ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟

نقطہ نظر: ڈاکٹر منظور عالم

مذہبی رہنماکو ہر مذہب اور دھرم میں تقدس ، فوقیت اور اہمیت حاصل ہے ، مذہب کے معاملات میں ان کی باتیں مستند اور معتبر ہوتی ہیں ، ان کی تعلیمات اور ہدایات کو ہی ترجیح دی جاتی ہے ، یہ ماناجاتا ہے کہ دھرم گرو اور مذہبی رہنما اپنے مذہب کے سب سے زیادہ اور صحیح جانکار ہوتے ہیں اس لئے مذہبی معاملات میں ان کی رائے سے انکار کرنا ، کسی اور کے بتائے راستے پر چلنا یا ان کی باتوں کو نظر انداز کرکے کسی سیاسی رہنما کے نقش قدم پرچلنا مذہب اور دھرم کی واضح خلاف ورزی سمجھی جاتی ہے۔ جس طرح اسلام میں علماءکرام کو انبیاءکا وراث ماناجاتاہے اور مذہبی معاملات میں علماءکرام سے ہی رجوع کیا جاتاہے ، ان کی بات ہی مستند اور معتبر ہوتی ہے کیوں کہ شریعت کے جانکار اور اسلامی علوم کے ماہر علماءکرام ہی ہوتے ہیں ، مذہبی اور شرعی امور میں علماءکرام کے علاوہ کی باتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی ۔ اسی طرح عیسائیت کا معاملہ ہے جہاں عیسائی مذہب کے جانکار اور پیشوا کو پوپ کہاجاتاہے ، چرچ کے پجاری کو فادر کہاجاتاہے اس لئے عیسائیوں کے یہاں مذہبی نقطہ نظر سے ہر معاملہ میں پوپ کی بات ہی حرف آخر مانی جاتی ہے ،مذہب تشریح اور عوام کی مذہبی رہنمائی کا حق فادر کو ہی حاصل ہے ، اگر کوئی عام انسان مذہب عیسائیت کے بارے میں رہنمائی کرے گا تو یقینی طو رپر اس کی بات کو وہ اہمیت حاصل نہیں ہوگی جو پوپ اور فادر کی بات ہوگی ۔ یہودیت اور دوسرے مذاہب میں بھی یہی معاملہ ہے ۔ اسی طرح کا معاملہ ہندو مذہب میں بھی ہے ۔ ہندو مذہب کے سب سے بڑے رہنما اور دھرم گرو کو شنکر آچاریہ کہاجاتاہے ۔ ہندوستان میں چار شنکر آچاریہ سب سے اہم ہیں جو چار الگ الگ مٹھوں کے رہنما اور ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ ان چاروں کو ہندو مذہب میں سب سے زیادہ اہمیت ، فوقیت اور تقدس حاصل ہے ۔ یہ ہندو مذہب کے سب سے بڑے رہنما اور پیشوا مانے جاتے ہیں ، ان کی باتوں کی ہندو مذہب میں بہت زیادہ اہمیت ہوتی ہے ، یہ سناتن دھرم کی کتابوں ، اس کی باریکیوں اور گہرائیوں کے سب سے بڑے واقف کار ہوتے ہیں ۔ اس لئے ان کی باتوں اور گفتگو کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتاہے ۔ اگر یہ کسی کام پر تنقید کررہے ہیں ، کسی عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہندو مذہب کے اعتبار سے وہ غلط ہے ، دھرم اس کام کی اجازت نہیں دیتاہے ، اس کا کرنا ان کے یہاں جرم اور گناہ ہوگا کیوں کہ یہ ان کے سب سے بڑے مذہبی رہنما ہیں ، مذہبی پیشوا اور جانکار ہیں ۔

