بابری مسجد میں سازِ حقیقت کی نوا ہوں!

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

 ۱۹۹۱ء میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین پر مشتمل ایک غیر جانب دار ٹیم نے جو پروفیسر آر ایس شرما ، پروفیسر محمد اطہر علی ، پروفیسر این جھا اور پروفیسر سورج بھان پر مشتمل تھی ، تاریخی بنیاد پر بابری مسجد سے متعلق ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی تھی ، اسے بعد میں لندن کے ایک ادارے انڈین مسلم فیڈریشن آف یو کے نے ایک کتابچہ کی شکل میں شائع کیا ، اس نے بابری مسجد کے تعلق سے تمام ثبوتوں کے جائزے پر کافی غور و خوض کے بعد جو نتیجہ اخذ کیا ہے ، وہ کچھ اس طرح ہے :

(۱) رام جنم بھومی سے متعلق کوئی بھی مخطوط ثبوت سولہویں صدی سے قبل کا موجود نہیں ہے ، جو یہ ثابت کرے کہ ایودھیا میں کسی مقام کو رام چندرجی کی جائے پیدائش کے طورپر تقدس حاصل تھا ۔

(۲) اس بات کو تسلیم کرنے کی کوئی بنیاد نہیں ہے کہ بابری مسجد کے مقام پر ۲۹، ۱۵۲۸ء میں اس کی تعمیر سے قبل رام مندر یا کوئی مندر تھا ، یہ نتیجہ آثارِ قدیمہ کے شواہد اور مسجد پر لگے کتبہ سے بھی ظاہر ہے ۔

(۳) یہ داستان کہ بابری مسجد رام مندر کی جگہ پر قبضہ کرکے بنائی گئی ہے ، اٹھارہویں صدی عیسوی کے آخر اور انیسویں صدی عیسوی کی ابتداء میں گڑھی گئی ۔

(۴) یہ پوری داستان کہ رام چندرجی کی جائے پیدائش پر تعمیر شدہ مندر اور سیتا کی رسوئی منہدم کی گئی تھی ، ۱۸۵۰ء کے بعد گڑھی گئی ، یہ ایک تصوراتی تاریخ کے ترقی پسندانہ انداز سے تخلیق کا ڈراما ہے ، جو صرف عقیدہ اور آستھا پر مبنی ہے اور جس کا حقیقت سے کوئی تعلق یالینا دینا نہیں ہے ۔

۰ اِلٰہ آباد ہائی کورٹ نے بابری مسجد کیس کی سماعت کرتے ہوئے ۵؍ مارچ ۲۰۰۳ء کو محکمۂ آثارِ قدیمہ کے ذمہ یہ کام سونپا کہ وہ کھدائی کے بعد پتہ چلائے کہ بابری مسجد سے پہلے اس جگہ پر کوئی مندر تھا یا نہیں ، محکمۂ آثارِ قدیمہ کی جانب سے کھدائی کے دوران وقفہ وقفہ سے جور پورٹ عدالت کو پیش ہوتی رہی ، اس میں یہ واضح طورپر کہا گیا کہ اس جگہ پر کسی مندر کی موجودگی کا کوئی آثار یا ثبوت نہیں ملا ہے ؛ لیکن سب سے آخر میں جو رپورٹ ۲۲؍اگست ۲۰۰۳ء کو عدالت میں یکایک داخل کی گئی ، اس میں حیرت انگیز طورپر دعویٰ کیا گیا کہ وہاں مندر تھا ، غیر جانبدار سیکولر مؤرخین نے انتہائی حیرت کے ساتھ اس رپورٹ کو پڑھا اور اس کے مختلف نکات پر تنقید کی۔

