بتا ! کیا کیا تونے میرے لیے ؟

مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی

نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

 سرنامہ ابرار کاشف کے مشہور و مقبول ایک نظم سے ماخوذ ہے، اس نظم میں انہوں نے ’’مخاطب ہے بندے سے پروردگار‘‘ کہہ کر بات شروع کی ہے، پھر اللہ رب العزت کے ذریعہ جو انعامات بندوں پر کیے گیے ان سے چند کا مخصوص لب ولہجہ میں تذکرہ کیا ہے، چند اس لیے کہ سارے انعامات کا ذکر کرنا بندے کے بس میں ہے ہی نہیں، وہ تو بے شمار ہیں، ان کی گنتی کی ہی نہیں جا سکتی، انہیں انعامات میں سے ایک ’’ والدین‘‘ کا بھی ذکر کیا ہے، اور آخرمیں اللہ سے کہلوایا ہے کہ “بتا کیا کیا تونے میرے لیے”۔

 یہ سوال اپنی جگہ اس لیے صحیح ہے کہ اللہ کے بندے ان دنوں جس بے راہ روی کے شکار ہو گیے ہیں ، ان میں فرائض کی ادائیگی بھی بالائے طاق چلی گئی ہے، سنن و واجبات نوافل اور حسن اخلاق و کردار کا کیا ذکر کیا جائے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ بندوں کی اس بے راہ روی سے اللہ رب العزت کے عز وجلال، شرف ومنزلت پر ذرہ برابر بھی فرق نہیں پڑتا ، اس لیے کہ اللہ بے نیاز اور تمام چیزوں سے مستغنی ہے۔

 لیکن آج کل اولاد جب پڑھ لکھ کر بڑی ہوجاتی ہے تو اسے شکوہ ہوتا ہے کہ والدین نے ہمارے لیے کیا کیا، یہ ایک طعن وتشنیع سے بھرا جملہ ہوتا ہے، جو والدین کے لیے اولاد کی جانب سے مختلف موقعوں سے ادا ہوتا رہتا ہے،چوں کہ بچے والدین کی زندگی بھر کی محنت کو فراموش کر بیٹھتے ہیں کہ والد نے اس کو سجانے، سنوارنے ، پڑھانے ، نوکریاں دلانے کے لیے کیا کچھ نہیں کیا، اب وہ بڑا ہو کر ان خدمات کو روپے میں آنکنے لگتا ہے، حالاں کہ سردی کی یخ بستہ رات میں اس کی ماں نے ایک رات جو جاگ کر گذاری اور اس کے ذریعہ ناپاک کیے گیے گیلے بستر پر لیٹی رہی اور اسے خشک بستر فراہم کیا، اس ایک رات کا بدلہ وہ زندگی بھر کی خدمتِ کے بعد بھی ادا نہیں کرسکتا،یہی وجہ ہے کہ اللہ رب العزت نے جہاں اپنی عبادت کا حکم دیا ہے وہیں والدین کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید بھی کی ہے، اور انہیں جھڑکنے، اف تک کہنے سے منع کیا ہے اور ان سے عزت واکرام کے ساتھ گفتگو کرنے کی تلقین کی ہے، حکم ہے کہ ان کی ضرورت ہو تو کاندھے جھکا دو اور اس جھکانے میں جبر نہیں بلکہ رحمت وشفقت کا عنصر غالب رہنا چاہیے، اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی حق ادا نہیں ہوگا، اس لیے ان کے لیے دعا سکھائی گئی کہ اے میرے رب ان دونوں پر رحم فرمایا جیسا انہوں نے بچپن میں میری پرورش شفقت و محبت کے جذبے سے کی، لیکن آج صورت حال برعکس ہے، ایک فلیٹ کے دو کمرے میں بیٹا اور والدین رہتے ہیں، لیکن بیٹا کو توفیق نہیں ہوتی کہ وہ اپنے والدین کی خدمت میں حاضری دے، محبت کے دو بول ان سے کر لے اور اپنی شکل ان کو دکھادے، حالاں کہ و ہ ان کے نفقہ پر ہی زندگی گذار رہا ہوتا ہے، یہی حال بیٹیوں کا ہے، بیٹیاں پہلے کبھی والدین سے محبت کرنے والی ہوتی تھیں، لیکن اب مغرب کی آندھی میں سارے اطوار بدل گیے ہیں، وہ شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنی بیماری اور ولادت کے مراحل میں والدین کے سر آکر پڑتی ہیں، لیکن بغل کے روم میں ماں تکلیف سے کراہ رہی ہوتی ہے، بہو تو پھر بہو ہے، بیٹی بھی جھانکی نہیں مارتی اور اس کی بھی رٹ ہوتی ہے کہ ابا، اماں نے مجھے کیا دیا، سارے ضرورت کے سامان دینے کے بعد بھی یہی رٹ رہتی ہے، باپ نے میرے لیے کیا کیا، شوہر اگر بدقسمتی سے اچھا نہیں مل سکا تو یہ شکوہ اور بڑھ جاتا ہے، وہ میکے سے بہت سامان اٹھا کر لے جائے گی اور احساس نہیں ہوگا کہ اس سامان کے والدین کے گھر سے اٹھا لینے پر انہیں کیسی کلفت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا، سسرال والے جہیز کے لالچی تو ہوتے ہی ہیں، بیٹیاں بھی کم دماغ نہیں کھاتی ہیں، اور اس کے باوجود ان کی رٹ ہوتی ہے کہ ابا نے کس غریب گھر میں میرا رشتہ کردیا، حالاں کہ سبھی جانتے ہیں کہ رشتہ نوشتہ سے ہوتا ہے، جو مقدر میں لکھا ہے وہی ہو کر رہے گا، والدین کے جوتا گھسنے اور جھک ماری سے کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے، میاں بیوی کے رشتے زمین پر نہیں آسمان پر طے ہوتے ہیں، لیکن یہ یقین ہمارے دماغ سے نکل گیا تو سب کی تان والدین پر آکر ٹوٹتی ہے۔