اسی تناظر میں رام مندر کے افتتاح کے تعلق سے شنکر آچاریہ کے نظریات اور تعلیمات کو دیکھنے کی ضرورت ہے ۔ 22 جنوری کو رام مندر کا افتتاح ہورہاہے ، تیاری پورے زور وشور کے ساتھ جاری ہے ، ہندوستا ن سمیت دنیا بھر کے مخصوص لوگوں کو مدعو کیاگیا ہے، وزیر اعظم نریندر مودی افتتاح کریں گے اور اہم مذہبی رسومات کو انجام دیں گے ۔ جس کی شنکر آچاریہ شدید مخالفت کررہے ہیں ، ہندو دھرم کے سب سے مقدس مانے والے چاروں شنکر آچاریہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کے افتتاح کو غلط کو قرار دے رہے ہیں ، وہ اس کو ہندو دھرم کی توہین قرار دے ہیں ، ان کی نظر میں یہ ہندو مت کے شدید خلاف اور غیر مذہبی عمل ہے ۔ چاروں شنکر آچاریہ کا یہ بھی مانناہے کہ ابھی رام مندر کی تعمیر صرف چالیس فیصد ہوئی ہے ، ساٹھ فیصد کام ابھی باقی ہے اس لئے رام مندر کا افتتاح کرنا اور پران پرٹشٹھا کا عمل سراسر غلط ، غیر مذہبی اور دھرم کی توہین ہے ۔ ہندو دھرم میں یہ ناقابل برداشت ہے ۔ پہلے ایک شنکر آچاریہ نے اس طرح کا بیان دیا اس کے بعد دیگر تین شنکر آچاریہ نے بھی اتفاق کیا او راب چاروں نے مشترکہ طور پر بیان جاری کرکے رام مندر کے افتتاح اور اس تعلق سے سبھی سرگرمیوں کو غلط ٹھہرایاہے ۔ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں پران پرتشٹھااور افتتاح کو بھی غیر مذہبی اور سراسر غلط بتایاہے ۔ انہوں نے پہلے مندر کے ذمہ داروں اور حکومت کو سمجھانے کی کوشش کی ، مذہبی تعلیمات سے آگا کیا لیکن جب ان کی باتوں پر توجہ نہیں دی گئی ، حکومت نے اپنی مرضی کے مطابق ہی ہر کام کرنے کا فیصلہ کیا ، مذہبی تعلیمات کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا تبھی چاروں شنکر آچاریہ نے اس کے بائیکاٹ کا متفقہ فیصلہ کرلیا اور کہاکہ یہ جو کچھ ہورہاہے ہمارے مذہب اور عقیدہ کے خلاف ہے۔ اس لئے ہم سبھی شنکر آچاریہ ہندو دھرم کے خلاف اس پروگرام میں شرکت نہیں کریں گے ۔

 ہندو دھرم کے نظریات کے مطابق یہ چاروں شنکرآچاریہ اس موقع پر اس تقریب میں شرکت کے سب سے زیادہ حقدار ہیں لیکن ان کو رسمی طور پر دعوت دی گئی ، ان کے قریبیوں کو نہیں بلایاگیا ، ان سے کوئی بھی مشورہ نہیں لیاگیا اور نہ ہی ان کو مندر کا افتتاح اور پوجاپاٹ کرنے کیلئے کہاگیاہے جس پر سبھی شنکر آچاریہ نے سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ جو کام ہمارا تھا وہ وزیر اعظم کررہے ہیں تو پھر ہم وہاں کیا صرف تالی بجانے آئیں گے ؟ ایسا نہیں ہوسکتاہے ۔ اگر وزیر اعظم کے ہاتھوں یہ سب ہوگا تو ہم نہیں آئیں گے اور اب یہی خبر آرہی ہے کہ رام مندر کے افتتاح میں چاروں میں سے ایک بھی شنکر آچاریہ شرکت نہیں کریں گے ۔ یہ خبر بھی سامنے آرہی ہے کہ شنکر آچاریہ کی حمایت کرتے ہوئے پنڈٹوں اور مندر کے پجاریوں کی بڑی تعداد نے رام مندرکے افتتاح کا بائیکاٹ کرنا شروع کردیاہے ۔

شنکر آچاریہ ان کے مذہبی پیشوااور سب سے بڑ ے رہنما ہیں ، یقینی طور پر وہ اپنے مذہب کے سب سے زیادہ جانکار ہیں اور وہ اگر کسی کام اور عمل کو غلط قرار دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ وہ ان کے مذہب کے اعتبار سے غلط ، غیر قانی اور قابل مواخذہ ہے ۔ رام مندر کا افتتاح کے بارے میں شنکر آچاریہ نے جس طرح کا فیصلہ کیا ہے اور جس جرات کے ساتھ پوری کاروائی کو غیر مذہبی اور ہندومت کے خلاف بتایاہے وہ غیر معمولی ہے اور ہندومت پر یقین رکھنے والوں کیلئے سوچنے کا مقام ہے کہ جس کام کو دھرم اور مذہب کا حصہ سمجھ کر کیا جارہاہے وہ مذہب کے خلاف ہے۔ ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ شنکر آچاریہ اور مذہبی پیشوا اپنے مذہب کی بہتری اور بھلائی چاہنے والے ہیں ، اچھے اور برے میں تمیز کرنا جانتے ہیں اس لئے وہ اگر 22 جنوری کی سرگرمیوں کو غلط اور ہندومت کے خلاف قرار دے رہے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ یہی سچائی اور حقیقت پر مبنی ہے اور ہندومت کے پیروکاروں کو ایسا کچھ نہیں کرنا چاہیے جو مذہبی روح کے خلاف ہے جس کا مقصد محض سیاسی فائدہ اٹھانا اور عوام کو مذہب کے نام پر گمراہ کرنا اور بیوقوف بنانا ہے ۔