 مزید یہ کہ سنگھ پریوار سے وابستہ تمام افراد اور ان کے ذریعہ تیار کردہ تمام لٹریچر اور کتابوں میں تحریر ہوتا ہے کہ ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء میں رام جی بابری مسجد میں اچانک پرکٹ ہوگئے ؛ لیکن ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء کو تعزیرات ہند کی دفعات ۴۴۸ ، ۲۵۹ اور ۱۴۷ کے تحت فیض آباد کے ایودھیا تھانے میں تعینات سب انسپکٹر پنڈت رام دیو دوبے نے ماتا پرساد کانسٹیبل نمبر ۷ اور ہنس راج کا کانسٹیبل نمبر ۷۰ کے بیان پر جو پہلی F.I.Rلکھی ہے ، اس کے مطابق ابھیہ رام داس ، رام شکلا ، سدرشن داس کے علاوہ دیگر پچاس ساٹھ آدمی بابری مسجد کا دروازہ توڑ کر اور دیوار پھلانگ کر مسجد کے احاطہ میں داخل ہوئے اور وہاں بھگوان رام کی مورتی رکھ دی اور اندر کی دیواروں پر زعفرانی اور پیلے رنگ سے رام اور سیتا کی تصویریں بنادیں ، اس طرح انھوں نے مسجد کے تقدس کو پامال کیا ، جب انھیں روکا گیا تو وہ لوگ نہیں مانے ، صبح تک وہاں پانچ ہزار لوگوں کی بھیڑ جمع ہوگئی اور ان لوگوں نے بھجن و کیرتن شروع کردیا اور مذہبی نعرے لگانے لگے ۔

 اِلٰہ آباد ہائی کورٹ میں ہندو فریق کے ایک اہم گواہ سوامی ادل مکینشور آنند جی مہاراج نے عدالت کو بتایا تھا کہ بابری مسجد کی جگہ میں پنج وقتہ نماز ۲۲؍ دسمبر ۱۹۳۶ء کی نماز عشاء تک ہوتی رہی ہے ، ( ایسا اس لئے ہے کہ ایک یہ دلیل پیش کی گئی کہ ۱۹۳۶ء سے اس میں نماز بند ہے اور صرف جمعہ کی نماز ہوتی رہی ہے ) جسٹس ایس یو خان نے اپنے فیصلہ میں ان مراسلات کا حوالہ دیا ، جوکہ پولیس ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ وغیرہ میں ہوتے رہے تھے ، جب کہ اس واقعہ کو دوسرے ججوں نے پوری طرح نظر انداز کردیا ہے ۔

 آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے اپنے سروے کے دوران کوئی ایسی چیز برآمد نہیں کی جسے وہ مندر سے وابستہ کرتے ، صرف ایک جوڑواں مرد و عورت کا درمیانی دھر ہے ؛ لیکن یہ بھی نیچے کی کھدائی میں نہیں ہے ؛ بلکہ بابری مسجد کے ملبہ میں ملا ہے ، جو ۲۳؍ دسمبر ۱۹۴۹ء سے ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء تک مندر کے طورپر استعمال ہوتا رہا ہے ، مسجد کے نیچے کچھ باقیات اور ایک دو دیواریں ملی ہیں ، جو کافی مضبوط اور لمبی ہیں جو کہ شمال سے جنوب کی جانب قبلہ رُخ ہے ، جس کے بارے میں قیاس ہے کہ یہ بابری مسجد بننے سے قبل وہاں موجود کسی مسجد کی رہی ہوں گی ؛ کیوںکہ ہندوستان کے کسی مندر میں مغرب کی سمت کی دیوار شمال سے جنوب کی طرف نہیں ہوتی ہے ، کھدائی کے دوران ایسے پتھر ضرور ملے ہیں جس پر نقش کندہ ہے ؛ لیکن کوئی بھی نقش کسی مورتی یا انسان کی شبیہ کا نہیں ہے ۔

 ڈاکٹر سورج بھان ، ڈاکٹر جیامنتن ، ڈاکٹر ٹھکران وغیرہ نے عدالت میں دیئے اپنے بیان میں کہا کہ کھدائی سے یہ قطعاً ثابت نہیں ہوتا ہے کہ اس جگہ پر کبھی کوئی مندر یا کوئی ہندو مذہبی عمارت تھی ۔ (راشٹریہ سہارا، دہلی، ۷؍مئی ۲۰۰۵ء)

 رام شنکر اپادھیائے نے مارچ ۱۹۹۵ء میں بابری مسجد کے مقدمہ کی سماعت کرنے والی لکھنؤ بنچ کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا ہے :