 بعض لڑکوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ ا چھی خاصی کمائی کرتے ہیں، لیکن والدین پر ایک روپیہ خرچ کرنے کی توفیق نہیں ہوتی، بہت ہوا تو کہے گا کہ ضرورت پڑے تو مانگ لیجئے، تمہارے بر سر روزگار ہونے میں جو تمہاری ضرورتوں کو بن مانگے پورا کرتا رہا، وہ اب تم سے مانگے گا، یہ بڑے شرم کی بات ہے، لیکن کیا کیجئے گا اس دنیا میں یہ سب ہوتا رہتا ہے، کئی لڑکوں کو دیکھا کہ وہ اپنی شادی کے لیے کپڑے اور زیورات کی خریداری پر لاکھوں خرچ کر دیتے ہیں لیکن یہ توفیق نہیں ہوتی کہ والدین کے لیے بھی دو جوڑے کپڑے اور ضروری سامان لے لیں، ایسے لوگوں میں بے کسی، بے بسی نہیں، بے حسی ہوتی ہے، اپنے کمرے میں وہ اے سی کو لر لگانے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں، لگاتے ہیں، لیکن والدین گرمی میں پک رہے ہیں تو ان کے ذہن میں آرام و آسائش کا خیال نہیں ہوتا، بوڑھے والدین پڑھاتے لکھاتے ہیں، مکان بنا کر دیتے ہیں اور جب لڑکا غیر ملک بیوی بچوں کے ساتھ چلا جاتا ہے تو یہ گھر کی چابھی کیر ٹیکر کی طرح لے کر بیٹھے رہتے ہیں، اور بچے ان کے مرنے پر ا جنازہ پڑھ جاتے ہیں، کبھی وہ بھی نہیں ہوتا، بیش تر ایسے لڑکوں کو جنازہ پڑھنا بھی نہیں آتا، کوتاہی والدین کی بھی ہے کہ دینی تعلیم سے اپنے بچے کو محروم رکھا، لیکن جب بچہ بالغ ہوگیا تو اس کو خود اپنی اصلاح اور ضروریات دین سیکھنے کی فکر کرنی چاہیے تھی، وہ نہیں ہوسکا، خون پسینہ ایک کرکے والدین نے جو کچھ حاصل کیا تھا اسے فروخت کرکے دوسرے ملک جا بیٹھتا ہے، اور ان تمام رشتے ناطے کو توڑ دیتا ہے جو برسوں کی محنت سے والدین نے جوڑا تھا اور صلہ رحمی کو پروان چڑھایا تھا۔

یہ جو باتیں اوپر لکھی گئی ہیں، ان کا تعلق عمومی احوال سے ہے، سارے لڑکے یقینا ایسے نہیں ہوتے ، کئی لڑکے تو باپ پر جان نچھاور کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں، ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ والدین سے جو کچھ بن پڑا میرے لیے کیا، اب میں جوان ہوں، بر سر روزگار ہوں تو ان کی ضروریات اور خوشنودی کا خیال کرکے جنت کا سامان کرلوں۔

