سیف الرحمٰن
عظیم اتحاد کا فارمولہ 2015 کے بہار اسمبلی انتخاب میں کامیاب ہونے کے بعد سے ہی شروع ہو گئی تھی، قومی سطح پر عظیم اتحاد کی بات کر کے بھارتیہ جنتا پارٹی کی ہوا کو روکنے کی کوشش شروع ہوگئی تھی اور اس کے لئے لالو پرساد یادو و نتیش کمار نے اس وقت بھی کوشش کی تھی، پھر آندھرا پردیش کے اُس وقت کے وزیر اعلیٰ چندرابابو نائیڈو نے اس کی کمان سنبھالی اور ملک بھر میں ملاقاتوں کا ایک سلسلہ اُنکی طرف سے شروع ہوا, اسی بیچ 2018 کے کرناٹک اسمبلی انتخاب کے بعد کانگریس و جنتا دل سیکولر کی متحدہ حکومت بنی جس کی حلف برداری کی تقریب میں ملک بھر کے حزب اختلاف کی جماعتیں جمع ہوئی تھی تب ایک امید بندھی کہ اب مضبوط اپوزیشن اتحاد 2019 کے لوک سبھا میں وزیرِ اعظم نریندر مودی کے سامنے ہوگا لیکِن ایسا ہو نہیں سکا اور پورے ملک میں حزب اختلاف کی جماعتیں ایک دوسرے سے ہی مقابلہ آراء نظر آئیں جس میں ایسا لگتا تھا کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی فتح کو سب نے دل سے مان لیا ہے اور لڑائی بس یہ ہے کہ ہم ہارنے والوں میں کس کا ووٹ زیادہ ہو یعنی نمبر دو کی لڑائی لڑی جا رہی تھی، جس کا رزلٹ حسب توقع سامنے آیا ، لیکِن اب جب کہ 2024 کا لوک سبھا انتخاب سر پر ہے تو ایک مرتبہ پھر بہار میں نتیش کمار کے بھاجپا کا ساتھ چھوڑ کر لالو پرساد یادو کی راجد کے ساتھ حکومت بنانے کے بعد سے شروع ہوئی اپوزیشن اتحاد کی کوشش اب باقاعدہ ایک شکل اختیار کر چکی ہے جس میں اب تک 26 سیاسی جماعتوں نے اتحاد میں شامل ہو کر اسے “انڈیا” نام دے کر یہ اشارہ کر دیا ہے کہ آنے والے لوک سبھا میں ہندوستان بنام نریندر مودی کی لڑائی کا ماحول بنایا جائےگا جسمیں منہگائی،بے روزگاری،صحت و تعلیم کے مسائل اور ملک کے جمہوری نظام کی بقا کا مسئلہ زیر بحث لایا جائیگا ، ابتدا میں اپوزیشن کے اس اتحاد کو نا ممکن سمجھا جا رہا تھا لیکِن پٹنہ کے بعد بنگلور کی دوسری کامیاب میٹنگ کے بعد متحدہ سیاسی جماعتیں پُر اعتماد و پُر جوش نظر آرہی ہیں ، جس سے کہ بھاجپا کے خیمے میں ہلچل اور بےچینی سی پیدا ہو گئی ہے وہ بھارتیہ جنتا پارٹی جس نے این. ڈی. اے کو تقریبا ختم کر دیا تھا اور خبروں کے مطابق لوجپا(رام ولاس) سمیت اپنے کئی اتحادی جماعتوں کو بھاجپا میں انضمام کا آفر بھی دے دیا تھا، یہاں تک کہ اس کے قومی صدر نے چھوٹی و علاقائی جماعتوں کو ختم کر دینے کا اشارہ بھی پٹنہ کے ایک اجلاس میں دیا تھا ،وہ ہی بھاجپا اب مانجھی کی ہم و راج بھر کی سبھاسپا جیسی چھوٹی چھوٹی یہاں تک کہ اوپندر کشواہا کی نومولود پارٹی کو لےکر 38 سياسی جماعتوں کے ساتھ این.