میں نے ہندو دھرم کی کتابیں پڑھی ہیں ، رام چرت مانش یا تلسی داس کے کسی دوسرے ساہتیہ میں ایسا کوئی ذکر نہیں ملتا کہ ایودھیا میں شری رام کے مندر کو توڑ کر کوئی مسجد بنائی گئی ہو ، ہندو دھرم کی کسی بھی کتاب میں کوئی ایسا ذکر نہیں ملتا کہ رام چندرجی کے جنم استھل پر بابری مسجد بنائی گئی ہو یا رام چندرجی کی جنم استھل وہاں واقع ہوئی ہو، جہاں بابری مسجد تھی ۔

سوامی اگنی ویش کے چشم کشا نکات:

 مشہور آریہ سماجی قائد سوامی اگنی ویش کا تجزیہ بہت دلچسپ ہے ، ان کا کہنا ہے کہ: سنگھ پریوار اور بھگوا دھاری گروہ کا الزام ہے کہ ۱۵۲۸ء میں مغل بادشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے رام مندر توڑ کر بابری مسجد تعمیر کروائی تھی ، میرے ذہن میں ایک سوال اُٹھتا ہے کہ کیا ہندوستان کا اکثریتی طبقہ اتنا نا مرد تھا کہ اپنے ارادھیہ دیو رام کے جنم استھان جیسی جگہ پر بنے مندر کو توٹتے دیکھتا رہا ، نہ تو اس کی مخالفت کی اور نہ ہی کوئی تحریک چلائی ، یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بہت کم تھی ؛ بلکہ وہ نہ کے برابر تھے ، تاریخ میں مندر توڑنے کے بعد بھی کسی تحریک کے چلائے جانے کی کوئی سند کسی سنگھی مؤرخ نے بھی پیش نہیں کی ہے ، میرے ذہن میں یہ بھی خیال آتا ہے کہ اگر اس جگہ رام پیدا ہوئے تھے اور وہاں بھویہ مندر تھا تو وہ آبادی سے اتنا دُور کیوں تھا ؟ کیا کوشلیہ رام کو جنم دینے جنگل گئی تھی ؟ کیوںکہ ابھی تک کی تمام کھدائی کے نتیجہ میں اس کے آس پاس ڈیڑھ کیلو میٹر کے دائرہ میں کسی قدیم آبادی کا نام و نشان تک بھی نہیں ملا ہے ، اس سوال کا جواب ڈھونڈھنے کے لئے میں نے مغل پیریڈ کے آس پاس اور اس کے بعد کے ہندو اور سکھ مہا پرشوں اور ان کی کتابوں کا مطالعہ کیا ، سکھ اس لئے کہ جس زمانے میں مندر توڑنے کی بات ہوئی ہے ، اسی زمانہ میں سکھ مغلوں سے دو دو ہاتھ کررہے تھے ، اس سلسلہ میں مجھے کچھ نام ملے گرو گووند سنگھ ، شیواجی مہراج ، مہارشی دیانند ، سوامی وویکانند ، مہاتما گاندھی ، پنڈت نہرو ، سردار پٹیل ، ساورکر ، گروگلوالکر ، ہیڈگوار ، شیاماپرشاد مکھرجی ، پنڈت دین دیال ، انگریز ، کمیونسٹ ، مسلم اور سنگھی مؤرخ جنھوں نے مغلوں کی تاریخ لکھی ہے ۔

 سکھوں کے دسویں گرو گووندھ سنگھ پٹنہ میں پیدا ہوئے ، اس دور میں انھوں نے مغلوں سے ۱۴ جنگیں لڑیں ، ان کے چار بیٹے بھی شہید ہوئے ، پٹنہ سے پنجاب آتے جاتے ہوئے راستہ میں ایودھیا پڑتا ہے ؛ لیکن انھوں نے یہ کہیں بھی نہیں لکھا ہے کہ رام مندر کو توڑ کر بابر نے مسجد بنوائی تھی ، جاپ صاحب ، اکال استت ، وچیترنا پکچنڈی ، چریتر کے چار حصہ شاستر نام مالا ، اُٹھ پکھیا ، چریتر لکھاتے ، خالصہ ماہیما جیسی کتابوں میں ہندو مندر توڑنے کا ذکر تک بھی نہیں ملتا ، یہی نہیں اورنگ زیب کے نام لکھے اپنے خط ظفر نامہ میں بھی اس سلسلہ میں کچھ نہیں لکھا ہے ۔