ہندوستان ایک سیکولر اور جمہوری ملک ہے ، سرکاری طور پر یہاں کا کوئی مذہب نہیں ہے ، ہندوستان کے دستور میں تمام قوموں کو اپنے مذہب پر عمل کرنے کی مکمل آزادی دی گئی ہے یہی ہندوستان کی خصوصیت اور خوبصورتی ہے لیکن رام مندر کے افتتاحی پروگرام کو سرکاری پروگرام بنادیاگیاہے ،پوری سرکاری مشنری اس پروگرام میں مصروف ہوگئی ہے ، حکومت کی پوری توجہ ایک مذہبی تقریب کو کامیاب بنانے میں لگی ہوئی جو جمہوریت کے اور سیکولرزم کے خلاف اور غیر دستوری عمل ہے ۔ یہاں تمام مذاہب کو یکساں حیثیت حال ہے ، دستور سرکار اور سرکار میں مختلف عہدوں پر فائز شخصیات کو ایسی سرگرمیوں کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دیتاہے ، جو کچھ ہورہاہے وہ ہندوستان کے دستور کے خلاف ہے ۔

یہ بھی سوچنا اور غور کرنا ضروری ہے کہ ہم دنیا کو کیا پیغام دے رہے ہیں ،کس سمت میں ہندوستان کو لیکر جارہے ہیں ، ہندوستان کی پہچان اور شناخت دنیا کے سب سے بڑی جمہوری ملک کے طور پر ہوتی ہے کیا اس طرح کی سرگرمیوں کے بعد ہمیں خود کو سب سے بڑا جمہوری ملک کہلانے کا حق حاصل ہوگا ۔ بھارت کے مجاہدین آزادی اور آئین سازوں نے جو دستور مرتب کیاہے وہ جامع اور سیکولر ہے ۔ شہید اشفاق اللہ خان ، شہید بھگت سنگھ ، مہاتما گاندھی ، مولانا ابوالکلام آزاد ، پنڈٹ نہرو اور دوسرے لوگوں نے جس ہندوستان کا خواب دیکھا تھا ، جس ہندوستا ن کو آزاد کرانے کیلئے قربانیاں دی تھی کیا اس کی تصویر اور تعبیر یہی ہے ۔ بابابھیم راﺅ امبیڈ کر اور ان کے ساتھیوں نے آئین سازی کرتے وقت اس بات کا مکمل خیال رکھا کہ سبھی کو مکمل آزدی ملے ، برابری اور انصاف ملے ، سبھی مذہب اوردھرم کی حیثیت برابر ہوگی ، سرکار کا کوئی مذہب نہیں ہوگا ، کلیدی عہدوں پر فائز شخصیات کی پہچان ایک سیکولر شخصیت کے طور پر ہوگی ۔ لیکن آج جو کچھ ہورہاہے کیا وہ دستور کے مطابق ہے ؟ دستوری کا تقاضوں کا خیال رکھاجارہاہے ؟ ایک خالص مذہبی معاملہ کو سرکاری پروگرام بناکر پیش کرنے کی دستور نے کہیں اجازت دی ہے ؟ ۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ جن لوگوں آزدی کی لڑائی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا ، کسی طرح کی کوئی قربانی نہیں بلکہ مجاہدین آزادی کے ساتھ غداری کی ، جاسوس بن کر تحریک آزادی کو نقصان پہونچانے کی کوشش کی آج انہیں لوگوں کو رہنماکے طور پر پیش کیا جارہاہے اور ان کے نظریات کو ملک کیلئے آئیڈیل قرارد یا جارہاہے۔ملک کی آزادی میں دلت ، آدی واسی ، سکھ ، عیسائی ، ہندو مسلمان سبھی کمیونٹیز کا حصہ ہے، سبھی کی قربانیوں کا یہ نتیجہ ہے ۔ سبھی کو ہر طرح کی برابری حاصل ہے ۔ اس لئے کسی ایک مذہبی گروہ کو سرکاری طور پر پیش کرنا آئین کی خلاف ورزی اور ملک کے بنیادی ڈھانچہ کے خلاف ہے ۔ملک کے سرکردہ رہنما ، دانشوران اور اصحاف فکر ونظر کو اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ آخر یہ ملک کہاں جارہاہے ، ہم دنیا کی نگاہوں میں اپنی کیسی تصویر بنارہے ہیں؟۔

(مضمون نگار آل انڈیا ملی کونسل کے جنرل سکریٹری ہیں)

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com