مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
(نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ)
9/ جون 2024ء کو نریندردامودر داس مودی نے بہتر(72) نفری وزارت کے ساتھ خود بھی تیسری بار وزیر اعظم کی حیثیت سے حلف اٹھایا، بعد میں قلم دانوں کی تقسیم بھی ہو گئی، یہ پہلی بار ہے کہ نریندر مودی کی وزارت میں کوئی مسلم وزیر نہیں ہے، مودی جی”کانگریس مکت بھارت“ تو نہیں بنا سکے، لیکن ”مسلم مکت وزارت“ بنانے میں انہوں نے کامیابی حاصل کر لی،یہ بات کہنے کی ہے کہ این ڈی اے سے کوئی مسلم جیت کر نہیں آیا، جب پنجاب سے رونیت سنگھ بٹوکو انتخاب میں شکست کے باوجود اور کیرالہ سے بی جے پی کے جنرل سکریٹری جارج کورین کو پارلیامنٹ اور راجیہ سبھا کا رکن نہ ہونے کے باوجود وزیر بنایا جاسکتا ہے تو ہارے ہوئے مسلم امید وار کو بھی وزارت میں لیا جا سکتا تھا، گو ہمارے نزدیک ہارے ہوئے کو وزارت سونپنا،رائے دہندوں کی توہین ہے، لیکن یہ توہین ایک جگہ کی جا سکتی ہے تو مسلمانوں کے سلسلے میں بھی اس کا جواز بن جاتا ہے، اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ چھ ماہ کے اندر پارٹی اسے راجیہ سبھا میں پہونچا دیتی ہے یا کسی محفوظ سیٹ سے ضمنی الیکشن میں وہ جیت کر ممبر پارلیامنٹ بن جاتا ہے، ایسا کیا بھی جا سکتا تھا، لیکن مسلم مخالف ذہنیت نے ایسا نہیں ہونے دیا، لطف کی بات یہ ہے کہ ہندوستان کی کسی پارٹی کو بھی یہ کمی نہیں کھل رہی ہے، اکثریتی طبقہ کو مطمئن کرنے کی جو ہوا بی جے پی نے چلائی تھی، اس کا اثر اب دوسری پارٹیوں پر بھی دکھنے لگا ہے۔یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ جے ڈی یو، ٹی ڈی پی سے کوئی مسلمان جیت کر پارلیامنٹ نہیں پہونچ سکا، ایل جے پی نے کسی مسلمان کو ٹکٹ دیا ہی نہیں تھا، اس کے باوجود نیت صاف ہوتی تو غلام علی کھٹا نہ کو وزارت میں لیا جا سکتا تھا، وہ جموں کشمیر سے آتے ہیں، بی جے پی کے مضبوط لیڈر ہیں اور راجیہ سبھا کے نامزد ممبر بھی۔
جن ارکان کو حلف دلایا گیا،ان میں تیس (30)کا بینہ درجہ کے وزیر ہیں، جب کہ پانچ وزراء مملکت ہیں،جنہیں آزاد چارج دیا گیا ہے، چھتیس (36)وزیر، وزیر مملکت درجے کے ہیں۔ نریندر مودی نے اپنی پارٹی سے پُرانے چہروں کو ہی زیادہ تر لیا ہے، نئے چہرے اتحادیوں کے ہیں، فارمولہ بڑی پارٹیوں کے لیے چار ایک اور چھوٹی پارٹی کے لیے تین پرایک کا تھا اور جو پارٹی سے اکلوتے جیت کر آئے، ان کی لاٹری بھی لگ گئی، کیوں کہ اگر ان کو وزارت نہیں ملتی تو وہ تڑی پار ہو سکتے تھے، مودی جی نے سب کا خیال رکھا، جیتن رام مانجھی قسمت کے دھنی تھے، اسی (80)سال کی عمر میں پہلی بار پارلیامنٹ کا انتخاب جیتا اورچھوٹی صنعت سے متعلق وزارت کی کرسی پر براجمان ہو گیے۔