ڈی.اے کی میٹنگ منعقد کر کے ایک نئی سوشل انجنیرنگ کے ساتھ حکومت میں واپسی کی کوشش شروع کردی ہے ،لیکن اُنکی اس کوشش نے صاف ظاہر کر دیا ہے کہ اپوزیشن اتحاد بنام “انڈیا” نے اس بھارتیہ جنتا پارٹی کو خوف زدہ کر دیا ہے جسے ناقابل تسخیر دکھانے کی کوشش میڈیا کر رہا تھا ، اور یہ خوف اس لیے ہے کہ آج ہندوستان کی عوام بنیادی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے جسمیں ایک وہ طبقہ ہے جس نے لا علمی کی بنیاد پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے اُس ہندو راشٹر کے نظریہ کو اپنا لیا ہے جو کہ حقیقت میں ایک برہمن راشٹر کا مشن ہے تو وہیں دوسرا طبقہ وہ ہے جو کہ اپنے اپنے مذہب و نظریات سے لگاؤ تو رکھتا ہے لیکِن ساتھ ہی ریاستِ و مذہب کو الگ الگ دیکھنے کا قائل ہے یعنی کہ ہندوستانی نظریہ جمہوریت کو مانتا ہے اور اس نظریہ کو ماننے والوں کی تعداد آج بھی 70 فیصد سے زیادہ ہے لیکن اُن کے ووٹ کے بکھراؤ کی وجہ سے بھارتیہ جنتا پارٹی مرکز و صوبوں میں کامیاب ہو جایا کرتی ہے،لہٰذا اب جب کہ تمل ناڈو سے لیکر بنگال تک کے صوبوں کی علاقائی و قومی سطح کی سبھی اہم سیاسی جماعتیں(کانگریس, لیفٹ پارٹیاں, ترنمول کانگریس،عام آدمی پارٹی،نیشنلسٹ کانگریس پارٹی،شیو سینا،راجد،جدیو،سپا،راشٹریہ لوک دل،انڈین یونین مسلم لیگ،اے.آئی.ڈی.ایم.کے،جے.ایم.ایم وغیرہ)و ہندوستانی سیاست کے تمام بڑے کھلاڑی ( لالو یادو شرد پوار، سونیا گاندھی، نتیش کمار، ممتا بنرجی،ایم.کے.اسٹالن،اروند کجریوال, سیتارام یچوری،ڈی.راجا وغیرہ) ایک ساتھ نہ صرف جمع ہوۓ ہیں بلکہ قلبی طور پر ایک دوسرے کو گلے لگا لیا ہے، تو ایسے میں اُس جماعت کا فکر مند ہونا فطری ہے جو بظاہر ناقابل تسخیر ہے لیکِن حقیقت میں صرف 30 فیصد ووٹ کی مالک ہے اور “تقسیم کرکے راج کرو” کی پالیسی کے علاوہ اُن کے پاس کوئی مضبوط پالیسی عوام کےلئے موجود نہیں ہے! اس کے باوجود ضرورت ہے کہ خوش فہمی میں نہ جاکر اس “انڈیا” اتحاد کو مکمل اپوزیشن اتحاد اور ایک مضبوط اتحاد بنایا جائے کیونکہ ابھی بھی اس “انڈیا” نامی اتحاد کو مزید مضبوط کرنے پہ کام کرنے کی ضرورت ہے جس پہ توجہ دینا چاہئے، انڈیا کو سمجھنا ہوگا کہ 2018 میں کرناٹک میں کانگریس و جنتا دل سیکولر کی حکومت بنی تھی پھر بھی 2019 میں وہاں بھاجپا نے تقریبا کلین سویپ کر لیا تھا جس میں 27 میں سے کانگریس و جنتا دل سیکولر کو بس ایک ایک سیٹیں حاصل ہو سکی تھی لہذا اس سے صاف ہے کہ صوبائی انتخاب و پارلیمانی انتخاب میں عوام کا رجحان الگ الگ ہوتا ہے جیسا کہ راجستھان اور مدهیہ پردیش وغیرہ میں بھی نظر آیا تھا کہ 2018 کے اسمبلی اِنتخاب میں کانگریس اکثریت سے جیتی لیکِن لوک سبھا انتخاب میں وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی نے ریکارڈ جیت حاصل کیا کہ راجستان میں کانگریس زیرو پر آؤٹ ہوئی اور آر.