 شیواجی مہراج ساری عمر مغلوں سے لڑتے رہے ؛ لیکن انھوں نے بھی کہیں نہیں لکھا ہے کہ بابر نے مسجد بنانے کے لئے کسی ہندو مندر کو مسمار کروایا تھا ۔

 مہارشی دیانند سرسوتی تمام عمر فیض آباد میں تمام مذاہب کے لوگوں سے مذاکرہ اور مناظرہ کرتے رہے ؛ لیکن انھوں نے بھی کبھی اس کا ذکر نہیں کیا ہے ، ان کی لکھی کتاب سنسکرت رتن مالا ، پاکھنڈکھنڈن ، تری وید بھاشیہ میں بھی نہیں ملے گا کہ کسی نے مندر توڑ کر مسجد بنوائی تھی ۔

 سوامی وویکانند سے بڑا کوئی ہندو مبلغ ہو ہی نہیں سکتا ، جس نے امریکہ کے شکاگو شہر جاکر سناتن دھرم کے بارے میں زور دار تقریر کی تھی ، ان سے منسوب دو سو کتابیں موجود ہیں ؛ لیکن اس میں بھی یہ کہیں نہیں ہے ،مہاتماگاندھی جنھوں نے ’’ ہے رام ‘‘ کے ساتھ ہی اپنی آخری سانس لی ، انھوں نے بھی اس سلسلہ میں کچھ بھی نہیں کہا ہے ، مغلوں کو حملہ آور کہنے والے ڈسکوری آف انڈیا کے مصنف پنڈت نہرو رام مندر توڑنے کا کوئی ذکر نہیں کرتے ہیں ، سردار پٹیل نے بھی کبھی ایسا کوئی بیان نہیں دیا ہے ؛ بلکہ بطور وزیر داخلہ وہ مسجد میں مورتی رکھنے کے سخت مخالف تھے ۔

 رام چرتر مانس کے مصنف گو سوامی تلسی داس نے ایودھیا میں سریوندی کے کنارے بیٹھ کر ۲۳ کتابیں لکھیں ، رام چرتر مانس ، رام للا نہوج ، ویراگیہ سندی پنی ، ویرودھ رامائن ، پاروتی منگل ، جانکی منگل ، راماگیاپن ، دوہاولی ، کویتاولی ، گیتاولی ، سری کرشن جیتا ولی ، وینیہ پتریکا ، ست سئی ، داولی رامائن ، کنڈلیا رامائن ، رام شلوکا ، سنکٹ منچن ، کر کھارامائن ، رولا رامائن ، جھلنا ، چھپلیا رامائن ، کویتا رامائن ، اور کرل دھرما ، دھرم انروپن وغیرہ ؛ لیکن ان ساری کتابوں میں ایک لفظ بھی مندر توڑ کر مسجد بنانے کے سلسلے میں نہیں ہے؛ حتیٰ کہ آر ایس ایس نے اپنے قیام ۲۷؍ ستمبر ۱۹۲۵ء سے لے کر ۱۹۸۴ء تک کبھی بابری مسجد کے سلسلہ میں کوئی بیان نہیں دیا ، سنگھ سے وابستہ گوالکر ، ساورکر ، بلی رام ہیڈگوار پنڈت دین دیال ، شیاماپرساد مکھرجی کی سینکڑوں زہر اُگلتی تقریروں اور کتابوں میں بھی بابر کے ذریعہ مندر توڑ کر مسجد بنانے کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے ، مزید یہ کہ ساٹھ سال تک بابری مسجد کبھی بھی سنگھ کے ایجنڈے میں شامل نہیں رہی ۔

