سیما جیسی لڑکیاں اسلام کیوں چھوڑتی ہیں؟

بچوں کو مستقبل کی ہلاکت سے بچانےکے لیئے اسلامی خطوط پر منصوبہ بندی ضروری ہے!

مدثر احمد قاسمی

آج ہم میں سے بہت سارے لوگوں کا یہ رونا ہے کہ بچے ہاتھ سے نکل گئے، بات نہیں مان رہے ہیں اور جو طبیعت میں آرہی ہے وہ کر رہے ہیں۔ایسے بچوں کی اصل کہانی یہ ہوتی ہے کہ دینی اعتبار سے صحیح خطوط پر ان کی تعلیم و تربیت نہیں ہوپاتی ہے اور ان پر بڑوں کی نگرانی نہیں رہتی ہے۔ نتیجتا یہ ان راستوں پر چلنے لگتے ہیں جو معاشرے کے غلط افراد کی پہچان ہوتی ہے۔صورت اسوقت مزید بگڑ جاتی ہے جب یہ بچے غیروں کے رسم و رواج میں دلچسپی لینے لگتے ہیں اور ان کے دل سے یہ احساس جاتا رہتا ہے کہ وہ غیر اسلامی عمل میں ملوث ہورہے ہیں۔اس طرح کے بچوں ہی میں سے کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بعد میں چل کراسلام کو چھوڑ کر غیر مذہب میں شادی کر لیتے ہیں کیونکہ اسلام سے ان کا رشتہ محض رسمی ہوتا ہے اور انہیں اسلام سے بطور مذہب محبت نہیں ہوتی ہے۔

اسی پس منظر میں سرحد پار سے آنے والی سیما غلام حیدر کی کہانی کو دیکھا جاسکتا ہے۔سیما غلام حیدر پاکستان کے شہر کراچی کی رہائشی ہیں۔ 2019 میں وہ پب جی گیم کھیلتے ہوئے گریٹر نوئیڈا کے ربوپورہ علاقے کے رہنے والے سچن سے آن لائن ملاقات ہوئی۔ رفتہ رفتہ یہ شناسائی محبت میں بدل گئی۔ مارچ 2023 میں سچن اور سیما نیپال کے ایک ہوٹل میں ملے اور سات دن تک ساتھ رہے۔ وہاں رہتے ہوئے انہوں نے نیپال کے پشوپتی ناتھ مندر میں شادی کی۔ 13 مئی کو پاکستان سے سیما اپنے چار بچوں کے ساتھ غیر قانونی طور پر بھارت میں داخل ہوئی اور گریٹر نوئیڈا کے ربوپورہ علاقہ پہنچی۔اب انہوں نے چاروں بچوں کو بھی ہندو نام دے دیا ہے۔حقیقت حال کا جائزہ لیں گے تو اس کہانی کی اصل بنیاد یہ پائیں گے کہ سیما کی صحیح دینی تعلیم و تربیت نہیں ہوئی اور وہ نگرانی سے بھی محروم رہی۔

مذکورہ صورت حال کے منصفانہ تجزیے سے ہم اس نتیجے پر پہونچتے ہیں کہ ہم میں سے بہت سارے لوگ اپنے بچوں کے لیئے مناسب دینی تعلیم و تربیت اور نگہداشت کے لیئے منصوبہ بندی نہیں کرتے ہیں جبکہ ایک مذہب بیدارمتوازن اور بہتر زندگی گزارنے کے لیئے منصوبہ بندی اور پلاننگ ضروری ہے؛کیونکہ اس کے بغیر صحیح رخ پر مسلسل آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہمارے بچوں کی زندگی منصوبہ بندی کے بغیر چل رہی ہے تو وہ اس غیر مفید خود رو پودے کی طرح ہیں جس کا کوئی مستقبل نہیں ہوتا۔

اس حقیقت سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بچوں کی نفع بخش زندگی اور دین سے لگاؤکے لیئے منصوبہ بندی ضروری ہے۔ لہذا ہم اپنے بچوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیئے پلاننگ اور منصوبہ بندی شریعت کی روح کو سامنے رکھتے ہوئے ضرور کریں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ بچوں کے تعلق سےمنصوبہ بندی کے حوالے سے جب ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو یہ حیرت انگیز منظر ہمارے سامنے آتا ہے کہ ہم میں سےایک طبقہ تو ایسا ہے کہ ان کے بچوں کی زندگی بغیر منصوبے کے ہی چل رہی ہے، بس حالات انہیں جس رخ پر ڈال دے اسی رخ پر وہ چلنے لگتے ہیں اور اس سفر میں وہ کبھی بھی طوفان کے حوالے ہوجاتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے حوالے سے ایک دوسرا طبقہ ایسا ہے کہ وہ بچوں کے لیئےمنصوبہ بندی تو کرتا ہے لیکن یہ منصوبہ بندی خود ساختہ غیر شرعی اصولوں پر ہوتی ہے اور اس طرح خدا کے بجائے انسانی طریقوں کو اس منصوبہ بندی میں کامیابی کا معیار اور بنیاد مان لیا جاتا ہے۔ جبکہ ایک مسلمان کو اس بات کا علم ہونا چاہیئے کہ اسلام ایک مکمل دین ہے اور اس میں قیامت تک آنے والے ہر زمانے کے لیئے رہنمائی موجود ہے؛ چاہے دنیا ترقی کی کسی بھی منزل پر پہونچ جائے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ” آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور تمہارے لئے دین کی حیثیت سے اسلام کو پسند کیا۔” (المائدہ:3)

