افتخار گیلانی
تقسیم ہند سے قبل حیدر آباد، بھوپال اور رام پور کی ریاستیں مسلم تہذیب و تمدن کا گہوارہ تھیں۔ ان شہروں میں قریہ قریہ مسلم طرز تعمیر کی عمارتیں اور کھنڈرات اس خطے میں مسلمانوں کے 800سالہ پر شکوہ ماضی کی داستانیں بیان کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ان تینوں شہروں میں نوابین نے اپنی تمام تر کوتاہیوں اور خامیوں کے باوجود ہنر مندوں کی حوصلہ افزائی کرکے ان کو اقتصادی محور بھی بنایا ہوا تھا
بھارت کے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش میں اسمبلی کے انتخابات کا عمل جاری ہے، میں مغربی اتر پردیش اور روہیلکھنڈ کی خاک چھانتے ہوئے رام پور آن پہنچا۔ شمالی بھارت میں اگر آپ کسی ایسی جگہ پہنچیں، جہاں کوڑا کرکٹ کے ڈھیر ، گندگی، مکینوں کی کسمپرسی، صفائی کے تئیں ان کی لاپروائی اور مونسپل عملہ کی عد م دلچسپی یا سرد مہری دیکھنے میں آئے، تو سمجھیں کہ آپ کسی مسلم بستی میں پہنچ گئے ہیں۔ مگر رام پور کا عالم ہی مختلف تھا۔ پکی دو رویہ سڑکیں، سرسبزپارک، مصنوعی جھیلیں اور ان کے کنارے جوگنگ اور سائیکل ٹریک دیکھ کر گمان ہوتا ہے، جیسے کسی یوروپین شہر میں پہنچ گئے ہیں۔یہ کارنامہ شہر سے سات مرتبہ منتخب ممبر اسمبلی اور اتر پردیش صوبہ میں برسر اقتدار سماج وادی پارٹی کے طاقتور رکن محمد اعظم خان کے سر جاتا ہے۔
اس تعمیر و ترقی کو دیکھ کر بے ساختہ خیال آیا، کہ اگر سبھی اراکین اسمبلی اور وزراءاسی طرح اپنے اپنے علاقوں کی دیکھ ریکھ کریں تو عوامی زندگیوں میں انقلاب بر پا ہوجائے گا، مگر جلد ہی معلوم ہوا، کہ اس خوبصورتی کے پیچھے ایک کریہہ المنظر چہرہ بھی چھپا ہوا ہے۔
دیر رات جب میں رام پور پہنچا، تو معلوم ہوا، کہ پرانے شہر میں قلعہ کے پاس اعظم خان کا عوامی جلسہ ہے۔ ہوٹل میں سامان رکھ کر میں سیدھا جلسہ گاہ پہنچا۔ اسٹیج سے خان صاحب فصاحت و بلاغت کے دریا بہا رہے تھے ۔ مگر ان کا نشانہ مخالف سیاستدانوں کے بجائے رام پور کے سابق نواب تھے۔ قلعہ اور اس کے اندرمحلات کے گنبدوں کی طرف اشارہ کرکے وہ نوابوں کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے آبدیدہ ہو رہے تھے۔رام پور قلعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے وہ کہہ رہے تھے، کہ نوابوں کی نشانیوں کی اینٹ سے اینٹ بجانی ہے۔معلوم ہوا کہ وہ انہوں نے پہلے ہی بجائی ہوئی ہے، اس قلعہ کی مشرقی دیوار کو توڑ کر دکانوں کی قطاریں بنوائی گئی ہیں۔ ان کے اوپر ابھی بھی قلعہ کے ایستادہ برج زمانے کی بے رخی کی داستان سنا رہے ہیں۔
نواب خاندان کے ساتھ خان صاحب کی عصبیت کا یہ عالم ہے، کہ شہری ترقی کے وزیر کی حیثیت سے میراث کی حفاظت کرنے کے بجائے انہوں نے قدیمی نوابی آثار یعنی شہر کے دروازے، مقبرے، مزارات اور کئی مساجد کو زمیں بوس کرکے جھیلیں، شاپنگ مالز، گرین زونز تعمیر کئے ہیں۔نوابوں کے قدیمی قبرستان پر اس طرح بلڈرزر چلے ہیں، کہ انسانی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں، جن پر کتے لوٹ رہے ہیں۔
تاریخ میں پڑھا تھا کہ جب عباسیوں نے دمشق فتح کیا، تو بنو امیہ کے کئی حکمرانوں کی قبریں نئے خلیفہ المنصور کے حکم سے کھودکر ان کے ڈھانچوں کو جلایا گیا۔ بقول ایک سینیرصحافی اور بھارت میں آے، آر، وائی کے نمائندے پرویز احمد ، اگر یہ حالت کسی دوسرے شہر میں کسی ہندو کے زریعے کی گئی ہوتی، تو فسادات پھوٹ چکے ہوتے اور مولوی صاحبان فتوی بھی صادر کرچکے ہوتے ، کہ اسلام خطرے میں ہے۔