وزیر اعظم نے اپنی پارٹی سے وزراء کے انتخاب میں اس بات کا بھی دھیان رکھا ہے کہ جو لوگ باغیانہ تیور اختیار کر سکتے تھے ان کو جگہ مل جائے، جے پی نڈا، منوہر لال کھٹر، شیوراج سنگھ چوہان کو اسی نقطہ نظر سے نئے چہرے کے طور پر کابینہ میں جگہ مل گئی، تئیس (23)ریاستوں کووزارت میں ملی نمائندگی میں ذات اور قبائل کے طور پر درجہ بندی کی جائے تو 27اوبی سی 10 درج فہرست ذات، پانچ درج فہرست قبائل اور پانچ اقلیتی (مسلم چھوڑ کر) طبقے سے آئے ہیں، تھوڑا اور اندر جائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وزراء میں سات(7) سابق وزراء اعلیٰ، سات(7) عورتیں، چھ (6)سیاسی خاندان کے لوگ ہیں، خیال ریاستوں کی وسعت اور متعینہ نشستوں کا بھی رکھا گیا ہے، چنانچہ اتر پردیش سے گیارہ (11)، بہار سے آٹھ(8)، گجرات سے پانچ(5)، مہاراشٹر سے چھ(6)، مدھیہ پردیش اور راجستھان سے چار چار، مغربی بنگال، کیرل سے دو دو، پنجاب، جموں کشمیر، دہلی، گوا، تامل ناڈو اور اتراکھنڈ سے ایک ایک وزیر بنائے گئے ہیں، بعض فیصلے وزیر اعظم نے چونکا نے والے لیے، ان فیصلوں میں انوراگ ٹھاکر، انیل بلونی اور راجیو چندر شیکھر، اسمرتی ایرانی، ارجن منڈا کو اپنی کابینہ سے الگ رکھنا بھی ہے، حالاں کہ ان کا وزیر بننا طے مانا جا رہا تھا
وزیر اعظم کی حلف برداری تقریب میں قریب کے جن ملکوں کے سر براہان کو شرکت کی دعوت دی گئی تھی، ان میں نیپال، مالدیپ، ماریشش، بھوٹان، سے شلس، بنگلہ دیش، سری لنکا جیسے ملک تھے، جب کہ افغانستان، پاکستان اور چین کی سرحدیں بھی ہندوستان سے قریب ہیں، انہیں نہیں پوچھا گیا،جے پی نڈا کو وزارت میں لینے کا مطلب ہے کہ بی جے پی کا صدر کوئی دوسرا چنا جائے گا، جو آر ایس ایس کا پسندیدہ شخص ہو سکتا ہے، یہ بھی ممکن ہے کہ اتر پردیش میں کراری ہار کو سامنے رکھتے ہوئے یوگی ادتیہ ناتھ کو وزیر اعلیٰ کی کرسی چھوڑنی پڑے اور بغاوت کی آواز ان کے اندر سے نہ ابھر ے، اس کے لیے انہیں بی جے پی کا صدر بنا دیا جائے، بی جے پی کو ایک سخت گیر صدر کی تلاش ہے جو موہن بھاگوت اور آر ایس ایس کے لیے قابل قبول ہو اور یوگی ادتیہ ناتھ اس کسوٹی پر پورے اترتے ہیں وہ آر اس اس کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔خصوصاً اس صورت میں جب موہن بھاگوت کا بیان بغیر نام لیے مودی جی کے خلاف آیا ہے، جس میں انہوں نے سیوک کومغرور اور منی پور کے حالات کو ایک سال میں پُر امن نہیں بنائے جانے پر سخت رد عمل کا اظہار کیا ہے۔