 بابری مسجد کی تعمیر کے ۴۰ سال بعد اکبر کے دور میں گو سوامی تلسی داس نے رام چرتر مانس لکھی ، اس کے بعد ہی مسجد سے دو کیلو میٹر دو رراجہ دسرتھ کا راج بھون بنا ، رام چندرجی کی جائے پیدائش کے طورپر رام کوٹ مندر اورسیتا رام کی رہائش گاہ کے طورپر کنک مندر بنا ، اس کے ساتھ ہی ہنومان گڑھی مندر ، رادھوجی مندر ، سیتا رسوئی وغیرہ کی عمارتیں تعمیر ہوئیں ؛ لیکن ان سب سے دو کیلو میٹر کی دوری پر ۱۵۲۸ء سے لے کر ۱۸۸۵ء یعنی ۳۵۰ سال تک بابری مسجد بغیر کسی تنازعہ کے اپنی جگہ ایک اللہ کی عبادت کے لئے قائم رہی ، ۱۸۵۷ء میں مسجد کے بغل والی خالی زمین پر ایک دیوار اُٹھاکر ہندوؤں کو دے دی گئی ، جس پر ۱۸۸۳ء میں ہندوؤں نے مندر بنانا چاہا ؛ لیکن حکومت نے اس کی اجازت نہیں دی ، تو ۱۸۸۵ء میں مہنت رگھو پرداس نے فیض آباد کی عدالت میں ایک مقدمہ دائر کیا کہ جنم استھان نام کا ایک چبوترہ مسجد کے سامنے ہے ، جس کی لمبائی مغرب سے مشرق اکیس فٹ اور چوڑائی شمال تا جنوب سترہ فٹ ہے ، سردی اور برسات میں پوجا کرنے والوں کو تکلیف ہوتی ہے ، اس وجہ سے اس پر چھت ڈالنے کی اجازت دی جائے ؛ چوںکہ حکومت عمارت بنانے سے منع کررہی ہے ؛ اس لئے عدالت کے ذریعہ حکومت کو حکم نامہ جاری کیا جائے ؛ لیکن ۲۴؍ دسمبر ۱۸۸۵ء کو فیض آباد کے سب جج پنڈت ہری کشن نے اس مقدمہ کو یہ کہہ کر خارج کردیا کہ مسجد کے سامنے مندر بننے سے ہندؤوں اور مسلمانوں کے درمیان خون خرابہ ہوگا ، اس وجہ سے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے ، اس فیصلہ کے خلاف رگھو برداس نے فیض آباد کے ضلع جج کرنل جئے آریہ کی عدالت میں اپیل کی ؛ لیکن ۱۶؍ مارچ ۱۸۸۶ء کو کورٹ کے ذریعہ اس جگہ کے معائنہ کے بعد اس اپیل کو بھی خارج کردیا گیا ، رگھوبرداس نے ایک بار پھر جوڈیشنل کمشنر کی عدالت میں اپیل کی ؛ لیکن وہاں سے بھی یکم نومبر ۱۸۸۶ء کو یہ اپیل خارج ہوگئی ، مگر اس پورے عرصہ میں مسجد کی جگہ مندر ہونے کا کوئی دعویٰ پیش نہیں ہوا ، ۱۹۳۴ء کو فیض آباد کے فرقہ وارانہ فساد میں مسجد کو نقصان پہنچایا گیا ، ۲۲ اور ۲۳ ؍دسمبر ۱۹۴۹ء کی تاریک سرد رات میں رام للا کی مورتی زبردستی مسجد کے منبر پر رکھ دی گئی ، کانسٹبل ماتا پرساد نے اس کے لئے تھانہ میں ایف آئی آر درج کروائی اور پولیس افسر انچارج رام دوبے نے تین نامزد لوگ سمیت ۵۰ تا ۶۰ نامعلوم افراد کے خلاف تحریر کیا کہ یہ لوگ تالا توڑ کر مسجد میں داخل ہوئے ، مسجد کو ناپاک کیا اور زبردستی مورتی اس کے اندر رکھ دی ؛ لیکن اس پر اعلیٰ افسران کی جانب سے بغیر کسی کارروائی کے مسجد کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے اس کے دروازہ پر تالا لگاکر مسجد کے اندر کسی بھی فریق کے داخلہ پر پابندی عائد کردی اور مسجد کے ۵۰۰ میٹر کی دُوری تک مسلمانوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ، ۱۹؍ جنوری ۱۹۵۱ء کو کورٹ سے بھی یہ بیان آیا کہ یہ مسجد ہے جس میں مسلمان ۱۵۲۸ء سے لگاتار نماز ادا کرتے آرہے ہیں ۔ (جاری)

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com