طلاق شدہ خواتین کے مسائل کا حل (۲)

شمع فروزاں: مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
اگر مطلقہ کے پاس خوداپنے نفقہ کا سامان نہ ہو ، اور والد بھی نہ ہوں تو پھر ان کے نفقہ کی ذمہ داری دوسرے محرم رشتہ داروں سے متعلق ہوجاتی ہے :
نفقۃ الإخوۃ والأخوات والأعمام والعمات والأخوال والخالات واجبۃ بشرط العجز مع قیام الحاجۃ ۔ (عمدۃ القاری : ۲۱؍۱۳)
بھائیوں بہنوں ، چچاؤں پھوپھیوں ، ماموؤں اور خالاؤں کا نفقہ واجب ہے ؛ بشرطیکہ وہ ضرورت مند ہوں اور خود کسب معاش سے قاصر ہوں ۔
بہت بڑے حنفی فقیہ علامہ سرخسیؒ نے صراحت کی ہے کہ یہ جو مختلف رشتہ داروں پر نفقہ واجب ہوتاہے ، یہ صرف مستحب یا مستحسن نہیں ہے ؛ بلکہ واجب ہے ؛ اس لئے محرم رشتہ دار بچوں ، عورتوں اور معذور مردوں کا نفقہ ادا کرنے پر مجبور کیا جائے گا :
یجبر علی نفقۃ کل ذی رحم محرم منہ الصغار والنساء وأھل الزمانۃ من الرجال ۔ (المبسوط للسرخسی : ۵؍۲۲۳)
لیکن اللہ سے بے خوفی ، احکام شریعت سے بے اعتنائی ، رشتوں کے معاملہ میں بےمروتی اور خود غرضی کی وجہ سے آج کل والدین اور دادا ، دادی کے علاوہ دوسرے لوگوں سے یہ توقع رکھنا صحراء سے پانی کی اُمید رکھنے کے مترادف ہے کہ وہ احکامِ شریعت کے مطابق مطلقہ خواتین کا نفقہ ادا کریں گے ؛ اس لئے والدین کی موجودگی میں بیٹی اگر خدا نخواستہ طلاق یابیوگی سے دوچار ہوجائے تو اولاً تو اس کے نکاحِ ثانی کی فکر کرنی چاہئے ، قرآن نے ایسے لوگوں کے نکاح کا حکم دیا ہے : وأنْکِحُوا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ (سورۂ نور۳۲) رسول اللہ ﷺ اور صحابہ کے عہد میں جوں ہی کوئی خاتون بیوہ یا مطلقہ ہوتی تھی ، جلد سے جلد ان کا نکاح کردیا جاتا تھا ، عدت گذرنے سے پہلے ہی ان کے رشتے آنے لگتے تھے ؛ اس لئے قرآن مجیدنے عدت وفات گذرنے سے پہلے رشتہ طئے کرنے کومنع فرمایا ، (سورۂ بقرہ:۲۳۲) اس طرح نہ صرف ان کی کفالت ہوتی تھی ؛ بلکہ ان کو ایک مکمل خاندان مل جاتا تھا ، افسوس کہ آج کل والدین ایسی خواتین کے نکاح کی طرف توجہ نہیں دیتے ، بعض اوقات ایک نوجوان لڑکی بیوہ ہوتی ہے اوراسے پوری زندگی بیوگی میں گزارنا پڑتا ہے ، وہ خودحیا سے کہہ نہیں پاتی اور ماں باپ توجہ نہیں دیتے ہیں ، غور کیجئے یہ خواتین کے ساتھ کتنا بڑا ظلم ہے ، اگر کوئی شوہر یا بیوی چند دنوں ایک دوسرے سے دُور رہیں تو یہ چیز ان کو ذہنی طورپر بے سکون کردیتی ہے ، توایک لڑکی کو زندگی بھر تجرد کی سزا دی جائے ، کیا یہ انصاف کی بات ہے ؛ اس لئے ان کے نکاح کی فکرکرنی چاہئے ، اور اگر وہ خود حیا کریں توان کو سمجھانا چاہئے ؛ لیکن اگر کسی وجہ سے ان کا نکاح نہ ہوسکے تو کم سے کم اتنا تو ہو کہ ان کی کفالت کا مناسب انتظام کیا جائے ، اس انتظام کی ایک شکل یہ ہے کہ والدین اپنی جائیداد کا ایک حصہ ایسی بے سہارا بیٹی کو ہبہ کر دیں ، جس سے آئندہ اس کی گذرِ اوقات کا انتظام ہوسکے ۔
