مولانا انعام الحق قاسمی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے وہ جنگی جرائم کی کھلی ہوئی درسی کتاب ہے۔ امریکہ کی قیادت میں مغربی ممالک نے اسرائیل کو نہ صرف اپنے دفاع کا حق دیا ہے بلکہ فلسطینیوں کی ان کے وطن سے نسل کشی کا مکمل لائسنس بھی دے دیا ہے۔ یہ واقعی جنگی جرائم کا مکمل لائسنس ہے۔ اسرائیل پوری طاقت کے ساتھ ایسے لائسنس کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی زیر قیادت اتحاد اقوامِ متحدہ میں جنگ کے خاتمے کی ہر کوشش کو روک رہا ہے۔ لہذا، اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) غزہ کی شہری آبادی پر اپنی مسلسل بمباری جاری رکھے ہوئے ہے۔ آئی ڈی ایف نے اعلان کیا کہ اس نے غزہ میں بے شمار و لاتعداداہداف پر بمباری کی ہے۔ غزہ کے پاس صرف 141 مربع میل زمین ہے۔ چنانچہ غزہ کے ہر مربع میل میں اوسطاً 78 اہداف پر بمباری کی جاتی ہے۔ دونوں عالمی جنگوں میں بھی کسی شہر پر اتنی شدید بمباری نہیں کی گئی جتنی اسرائیل نے غزہ پر کی ہے اور تاحال بمباری جاری ہے۔
مغربی ممالک نسل پرستی، سفید فام بالادستی، استعمار، سامراج، فسطائیت، نازی ازم، نسلی تطہیر، عالمی جنگیں، گیس چیمبرز اور ایٹمی بم گرانے جیسے زہریلے نظریات کی جنم بھومی ثابت ہوئے ہیں۔ ان کے جرائم کی کوئی حد نہیں ہے بلکہ وے بے دریغ قتل وغارتگری کا بازار گرم کئے ہوئے ہیں۔یہ ممالک قتل و انسانی خون کی کھیتیوں کے مالکان ہیں۔ یہ ایسا مکروہ مغربی و امریکی ورثہ ہے جو نسل کش اسرائیلی حکومت میں پنپتا ہے۔ نسل پرستی کا نظام اگرچہ جنوبی افریقہ میں مردہ ہوچکا ہے، لیکن اب امریکہ اور یورپ کی نگرانی میں اسرائیل میں پروان چڑھ رہا ہے۔
جرم کی حمایت کرنا درحقیقت اخلاقی، سیاسی اور فوجی جرم میں ملوث ہونے کے قائم مقام ہے۔ صرف نسل کشی کی سوچ رکھنے والے لوگ ہی اسرائیل کے نسل کشی کے جنگی جرائم کی حمایت کر سکتے ہیں۔ لہذا، اسرائیل کے جنگی جرائم نے نہ صرف اسرائیلی جنگی مجرموں کی بیمار اور مجرمانہ ذہنیت کو بے نقاب کیا ہے بلکہ مغربی رہنماؤں کی اخلاقی طور پر گھناونی ومردہ روحوں کو بھی بے پردہ کردیا ہے۔ یہ واقعی پوری انسانیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ عالمی سیاست میں مغربی رہنما نہایت ہی اہمیت کے حامل ہیں۔ ایسی مجرمانہ ذہنیت کے طاقتور لیڈروں کے ساتھ دنیا کیسے محفوظ رہ سکتی ہے؟
غزہ قتل و غارت اور قبروں کا گڑھ
غزہ اب نسل کشی اور قبرستانوں کا گڑھ ہے۔ اسرائیلی فوجی آپریشن کا مقصد غزہ سے تمام فلسطینی آبادی کا خاتمہ کرنا ہے۔ غزہ کی وزارت صحت نے 2/11/2023 کو اطلاع دی کہ جنگ کے آغاز سے اب تک 12000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ ان میں سے 4,760 بچے اور 3,030 خواتین ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ 25,000 زخمی ہیں اور 3,600 افراد ملبے تلے لاپتہ ہیں۔ ہسپتالوں، مساجد، گرجا گھروں، ایمبولینسوں اور پناہ گزینوں کے کیمپوں کو بھی اسرائیلی بمباری سے نہیں بخشا گیا۔ آئی ڈی ایف نے تین دنوں میں اپنی نوعیت کے سب سے بڑے جبالیہ پناہ گزین کیمپ پر تین بار بمباری کی ہے اور وہاں 400 افراد کو ہلاک کیا ہے۔ مرنے والوں میں تقریباً نصف بچے ہیں۔ اسرائیلی فوج اب غزہ پر زمینی حملے کے لیے لڑ رہی ہے اور اس پر مکمل قبضے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔
جنگ صرف غزہ تک محدود نہیں ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے میں اسرائیلی آباد کاروں نے فلسطینیوں کے گھروں، دکانوں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنا شروع کر دیا ہے۔ اسرائیلی فوج بھی فلسطینیوں پر گولیاں چلا رہی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ مغربی کنارے میں 135 سے زائد فلسطینی ہلاک اور 1700 کو حراست میں لے لیا گیا ہے۔ مغربی کنارے میں تقریباً نصف ملین آباد کار ہیں۔ اب ایسا لگتا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے مغربی کنارے سے فلسطینیوں کا صفایا کرنے کے لیے یہودی آباد کاروں کو ہری جھنڈی دے دی ہے۔
اسرائیل دہشت گرد ریاست کی درسی کتاب
امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن وہ فلسطینیوں کو اپنے دفاع کا ایسا حق نہیں دیتے۔ اگر فلسطینی اپنے دفاع کے حقوق کا استعمال کرتے ہیں تو وہ اسے دہشت گردی کہتے ہیں۔ دہشت گردی کے معنی لغت میں سیاسی مقاصد کے لیے طاقت کا غیر قانونی استعمال ہے۔ حقیقت میں دہشت گردی کے حقیقی بطن سے اسرائیل کی پیدائش ہوئی ہے، اسے دہشت گردی کے ذریعے برقرار رکھا جارہا ہے، اور دہشت گردی کے ذریعے اس کو وسعت دی جارہی ہے۔ تاریخ اس کی شہادتوں سے بھری پڑی ہےکہ اسرائیل ایک دہشت گرد ریاست کی کھلی ہوئی درسی کتاب ہے۔
1917ء میں برطانوی قبضے سے پہلے فلسطین میں یہودیوں کی آبادی 8 فیصد سے بھی کم تھی۔ 92 فیصد مقامی فلسطینیوں کی رائے لیے بغیر برطانوی حکومت اور اس کے یہودی نواز وزیر خارجہ آرتھر بالفور نے فلسطین یہودیوں کو دے دیا تاکہ وہاں یہودیوں کا وطن بنایا جا سکے۔ اس طرح کے برطانوی فیصلوں نے فلسطین کو ان کی آبائی سرزمین سے نسلی صفایا جیسے مزید گھناؤنے جرائم کی راہ ہموار کی۔ فلسطین کا تعلق برطانوی سلطنت سے نہیں تھا اور ناہی فلسطین برطانیہ کا کوئی صوبہ تھا، وہ وہاں صرف نوآبادیاتی قابضین کے طور پر موجود تھے۔ چنانچہ انگریزوں کی نوآبادیاتی حکومت نے غیر قانونی طور پر یہ زمین یہودیوں کو دے دی۔ اس طرح برطانیہ، مجرم ریاست اسرائیل کا ناجائز باپ بن گیا۔ اب یہ یہودیوں کی نسل پرست ریاست کے طور پر موجود ہے۔
برطانوی قبضے کے دوران، 1948 ءمیں بیرون ملک سے یہودیوں کی منصوبہ بند درآمد کے ذریعے یہودیوں کی آبادی 37 فیصد تک پہنچ گئی۔ غیر ملکی یہودیوں کو جگہ دینے کے لیے، 700,000 سے زیادہ فلسطینيوں کو اپنے گھروں سے بے دخل کرنے پر مجبور کیا گیا۔ 500 سے زائد فلسطینی دیہات کو زمین بوس کر دیا گیا۔ یہ مقامی فلسطینیوں کے خلاف بہت بڑا جرم ہے۔ جرائم کی ایسی وراثت اب بھی اسرائیل میں پروان چڑھ رہی ہے۔ بے دخلی اور قبضے کی وہی مجرمانہ وراثت اب غزہ کے لوگوں کے خلاف رائج ہے۔
