ناقابل معافی گناہ

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

اسلام کی نگاہ میں سب سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ شرک اور کفر ہے ، اس کی سزا ہمیشہ کے لئے دوزخ ہے ، جو شخص کفر کی حالت میں دنیا سے چلا جائے ، اس پر جنت کے دروازے بند ہیں اور ہمیشہ کے لئے آتشیں دوزخ کی آغوش اس کی رفیق رہے گی ، کفر کے بعد ایک ہی عمل ہے جس کے بارے میں فرمایا گیا کہ اس کا مرتکب ہمیشہ ہمیشہ دوزخ میں رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب ہوتا رہے گا اور اللہ کی لعنت برستی رہے گی ، کتنا گھبرادینے اور تڑپا دینے والا ہے یہ ارشاد ربانی:

وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ ، خَالِدًا فِیْھَا وَغَضَبَ اﷲُ عَلَیْہِ وَلَعَنَہٗ وَاَعَدَّ لَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا ۔ (نساء:۹۳)

جو جان بوجھ کر کسی مسلمان کو قتل کردے، اس کا بدلہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا ، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہو اور اللہ نے اس کے لئے بھیانک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

 کتنی لرزہ براندام کردینے والی ہے یہ آیت ! — لیکن اس شخص کے لئے جس کے دل میں خوفِ خداوندی کا کوئی گوشہ موجود ہو ، جس کی آنکھ کبھی کبھی سہی ، اللہ کے خوف سے نم ہونا جانتی ہو ، جس کا دل آخرت کے تصور سے لمحہ دو لمحہ سہی ، لرزنے سے آشنا ہو ، جو آخرت کی وسعتوں پر یقین رکھتا ہو ، جس کا جنت کی نعمتوں اور دوزخ کی ہولناکیوں پر ایمان ہو اور جس کے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہو ، جن سینوں میں دل کے بجائے پتھر کی سِل رکھی ہوئی ہو اور جن قلوب میں محبت کی شبنم کے بجائے نفرت اور ظلم و جور کی بھٹیاں سلگ رہی ہوں ، ان کے بارے میں کیوں کر سوچا جاسکتا ہے کہ خالقِ کائنات کا یہ ارشاد بھی ان کو تڑپا سکے گا اور خدا و ررسول کی بات بھی ان کے دلوں پر دستک دے سکے گی ؟؟

آہ ! کس قلم سے لکھا جائے اور کس زبان سے بولا جائے کہ ہمارے شہر میں ابھی دو ہفتہ کے مختصر عرصہ میں ایک درجن سے زیادہ مسلمانوں کا بے دردانہ قتل ہوچکا ہے ، کن کے ہاتھوں ؟ کیا کسی غیر مسلم کے ہاتھ ؟ کیا کسی دشمن ِاسلام کے ذریعہ ؟؟ نہیں ، حیرت کے کانوں سے سنئے کہ ایک کلمہ گو نے دوسرے کلمہ گو کو ناحق قتل کیا ہے ، ایک مسلمان کی تشنہ تلوار نے ایک مسلمان ہی کے لہو سے اپنی پیاس بجھائی ہے، سستے داموں خدا کا غضب خرید کیا ہے ، اپنے گلے کو لعنت ِخداوندی کے طوق سے آراستہ کیا ہے اور ابدی دوزخ حاصل کی ہے ، اس بے حسی پر آنکھیں جس قدر آنسو بہائیں ، دل جتنا تڑپے اور روئے کم ہے ، ہائے ! یہ اس اُمت کا حال ہے جس کو آخر آخر دم تک اس کے نبی ﷺنے مسلمان کے خون کی حرمت بتائی تھی اور ایک دوسرے کی جان و مال اور عزت وآبرو سے ہاتھ رنگنے کو منع فرمایا تھا ۔

 رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر گناہ کو معاف فرمادیں گے ، سوائے اس کے کہ کوئی شخص شرک کی حالت میں مرے یا کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کردے ، (ابو داؤد ، حدیث نمبر :۴۲۷۰) حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا : جس نے کسی مومن کو قتل کیا اللہ تعالیٰ نہ اس کی کوئی فرض نماز قبول فرمائیں گے اور نہ نفل : لم یقبل اﷲ منہ صرفا ولا عدلا (ابو داؤد ، کتاب الفتن، باب فی تعظیم قتل المؤمن، حدیث نمبر : ۴۲۷۰) اور کیوں نہ ہو کہ مومن کا قتل اللہ کے نزدیک دنیا کے ختم ہوجانے سے بڑھ کر ہے: قتل المومن اعظم عند اﷲ من زوال الدنیا (نسائی ، حدیث نمبر : ۳۹۹۰) حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے فرمایا کہ اگر تمام اہل زمین اور اہل آسمان بھی ایک مسلمان کی موت میں شریک ہوں، تو اللہ ان سب کو جہنم میں اوندھے منھ ڈال دے گا ، (ترمذی ، حدیث نمبر : ۱۳۹۸) اس سے اندازہ کیجئے کہ مومن کے خون کی کیا حرمت اور عظمت ہے اور کسی مسلمان کا جان لینا کیسی لعنت اور غضب ِالٰہی کو دعوت دینا ہے ! اسی لئے حضور ﷺ نے فرمایا کہ مومن برابر دین کے معاملہ میں وسعت و گنجائش میں رہتا ہے، جب تک کہ کسی خون ِحرام کا مرتکب نہ ہو ۔ (بخاری ، کتاب الدیات، باب قول اللہ تعالیٰ: ومن یقتل مؤمنا متعمدا الخ، حدیث نمبر : ۶۸۶۲)

جیسے قتل کرنا گناہ ہے، اسی طرح قتل میں تعاون بھی گناہ ہے ؛ بلکہ اگر کسی شخص نے دوسرے کو قتل پر اُکسایا ہو تو اس کا گناہ اصل قاتل سے بھی بڑھ کر ہے ، ایک بار آپ ﷺسے قاتل اور قتل کا حکم دینے والے کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: جہنم کے ستر حصے کئے جائیں گے جس میں انہتر (۶۹)حصہ قتل کا حکم دینے والے کے لئے ہوگا اور ایک حصہ خود اس قاتل کے لئے اور یہ ایک حصہ بھی اس کے لئے بہت کافی ہوگا : وللقاتل جزء وحسبہ (مسند احمد ، حدیث نمبر : ۲۳۰۶۶ عن مرثد بن عبد اللہ ؓ)

نہ صرف یہ کہ قتل پر اُکسانا اور اُبھارنا بہت بڑا گناہ ہے ؛ بلکہ مقتول کو بچانے کی کوشش نہ کرنا اور پہلو تہی سے کام لینا بھی انسان کو اللہ تعالیٰ کی لعنت کا مستحق بنادیتا ہے ؛چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ سے مروی ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا : جہاں کسی شخص کا ظلماً قتل ہو ، وہاں تم کھڑے نہ ہو ، وہاں موجود رہنے والوں پر بھی اللہ کی لعنت ہوتی ہے کہ انھوں نے اسے بچایا کیوں نہیں ؟ اور جہاں کسی شخص کو ظلماََزد و کوب کیا جارہا ہو ، وہاں بھی نہ ٹھہرو ؛ کیوں کہ حاضرین پر بھی اللہ کی لعنت ہوگی کہ انھوںنے مدافعت کیوں نہیں کی۔ (الطبرانی فی الکبیر،باب العین،حدیث نمبر : ۱۱۶۷۵،۱۱؍۲۶۰)

اصل یہ ہے کہ کسی شخص کو قتل کرنا اس بات کی علامت ہے کہ اس کے ذہن میں انسانی خون او ر انسانی زندگی کا احترام نہیں،اور یہ بہت ہی خطرناک بات ہے ؛ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ ایک نفس انسانی کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے اور ایک انسان کو بچانا پوری انسانیت کو بچانے کے مترادف ہے: مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَیْرِ نَفْسٍ اَوْفَسَادٍ فِی الْاَرضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعًا وَمَنْ اَحْیَاھَا فَکَاَنَّمَا اَحْیَا النَّاسَ جَمِیْعًا( المائدۃ: ۳۲)