ایل.پی کو ایک سیٹ حاصل ہوا تو وہیں مدھیہ پردیش میں بھی کانگریس زیرو پر ره گئی تھی،لہٰذا کرناٹک جیت کی عینک سے آنے والے لوک سبھا الیکشن کو نہ دیکھتے ہوئے اس حقیقت کو قبولِ کرتے ہوئے پالیسی بنائی جانی چاہیے جس کے تحت کرناٹک میں جنتا دل سیکولر کو بھی ساتھ لایا جانا چاہیے، کرناٹک سے آگے بڑھنے پر آندھرا پردیش و تلنگانہ میں دو ایسی جماعتیں برسر اقتدار ہے جو کہ دونوں میں سے کسی اتحاد میں نہیں ہے لیکن اُن میں سے آندھرا پردیش کے وائی.ایس.آر کا جھکاؤ ہمیشہ بھاجپا اتحاد والی حکومت کی طرف رہا ہے لہٰذا وہاں پر بھی زیادہ سے زیادہ بہتر رزلٹ دینے کی کوشش انڈیا اتحاد کو کرنی ہوگی اور اس سلسلےمیں کانگریس تنہا کچھ خاص نہیں کر سکتی لہٰذا چندرابابو نائیڈو کو لانے کی کوشش کی جانی چاہئے جن کے آ جانے کی اُمّید بھی ہی کیونکہ 2019 سے پہلے عظیم اتحاد کے سب سے بڑے داعی وہی تھے اور اس مرتبہ بھاجپا سے اُنکے اتحاد کی بات بھی اب تک نہیں بن سکی ہے تو وہ آنے والے آندھرا پردیش اسمبلی انتخاب و لوک سبھا انتخاب میں فائدے کو سامنے رکھتے ہوئے انڈیا میں آ سکتے ہیں جس کا فائدہ انڈیا کو بھی اچھا مل سکتا ہے ،مہاراشٹرا میں شرد پوار و ادھو ٹھاکرے اور کانگریس کا اتحاد اس وقت مکمل طور پر بھاری ہے لیکن سچ یہ ہے کہ پرکاش امبیڈکر کے بغیر یہ اتحاد نا مکمل ہے لہٰذا پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی کو بھی حصہ بنایا جانا چاہیے ،اسی طرح جب ہم ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش آتے ہیں تو پاتے ہیں کی سپا و کانگریس کا اتحاد 2017 میں ناکام ہو چکا ہے لیکن 2019 میں سپا و بسپا کا اتحاد بھاجپا کے قریب آدھا درجن سے زیادہ سیٹ گھٹانے میں کامیاب رہا تھا لہٰذا ضرورت ہے کہ مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی و چندر شیکھر آزاد راون کی آزاد سماج پارٹی میں سے دونوں کو یا کم سے کم ایک کو لانے کی ہر ممکن کوشش کرکے ابھی جو چار پارٹیوں کا اتحاد ہے اُسے پانچ یا چھے پارٹیوں کا اتحاد بنایا جائے، اور اسی میں ان سبھی پارٹیوں کا بھی مفاد ہے کیونکہ زیادہ سیٹ لڑ کر کم سیٹ جیتنے سے بہتر ہے کہ کم سیٹ لڑکر زیادہ سیٹیں جیت لی جائے، تمل ناڈو میں اسٹالن صاحب نے بھت اچھا سوشل انجنیرنگ کیا ہے اور اُنہوں نے اے.آئی.ڈی.ایم.کے کو کمزور کرنے کےلئے اے.ایم.ایم.