج احکام و آراء کو مناسب حیثیت دینا، قلم کو اعتدال کے دائرے میں رکھنا اور انصاف کے دامن کو تھامے ہوئے تطبیق و ترجیح کا فیصلہ کرنا بڑا نازک اور جانگسل کام ہوتا ہے، بلاشبہ مولانا اس وادی سے کامیاب گذرے ہیں، آپ کی تحریریں اس باب میں نمونہ اور مثال کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مولانا حنفی دبستان فقہ سے تعلق رکھتے ہیں، لہذا عام مسائل میں آپ فقہ حنفی کے پابند ہوتے ہیں اور اسی کے مطابق فتوی دیتے ہیں، مقاصد شریعت اور مصالح شریعت پر نظر رہتی ہے، فقہا کے اصول بھی اور زمانہ کے تقاضے بھی پیش نظر ہوتے ہیں، ان ساری چیزوں کو سامنے رکھ دلائل کی قوت اور دیگر چیزوں کی رعایت کے ساتھ کسی حکم تک پہنچتے ہیں۔ مسائل کے حل کے عمل میں مولانا کی حیثیت ایک بالغ نظر محقق کی ہوتی ہے، جو فن پر حاوی ہے اور اس فن کے بنیادی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اعتدال اور توازن کے ساتھ کوئی رائے پیش کرتا ہے۔ مولانا کا دوسرا امتیازی وصف علم و عمل میں تنوع ہے، مولانا کا اصل موضوع فقہ اور بالخصوص جدید مسائل ہے، مگر جیسا کہ پیچھے گذرا مولانا قرآنیات، حدیث، فقہ و اصول فقہ، عربی زبان، مقاصد شریعت اور ان سب سے متعلق ذیلی فنون پر نہ صرف گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے اکثر موضوعات پر آپ کی علمی نگار شات بھی ہے جو مختلف علوم سے واقفیت پر شاہد عدل ہیں۔ علم کی طرح عملی زندگی بھی متنوع ہے، تدریس آپ کا سب سے محبوب مشغلہ رہا ہے اور حیات مستعار کے زیادہ تر لمحات اسی میں صرف ہوئے، تدریس کے ساتھ انتظامی امور کو سنبھا لنا اور دونوں ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونا عموما مشکل ہوتا ہے۔ مولانا کے ساتھ یہ مسائل شروع سے متعلق رہے اور آپ دونوں ذ مہ داریوں کو بحسن و خوبی نبھاتے رہے، ان کے علاوہ مولانا غیر مسلموں میں دعوتی کام کا بڑا جذبہ رکھتے ہیں، آپ نے المعہد العالی میں اس کا مستقل شعبہ قائم کیا، جہاں دعوتی کیمپ بھی لگواتے ہیں اور طلبہ عملی طور پر بھی اس کام کی مشق کرتے رہے، آپ ان سارے کاموں کی نگرانی فرماتے ہیں اسی کی ساتھ حیدرآباد شہر کا دعوتی مرکز ’دی ٹرو میسیج سنٹر ‘ آپ کی نگرانی میں ہی اپنی سرگرمیاں انجام دیتا ہے، علمی و دعوتی اسفار، متعدد مدارس کی نگرانی، تنظیموں اور اداروں سے وابستگی اور ملی کاموں میں شرکت آپ کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔ تیسرا اہم امتیازی پہلو افراد سازی کا ملکہ ہے، اللہ تعالی نے افراد کی تربیت اور فضلا مدارس میں علمی ذوق وشوق پیدا کرنے کی خاص صلاحیت آپ میں رکھی ہے، آپ کی اس خصوصی صلاحیت کا اعتراف اکابر علما نے کیا ہے، مولانا اپنے چھوٹوں سے بڑی محبت کرتے ہیں، طلبہ پر ایسی شفقت فرماتے کہ ہر طالب علم یہ سمجھتا ہے کہ مولانا مجھے زیادہ چاہتے ہیں، مولانا انہیں اپنے فرزندوں کی طرح اور بسااوقات اس سے بڑھ کر چاہتے ہیں، چھوٹے کام پر بھی اس قدر خوشی کا اظہار کرتے اور ایسی حوصلہ افزائی کرتے کہ بڑے سے بڑے کام کا جذبہ اس کے اندر پیدا ہو جاتا ہے، کسی سے تھوڑا بھی علمی تعاون لیں تو مقدمہ میں ان کا ذکر ضرور کرتے ہیں، طلبہ کے مقالات کی نظر ثانی کے وقت نہ صرف سطر سطر پڑھ کر اس کی ہر اعتبار سے اصلاح کرتے ہیں بلکہ ضرورت پڑنے پر اپنی طرف کئی پیراگراف لکھ بھی دیتے ہیں۔ علمی کاموں سے مولانا بے حد خوش ہوتے ہیں اور کھل کر اس کی پزیرائی کرتے ہیں، کام اس درجہ کا ہو یا نہ ہو، مگر مولانا اس طرح تاثر کا اظہار کرتے ہیں گویا کوئی بڑا کام کیا ہے، مولانا کا ایک امتیازی پہلو آپ کا اسلوب نگارش بھی ہے، علمی مواد کے ساتھ زبان وبیان کی چاشنی بھی ہو تو تحریریں میں شتابہ لگ جاتا ہے، مولانا کی تحریروں کا یہی حال ہے، مولانا کی کتابوں کی مقبولیت میں اس کا بھی بڑا دخل ہے، فقہ کی کتابیں عمومًا خشک شمار کی جاتی ہیں، مگر مولانا کی فقہی تحریروں میں ایسی سلاست، روانی اورشستگی نظر آتی ہے جو آپ کے ادبی ذوق حصہ ہے۔

اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا:

اسلامک فقہ اکیڈمی عصر حاضر میں پیش آنے والے نئے مسائل کو علماء اور ماہرین کے اجتماعی غور و فکر کے ذریعہ حل کرنے کا ایک معروف تحقیقی و علمی ادارہ ہے، جس کی بنیاد 1989ء میں ملک کے باوقار عالم دین، فقیہ زماں اور قاضی القضاۃ حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے اپنے بزرگوں کے مشورہ سے رکھی۔ یہ وسط ایشیا کا مشہور تحقیقی ادارہ ہے جس کے ارکان ملک کے معروف علماء، ارباب فقہ اور اہل علم و دانش ہیں، حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی فقہ اکیڈمی کے روح رواں اور جنرل سکریٹری ہیں۔

یہ ادارہ ملک و بیرون ملک کے علماء و فضلاء، ارباب افتاء و قضاء، اور اہل علم و دانش کے زیر سایہ 32 سالوں سے سرگرم سفر ہے اور نئی معاشرتی تبدیلیوں اور سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی سے پیدا شدہ نئے مسائل کو حل کرنے کے لیے کوشاں ہے، اکیڈمی نے متنوع موضوعات مثلاً، اصولی، عباداتی، سماجی، معاشی، طبی اور جدید ذرائع ابلاغ سے متعلق مسائل کو حل کرکے امت کی شرعی و دینی رہنمائی کی ہے۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com