پرفل کمار کوبھی وزیر بننا تھا، لیکن وہ پہلے مرکز میں کابینی وزیر رہ چکے ہیں، انہیں راجیہ منتری کا درجہ مل رہا تھا، اس لیے انہوں نے حلف برداری میں شرکت سے انکار کر دیا، اس درمیان بغاوت کی جو آواز بلند ہو گی اس کو خاموش کرنے کے لیے وزیر اعظم کے پاس ضابطہ کے اعتبار سے آٹھ (8)اور وزیر کے تقرر کی گنجائش ہے، اس لیے مانا جا رہا ہے کہ دیر سویر مزید وزراء کی حلف برداری کے ذریعہ یہ تعداد اسی (80)تک پہونچائی جا سکتی ہے۔
حلف برداری تقریب میں صدر جمہوریہ دروپدی مرمو کو کم وبیش ایک سو چھیالیس (146)بار اٹھ بیٹھ کرنا پڑا، تہتر(73) بار حلف دلانے کے لیے اورتہتر بار حلف کے بعد وزراء سے استقبال قبول کرنے کے لیے، کچھ یہی حال پہلی صف میں بیٹھے نریندر مودی اور ان کے وزراء کا رہا، انہیں ایک بار حلف کے لیے اسٹیج پر جانا پڑا اور دوسری بار حلف لینے کے بعد وزراء کے استقبال کے لیے کھڑا ہونا پڑا، ایک سو چھیالیس(146) بار جلد جلد اٹھنا بیٹھنا آسان کام نہیں ہے، لیکن یہ رسم بھی بھر پور انداز میں پوری کی گئی۔
قلم دان کی جو تقسیم کی گئی ہے اس میں امیت شاہ کو وزیر داخلہ، راج ناتھ سنگھ کو وزیر دفاع، جے شنکر کو وزیر خارجہ، نرملا سیتا رمن کو حسب سابق وزیر خزانہ باقی رکھا گیا ہے، کئی اور وزارتیں علی حالہ سابق وزراء کے سپرد کی گئی ہیں، وزیر تعلیم بھی بی جے پی کا ہی ہے، اس سے جو بات کھل کر سامنے آئی ہے وہ یہ کہ مودی جی کے تیسرے دور میں ان کی داخلہ، خارجہ، دفاعی، مالیاتی اور تعلیمی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوگی، داخلہ کے علیٰ حالہ باقی رہنے کا مطلب ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جو سوتیلا سلوک مودی عہد حکومت میں ہوتا رہا ہے، وہ باقی رہے گا، سی اے اے، این سی آر، یوسی سی پر اندر ہی اندر کام ہوتا رہے گا اور مناسب وقت پر اس کے نفاذ کی کوشش کی جائے گی، خارجہ پالیسی میں مسلم ممالک سے رشتے بڑھائے جائیں گے چین، پاکستان، افغانستان اور مالدیپ کے حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نرملا سیتا رمن بیروزگاری، مہنگائی اور عام استعمال کی چیزوں کی قیمتیں بڑھا کر غریب اور پسماندہ لوگوں کوپریشان کرتی رہیں گی، جی ایس ٹی اور کمر توڑٹیکس کا سامنا عام ہندوستانیوں کو کرنا ہوگا، اور انبانی، اڈانی جیسے گجراتی تاجروں کے قرضے معاف کیے جاتے رہیں گے، نئی تعلیمی پالیسی کو رواج دیا جائے گا اور مدارس وغیرہ کے نصاب تعلیم کو بھی اس کے تابع کیا جائے گا، اس کا آغاز بہار سے نتیش کمار کی حکومت میں کیا جا چکا ہے، چنانچہ امتیاز احمد کریمی کو ایک پانچ رکنی کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا ہے تاکہ وہ مدارس کے نصاب تعلیم کو نئی تعلیمی پالیسی سے ہم آہنگ کرنے کے لیے سرکار کو ضروری مشورے دیں، ظاہر