رسول اللہ ﷺ نے عام حالات میں اس بات کو ناپسند فرمایا ہے کہ اولاد کے درمیان نابرابری برتی جائے ، اولاد میں سے کسی کو کوئی چیز دی جائے اور دوسرے کو نہیں دی جائے ، حضور ﷺکے سامنے اس طرح کا ایک معاملہ آیا ، حضرت بشیربن سعد ؓنے اپنے صاحبزادہ نعمان ابن بشیرؓ کو کوئی خاص چیز خصوصی طورپر ہبہ کرنی چاہی اور ان کی خواہش تھی کہ اس پر رسول اللہ ﷺ کوگواہ بنایا جائے ؛ چنانچہ وہ خدمت ِاقدس میں حاضر ہوئے ، اور اپنی گزارش پیش کی ، آپ ﷺنے دریافت فرمایا : کیا تم نے اپنے تمام بچوں کو یہ چیز دی ہے ؟ انھوںنے کہا : نہیں ، آپ ﷺنے فرمایا : پھر میں ایسے نامنصفانہ اور ظالمانہ عمل پر گواہ نہیں بن سکتا : لا أشھد علی الجور (نسائی ،کتاب النحل ، حدیث نمبر:۳۷۱۱) چنانچہ وہ اس سے باز آگئے ؛ لیکن یہ حکم عام حالات کے لئے ہے ، اگر خصوصی حالات کی بنیاد پر کسی کو زیادہ دے دیا جائے ، یا اولاد میں سے ایک کو دیا جائے اوردوسرے کو نہ دیا جائے تو وہ اس ممانعت میں شامل نہیں ہے ، مثلاً ایک شخص کے کئی بچے ہیں ، بعضوں نے تعلیم حاصل نہیں کی ، بعض کاروبار میں لگ گئے ؛ لیکن ایک بیٹا تعلیم کی طرف متوجہ ہے اور اس نے میڈیکل انٹرسٹ پاس کرلیا ہے تو اب باپ ایک خطیر رقم اس کی فیس پر ادا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ؛ کیوںکہ یہ ایک خاص مصلحت کی وجہ سے ہے ، اگر ایسا نہ ہو تو ایک بچہ کے جاہل رہنے کی وجہ سے یا اس کی تعلیم کے وقت والد کے تنگ دست ہونے کی وجہ سے تمام ہی بچوں کو اعلیٰ تعلیم سے محروم رکھنا پڑے گا ، ظاہر ہے کہ یہ شریعت کے مزاج کے مطابق نہیں ہے ۔
اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ اگرچہ تمام اولاد کے درمیان مساویانہ سلوک کرنا چاہئے ، اوریہی بہتر ہے ؛ لیکن یہ ہرحال میں واجب نہیں ہے ، اگر اولاد میں سے کسی کی مجبوری یا اس کی کسی خاص ضرورت کی وجہ سے اس کو خصوصی طورپر کچھ زیادہ دیدے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے : و إن کان بعض أولادہ مشتغلا بالعلم دون الکسب لا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ (مجمع الانہر : ۲؍۳۵۸۱) صحابہ کے دور میں بھی ایسی متعدد مثالیں ملتی ہیں کہ انھوں نے اپنی اولاد میں سے بعض کو عطیہ دینے میں ترجیح دی ، حضرت ابوبکرصدیقؓ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کو کھجور کی پیداوار میں سے بیس وسق ( اس زمانہ کا ایک پیمانہ) اپنے تمام بچوں کے مقابلہ زیادہ دیا کرتے تھے ، حضرت عمرؓکو اپنے صاحبزادہ حضرت عاصمؓ سے خصوصی اُنس تھا ؛ چنانچہ انھوں نے ان کو خصوصی طورپر کچھ چیزیں عطا فرمائی تھیں ، (شرح السنہ للبغوی : ۸؍۲۹۷) حضرت عبد الرحمٰن بن عوف کو عقبہ بن ابی معیط کی بیٹی اُم کلثوم سے ایک صاحبزادی تھی ، انھوںنے ان کو اپنی دوسری اولاد کے مقابلہ چار ہزار درہم زیادہ عنایت فرمائے ، (عمدۃ القاری : ۱؍۱۴۷) غرض کہ ماں باپ کے لئے گنجائش ہے کہ اپنی اولاد میں سے کسی کی خصوصی حالت اورضرورت کو دیکھتے ہوئے اس کو جائیداد کا کوئی حصہ اضافی طورپر ہبہ کردے ؛ اس لئے اگر والدین کے اندر استطاعت ہو اور خدا نخواستہ کوئی بیٹی ایسی حالت سے دوچارہو اور اس کے اندر ایسی صلاحیت نہیں ہو کہ وہ خود کسب ِمعاش کرسکے توبہترہے کہ اس کے لئے کچھ سرمایہ محفوظ کردے ، یا اپنی زمین ومکان کا کوئی حصہ ہبہ کردے ، جو اس کے لئے سہارا بن سکے ۔