کے کو انڈیا کا حصہ بنایا ہے جو کہ بہت بہتر پالیسی ہے اور یہی پالیسی تمام صوبوں میں اپنائی جانی چاہیے کیونکہ ابھی بظاہر جو سمجھوتہ ہے حقیقت میں اُسی میں بقاء ہے، مایاوتی اور چندرشیکھر آزاد راون میں سے دونوں یا نہیں تو کم سے کم ایک کو ساتھ لانا اس لیے بھی لازمی ہے کہ دِیگر تمام صوبوں میں خاص کر راجستان،مدھیہ پردیش،گجرات جیسے اُن صوبوں میں جہاں کانگریس و بھاجپا میں سامنے کی لڑائی ہے وہاں پر امبیڈکروادی دلت ووٹ بھی اچھی تعداد میں ہے لہذا وہاں ان کا الگ لڑ جانا اتحاد کو بہت نقصان پہونچا سکتا ہے اور ساتھ میں آ جانا بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے، آگے چل کر بہار میں سہنی طبقہ کے لیڈر مکیش سہنی کا سہنی سماج میں،بنگال میں پیرزادہ کی آئی.ایس.ایف کا مسلمانوں میں، راجستان،مدھیہ پردیش،مہاراشٹرا،گجرات میں آدیواسی سماج میں بھارتیہ ٹرائیبل پارٹی کا اچھا اثر موجود ہے لہذٰا ان جماعتوں کو اتحاد سے الگ رکھنا آپکے سیٹ میں سے اہم زیرو کو گھٹا سکتا ہے جس سے بچنے کیلئے انہیں یقینی اپنا ساتھی بنا لینا چاہیے ، ہریانہ پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھاجپا کی پکڑ بیحد مضبوط ہے لہٰذا سابق وزیرِاعلیٰ اوم پرکاش چوٹالہ صاحب کا ساتھ لڑائی کو مضبوطی دے سکتا ہے کیونکہ گزشتہ دنوں میں اُن کی پارٹی بہت متحرک رہی ہے لہٰذا عوام کا رجحان اُنکی طرف لوٹ رہا ہے اور نتیش کمار و تیجسوی یادو نے بہار کے باہر پہلی مرتبہ اُنہیں کے اسٹیج سے اپوزیشن اتحاد کی ہنکار بھری تھی،اسی طرح اگر ہم آسام کی بات کریں تو وہاں علاقائی جماعت کی حیثیت بدر الدین اجمل کی پارٹی اے.آئی.یو.ڈی.ایف کو حاصل ہے جن کو الگ رکھنا بےحد نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کی 2019 میں اتحاد کرنے کا بھی فائدہ نہیں ہوا، اس لئے اس مرتبہ اُن سے اتحاد نہیں کرنا چاہیے تو ایسے لوگ کے مطابق پورے ملک میں ہونے والا اتحاد نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ماضی میں کئی جگہ ایسے اتحاد ناکام ہو چکے جسکی بڑی مثال 2017 میں اُتر پردیش میں سپا و کانگریس کے اتحاد کا بری طرح ناکام ہونا شامل ہے اور جہاں تک بات ہے کہ مسلم لیڈرشپ والی پارٹی ہے تو غیر مسلم ووٹ حاصل نہیں ہوگا تو 2014 کے لوک سبھا انتخاب میں اُن کی پارٹی سے ایک غیر مسلم کا جیتنا اس بات کی نفی کرتا ہے! اگر ایماندارانہ غور کیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ اس “انڈیا” اتحاد کو مکمل کرنے کےلئے مندرجہ بالا سبھی سیاسی جماعتوں (جنتا دل سیکولر،چندرا بابو نائیڈو کی ٹی.ڈی.