ہے دوسرے صوبوں میں بھی یہ سلسلہ جاری ہوگا، ایسے میں مدارس کا وجود عملًا ختم ہوجائے گا،جس کی شروعات پہلے ہی بہار میں مولوی آرٹس، مولوی سائنس، مولوی کامرس اور عالم درجات اور آنرس میں اس تقسیم کے ذریعہ کر دیا گیا ہے، مدارس کی پریشانی یہ ہے کہ اسی پر نادان دوستوں کے ذریعہ سبجیکٹ کا بوجھ بڑھا یا جا رہا ہے، اور اس اعتبار سے اساتذہ وہاں بحال نہیں کیے جا رہے ہیں کہ ہرکلاس میں ایک استاذ ہو سکے، میں نے ایسے سفارش کاروں کو ”نادان دوست“ اس لیے کہا ہے کہ انہوں نے سرکار کو خوش کرنے کے لیے نصاب میں تبدیلی اور درجہ بندی کر دی، لیکن پڑھائے گا کون اس طرف ان کا خیال ہی نہیں گیا۔
وزیر اعظم نے اپنے وزیر وں کے درمیان قلم دان تقسیم کرکے اپنی حلیف جماعتوں کو بھی خاموش پیغام پہونچا نے میں کامیابی حاصل کی ہے کہ این ڈی اے اتحاد میں بھی وہی ہوگا جو مودی اور امیت شاہ چاہیں گے، اس پیغام نے اس پروپیگنڈہ پر لگام لگادیا ہے کہ جد یو یہ وزارت مانگ رہی ہے، اور تیلگو دیشم پارٹی فلاں فلاں وزارت کی خواہش مند ہے، قلم دان کی تقسیم میں کسی پارٹی کی نہیں چلی، اور مودی جی نے سب کو نظر انداز کرکے این ڈی اے کی حلیف جماعتوں کو بقول کانگریس ترجمان ”جھنجھنا“ پکڑا دیا ہے، جیتن رام مانجھی کو یہ کہنا پڑا کہ وزارت بڑی نہیں ہوتی کام بڑا ہوتا ہے، حالاں کہ ان کو چھوٹی صنعتوں کی وزارت دی گئی ہے، حلیف جماعتوں میں سب سے اچھی وزارت فوڈ پروسیسنگ کی چراغ پاسبان کو ملی ہے،جو پہلے ان کے والد رام بلاس پاسبان کے پاس تھی۔
مودی جی کی پہلی وزارت جس کا آغاز 2014ء میں ہوا تھا، اس میں نجمہ ہبت اللہ، ایم جے اکبر اور مختار عباس نقوی تین مسلم وزیر تھے، 2019ء کی وزارت میں مسلم وزراء کی چھٹنی شروع ہو ئی اور صرف مختاس عباس نقوی کو شامل کیا گیا 2022 ء میں ان کی راجیہ سبھا کی مدت ختم ہو گئی اور دوبارہ بی جے پی نے انہیں راجیہ سبھا نہیں بھیجا تو انہیں وزیر کا عہد ہ چھوڑدینا پڑا، اس طرح مودی جی کے دوسرے دور میں 2022 ء سے ہی کوئی مسلم وزیر نہیں تھا، ”مسلم مکت“ وزارت کا کام ان کے دوسرے دور سے ہی شروع ہو چکا تھا، تیسرے دور میں بالکلیہ مسلمانوں کو نظر انداز کر دیا گیااور سترہ(17) سے بیس(20) فی صد ہندوستانی مسلمانوں کا کوئی نمائندہ حکومت میں نہیں ہے۔
وزارت بن گئی، قلم دان تقسیم ہو گیے، حلف لینے کے قبل چائے پر وزراء کو نریندر مودی نے بلایا، سو دن کا ٹاسک دے دیا ہے، کس قدر عمل ہو سکے گا یہ کہنا مشکل ہے، ہماری رائے یہ ہے کہ نئی حکومت کے بارے میں کوئی واضح بات کہنا ذرا مشکل ہے، حکومت بنی ہے، اسے کام کرنے دیجئے اور دیکھتے رہیے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا۔