چنانچہ مشرقِ وسطیٰ کا موجودہ بحران انگریزوں کی مسلم دشمن استعماری پالیسی کا تسلسل ہے۔ درحقیقت یہ مشرقِ وسطیٰ میں ایک نئی صلیبی جنگ کا نقطہ آغاز ہے۔ موجودہ بحران کا حل اسرائیل کو تسلیم کرنے جیسے برطانوی نوآبادیاتی جرم کو قانونی حیثیت دینے میں نہیں ہے، بلکہ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز قبضے کو ختم کر کے سارے پرانے جرم کو ختم کرنے میں مضمر ہے۔ بصورتِ دیگر، پرانا جرم پوری دنیا کو غیر مستحکم اور ناپائیدار کرتا رہے گا۔
اسرائیل کے جنگی جرائم میں امریکہ کا ہاتھ
اسرائیل دنیا کی بدترین مجرم ریاست کے طور پر موجود ہے۔ روس یوکرین میں تقریباً 2 سال میں جو نقصانات اور ہلاکتیں نہیں کرسکا، جتناکہ اسرائیل صرف 37 دنوں میں ہی اس سے کئی گنا زیادہ نقصان اور قتل و غارتگری کرچکاہے۔. برطانوی نوآبادیاتی جرائم کے ساتھ ساتھ امریکہ بھی اپنی ملی بھگت کا مظاہرہ کررہا ہے۔ امریکہ اب اسرائیل کی دہشت گرد ریاست کے لیے اقتصادی، فوجی اور سیاسی لائف لائن کے طور پر کام کررہا ہے۔ اسرائیل صرف امریکی لائف سپورٹ پر زندہ ہے۔ فلسطینی مرد، عورت اور بچوں کو مارنے کے لیے استعمال ہونے والا ہر بم اور ہر گولی امریکی پیسے اور ٹیکنالوجی سے بنایا گیا ہے۔ امریکہ ہر سال اسرائیل کو 3.8 بلین ڈالرایڈ دیتا ہے۔ اسرائیل کے فوجی بجٹ کا تقریباً 20 فیصد امریکہ سے آتا ہے۔ اس طرح کی امریکی امداد اسرائیل کی بقا کے لیے اہم ثابت ہوئی ہے۔
یوٹیوب کی ایک ویڈیو میں صدر جو بائیڈن یہ دلیل دیتے ہوئے سنا گیا ہے کہ اسرائیل کو فنڈ دینا امریکہ کی بہترین سرمایہ کاری ہے۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اسرائیل نہ ہوتا تو ہمیں اسرائیل کو کسی بھی صورت میں بنانا تھا۔ امریکہ کو وہاں اتنی زیادہ جنگیں لڑنے کے لیے اپنے فوجیوں کو بھاری تعداد میں تعینات نہیں کرنا پڑے گا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادی کبھی بھی فلسطین پر اسرائیل کے قبضے اور اس کے جنگی جرائم کی مذمت نہیں کرتے۔ بلکہ وہ اسرائیلیوں کو متاثرین کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ وہ غیر قانونی قبضے کے خلاف جنگ کو دہشت گردانہ کارروائی قرار دیتے ہیں۔ چنانچہ حماس اور اسلامی جہاد ، اسرائیلی قبضے کے خلاف لڑنے والی تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے۔ حماس نے 1405 اسرائیلیوں کو قتل کیا، وہ اس کی مذمت کرتے ہیں۔ لیکن وہ 12000سے زیادہ فلسطینیوں کے اسرائیلی قتل پر خاموش ہیں۔ اس طرح وہ اپنی اخلاقی موت کو بے نقاب کررہے ہیں۔ درحقیقت ایسی اخلاقی موت کی وجہ سے وہ اسرائیلی جنگی جرائم کی مکمل حمایت اور سرپرستی کر رہے ہیں۔
مفلوج اور بیمار امت مسلمہ
ایک مفلوج آدمی اپنی ظاہری نااہلی اور بے عملی کے لیے جانا جاتا ہے۔ ایسی نااہلی اور بے عملی اب پوری امت مسلمہ پر حاوی ہے۔ مسلم دنیا کے رہنما صرف جاری وسیع پیمانے پر نسل کشی اور تباہی کو دیکھ رہے ہیں لیکن کچھ نہیں کر رہے ہیں۔ ایسے جنگی جرائم کے درمیان خاموشی اور بے عملی بھی بہت بڑا جرم ہے۔ بولیویا ایک جنوبی امریکی ملک ہے جس نے اخلاقیات اور انسانیت کے گہرے احساس کا مظاہرہ کیا ہے۔ بولیویا نے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسرائیل سے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا ہے۔ چلی اور کولمبیا نے بھی اسرائیل سے اپنے سفراء واپس بلا لیے ہیں۔ اس طرح کے بھیانک جنگی جرائم کی مذمت کرنے کے لیے، اسے سَنت یا فرشتہ بننے کی ضرورت نہیں ہے۔ اخلاقیات اور انسانیت کے ذرہ برابربھی حصہ اگرکسی آدمی کے اندر موجود ہوتووہ ایسا کر سکتے ہیں۔ لیکن یہ بہت بڑی شرم کی بات ہے کہ مسلم ریاستوں کے سربراہوں میں سے کوئی بھی ایسی اخلاقیات اور انسانیت کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ کس طرح مسلم ممالک پر اخلاقی طور پر گرے ہوئے لوگوں کی حکومت ہے۔ یہ مسلم دنیا کا اصل مسئلہ ہے۔ ترکی، مصر، متحدہ عرب امارات، سوڈان اور مراکش جیسے ممالک اب بھی اسرائیل میں اپنے سفراء برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات کو ختم نہیں کیا ہے ۔
مسلم امہ فی الحال مفلوج اور بھیانک آپسی خلفشار میں مبتلا ہے۔ یہ انتہائی انتشار اور تقسیمی سیاست کا شکار ہے۔ دنیا میں 1.5 بلین سے زیادہ مسلمان ایک بھی تہذیبی یا اسلامی ریاست بنانے میں ناکام رہے ہیں۔ تقریباً 10 ملین یہودیوں پر مشتمل ایک تہذیبی ریاست ہے جسے اسرائیل کہا جاتا ہے۔ دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی بھی یہودی کو کوئی مسئلہ درپیش ہو تو اسرائیل اس کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ تقریباً 1.1 بلین ہندوؤں کی ایک تہذیبی ریاست ہے جسے بھارت کہا جاتا ہے۔ اسی لئے بھارت پوری دنیا میں ہندو مفادات کا خیال رکھتا ہے۔اگر کسی ہندو کو بنگلہ دیش یا پاکستان میں کسی امتیاز کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو بھارت اس کی ہر ممکن مدد کرے گا۔ عیسائیوں کی ایک تہذیبی ریاست ہے جسے ریاستہائے متحدہ امریکہ اور پوروپ کہتے ہیں۔ چنانچہ جب جنوبی سوڈان اور مشرقی تیمور کے عیسائیوں نے متعلقہ مسلم ممالک کے خلاف آزادی کی جنگیں شروع کیں تو امریکہ اور یورپی یونین نے پیسے، ہتھیاروں اور سفارت کاری سے ان کا ساتھ دیا۔ جب عثمانی خلافت موجود تھی تو مسلمانوں کی تہذیبی و اسلامی ریاست بھی تھی۔ لیکن اسلام کے بیرونی اور اندرونی دشمنوں نے اسے تباہ کر دیا۔
سوائے ایران کے (جو صرف شیعوں کی نمائندگی کرتی ہے اور اسکے بھی اسرائیل سے گہرے خفیہ تعلقات ہیں۔ انہیں بھی سنی مسلمانوں سے کچھ لینا دینا نہیں ہے بلکہ یہ حکومت سنی مسلمانوں کی ازلی دشمن ہے) ، باقی تمام سنی مسلم ریاستیں یا تو قومی، ذیلی قومی یا قبائلی قومیں ہیں۔ ان کا سیاسی اورعسکری ایجنڈا اس قبائلی یا قومی مفاد سے آگے نہیں بڑھتا۔ ان قبائلی ریاستوں کو فلسطین، کشمیر، میانمار، چین اور بھارت کے مسلمانوں کے دکھوں اور مسائل کی کوئی پرواہ نہیں۔ لہٰذا، عرب قبائلی رہنما بھارت میں نریندر مودی کی مسلم نسل کشی کی حکومت کے ساتھ قریبی دوستی کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کرتے۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات، مصر، بحرین، مراکش اور سوڈان کے ظالم آمر اسرائیل سے دوستی گانٹھنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