پی،پرکاش امبیڈکر کی ونچت بہوجن اگھاڑی،مایاوتی کی بہوجن سماج پارٹی،بھارتیہ ٹرائیبل پارٹی،چندرشیکھر آزاد راون کی آزاد سماج پارٹی،بدر الدین اجمل کی اے. آئی.یو.ڈی.ایف،مکیش سہنی کی وکاشیل انسان پارٹی اور پیرزادہ کی آئی.ایس.ایف،چوٹالہ صاحب کی آئی.این.ایل.ڈی) کو اتحاد کا حصہ بنانا لازمی ہے، ان تمام پارٹیوں کے انڈیا میں آ جانے سے حقیقت میں پورے ملک میں آرپار کی لڑائی ہو جائیگی اور اس آرپار کی لڑائی کی سکت شاید بھارتیہ جنتا پارٹی میں نہیں ہوگی جو کہ نئے سیاسی انقلاب کا ذریعہ بن جائیگا، اور اگر اس لڑائی کو مکمل اتحاد بناکر ایک کے مقابلہ ایک امیدوار والے فارمولے کو اپنا کر لڑائی کو آرپار کی نہیں بنائی گئی تو شاید 2024 میں بھی 2019 سے زیادہ فرق نہیں ہو پائے گا کیونکہ موجودہ سیاست کی سچائی ہے کہ جہاں بھی مقابلہ سہ رخی ہوگا تو وہاں پر بھارتیہ جنتا پارٹی کا راستہ صاف ہوگا!اس کے علاوہ اگر زمینی لڑائی کی اہمیت کو سامنے رکھا جائے تو دو اور ایسی سیاسی جماعت ہے جو کہ تنہا شاید مکمل طور پر زیرو کی حثیت آنے والے لوک سبھا میں رکھیگی لیکِن اگر وہ اتحاد کے ساتھ آجائے تو اتحاد کے اعداد و شمار کےلئے اہم ترین زیرو کا کردار ادا کر سکتی ہے اور وہ دو جماعتیں ہے دلتوں و مسلمانوں میں بےحد متحرک بام سیف اور ایس.ڈی.پی.آئی جن کے پاس دن رات سماج میں متحرک رہنے والے بہت ذیادہ مخلص و محنتی ارکان لاکھوں کی تعداد میں پورے ملک میں پھیلے ہیں جو کہ منصوبہ بند زمینی لڑائی میں بھاجپا کے ساتھ کھڑے آر.ایس.ایس کے لاکھوں ارکان کا توڑ بن سکتے ہیں لہٰذا اُن سے بھی اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر بات بن جانا بہتر ہو جائیگا! پورے انڈیا اتحاد کو اگر سوشل انجینئرنگ کے فارمولے کے مطابق بھی دیکھیں تو ابھی یہ اتحاد دلت اور مسلم قیادت سے محروم نظر آتا ہے لیکن اگر مندرجہ بالا جماعتوں کو ساتھ لیا گیا تو سوشل انجینئرنگ میں بھی یہ اتحاد مضبوط ثابت ہوگا! غرض کہ چاہے 38 بنام 38 ہی کیوں نہ ہو جائے لیکِن اتحاد کو حزب اختلاف کا مکمل و مضبوط اتحاد بنایا جانا چاہیے کیونکہ بھلے ہی جہاں ایک طرف انڈیا اتحاد میں بڑی پارٹیاں اور بڑے سیاسی لیڈران ہے لیکن این.ڈی.اے میں اکثر چھوٹی پارٹیاں و غیر مقبول چہرے ہیں لیکِن وہیں دوسری طرف یہ بھی سچ ہے کہ آپ کا مقابلہ این.ڈی.اے سے ہی نہیں بلکہ اس بھارتیہ جنتا پارٹی اور پورے سنگھ پریوار سے ہے جن کے تربیت یافتہ جنونی ارکان گاؤں گاؤں میں پھیلے ہوئے ہیں اور جن کے پاس پیسے و میڈیا کی بڑی اتھاہ طاقت موجود ہے اور سب سے بڑھ کر نفرت کے زہر نے عوام کو اُن کا اندھ بھکت بنا رکھا ہے۔
9540926856
saifurbihari143@gmail.com