 اس جرم کے شدید ہونے کی وجہ ظاہر ہے ، زندگی اللہ کی امانت ہے ، جان دینا اور جان لینا اللہ ہی کا حق ہے ، قاتل گویا اللہ کا حق اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے ، اس سے بڑھ کر سرکشی اورکیا ہوگی ؟ پھر خود مقتول کے ساتھ کتنی بڑی زیادتی ہے، ایک تو قتل کی تکلیف سے بڑھ کر کسی اور تکلیف کا تصور نہیں کیا جاسکتا، دوسرے: قاتل اسے ایسی نعمت سے محروم کرتا ہے ، جس کی واپسی ممکن نہیں اور جس کا بدل ناقابل حصول ہے، یہ تو خود قاتل کا معاملہ ہے ، پھر غور کیجئے کہ ہرانسان کے ساتھ کتنے ہی حقوق متعلق ہیں، معصوم بچوں اور بچیوں کی تربیت اس کے ذمہ تھی ، جَوان بہنوں کی شادی کا وہی ذمہ دار تھا، بوڑھے ماں باپ کی کفالت اسی کے سر تھی، بیوی کا سہاگ اس کے دم سے قائم تھا، خاندان کی کتنی ہی آرزوئیں اور تمنائیں اس سے متعلق تھیں اور سماج کی کتنی ہی اُمیدیں اور توقعات اس سے وابستہ تھیں ، بظاہر یہ ایک جان کا قتل ہے ؛ لیکن در حقیت وہ کتنی ہی تمناؤں ، حسرتوں ، اُمیدوں اور آرزوؤں کا قاتل ہے ، اس نے ایک بے قصور عورت کو بیوہ کیا ، معصوم بچوں کو یتیم اور بے سہارا بنایا ، بوڑھے ماں باپ سے اس کا عصائے پیری چھین لیا ہے اورچھوٹے بھائیوں اور بہنوں کی اُمیدوں کے محل کو خاکستر کر کے رکھ دیا ہے؛ اِس لئے یقیناً اس نے ایک شخص کا نہیں ؛ بلکہ ایک خاندان کا ایک کنبہ کا اور انسانیت کا قتل کیا ہے ۔

اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انتقام کاقانون رکھا ہے کہ یا تو خود قاتل کیفر کردار تک پہنچا دیا جائے ، (البقرۃ : ۱۷۸) اگر مقتول کے اولیا ، رضامند ہو جائیں تو ان کو دیت ادا کی جائے ، جو سو اونٹ یا اس کی قیمت ہے ، احادیث میں اس کی تفصیل موجود ہے ، مقصد اس دیت کا یہی ہے کہ ایک شخص کے قتل کی وجہ سے مقتول کے خاندان کو جو نقصان پہنچا ہے وقتی طور پر سہی ، کچھ تو اس کی اشک شوئی ہو جائے اور ہنگامی مدد تو اسے مِل جائے ، یہ خون بہا اس وقت بھی واجب ہے ، جب کسی شخص کو دھوکہ میں قتل کر دے ، ( النساء: ۹۲) اور اس غلطی کی صورت میں صرف دیت ہی کافی نہیں ؛ بلکہ کفارہ بھی واجب ہےکہ مسلسل دوماہ روزے رکھے جائیں، (النساء : ۹۲) اگر جان بوجھ کر قتل کیا ہو تو اس کے لئے کوئی کفارہ متعین نہیں کیا گیا ، زندگی بھر توبہ و استغفار کرتا رہے ؛ کیوں کہ یہ اتنا بڑا جرم اور اتنا شدید گناہ ہے کہ کوئی عمل اس کا کفارہ بن نہیں سکتا ، یہ کفارہ اسی لئے ہے کہ حقوق اللہ میں جو دست درازی ہوئی ہے ، اس کی کچھ تلافی ہو جائے ۔

رسول اللہ ﷺنے حجۃ الوداع کے موقعہ سے مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : آج کون سا دن ہے؟ یہ کون سا مہینہ ہے ؟ اور یہ کون سی جگہ ہے ؟ پھر فرمایا کہ یہ حرام مہینہ ، حرام دن اور حرام سر زمین یعنی حدودِ حرم کا علاقہ ہے، اس کے بعد ارشاد فرمایا کہ مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو اس سے بھی زیادہ قابل حرمت ہیں ، (صحیح بخاری، کتاب العلم، باب قول النبی: رب مبلغ أوعیٰ من سامع ، حدیث نمبر: ۶۷) اگر اس پیغمبر رحمت کی اُمت مسلمانوں کے ؛ بلکہ انسانوں کے خون کی اہمیت و حرمت کو نہ سمجھ سکے اور اس کے ہاتھ ایک دوسرے کے خون سے رنگین ہوں تو اس سے بڑھ کر بھی قابل افسوس ، لائق حیرت اورتعجب انگیز کون سی بات ہوگی؟!

۰ ۰ ۰

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com