اگر والد موجود نہ ہوں یا اس موقف میں نہ ہوں کہ اس کی کفالت کرسکیں تو پھر خاندان کے لوگوں کو اجتماعی طورپر اس ذمہ داری کو انجام دینا چاہئے ، جیسے اگر مطلقہ عورت کے چار بھائی ہیں تو چاروں مل کر اس کے خرچ کو اپنے اوپر تقسیم کرلیں ، اگر اس کے کئی چچا یا کئی ماموں ہوں تو ان سب کو مل کر اس ذمہ داری کو ادا کرنا چاہئے ، ورنہ عند اللہ سب کے سب جوابدہ ہوں گے ، اور حق تلفی ایسا گناہ ہے کہ انسان کی عبادتیں بھی اس کی تلافی نہیں کرسکتیں ، کیا بہتر ہو کہ مسلم سماج میں خاندان کا ایک اجتماعی نظام تکافل ہو ، جیسے ایک شخص کے تحت آنے والی دو پشتیں ، بیٹا ، باپ اور دادا مل کر ایسا نظام بنائیں کہ اگر خاندان کی کوئی عورت بیوہ ہوجائے یا طلاق کی نوبت آجائے یا اس کا شوہر معذور و مفلوج ہو اور اس کے لئے کوئی سہارا نہیں ہو ، تو ہم اجتماعی طورپر ایسی خواتین کی کفالت کریں گے ، اگر خاندان کی دو پشتوں کو سامنے رکھا جائے ، جو دادا سے لے کر پوتوں تک ہو تو عام طورپر اس کی تعداد پچیس تیس تک پہنچ جاتی ہے ، اس میں دس پندرہ افراد کمانے والے ہوتے ہیں اور ان کمانے والوں میں بعض پر زکوٰۃ بھی واجب ہوتی ہے اورخاندان کے اس مختصر ڈھانچہ میں بمشکل ایک آدھ ایسی مطلقہ یا بیوہ عورت ہوسکتی ہے ، جن کی اولاد کمانے اور ان کی کفالت کرنے کے لائق نہیں ہوئی ہو ، اتنے سارے افراد مل کر بآسانی ایسی ایک آدھ بیوہ و مطلقہ عورت کی بے سہارگی کو دُور کرسکتے ہیں ، یہ رسول اللہ ﷺکی سنت بھی ہے ، حضور کے چچاؤں میں حضرت ابو طالب غریب تھے، دوسرے چچا حضرت عباس ؓصاحب ثروت تھے اور حضرت خدیجہؓ سے نکاح کے بعد خود آپ ﷺکی مالی حالت بھی بہتر ہوگئی تھی ، آپ ﷺنے اس موقع پر حضرت عباسؓ کو تیار کیا اور حضرت ابوطالب سے پیشکش کی کہ ہم دونوں آپ کے بچوں کی کفالت کی ذمہ داری قبول کرنا چاہتے ہیں ، حضرت ابوطالب حضرت عقیل کو تو اپنے پاس سے ہٹانے پر آمادہ نہیں ہوئے ؛ لیکن حضرت علیؓ کو آپ کی اور حضرت جعفرؓکو حضرت عباسؓ کی کفالت میں دے دیا ، پس اپنے اعزہ کی کفالت کرنا اور ان کا سہارا بننا رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے ۔
افسوس کہ اُمت میں ترجیحات کا شعور ختم ہوگیا ہے ، بعض حضرات بار بار عمرہ کی سعادت حاصل کرتے ہیں ، حج نفل ادا کرتے ہیں ، مسجد کی تزئین و آرائش پر لاکھوں روپیہ خرچ کرتے ہیں ، چھوٹی سی آبادی جہاں سو پچاس مصلی بھی جمع نہیں ہوتے، وہاں لق و دق مسجد تعمیر کرتے ہیں ، پہلے سے اچھی خاصی مسجد موجود ہوتی ہے ؛ لیکن اس کو منہدم کرکے پرشکوہ مسجد بناتے ہیں ؛ حالاںکہ ایسا نہیں ہے کہ اس کی وجہ سے نماز کی قبولیت بڑھ جائے ؛ لیکن صلہ رحمی کا جو فریضہ شریعت کی طرف سے عائد کیا گیا ہے ، اس سے غافل ہیں ، ایک بے سہارا عورت کی سسکیاں ان کے گوشِ دل تک نہیں پہنچ پاتیں ، اور باپ کی شفقت و محبت سے محروم بچوں کے آنسو انھیں تڑپانے سے عاجز ہیں ، ہماری یہ بے شعوری نہ صرف سماج میں ظلم و نا انصافی کو بڑھاوا دیتی ہے ؛ بلکہ اس سے اخلاقی مفاسد پیدا ہوتے ہیں اور لوگوں کو شریعت اسلامی پر زبان کھولنے اور انگلیاں اُٹھانے کا موقع ملتا ہے، کاش ! ہم سماج کے اس فراموش کردہ طبقہ پر بھی محبت کی نگاہ ڈالیں اور ایمانی تقاضوں کو پورا کریں ۔

SHARE
ملت ٹائمز میں خوش آمدید ! اپنے علاقے کی خبریں ، گراؤنڈ رپورٹس اور سیاسی ، سماجی ، تعلیمی اور ادبی موضوعات پر اپنی تحریر آپ براہ راست ہمیں میل کرسکتے ہیں ۔ millattimesurdu@gmail.com