 ہمیں منصوبہ بندی کرتے وقت کسی غیر اسلامی قدم اٹھانے سے پہلے اس آیت کریمہ کو ضرور اپنے سامنے رکھنا چاہئیے: ” اورجو اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہو تو اس سے وہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں بھی نقصان اُٹھانے والوں میں سے ہوگا۔” (آل عمران: 85)

 منصوبہ بندی کے حوالے سے کچھ لوگوں کا یہ کہنا کہ فائدہ جہاں بھی ملے وہاں سے حاصل کر لینا چاہیئے یا کامیابی کا راستہ جہاں بھی نظر آئے اس کو اپنا لینا چاہیئے؛ مکمل طور پر درست نہیں ہے کیونکہ ایک مسلمان کے لیئے یہ ضروری ہے کہ وہ کسی بھی فائدے یا کامیابی کو اسلامی تعلیمات کے آئینے میں دیکھے اگر وہ اسلامی تعلیمات سے متصادم ہیں تو کسی بھی صورت میں اس کو قبول نہ کرے کیونکہ اگر وہ قبول کرتا ہے تو آیت مذکورہ کی روشنی میں وہ اللہ کے دربار میں رد ہوجائے گا اور اس رد کا مطلب ہمیشہ ہمیش کی ناکامی ہے۔

زیر بحث موضوع سے اب تک یہ بات ثابت ہوگئی کہ بچوں کی کامیاب زندگی کے لیئے منصوبہ بندی ضروری ہے اوریہ کہ وہ منصوبہ بندی اسلامی تعلیمات کے آئینے میں ہو۔ اب ہمیں ذہن میں ایک بات یہ ضرور رکھنی چاہیئے کہ ہم جو بھی منصوبہ بندی کریں، اس کا مقصد ہمیشہ آخرت کی کامیابی ہو؛ کیونکہ خالص دنیا کی کامیابی کا بامقصد زندگی میں کوئی معنی نہیں ہے۔اس کا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ کاروبار جہاں سنوارنے کے لیئے جو کام یا مشغلے اپنائے جاتے ہیں ان سے روکا جارہا ہے، بلکہ یہ بات کہی جارہی ہے کہ ہر کام رضائے الٰہی کے لیئے انجام دیا جائے۔ اس طرح تمام امور دین کا حصہ بن جائیں گے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو قرآنی اصطلاح کے مطا بق ہم لہو لعب اوردھوکے کی چیزوں میں مشغول ہونے والے شمار ہوں گے۔جیسا کی ارشاد باری تعالیٰ ہے:”جان لوکہ دنیا کی زندگی تو کھیل تماشہ ، ظاہری ٹیپ ٹاپ ، ایک دوسرے پر فخر اور مال و اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش ہے ، ( اس کی مثال ایسی ہی ہے ) جیسے بارش ؛ کہ اس سے اُگنے والی کھیتی کاشتکاروں کو بھلی لگتی ہے ، پھر وہ سوکھ جاتی ہے ، پھر تم اس کو دیکھتے ہو کہ زرد ہوگئی ، پھر وہ چورا چورا ہوجاتی ہے ، اور آخرت میں سخت عذاب اور اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے ، اور دنیا کی زندگی تو صرف دھوکہ کا سامان ہے.” (الحدید:20)

اس آیت کریمہ میں کھیتی کی جو تمثیل پیش کی گئی ہے وہ ہماری آنکھیں کھولنے کے لیئے کافی ہیں کہ جس طرح ہری بھری کھیتی کو سوکھنے اور بھوسا بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی بالکل اسی طرح اسلامی روح کے منافی منصوبہ بندی سے حاصل ہونے والی کامیابی کو ناکامی میں بدلنے میں دیر نہیں لگتی۔لہذا ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیئے کہ ہمارے بچے زندگی منصوبہ کے مطابق گزاریں اور وہ منصوبہ اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہو۔

(مضمون نگار ایسٹرن کریسنٹ کے اسسٹنٹ ایڈیٹر، روزنامہ انقلاب کے ڈیلی کالم نگار، ایم ایم ای آر سی ممبئی کے ڈیل کورس کے نیشنل کو آرڈینیٹر اور الغزالی انٹر نیشنل اسکول، ارریہ کے ڈائریکٹر ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com