 ایک اور شکایت ان دنوں عام ہے، شادی ہوتے ہی والدین سے جدا ہوجانا، بچوں کی تعلیم وتربیت کے نام پر دور شہر جا کر بس جانا، یقینا مسئلہ کے اعتبار سے اس میں گنجائش ہے، لیکن حسن سلوک کے کچھ اپنے تقاضے بھی ہیں، والدین اگر ضرورت مند ہیں تو ان کی آرام وآسائش کے لیے ساتھ بھی رکھا جا سکتا ہے اور متبادل نظم بھی کیا جا سکتا ہے، لیکن اس کا خیال بچوں کو آتا نہیں ہے اور وہ اپنی دنیا میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ آج کے دور میں ٹیلی فونک رابطہ بھی منقطع ہوجاتا ہے۔

 ایسے میں جو بات ابرار کاشف نے اللہ کی طرف سے کہی ہے، وہی بات والدین کہہ سکتے کہ” بتا !کیا کیا تونےمیے لیے”، طبرانی نےالمعجم الصغیر(رقم 947 ) والا وسط رقم الحدیث 6570 اور بیہقی نے اپنی کتاب دلائل النبوۃ ص305میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جملہ نقل کیا ہے کہ” انت ومالک لابیک”، یعنی تو اور تیرا مال سب تیرے باپ کا ہے، اس روایت کا آخری حصہ سنن ابن ماجہ (التجارات ما للرجل من مال ولدہ حدیث2292)میں بھی موجود ہے۔ محمد فواد عبد الباقی نے اپنی تعلیق میں لکھا ہے کہ اس کی سند صحیح ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں اور صحیح بخاری کی شرط کے مطابق ہیں، شیخ ناصر الدین البانی نے بھی اس جملے کوصحیح قرار دیا ہے، امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر شکایت کی کہ میرے والد نے میری دولت ختم کردی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے لیے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے۔ لہذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ۔ اس سلسلے میں جو اشعار حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے والد نے نقل کیا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تم نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے میری شکایت کی، حالاں کہ میں نے بچپن میں تمہیں کھلایا پلایا، جوان ہونے کے بعد تک تمہاری ذمہ داری اٹھائی، تمہارا سب کچھ میری کمائی سے تھا، کسی رات تم بیمار پڑگئے تو میں نے بے قراری اور بے داری کے ساتھ گذاری، جیسے بیماری تمہیں نہیں مجھے لگ گئی ہو، تمہاری موت سے میں ڈرتا رہا اور تم نے میرا بدلہ سخت روئی اور سخت گوئی سے دیا اس طرح کے بہت سارے اشعار احادیث کی کتابوں میں مذکور ہیں، جن کی سند پر اعتراض کیا گیا ہے، سخاوی نے مقاصد حسنہ میں اس کے ایک راوی مکندر کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی یاد داشت کے حوالہ سے انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہے، حالاں کہ وہ اصلا صدوق ہیں،شیخ البانی نے مکندر بن محمد بن مکندر کو لین الحدیث کہا ہے، عبید بن کلصہ کے حوالہ سے تقریب میں ایسا ہی لکھا ہے، مگر اس کا آخری جملہ” انت ومالک لابیک” صحیح ہے اور اس کے متابع اور شواہد موجود ہیں۔

 اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین پر حسبِ ضرورت مال بھی خرچ کرنا چاہیے، لیکن اب صورت حال اس قدر بدل گئی ہے کہ والدین بچوں کے لیے سب کچھ نثار کردیتے ہیں، لیکن انہیں بڑھاپے میں تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے، محبت کے دو بول سننے کے لیے وہ ترس جاتے ہیں، ان کی خبر گیری اور تنہائی میں ان کا مونس ومددگار کوئی نہیں رہتا، بلکہ اب مغربی ممالک کی طرح ہندوستان میں بھی اولڈ ایج ہوم (بیت الضعفاء) نے رواج پانا شروع کردیا ہے، والدین بچوں کے لیے سب کچھ کر گزرتے ہیں، لیکن بچے اور بچیوں کی بے اعتنائی پر ان کا دل خون کے آنسو روتا ہے اور وہ زبان حال سے یہ پوچھتے ہیں” بتا ! کیا کیا تونے میرے لیے”۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com