شہر کے وسط میں مہاتما گاندھی کی باقیات کے اوپر سنگ مرمر کی ایک خوبصورت عمارت اور اس کے ارد گرد خوبصورت باغیچہ تعمیر کیا گیا ہے۔ اس چوراہے کے دو طرف تو نیشنل ہائے وے ہے، تو باقی اطراف میں نوابوں کے محلوں کی طرف جانے والے راستہ پرایک گیٹ بنایا گیا ہے، جس کا نام ‘باب نجات ‘ہے، پرانے شہر کی طرف جانے والے راستہ پر گیٹ کا نام ‘باب حیات‘ رکھا گیا ہے۔یہاں پر شہر کی فصیل اور پرانے پھاٹک تھے، جن کو مسمار کیا گیا ہے۔شہر کی خوبصورتی میں واقعی اضافہ ہوا ہے، مگر آنے والی نسلوں کیلئے مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی نشانیوں کو محفوظ کرکے بھی شہر کو دیدہ زیب بنایا جاسکتا تھا۔ یاد گاروں کے اوپر خان صاحب نے اپنی نجی تفریح گاہ تعمیر کی ہے۔نواب خاندان نے کئی بار اس شہر کی اسمبلی اور پارلیمنٹ میں نمائندگی کی ہے۔ آخر ی بار 1999ء میں نواب مکی میاں کی بیوہ نور بانو بیگم کانگریس کے ٹکٹ پر لوک سبھا کیلئے منتخب ہوئی تھی۔مگر اس کے بعد وہ دو بار بھارتی فلموں کی اداکارہ جیہ پردا سے ہار گئیں۔ پر اثر او ر سیاسی طور پر قد آور شخصیت کے حامل اعظم خان کو بلا شبہ رام پور کا شاہجہاں کہا جاسکتا ہے۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل اعظم خان نے رام پور میں اپنا سیاسی کیرئیربیڑی بنانے والے مزدورں اور سائیکل رکشہ چلانے والوں کے یونین لیڈر کے بطور شروع کیا۔ رام پور چونکہ کان پور کے بعد صنعتی لحاظ سے ایک مرکز تھا، انہوں نے مشہور رضا ٹیکسٹائیل مل کے مزدروں کے حق میں بھی آوازبلند کی، اس حد تک کہ یہ مل ہی بند ہوگئی اور مزدور نان شبینہ کے محتاج ہوگئے۔ان کا ایک اور کارنامہ رامپور کے نواح میں مولانا محمد علی جوہر یونیورسٹی کا قیام ہے۔ جدید خطوط پر استوار اس ادارہ کے وہ تاحیات چانسلر ہیں۔ ملت کے دردمندو ں اور بیرون ملک بہی خواہوں کے چندے سے تعمیریہ ادارہ اب کمرشل یونیورسٹی بن گیا ہے، جہاں مقامی افراد کے مطابق کسی غریب طالب علم کی رسائی تقریباً ناممکن ہے۔ مگر خان صاحب اپنے آپ کو سرسید ثانی کہلوانا پسند کرتے ہیں، خوشامدی انہیں اسی نام سے پکارتے ہیں۔خان صاحب موڈ میں ہوں ، تو شاذ و نادر ہی ان جیسا مہمان نواز اور دوست پرورملے گا، مگر جوں ہی آپ نے چبھتے ہوئے سوالات کئے ، تو ان کی دوستی کافور ہو جاتی ہے ۔ جس کا براہ راست مجھے بھی مشاہد ہ ہوا۔ یونیورسٹی کے وسیع و عریض احاطہ میں انہوں نے ایک خوبصورت مسجد کے پیچھے اپنا دفتر ایک سادہ سی عمارت میں رکھا ہے، جس کا نام’ سچا آشرم‘ ہے۔ آشرم کے دروازے اور احاطہ میں رومی اور یونانی دیویوں کے نیم برہنہ مجسمے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔دوران انٹرویو انہوں نے راقم سے کہا، کہ شہری ترقی کے وزیر کی حیثیت سے انہوںنے اپنے محکمہ کے بجٹ کا 19فیصد مسلم آبادیوں کیلئے مختص کیا تھا۔۔ مگر جب میں نے ان سے پوچھا، کہ پچھلے انتخابات میں ان کی پارٹی نے اعلیٰ تعلیمی اداروںاور نوکریوں میں مسلمانوں کیلئے 18فیصد نشستیں مخصوص کرنے کا وعدہ کیا تھا، تو ان کا موڈ آف ہوگیا۔ اور کہا کہ میں ان کے مخالفین کے پروپیگنڈا کا شکار ہو گیا ہوں۔ میں نے پوچھا، کہ پچھلے انتخابات میں آپ کے لیڈر ملائم سنگھ یادو نے یہ بھی وعدہ کیا تھا، کہ بے قصور مسلم نوجوانوں کی رہائی کیلئے وہ ان کے کیسز کی ازسر نو جانچ کروائیں گے۔ تو انہوں نے جواب دیا، کہ اس میں قانونی پیچیدگیاں تھیں اور عدالتوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ مگر جب میں نے توجہ دلائی کہ ان میں سے 9نوجوا ن توآپ کے شہر کے ہیں، تو ان کا صبر جواب دے گیا۔ اور کہا کہ میں کسی ایجنڈا کے تحت انہیں ہروانے کیلئے رام پور آیا ہوں۔ میں نے کہا کہ آپ اندرا گاندھی کی خاندانی سیاست کے بڑے ناقد رہے ہیں، ابھی سوال مکمل ہی نہیں ہوا تھا، کہ وہ بھڑ ک گئے اور فی الفور یونیورسٹی احاطہ سے اور شہر سے نکل جانے کا حکم صادر کیا۔ شاید وہ محسوس کر رہے تھے، کہ سوال انکی اہلیہ ، جو پچھلے سال پارلیمنٹ کے ایوان بالا کیلئے منتخب ہوئی ہیں اور اب ان کے صاحبزادے جو اسمبلی کا انتخاب لڑ رہے ہیں سے متعلق ہے۔ ”آپ بی جے پی کے ایجنٹ ہیں۔کشمیریوں کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا، کہ ”کشمیر ی فوج کیلئے مخبری کا کام کرتے ہیں۔ــ‘‘ جانے سے قبل میں نے رام پور شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے ان کی تعریف کرتے ہوئے کہا، کہ اگر شاہجہانی صفت اور فراست کے ساتھ ساتھ آپ میں عدل جہانگیری ، عقل سلیم اور تھوڑا سا صبر بابری بھی ہوتا، تو یقینا اس وقت قوم کو آپ جیسے لیڈر کی اشد ضرورت تھی۔
شہر میں جہاں لوگ ان کے کاموں کی تعریفیں بھی کرتے ہوئے ملے ، وہیں ان کے برتائو اور رویہ سے نالاں بھی نظر آئے۔ شہر کی منفردچاقو اور پلائی ووڈ کی صنعت دم توڑ چکی ہے، تقریباً ایک لاکھ کاریگر بے کار ہوکر اب رکشہ چلا رہے ہیں۔تکبر اور غرور کا عالم یہ ہے، کہ خان صاحب نے گھر کے پچھواڑے سے ایک فلائی اوور خصوصی طور پر تعمیر کروایا ہے، جو ان کے کاروان کو پرانے شہر کی پیج در پیچ گلیوں سے بچا کر سیدھا سول لائنز پہنچاتا ہے۔ اسی طرح صوبہ کا طویل ترین فلائی اوو ر دو ارب روپے کی لاگت سے جوہر یونیورسٹی کے گیٹ سے شروع ہوکر غیر آباد زمینوں سے ہوتے ہوئے ایک جنگل میں ختم ہو جاتا ہے۔اس کی افادیت کا کسی کو پتہ نہیںہے۔اس کیلئے کسانوں اور شہر کے چند متمول افرادکی جو بتایا جاتا ہے کہ ان کے مخالفین تھے‘ زمینیں ایکوائیر کی گئی ہیں۔شہر کے مشہورسینٹ میر ی اسکول نے جب ان کی کسی بات سے اختلاف کیا، تو اس ادارہ کے گیٹ کی طرف جانے والے راستہ کو کھود کر بند کر دیا گیا، تا آنکہ اسکول ایڈمنسٹریشن نے خوار ہوکر ان سے معافی مانگی۔رام پور کی عالمی شہر ت یافتہ رضا لائبریری کے چمن میں ایک مالی سے جب میں نے رام پور کی صورت حال کے بارے میںپوچھا، تو اس کاخوبصورت جواب تھا، کہ ان کے ایک طرف ظلم و جبر ، مگر دوسر ی طرف شہر کی ترقی بھی ہے۔ جس کی تکمیل خان صاحب کے بغیر کسی اور کے بس میں نہیں تھی۔ مگر پاس میں ایک بزرگ مالی سے، جو ہماری باتیں سن رہا تھا، رہا نہیں گیا۔ ”یہ ترقی ، خوبصورتی اور پارک آپ جیسے لوگوں کیلئے ہیں، جو باہر سے آتے ہیں۔ ان کا کیا حاصل ، جب آپ کو خالی پیٹ سونا پڑے۔ سب بجلی ، سڑک اور پانی دینے کی باتیں کرتے ہیں،مگر روزگار اور روٹی کی باتیں کوئی نہیں کرتا۔ میرے تعلیم یافتہ بالغ بچے بیروزگار ہیں۔ فیکٹریاں بند ہوچکی ہیں۔شہر کی اس خوبصورتی کا کیا فائدہ‘‘۔ سچ ہے، جب پیٹ میں روٹی ہوتی ہے اور جیب میں پیسہ بجتا ہے، تو ہر ذرہ موتی اور ہر قطرہ شبنم ہوتا ہے۔