مزید یہ کہ فلسطینیوں کی طرح زیادہ تر مسلمان بھی اپنی غاصب حکومتوں کے قبضے میں رہتے ہیں۔ یہ غاصب حکومتیں صیہونی اسرائیلیوں سے کم سفاک نہیں ہیں۔ پاکستان، بنگلہ دیش، مصر، شام، سوڈان، اور بہت سے نام نہادمسلم ممالک میں عوام کو درحقیقت اپنے ظالم حکمرانوں کی طرف سے چلائی جانے والی ڈی فیکٹو جنگ کا سامنا ہے۔ یہ آمر درحقیقت اسرائیلی جنگی مجرموں کے نظریاتی کزن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مصر، مراکش، متحدہ عرب امارات، اردن، بحرین اور سوڈان جیسے مسلم ممالک کے حکمران اسرائیل سے گہری دوستی کئے ہوئے ہیں اور نہتے و مظلوم فلسطینیوں سے فاصلہ بنائے ہوئے ہیں۔ مقدس مقامات کے نام نہاد محافظ مطلق العنان بھی فلسطینیوں سے زیادہ اسرائیلیوں کے قریب کھڑے ہیں ۔دوسری طرف پاکستان کی سفاک اور سیکولر قبائلی فوج نے فلسطینیوں کی مدد کرنے کے بجائے ستمبر 1970 (جسے بلیک ستمبر کہا جاتا ہے) میں ہزاروں فلسطینیوں کو قتل کرنے اور 1971 میں اپنے ہی ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کے لیے اپنی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ پہلے کی طرح اس وقت بھی ریاستِ پاکستان نے اپنے عوام کے خلاف اپنی غارت گری کی جنگ چلائی ہوئی ہے اور سب سے زیادہ مقبول اور فلسطین کے حامی رہنما عمران خان کو جیل میں ڈال رکھا ہے۔
50 سے زیادہ مسلم ممالک میں سے صرف ایران ہی ظاہری طور پر کچھ تہذیبی احساس دکھا تا ہے۔ لیکن وہ بھی صرف گیڈر بھبکیاں دیتارہتاہے لیکن حقیقی طور پر کوئی ایکشن سے بالکل عاری ہے۔ اللہ کی قسم کبھی بھی یہ شیعہ ملک فلسطینیوں کا ساتھ نہیں دے گا۔ تیل کی دولت سے مالا مال عرب ممالک کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کو صرف کچھ امدادی سامان، رقم، ادویات اور مکانات کی تعمیر کے سامان کی ضرورت ہے۔ چونکہ ان حکمرانوں نے اپنے لوگوں سے آزادی چھین رکھی ہے۔ اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ فلسطینیوں کو بھی اس آزادی کی ضرورت ہے۔ انہوں نے فلسطینیوں پر بھی دباؤ ڈالا کہ وہ اسرائیل کو قبول کر لیں – جیسا کہ انہوں نے یاسر عرفات پر دباؤ ڈالا تھا اوراس منافق یاسر عرفات کو اوسلو میں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کیا۔ اس لیے وہ فلسطینیوں کی اپنے دفاع کی صلاحیت کو بڑھانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھاتے۔ ظالم عرب حکومت یہ سمجھنے میں ناکام رہی کہ ڈاکو سے صلح نہیں ہو سکتی۔ یاسر عرفات نے اوسلو معاہدے پر دستخط کر کے اس ناگزیر حقیقت کو ثابت کر دیا ہے۔
فلسطین کی ضرورت کو صرف اسلامی جمہوریہ ایران ہی محسوس کر سکتا ہے۔ اس لیے ایران واحد ملک ہے جو محسوس کرتا ہے کہ محض امدادی سامان سے فلسطین کے بے دفاع لوگوں کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ انہیں اسرائیلی قابضین سے لڑنے کی صلاحیت پیدا کرنے کے لیے مدد کی اشد ضرورت ہے۔ چنانچہ ایران نے حماس اور اسلامی جہاد کی نمایاں مدد کی۔ ایرانی مدد کی وجہ سے حماس اسرائیل کے ناقابل تسخیر ہونے کے افسانے کو خاک میں ملا سکتی ہے۔ یہ حماس کے لیے ایک غیر معمولی کامیابی ہے۔ انہیں تاریخ میں یاد رکھا جائے گا۔[لیکن اس حقیقت کا کوئی بھی انکار نہیں کرسکتاہے کہ ایران نے حماس کومعمولی سے بھیک دے کر گویا زرخرید غلام بنالیاہے]۔ اگر پاکستان جیسے ممالک جو کہ مسلم دنیا کی واحد ایٹمی طاقت ہے، ترکی نیٹو کا رکن ہے اور عسکری طور پر ایک طاقتور ملک ہے اور دنیا کا سب سے بڑا مسلم ملک انڈونیشیا فلسطینیوں کو اپنے دفاع کے لیے مدد فراہم کرتا تو نتیجہ بہت مختلف ہوتا۔ کم از کم ہزاروں فلسطینیوں کو بچایا جا سکتا تھا اور غزہ کی تباہی کو روکا جا سکتا تھا۔ لیکن ان مسلم ممالک نے مجرمانہ طور پر خاموش رہنے کو ترجیح دی۔
امت مسلمہ قیداور خواب غفلت میں
دنیا میں 1.5 بلین سے زیادہ مسلمان بھی بحیثیت مسلم امہ پروان چڑھنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ مسلم دنیا ایک کھلی فضا میں عالمی جیل کی طرح لگتی ہے جس میں 50 سے زیادہ جیل خانے ہیں۔ جیل کا ہر سیل ایک مسلم ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ مسلم ممالک کے حکمران حقیقی ریاستی یا خودمختار حکمران نہیں ہیں۔ وہ جیلر اور جیل سپرنٹنڈنٹ کی طرح کام کرتے ہیں۔ ان کا واحد کام پوری امتِ مسلمہ کو اپنے قید سلاسل میں مبتلا رکھنا ہے۔ اور امت کی ایسی اسیری کو برقرار رکھنا امریکہ کی زیر قیادت مغربی طاقتوں کی پالیسی ہے۔ وہ مسلم دنیا میں جمہوریت کے دشمن ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل میں کوئی جمہوری ریاست نہیں ہے۔ جمہوریت کا مطلب ہے لوگوں کو بااختیار بنانا۔ فلسطین میں ایک انتخاب نے حماس کو جنم دیا۔ وہ دوبارہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ لہٰذا، جو بھی مسلط کردہ اسیری کو چیلنج کرنا چاہتا ہے، وہ مصر کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی اور پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کی طرح اس کو خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ مصر کے عبدالفتاح السیسی اور پاکستان کے عاصم منیر جیسے جرنیل امت کی جیل کی دیوار کو برقرار رکھنے کے لیے امریکی حکم ماننے کو سدا تیار بیٹھے ہیں۔
قید میں بند آدمی جسمانی طور پر تندرست اور مضبوط ہو سکتا ہے لیکن جب تک وہ جیل سے باہر نہیں نکلتا کچھ نہیں کر سکتا۔ اردن، پاکستان، مصراور بیشتر مسلم ممالک میں رہنے والے مسلمان فلسطینیوں کی مدد کے لیے بے حد بے چین ہیں اور ان کی بیتابی کا عالم یہ ہے اندراندر لوگوں میں بہت ہی تڑپ پایا جاتاہے کیونکہ یہ ایک مقدس جہاد ہے جو جنت کے دروازے کھولتا ہے۔ مسجد اقصیٰ اور مقدس سرزمین کا دفاع صرف چند ہزار حماس اور اسلامی جہاد کے جنگجوؤں کا فرض نہیں ہے، یہ پوری امت کا فرض ہے۔ لیکن 1.5 بلین مسلمان الاقصیٰ کو آزاد کرانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتے۔ وہ خود اپنے حکمرانوں کے قید میں گرفتار ہیں۔
لہٰذا فلسطین پر غاصبانہ قبضہ صرف اسی صورت میں ختم ہو سکتا ہے جب امت مسلمہ اپنے قید خانوں کی دیواریں توڑ کر پہلے خود کو آزاد کر لے اس ظالموں کے قید سے باہر آجائے۔ لہٰذا فلسطین کی آزادی کے لیے جہاد نہ صرف فلسطین بلکہ مصر، اردن اور شام میں بھی شروع ہونا چاہیے، پاکستان، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور دیگر مسلم ممالک کی عوام جب تک اپنے قید خانے میں محصور رہے گی، فلسطین کی آزادی کا حشر بہت ہی تابناک نظرنہیں آتا ہے۔ اس لیے سب سے پہلے کام کرنا چاہیے یعنی اپنے قید سلاسل کو توڑنا ہوگا اور آزادی حاصل کرنی ہوگی۔